برائے اصلاح و رہنمائی

محمل ابراہیم

لائبریرین
کہیں خاموش گہرے جنگلوں میں
کوئی آواز ہے جو گونجتی ہے
پہاڑوں سے کبھی ٹکرائے جاتی
فضاؤں کا گریباں چیرتی ہے
عجب تاریک صحراؤں کے دامن میں
شجر مایوس صف بستہ کھڑے ہیں
خوشی کی رہگزر ماتم زدہ ہے۔۔۔۔۔۔
سبھی خاموش لب بستہ کھڑے ہیں
تبھی سنسان وادی میں کوئی پھرتا ہوا آیا
وہ یعنی کوئی جُگنو دور سے اُڑتا ہوا آیا
لگا کچھ روشنی کا بن،جگا امید کا دامن
وہ جلتا بجھتا جاتا تھا،سفر طے کرتا جاتا تھا
مگر کچھ دیر چلنے سے،مسلسل جلتے رہنے اسے
چمک دھندلا گئی اُسکی ،للک کمہلا گئی اُسکی
اکیلا تھا وہ کیا کرتا کہاں جاتا کدھر پھرتا
فضا کے ذرے ذرے میں بسی ظلمت ہی ظلمت تھی
کسے وہ درگذر کرتا وہ کس میں نورِ حق بھرتا
لئے بوجھل سا دل اپنا قدم آگے بڑھاتا تھا
وہ اپنی سوچ میں گم تھا ،
کسی کی کھوج میں گم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی لمبی مسافت،سخت گھڑیاں،کرب اور دقّت
سبھی کچھ طے کیا اس نے۔۔۔۔۔۔۔
بلآخر اپنی دھن میں گم، وہ اک کیڑے سے ٹکرایا
جو اسکو غور سے دیکھا تو اپنے ہوش میں آیا
وہ کیڑا اسکا پرتو تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنون تیزگامی میں وہ تھا ٹکڑا گیا اس سے
تھا پانی يا کہ آئینہ وہ دھوکہ کھا گیا جس سے
لہر نے اس کے قدموں میں جو زنجیرِ نزع ڈالی
قضا کی ضرب تھی پہلی ہوا دل اور ذہن خالی
اُسی ساعت ہوئے افشائے راز اس پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کے عقیدت کے،عبادت اور خدمت کے
نگاہیں وا ہوئیں اُسکی پھر اُسنے دور تک دیکھا
کہ کوہِ طور تک دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجلی کا حسیں پربت،جو واقع
جسم کے اس آخری حصّے پہ تھا اُسکے
جہاں سے ختم اُسکی ذات ہوتی تھی
کہ جس کے بعد ہرسو رات ہوتی تھی
اُدھر زنجیر کے حلقے بھی رفتہ رفتہ بڑھتے تھے
تصور کے تخیّل کے ہر اِک گُل جھڑ کے گرتے تھے
وہ ڈوبا ،حلقۂ غرقاب نوری مثلِ مینا تھا
تھے روشن بلبلے پھوٹے یا بکھرا آبگینہ تھا
اندھیری رات کی تہداریوں میں چاند اترا تھا
فریبی موج کے دامن میں ماہتاب اترا تھا
اندھیرا چھٹ کے روشن زِندگی سے دور بکھرا تھا
یہ کوہِ طور ڈوبا تو ہزاروں طور ابھرا تھا
اندھیروں کو یقیں آیا ،سحر نے ساتھ دہرایا
جو علامہ نے فرمایا۔۔۔۔۔
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں ملکر گُل گلزار ہوتا ہے

