الیکٹرونک میڈیا پر تصویرکا شرعی حکم ؛ تقابلی جائزہ

کلیم حیدر

محفلین
حافظ حسن مدنی​
نوٹ
شمارہ ماہنامہ محدث لاہور خاص ایشو پر خاص نمبر نکالتا رہتا ہے۔’’ تصویر پر خاص نمبر‘‘ ماہنامہ محدث لاہور کا شمارہ پی ڈی ایف اور یونیکوڈ میں ڈاؤنلوڈ کرنے کےلیےیہاں کلک کریں

موجودہ دور ترقی، انقلابات، میڈیا اور اطلاعات کا دور ہے۔ اگرچہ ایک صدی قبل انسان نے بجلی، فون، ایندھن، نقل وحمل اور مواصلات کے دوسرے ذرائع دریافت کرلئے تھے، تاہم دریافت وایجادکے اس سفر میں جو کامیابی اور تیزی گذشتہ چند برسوں میں دیکھنے میں آئی ہے، اس کی تیزرفتاری نے واقعتا عقل کو حیران وپریشان کردیا ہے۔ آج سے کم وبیش ۱۵، ۲۰ برس قبل کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کی ایجاد نے تو گویا ہرچیز بدل کے رکھ دی ہے۔ اور ہر آنے والا دن اس میں کئی گنا اضافہ کررہا ہے۔
میڈیا کی اس تیزرفتاری اور ترقی سے بہت سے نئے مسائل نے جنم لیا ہے جن میں ایک اہم مسئلہ ہردَم بڑھتے ٹی وی چینلوں کا بھی ہے۔ پاکستان میں کیبل ٹی وی کے بعد اور مشرف حکومت کی نرم میڈیا پالیسیوں کے سبب پاکستانی قوم اس وقت ٹی وی چینلوں کے ایک طوفانِ بلاخیز سے دوچار ہے۔پاکستان کے تین درجن کے لگ بھگ ملکی ٹی وی چینلوں میں ایک تہائی تعداد درجہ اوّل کے چینلز کی ہے مثلاً ’جیو‘ کے تین چینل، ’اے آر وائی‘ کے دو چینل، نوائے وقت کا ’وقت‘ چینل، ’آج‘ ٹی وی،’ بزنس پلس‘، ’ایکسپریس نیوز‘ اور ’ڈان نیوز‘ وغیرہ۔ باقی درجہ دوم اور سوم کے چینلز بھی اتنی ہی تعداد میں موجود ہیں جن میں مذہبی چینلز بھی شامل ہیں۔ یہ سب چینل محض گذشتہ ۳ سے ۵ برس کے دوران وجود میں آئے ہیں۔ ان چینلوں کو باہمی مقابلہ اور عوام میں مقبولیت کے لئے جہاں رقص وموسیقی کے بے ہنگم پروگرام پیش کرنے ہوتے ہیں جس سے روز بروز موج مستی اور عیش پرستی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے، وہاں عوام کے رہے سہے دینی جذبہ کی تسکین کے لئے اُنہیں براے نام ایسے علماے دین کی ضرورت بھی ہوتی ہے، جو عالم دین کہلانے کی بجائے ’اخلاقی ماہرینEthical Experts اور’سکالرز‘ کہلوانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔پردۂ سکرین کی مخصوص ضروریات اور ماحول کے تقاضوں کو یوں بھی حقیقی عالم دین تو پورا نہیں کرسکتا نتیجتاً ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ کے مصداق ایسے ’دینی ماہرین‘ کی ایک فوج ظفر موج وجود میں آچکی ہے جو کسی دینی درسگاہ سے باقاعدہ تعلیم یافتہ ہونے کی بجائے عوام کے دینی جذبات کا خوبصورت الفاظ میں استحصال کرنے کی صلاحیت سے تو مالا مال ہوتے ہیں تاکہ عوام کی دین سے وابستگی کے فطری جذبہ کی بھی تسکین ہوسکے اور ہردم بدلتی نئی دنیا کے تقاضے بھی پورے ہوتے رہیں۔ ان نام نہاد دینی پروگراموں کے معیار کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عین پروگرام سے قبل مرد وزَن کے اختلاط کے مناظر بھی ٹی وی پرچلتے رہتے ہیں، دورانِ پروگرام فحش ٹی وی اشتہارات بھی اور پس منظر میں دھیمے سروں کی موسیقی بھی، ان چیزوں کے جلو میں عوام کو دینی رہنمائی بھی حاصل ہوتی رہتی ہے۔

ٹی وی چینلوں کی مقبولیت اور عوام میں ان کی اثر پذیری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے کئی ایک ’مذہبی‘ سکالروں کی مقبولیت اسی پردئہ سیمیں کی مرہونِ منت ہے اور محض اسی سبب وہ اسلامیانِ پاکستان کے مذہبی قائد و رہنما کے منصب و اِعزاز پر براجمان ہیں جبکہ ان کے پندارِ علم اوردینداری کا یہ عالم ہے کہ طبقہ علما میں نہ تو ان کی ذات کو کوئی اچھا تعارف حاصل ہے اور نہ ہی اُن کے پایۂ علم کو مستند خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید میڈیا کی کرشمہ سازیوں کے سبب عوامِ پاکستان کی دینی بساط اب مسجد ومدرسہ سے نکل کر اسی ٹی وی سکرین کی مرہونِ منت ہوچکی ہے جس پر حیا باختہ اداکارائیں بھی مختصر لباس میں جلوہ افروز ہوتی ہیں۔

