ہم کیا مناسب جانیں گے، لیکن عموماؐ دیکھا گیا ہے، کہ اصلاح کی ایسی کوشش لوگوں میں اپنے اس نامناسب عمل کے لیے ایک رومانوی سی کشش اور ناصح کے لیے ایک ضد سی پیدا کر دیتی ہیں ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے، کہ انذار سے زیادہ بشارت سے کام لیا جائے ۔ ارے کہیں میں خود تو ناصح بن رہا
بس میرے ذہن میں جو خیال آیا تھا میں نے اسے الفاظ کی شکل دے دی، نرم الفاظ میں تو بہت سے لوگوں نے سگریٹ نوشی کی مذمت کی ہے، اس لیے میں نے کوشش کی کہ تھوڑی سختی کی جائے۔
بھئی مزہ نہیں آ رہا، آگ کا تلازمہ گدھا تو نہیں ہو سکتا، زبان و بیان کی بہت واضح غلطی ہے اس جملے میں، ہاں ایک سرے پر گھاس اور دوسرے پر گدھا ہوتا تو پھر یہ ٹھیک رہتا، اب میرے خیال سے گدھے کی جگہ، "فرشتہ" رکھ دیجیے کہ وہ آگ سے بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔
مہدی صاحب بات تلازمے کی نہیں ہے۔ دوسری بات کہ فرشتے آگ سے نہیں بنے، نور سے بنے ہیں ۔ جیسا کہ اقبال کے اس مصرعے سے اشارہ ملتا ہے کہ "یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے"
جناب میرا خیال ہے آپ تھوڑی سی تحقیق کر لیں تو بہتر ہے۔ انسان خاک سے (خاکی) ، جن آگ سے (ناری) اور فرشتے نور سے (نوری) تخلیق کیے گئے ہیں۔۔۔ اگر فرشتے بھی آگ سے ہی بنے ہوتے تو اقبال کو نوری اور ناری کے جھگڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی؟