سحر
 
کہیں خاموش گہرے جنگلوں میں
کوئی آواز ہے جو گونجتی ہے
پہاڑوں سے کبھی ٹکرائے جاتی
فضاؤں کا گریباں چیرتی ہے
عجب تاریک صحراؤں کے دامن میں
شجر مایوس صف بستہ کھڑے ہیں
خوشی کی رہگزر ماتم زدہ ہے۔۔۔۔۔۔
سبھی خاموش لب بستہ کھڑے ہیں
تبھی سنسان وادی میں کوئی پھرتا ہوا آیا
وہ یعنی کوئی جُگنو دور سے اُڑتا ہوا آیا
لگا کچھ روشنی کا بن،جگا امید کا دامن
وہ جلتا بجھتا جاتا تھا،سفر طے کرتا جاتا تھا
مگر کچھ دیر چلنے سے،مسلسل جلتے رہنے اسے
چمک دھندلا گئی اُسکی ،للک کمہلا گئی اُسکی
اکیلا تھا وہ کیا کرتا کہاں جاتا کدھر پھرتا
فضا کے ذرے ذرے میں بسی ظلمت ہی ظلمت تھی
کسے وہ درگذر کرتا وہ کس میں نورِ حق بھرتا
لئے بوجھل سا دل اپنا قدم آگے بڑھاتا تھا
وہ اپنی سوچ میں گم تھا ،
کسی کی کھوج میں گم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی لمبی مسافت،سخت گھڑیاں،کرب اور دقّت
سبھی کچھ طے کیا اس نے۔۔۔۔۔۔۔
بلآخر اپنی دھن میں گم، وہ اک کیڑے سے ٹکرایا
جو اسکو غور سے دیکھا تو اپنے ہوش میں آیا
وہ کیڑا اسکا پرتو تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنون تیزگامی میں وہ تھا ٹکڑا گیا اس سے
تھا پانی يا کہ آئینہ وہ دھوکہ کھا گیا جس سے
لہر نے اس کے قدموں میں جو زنجیرِ نزع ڈالی
قضا کی ضرب تھی پہلی ہوا دل اور ذہن خالی
اُسی ساعت ہوئے افشائے راز اس پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کے عقیدت کے،عبادت اور خدمت کے
نگاہیں وا ہوئیں اُسکی پھر اُسنے دور تک دیکھا
کہ کوہِ طور تک دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجلی کا حسیں پربت،جو واقع
جسم کے اس آخری حصّے پہ تھا اُسکے
جہاں سے ختم اُسکی ذات ہوتی تھی
کہ جس کے بعد ہرسو رات ہوتی تھی
اُدھر زنجیر کے حلقے بھی رفتہ رفتہ بڑھتے تھے
تصور کے تخیّل کے ہر اِک گُل جھڑ کے گرتے تھے
وہ ڈوبا ،حلقۂ غرقاب نوری مثلِ مینا تھا
تھے روشن بلبلے پھوٹے یا بکھرا آبگینہ تھا
اندھیری رات کی تہداریوں میں چاند اترا تھا
فریبی موج کے دامن میں ماہتاب اترا تھا
اندھیرا چھٹ کے روشن زِندگی سے دور بکھرا تھا
یہ کوہِ طور ڈوبا تو ہزاروں طور ابھرا تھا
اندھیروں کو یقیں آیا ،سحر نے ساتھ دہرایا
جو علامہ نے فرمایا۔۔۔۔۔
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں ملکر گُل گلزار ہوتا ہے

سحر
آپ کی یہ نظم کسی ایک بحر میں نہیں ہے۔ شروع کے آٹھ مصرع
"مفاعیلن مفاعیلن فعولن" بحر میں ہے۔ اگلے کچھ مصرع
"مفاعیلن مفاعیلن،مفاعیلن مفاعیلن"
میں ہیں۔
اس کے بعد آپ نے اسے آزاد نظم بنادیا ہے اور "مفاعیلن مفاعیلن" کی تکرار کررہی ہیں۔

پوری نظم کو کسی ایک بحر میں لائیے۔
 
آپ کی یہ نظم کسی ایک بحر میں نہیں ہے۔ شروع کے آٹھ مصرع
"مفاعیلن مفاعیلن فعولن" بحر میں ہے۔ اگلے کچھ مصرع
"مفاعیلن مفاعیلن،مفاعیلن مفاعیلن"
میں ہیں۔
اس کے بعد آپ نے اسے آزاد نظم بنادیا ہے اور "مفاعیلن مفاعیلن" کی تکرار کررہی ہیں۔
اس ضمن میں کوئی اصول میری نظر سے نہیں گزرا۔ آزاد نظم میں میرے نزدیک سالم اور محذوف بحور کا خلط کچھ ایسا برا بھی نہیں۔ لیکن یہ صرف میری رائے ہے۔
 
