تصاویر تو واقعی نہیں لگانی چاہیے ۔ لیکن خبریں نہ پہنچیں اور حال اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو نہ ملے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہو کیا رہا ہے۔
یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اسی نوے فیصد میڈیا سینسر ہو جاتا ہے کہ انٹرنیٹ پورا کا پورا کنٹرول میں ہی ہے ان لوگوں کے۔ بہت ہی کم ہے وہ جو ہم دیکھ رہے ہیں اُس اصل سے جو کہ وقوع پذیر ہو رہا ہے۔
علی وقار بھائی! اردو محفل اتنی بڑی ہےاتنے سارے مسلم اراکین ہیں لیکن آپ یہ دیکھیے کہ یہاں پر ایک بھی لڑی فلسطین کی حالیہ صورتحال پر نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے؟ کیونکہ سب محفلین جانتے ہیں کہ اس طرح کی لڑیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ ایسے میں بے چارے ایک دو اراکین ہیں جو کیفیت ناموں وغیرہ میں اپنے دل کا حال لکھ رہے ہیں۔ دردِ دل کا اظہار کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ بے چارے کر بھی کیا سکتے ہیں۔
محمداحمد بھائی، یہ پلیٹ فارم چلانے والے ہی طے کریں گے کہ اسے کیسے چلایا جانا ہے۔ تاہم، جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے، ہم تو اس کی حتی الوسع مذمت کرتے رہیں گے۔ اس سے زیادہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بالخصوص، معصوم بچوں کو دیکھ کر تو دل دہل جاتا ہے۔ ایک طرح سے ہم سبھی قصوروار ہیں، اور ایک لحاظ سے بے بس اور بے اختیار بھی ہیں۔
رہنے دیں بھائی اقوامِ متحدہ یا او آئی سی جیسے اداروں کو۔ ایک ایک صدی تو ہمارے دو علاقوں کے لوگوں کچلتے ہوئے ہونے کو آ رہی ہے اور ان کے علاوہ متعدد ۔۔۔۔ کب کوئی مسئلہ حل ہوا ہے یہاں سے۔۔۔
اب مزید خوابِ خرگوش کے مزے لینے کا کوئی ارادہ نہیں۔
عبدالرؤوف بھائی کی بات بھی درست ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ کسی کام کی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو مغرب کی آلہ کار ہے۔ اور مغرب کے نہ جانے کتنے بھییانک ایجنڈہ مشن اس کی ذیلی تنظیمیں دنیا بھر میں چلا رہی ہیں۔
میرے خیال میں، ہر فورم کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ ہر کام غلط نہیں کر رہی۔ منیر اکرم صاحب ایک ایسی قوم کے نمائندہ ہیں جس کے دل مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کے الفاظ سیدھے دل میں اتر گئے۔ جنگ تو ہر محاذ پر لڑی جا سکتی ہے چاہے وہ سفارتی محاذ ہو۔ تحریر و تقریر اور عالمی سطح پر ریاستی موقف کی بھی اپنی اہمیت ہے۔
جنگ یقیناً ہر محاذ پر لڑی جانی چاہیے، لیکن سیاسی محاذ کے سوا کوئی اور محاذ بتائیں جس میں نمایاں لوگوں یا ملکوں کی شمولیت ہو۔
اقوامِ متحدہ یا ڈائیلاگز کی جنگ لوگوں کو اس لیے بھی اچھی لگتی ہے کیونکہ اس میں جانوں کی قربانی نہیں دینی پڑتی۔
دنیا میں پاور گیم چلتی ہے برادر۔ مسلمان جب طاقت ور تھے تو وہ بھی یہی کہتے تھے، مسلم بن جاؤ یا جزیہ دو۔ اب جو پانچ بڑی قوتیں ہیں، وہ ویٹو پاور رکھتی ہیں۔ یہ قوتیں ٹیکنالوجی میں آگے نکل گئیں اور آج کمانڈنگ پوزیشن میں ہیں۔