چیئرمین نیب سے ملاقات

جاسم محمد

محفلین
چیئرمین نیب سے ملاقات
Javed-2.jpg

16 مئی 2019
میری چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال سے پہلی ملاقات 2006ءمیں ہوئی تھی‘ یہ اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر جج تھے‘ میں جسٹس رانا بھگوان داس کے گھر جاتا رہتا تھا‘ یہ بھی وہاں آتے تھے اور یوں ان سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ بن گئے‘ مجھے ان دنوں اطلاع ملی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جسٹس جاوید اقبال کو 67 لاکھ روپے کا چیک بھجوایا لیکن جسٹس صاحب نے یہ لکھ کر یہ چیک واپس بھجوا دیا” ایبٹ آباد سانحے کی وجہ سے پورے ملک کا وقار خاک میں مل گیا‘یہ میرے لئے قابل شرم ہے میں اس سانحے کی انکوائری کا معاوضہ لوں“ ۔

میرے دل میں ان کا احترام بڑھ گیا‘ یہ بعدازاں 8 اکتوبر2017ءکو چیئرمین نیب بن گئے‘ میری ان 19ماہ میں ان سے کئی مرتبہ ملاقات طے ہوئی لیکن کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا تھا اور یوں میٹنگ نہیں ہو پاتی تھی مگر بالآخر منگل 14 مئی 2019ءکو میری ان سے ملاقات ہو گئی۔میں نیب ہیڈ کوارٹر میں ان کے آفس پہنچاتو یہ حسب معمول مطمئن بھی تھے اور ہائی سپرٹ میں بھی ‘ میں نے ان سے پوچھا ”آپ کی پرانی ذمہ داریاں مشکل تھیں یا یہ جاب “ جسٹس جاوید اقبال نے جواب دیا ”یہ زیادہ مشکل ہے کیونکہ اس میں ہر طرف سے دباﺅ آتا ہے لیکن الحمد للہ میں سب کچھ برداشت کر جاتا ہوں‘ میری تین بیٹیاں ہیں‘ یہ اللہ کے کرم سے اپنے گھروں میں آباد ہیں‘ بیگم صاحبہ کے گھٹنوں کا آپریشن ہو چکا ہے‘ یہ سارا دن لیٹ کر ٹی وی دیکھتی ہیں اور مجھے سپریم کورٹ سے اتنی رقم اور پنشن مل جاتی ہے جس سے میرا شاندار گزارہ ہو جاتا ہے‘ میری عمر 73سال ہو چکی ہے‘ میں نے مزید کتنا عرصہ زندہ رہنا ہے چنانچہ کوئی ایشو نہیں“ میں نے ان سے پوچھا ”کیا آپ کو کوئی تھریٹ ہے؟“ فوراً جواب دیا ”بے شمار ہیں‘ہماری ایجنسیوں نے چند ماہ قبل دو لوگوں کی کال ٹریس کی‘ ایک بااثر شخص دوسرے بااثر شخص سے کہہ رہا تھا جسٹس کو پانچ ارب روپے کی پیشکش کر دو‘ دوسرے نے جواب دیا یہ پیسے لینے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ پہلے نے کہا پھر اسے ڈرا دو‘ دوسرے نے جواب دیا‘ ہم نے اسے کئی بار ڈرایا‘ ہم نے اس کی گاڑی کا پیچھا بھی کیا‘ بم مارنے کی دھمکی بھی دی لیکن یہ نہیں ڈر رہا‘ پہلے نے کہا‘ اوکے پھر اسے اڑا دو“ ۔

میں نے پوچھا ”یہ کون لوگ تھے“ جسٹس صاحب نے جواب دیا ”یہ میں آپ کو چند ماہ بعد بتاﺅں گا“ میں نے اصرار کیا تو انہوں نے صرف اتنا بتایا ”یہ لینڈ گریبرز اور سیاستدانوں کا مشترکہ منصوبہ تھا“ میں نے عرض کیا ”آپ کو پھر احتیاط کرنی چاہیے“ جسٹس صاحب نے جواب دیا ”میں نے احتیاط شروع کر دی لیکن احتیاط بے احتیاطی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی‘ حکومت نے مجھے منسٹر کالونی میں گھر دے دیا لیکن یہ گھربحریہ ٹاﺅن میں میری ذاتی رہائش گاہ سے زیادہ خطرناک بن گیا۔

میں نے ابھی وہاں صرف دو کمرے ٹھیک کئے تھے اور اپنی چند فائلیں وہاں رکھی تھیں‘ میں لاہور گیا ہوا تھا‘ میری غیر موجودگی میں کسی نے گھر کی پچھلی کھڑکی کا جنگلہ اتارا‘ اندر داخل ہوا‘ تلاشی لی اور فائلیں چوری کر کے غائب ہو گیا“ وہ رکے‘ میں نے پوچھا ”اور یہ واقعہ منسٹر کالونی میں پیش آیا“ وہ ہنس کر بولے ”ہاں منسٹر کالونی کے بنگلہ نمبر 29 میں اور یہ پاکستان کی محفوظ ترین جگہ ہے اور پولیس فنگر پرنٹس کے باوجود مجرم تک نہیں پہنچ سکی“ ۔