ہر لمحے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے اس ماحول اور زوال پذیر معاشرتی صورتحال کو ہر دردمند مسلمان بری طرح محسوس کرتا ہے۔ اور اسی تناظر میں ہر صاحب ِفکر یہ توقع کرتا دکھائی دیتا ہے کہ منبر ومحراب کے حقیقی وارث علماے کرام بھی اَب روایتی اُسلوبِ دعوت و تربیت سے آگے بڑھتے ہوئے ان ٹی وی چینلوں کے ذریعے ان کے مذہبی رجحانات کی تشفی کریں۔ یہاں یہ بنیادی نکتہ ان کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے کہ جب دین کی مقدس تعلیم کو بھی مقصد وہدف سے قطع نظر ٹی وی چینل کے مالک کے جذبہ حصولِ منفعت کے پیش نظر ابلاغ کی لہروں کے سپرد کیا جائے گا تومنبر نبویؐ کا یہ مقدس مشن کیسے لوگوں کے سپرد ہوگا اورعوام کی دینی تعلیم وتدریس کی کون سی نوعیت اربابِ ابلاغ کے ہاں مطلوب ومعتبر قرار پائے گی…؟

یہ ہے ٹی وی پر تبلیغ دین کے موجودہ داعیہ کا پس منظر جس کی راہ میں اکثر وبیشتر اسلام کی رو سے مسئلہ تصویر حائل ہوتا رہا ہے۔ محتاط اور جید علما ے کرام اس بنا پر ہمیشہ ٹی وی پر آنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ یوں بھی ٹی وی کی سکرین جس طرزِ استدلال اور عاقلانہ معروضیت کی متقاضی ہے، ایمان وایقان کے اُسلوب میں ڈھلے اعتقادات و نظریات اس سے یکسر مختلف روحانی ماحول میں ہی پروان چڑھ سکتے ہیں۔بہرطورا س ضرورت کے سبب اور درپیش حالات میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلی کوسامنے رکھتے ہوئے مسئلہ تصویرپر علماے کرام میں کئی بار یہ موضوع اُٹھایا گیا جس کے نتیجے میں کئی ایک مذاکرے اور مباحثے منعقد ہوتے رہے۔
 

کلیم حیدر

محفلین
مسئلہ تصویر پر جملہ مکاتب ِفکر کا نمائندہ مذاکرہ
ماضی میں جب بھی کسی مذہبی جماعت نے عامتہ المسلمین میں دینی دعوت کو توسیع دینے کا سوچا تو سب سے پہلے اسی مسئلہ تصویرپر ایک معرکہ اُنہیں طے کرنا پڑا، چنانچہ ۸۰ء کے عشرے میں جماعت ِاسلامی میں یہ مسئلہ پیدا ہوا او راُنہوں نے ایک موقف پر اطمینان حاصل کیا۔ حالیہ میڈیا پالیسی کے بعد ٹی وی چینلوں کی بھرمار کے اِنہی دنوں میں جب دین کے نام لیوا بعض حلقوں نے ٹی وی کو اپنی جہد وکاوش کا مرکز بنانا چاہا تو ’تصویرکے مسئلہ‘ پر اُنہوں نے بھی ایک ’باضابطہ‘ موقف اختیار کیا، اب جب مدارس ومساجد سے وابستہ علماے کرام کے معاشرتی کردار کو مزید مؤثر کرنے پرغور وخوض ہوا تو یہی مسئلہ سب سے پہلے اَساسی توجہ کا طالب ٹھہرا۔ اس اعتبارسے مسئلہ تصویر جدید میڈیا کے اس دور میں انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

گذشتہ برس جملہ مکاتب ِفکر کی سرکردہ علمی شخصیات پر مشتمل ’ ملی مجلس شرعی‘ کے نام سے ایک مستقل پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا تھاجس کا ہدف یہ تھا کہ ’’فروعی اختلافات سے بالاتر رہتے ہوئے عوام الناس کو اسلام کی روشنی میں درپیش جدید مسائل کا حل‘‘ پیش کیا جائے۔ اس مجلس شرعی کے تاسیسی اجلاس(منعقدہ جامعہ نعیمیہ، لاہور) میں بھی سب سے پہلے یہی ’مسئلہ تصویر‘ ہی موضوعِ بحث بنا۔ ’ملی مجلس شرعی‘ کا دوسرا اجلاس جامعہ اشرفیہ، لاہور میں ۴؍ نومبر۲۰۰۷ء کو منعقد ہوا تو اس میں اس مسئلہ کے بنیادی خطوط پر سرسری تبادلہ خیال کیا گیا اور وہیں وسیع پیمانے پر علما کا ایک نمائندہ اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ ہوا۔
چنانچہ اِمسال ۱۳؍اپریل کو ’ملی مجلس شرعی‘ کے پلیٹ فارم سے جملہ مکاتب ِفکر کا ایک وسیع سیمینار مفتی محمد خاں قادری صاحب کی درسگاہ جامعہ اسلامیہ، ٹھوگرنیاز بیگ، لاہور میں منعقد ہوا۔ اس سیمینار میں تین مجالس بالترتیب ڈاکٹرمحمد سرفراز نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور)، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی (مہتمم جامعہ لاہور الاسلامیہ) اور مولانا حافظ فضل الرحیم (مہتمم جامعہ اشرفیہ، لاہور) کے زیر صدارت منعقد ہوئیں جس میں۔۔۔۔۔۔۔تفصیل کےلیے یہاں کلک کریں
 

مکی

معطل
چاند کو ہاتھ لگا أئے ہیں اہلِ ہمت
ان کو یہ دھن ہے کہ اب جانبِ مریخ بڑھیں
ایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیں
ہم اسی سوچ میں ہیں عید پڑھیں یا نہ پڑھیں

(انور مسعود)
 
Top