چونکہ آپ نے آخر میں علامہ کے شعر کا اقتباس لیا ہے، اس لئے مناسب یہی ہوگا کہ پوری نظم میں مفاعیلن کی گردان ہو.
چونکہ آزاد نظم ہے اس لئے ایک مصرعے میں ارکان کی تحدید لازم نہیں. کوئی مصرعہ دو یا تین ارکان پر مشتمل ہوسکتا ہے تو کوئی محض یک رکنی بھی ہوسکتا ہے.
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سر! مُجھے یہ سمجھ نہیں آیا کیا مطلب مفاعیلن کا ۔
براہ کرم تفصیل درکار ہے تاکہ آپکی بات کا مفہوم مجھ خاکسار پر واضح ہو سکے۔
 
سر! مُجھے یہ سمجھ نہیں آیا کیا مطلب مفاعیلن کا ۔
براہ کرم تفصیل درکار ہے تاکہ آپکی بات کا مفہوم مجھ خاکسار پر واضح ہو سکے۔

اس کو سمجھنے کے لیے اقبال ہی کے اس شعر کو دیکھیے

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں ملکر گُل گلزار ہوتا ہے

اب اسے یوں پڑھیے

مٹادے اپ
مفاعیلن

نی ہستی کو
مفاعیلن

اگر کچھ مر
مفاعیلن

تبہ چاہے
مفاعیلن

کہ دانہ خا
مفاعیلن

ک مے مل کر
مفاعیلن

گل و گلزا
مفاعیلن

ر ہوتا ہے
مفاعیلن

گویا اوپر دیا گیا ہر ایک ٹکڑا مفاعیلن کے وزن پر ہے۔ یوں پورے شعر کا وزن کچھ یوں بنے گا۔

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ سے خاکسار کی گذارش ہے کہ میں نےآپ سے اصلاح حاصل کرنے کے بعد اس نظم کو حت المقدور ایک بحر میں کرنے کی کوشش کی ہے براہ کرم آپ حضرات نظر ثانی کی زحمت گوارہ کریں۔




