فرحت عباس شاہ کا ہے اس سے آگے گہما گہمی میں زیادہ نظر آتی ہے اجل زندگی تو پس دیوار پڑی رہتی ہے تیرے بن دن بھی ہے مرجھایا ہوا رہنے لگا تیرے بن رات بھی بیمار پڑی رہتی ہے خواہش وصل کو پڑھنے کا اسے وقت کہاں یہ میری آنکھ میں بے کار پڑی رہتی ہے جاہ، جاگیر و حشم لوگ چھپا جاتے ہیں مفلسی تو سر بازار پڑی رہتی ہے