عورت مارچ خواتین کے حقوق یا مردوں کی تضحیک ۔۔۔۔ بقلم زنیرہ گل

زنیرہ عقیل

محفلین
عالمی یوم خواتین کے موقع پر مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین ریلیاں نکالتی ہیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں اس بار بھی ایسا ہوا لیکن پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں ایک طبقہ عالمی یوم خواتین کو مختلف انداز میں منا رہے ہیں جس سے واضح طور پر لگتا یہ ہے کہ خواتین کے حقوق سے زیادہ مردوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے. اور خواتین کے حقوق کی بجائے خواتین کو بے حیائی کی ترغیب دی جا رہی ہے.
عورت آزادی مارچ کے نعرے کو میرا جسم میری مرضی کے نعرے میں تبدیل کردیا گیا ہے. میرے ناقص علم کے مطابق میرا جسم بھی اللہ رب کریم کی امانت ہے اور مجھے یہ جسم دے کر اس جہاں میں بھیجنے کا مقصد بھی اللہ کی مرضی اور آقا ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنا ہے .

عورت آزاد ہے اسلام نے عورت کو حقوق دلا دیے ہیں اور آقا ﷺنے 1400 سال قبل ہی عورت کو آزادی دلا دی تھی اور قوانین بھی مرتب کر دیے تھے بس اس پر عمل کرنے کے لیے معاشرے کی تشکیل کی ضرورت ہے.

عورت مارچ کے عجیب و غریب نعروں کے جو پوسٹرز خواتین نے اٹھائے تھے انہیں پڑھ کر با حیا مرد ہو یا عورت شرم محسوس ہونے لگیں. کسی مغربی خاتون کے ساتھ امیر طبقے نے مشترکہ زیادتی کی تھی اور اس کے نتیجے میں حمل کو گرانے کے حکم کے خلاف اس خاتون نے حمل ضایع نہ کرنے کے لیے احتجاج کیا تھا اور یہ نعرہ لگا تھا کہ میرا جسم میری مرضی . لیکن اس نعرے کو ہمارے گھریلوں خواتین کے ہاتھ میں پوسٹرز تھما کر نعرے لگوائے جا رہے ہیں .

ٹی وی پر کسی مصنف کے گالم گلوچ کے خلاف عوام کا احتجاج درست ہے لیکن اس عورت کے نازیبا نعروں کے حق میں سراپا احتجاج ہونا کس بات کی طرف اشارہ ہے؟ کیا ہم مغربی معاشرے کو اپنے ملک میں رائج کرنا چاہتے ہیں؟ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جواں سال لڑکیاں پھٹی جینز اور ٹی شرٹ پہن کر خواتین کے حقوق حاصل کرینگی اور حقوق بھی عجیب و غریب کہ لو میں ایسے بیٹھ گئی ، میں بچے پیدا نہیں کرونگی، میں کھانا نہیں بناؤنگی اور اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باند ھ لو . کیا اس قسم کے بے ہودہ پلے کارڈ دے کر ایک غیرت مند شخص اپنی بہن بیٹی کو مارچ کا حصہ بننے دیگا؟ یقیناً نہیں . اگر ایک لڑکی اپنی شادی کے دن اپنے لبرل سسرال جانے سے پہلے یہی پلے کارڈ ہاتھ میں اٹھا کر سامنے کھڑی ہو جائے اور کہے کہ کھانا خود بناؤ، بچے پیدا نہیں کرونگی تو یہی سسرال والے اس دلہن کو وہیں چھوڑ کر واپس آجائیں گے.

عورت مارچ پر جو حقوق میرے آقاﷺ نے خواتین کو دیے ہیں جو قرآن اور احادیث کیمیں موجود ہیں ان کے پلے کارڈز بنا کر دینے چاہئے تھے. تاکہ معاشرے میں عورت کے حقوق سے مرد خبر دار رہے.

جیسا کہ قرآن میں ہے

اے ایمان والو ! تمہیں یہ حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو میراث میں لے لو ، اور نہ ان کو اس واسطے روکے رکھو کہ ان سے کچھ اپنا دیا ہوا مال واپس لے سکو مگر اگر وہ کسی صریح بد چلنی کا ارتکاب کریں ، اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو ، اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو ۔ { سورۃ النسا : 19 }

حدیث مبارکہ ہے

''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ :رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''تم میں بہترین شخص وہ ہے جواپنے اہل(بیوی،بچوں،اقرباء اورخدمت گاروں)کے حق میں بہترین ہو،اورمیں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔"

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ ایک آدمی تھا اس کا بیٹا آیا تو اس نے اسے بوسہ دیا اور اپنی ران پر بٹھا لیا ، پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے ان دونوں کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا ؟

عورت مارچ میں مردوں کی تضحیک غیر اسلامی روایات میں شامل ہے

''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اگرمیں کسی کویہ حکم کرتاکہ وہ کسی (غیراللہ)کوسجدہ کرے تومیں یقیناًعورت کوحکم کرتاکہ وہ اپنے خاوندکرسجدہ کرے۔"

صاحب مظاہرحق اس کے ذیل میں لکھتے ہیں:

''مطلب یہ ہے کہ رب معبودکے علاوہ اورکسی کوسجدہ کرنادرست نہیں ہے اگرکسی غیراللہ کوسجدہ کرنادرست ہوتاتومیں عورت کوحکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندکوسجدہ کرے،کیوں کہ بیوی پراس کے خاوندکے بہت زیادہ حقوق ہیں،جن کی ادائیگی شکرسے وہ عاجزہے،گویااس ارشادگرامی میں اس بات کی اہمیت وتاکیدکوبیان کیاگیاہے کہ بیوی پراپنے شوہرکی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہے۔"

اس مسئلہ میں اعتدال کی ضرورت ہے،نہ یہ درست ہے کہ تمام ذمہ داریاں بیوی پرڈال دی جائیں اورنہ کہ بیوی اپنے ضرورت مندشوہریاساس،سسرکی خدمت سے بھی دامن کش ہوجائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہماکے نکاح کے بعد کام کی تقسیم اس طرح فرمائی تھی کہ باہرکاکام اورذمہ داریاں حضرت علی رضی اللہ عنہ انجام دیں گے اورگھریلوکام کاج اورذمہ داریاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے سپردہوں گی۔جب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اس ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں تودوسری خواتین کے لیے کیوں کراس کی گنجائش ہوسکتی ہے؟

ایک مسلمان عورت کو با پردہ اور با حیا ہونا چاہیے
کیوں کہ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو فرشتوں کے ہاتھوں سے اور بعد میں کپڑے پہنائے گئے لیکن حضرت حوا علیہ السلام کی تخلیق اللہ نے فرمائی کپڑوں کے ساتھ اور فرشتوں نے بھی ان کا جسم مبارک نہیں دیکھا لیکن آج ہماری خواتین مختصر لباس کے ساتھ ساتھ جسم کی نمائش کو فیشن سمجھ کر گناہ پر گناہ کرتی جا رہی ہے اور اسلامی اقدار و احکامات کو پس پشت ڈال دیا ہے
آج ہم جتنے زیادہ مسائل سے دو چار ہیں یہ دین سے دوری کا نتیجہ ہے.


زنیرہ گلؔ
 
Top