احمد فراز
احمد فراز
=========
ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تُو
کہاں گیا ہے میرے شہر کے مسافر تُو
بہت اُداس ہے اک شخص تیرے جانے سے
جو ہو سکے تو چلا آ اُسی کی خاطر تُو
میری مثال کہ اک نخلِ خشکِ صحرا ہوں
تیرا خیال کہ شاخِ چمن کا طائر تُو
میں جانتا ہوں کہ دنیا تجھے بدل دے گی
میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں بظاہر تُو
ہنسی خوشی سے بچھڑ جا اگر بچھڑنا ہے
یہ ہر مقام پہ کیا سوچتا ہے آخر تُو
فراز ، تُو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحبِ زر اور صرف شاعر تُو !