کہیں خاموش جنگل کے کسی تاریک گوشے میں
صدائے دردمند ہے جو مسلسل گونجا کرتی ہے
کبھی وہ دامن کوہسار سے جاکر لپٹتی ہے
کبھی وہ آسمان بیکراں سے جا چمٹتی ہے
عجب تاریک صحراؤں کے دامان پریشاں میں
شجر مایوس اور بیزار صف بستہ کھڑے ہیں
خوشی کی رہگزر ماتم کدہ کی راہ لگتی ہے
سبھی خاموش اور مغموم لب بستہ کھڑے ہیں
تبھی سنسان وادی میں کوئ پھرتا ہوا آیا
وہ یعنی کوئی جُگنو دور سے اُڑتا ہوا آیا
لگا کچھ روشنی کا بن جگا امید کا دامن
وہ جلتا بجھتا جاتا تھا سفر طے کرتا جاتا تھا
مگر کچھ دیر چلنے سے مسلسل جلتے رہنے سے
چمک دھندلا گئی اُسکی للک کمہلا گئی اُسکی
اکیلا تھا وہ کیا کرتا کہاں جاتا کدھر پھرتا
فضا کے ایک اک ذرے میں ظلمت کا بسیرا تھا
کسے وہ درگذر کرتا وہ کس میں نورِ حق بھرتا
لئے ایک بوجھ سا دل پر قدم آگے بڑھاتا تھا
روِش خمدار تھی اتنی سنبھلتا ڈگمگاتا تھا
کہ مستغرق خیال کوہ سینا لگ رہا تھا وہ
ہاں شیریں کے انگوٹھی کا نگینہ لگ رہا تھا وہ
بڑی لمبی مسافت سخت گھڑیاں کرب اور دقّت
وہ سب کچھ طے کیا اس نے جو تھا پُرپیچ پر رقّت
بلآخر اپنی دھن میں گم وہ اِک کیڑے سے ٹکرایا
جو اسکو غور سے دیکھا تو اپنے ہوش میں آیا
مقابل کوئی دوجا تو نہیں ،ہاں اسکا پرتو تھا
جنون تیزگامی میں وہ تھا ٹکڑا گیا اس سے
تھا پانی یا کہ آئینہ وہ دھوکہ کھا گیا جس سے
لہر نے اُسکے قدموں میں جو زنجیرِ نزع ڈالی
قضا کی ضرب تھی پہلی ہوا دل اور ذہن خالی
اُسی ساعت ہوئے افشائے رازِ پر نہاں اس پر
محبت کے عقیدت کے عبادت اور خدمت کے
نگاہیں وا ہوئیں اُسکی پھر اس نے دور تک دیکھا
کہ جلوہ گاہ تاباں تھی ہاں کوہ طور تک دیکھا
تجلی کا تھا اِک پربت مقیم منتہائے ذات
کہ جس کے بعد چھائی تھی ہر اک سو رات
اِدھر زنجیرِ کے حلقے بھی رفتہ رفتہ بڑھتے تھے
تصور کے تخیّل کے ہر اِک گل جھڑ کے گرتے تھے
وہ ڈوبا حلقۂ غرقاب نوری مثل مینا تھا
تھے روشن بلبلے پھوٹے یہ بکھرا آبگینہ تھا
اندھیری رات کی تہداریوں میں چاند اترا تھا
فریبی موج کے دامن ماہتاب اترا تھا
اندھیرا چھٹ کے روشن زِندگی سے دور بکھرا تھا
یہ کوہِ طور ڈوبا تو ہزاروں طور ابھرا تھا
اندھیروں کو یقیں آیا سحر نے ساتھ دہرایا
جو علامہ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں ملکر گُل گلزار ہوتا ہے
 
مندرجہ ذیل مصرع اب بھی بحر میں نہیں
مفاعلین مفاعیلن، مفاعلین مفاعلین

شجر مایوس اور بیزار صف بستہ کھڑے ہیں

سبھی خاموش اور مغموم لب بستہ کھڑے ہیں

لہر نے اُسکے قدموں میں جو زنجیرِ نزع ڈالی
لہر کا تلفظ غلط باندھا ہے
قضا کی ضرب تھی پہلی ہوا دل اور ذہن خالی
ذہن کا غلط تلفظ باندھا ہے
کہ جس کے بعد چھائی تھی ہر اک سو رات

فریبی موج کے دامن ماہتاب اترا تھا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سر کیا اب یہ ٹھیک ہے؟؟؟

عجب تاریک صحراؤں کے دامان پریشاں میں
شجر مایوس اور بیزار صف بستہ کھڑے ہیں
خوشی کی رہگزر ماتم کدہ کی راہ لگتی ہے
سبھی خاموش گم سم اور لب بستہ کھڑے ہیں



بڑی سرعت سے لہروں نے تبھی اس پر کمند ڈالی
قضا کی ضرب تھی پہلی ہوا پھر ذہن و دل خالی


اندھیری رات کی تہداریوں میں چاند اترا تھا
مچی دریا میں ہلچل تھی گہر نایاب اترا تھا


تجلی کا تھا اِک پربت مقیم منتہائے ذات
نہ تھا کچھ اور روشن ماسوا اس کے تھی ہر سو رات
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
تجلی کا تھا اِک پربت مقیم منتہائے ذات

نہ تھا کچھ اور روشن ماسوا اس کے تھی ہر سو رات


یا

کہ دشتِ بیکراں میں ماسوا اُسکے تھی ہے سے رات

یا

کہ تا حد نظر چھائی تھی صحرا میں اندھیری رات
 
Top