یہ میرے لئے وارننگ تھی چنانچہ میں اب اس گھر میں نہیں رہ رہا‘ میں سیکورٹی کی وجہ سے کبھی اپنی بہن کے گھر رہتا ہوں‘ کبھی بیٹی کے گھر چلا جاتا ہوں اور کبھی اپنے کسی عزیز کی رہائش گاہ پر‘ میں نے کون سی رات کس گھر میں گزارنی ہے میں کسی کو نہیں بتاتا‘ میں احتیاطاً اپنا سٹاف بھی ساتھ لے جاتا ہوں تاکہ ہم لوگ زیادہ ہوں اور اکٹھے ہوں“ میں نے ان سے پوچھا ”آپ کو کس سے خطرہ ہے“ وہ بولے ”میں نہیں جانتا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے میں اب سب کا ٹارگٹ ہوں۔

یہ تمام لوگ مجھے برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں“ میں نے پوچھا ”کیا موجودہ حکومت بھی آپ کے ساتھ خوش نہیں“ یہ ہنس کر بولے ”یہ بھی مجھ سے خوش نہیں ہیں‘ یہ بھی چاہتے ہیں عمران خان کا ہیلی کاپٹر کیس بند ہو جائے‘ بابراعوان کا ریفرنس‘ علیم خان اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف تفتیش اور سب سے بڑھ کر پرویز خٹک کے خلاف مالم جبہ کی غیرقانونی لیز کی انکوائری رک جائے‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت مجھے ویسے ہی اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہے‘ لینڈ گریبرز بھی میرے خلاف ہیں اور ریاستی ادارے بھی خوش نہیں ہیں‘ یہ سب مل کر اب دباﺅ بڑھانے کا کوئی آپشن نہیں چھوڑ رہے“۔

میں نے پوچھا ”مالم جبہ کا ریفرنس کب دائر ہو گا اور کیا پرویز خٹک بھی گرفتار ہوں گے“ جسٹس جاوید اقبال نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا ”یہ اب چند دن کی بات ہے‘ ریفرنس مکمل ہو چکا ہے‘ آپ بہت جلد پرویز خٹک کو بھی لاک اپ میں دیکھیں گے بس مجھے صرف ایک خطرہ ہے“ وہ رکے اور ہنس کر بولے ”میں صرف پرویز خٹک کی صحت سے ڈرتا ہوں‘ یہ اگر گرفتار ہو گئے اور انہیں اگر کچھ ہو گیا تو نیب مزید بدنام ہو جائے گا لیکن اس کے باوجود یہ ہو کر رہے گا‘ مالم جبہ کا ریفرنس تگڑا ہے‘ پرویز خٹک کو بھی اپنی کرپشن کا حساب دینا ہوگا“۔

میں نے ان سے پوچھا ”نیب نے صرف پنجاب کو فوکس کیوں کر رکھا ہے“ وہ بولے ”پنجاب بڑا صوبہ ہے‘ میاں برادران کسی نہ کسی شکل میں 30 سال پنجاب میں حکمران بھی رہے لہٰذا زیادہ تر میگا کیسز پنجاب میں ہوئے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہم نے دوسرے صوبوں کو چھوڑ دیا‘ بلوچستان کے تین سابق چیف منسٹرز (ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ‘نواب اسلم رئیسانی اورنواب ثناءاللہ زہری) انکوائریاں اور ریفرنس بھگت رہے ہیں‘ نواب اسلم رئیسانی کو نیب نے بلایا تو انہوں نے کہا آپ جانتے نہیں ہیں میں اپنے قبیلے کا سردار ہوں۔

میں نے اپنے افسر کے ذریعے پیغام پہنچایا وفاقی حکومت نے آپ کو 99 کروڑ روپے دیئے تھے‘ آپ نے یہ رقم چند لوگوں میں تقسیم کر دی‘ آپ کا پہلا چیک آپ کے بھائی کے اکاﺅنٹ میں گیا تھا‘ آپ گرفتاری سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ یہ رقم واپس کر دیں ‘ نواب اسلم رئیسانی نے ہم سے تین ماہ کی مہلت مانگ لی‘ ہم نے دے دی‘ یہ اگر تین ماہ میں رقم واپس نہیں کرتے تو یہ بھی گرفتار ہوں گے‘ ہم نے سندھ میں بھی کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑا‘ سندھ میں حکومت اور بیورو کریسی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی تھی۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا اور آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے مقدمے راولپنڈی اور اسلام آباد شفٹ ہو گئے‘ یہ ضمانت پر ہیں‘ جس دن ضمانت منسوخ ہو گی یہ دونوں بھی گرفتار ہو جائیں گے‘ ریفرنس بہت پکے اور ٹھوس ہیں بس چند دن کی بات ہے“ وہ رکے اور بولے ”آصف علی زرداری جس دن انکوائری کےلئے پیش ہوئے تھے ان کی ٹانگیں اور ہاتھ لرز رہے تھے‘ انہوں نے گرین ٹی کا کپ مانگا‘ ہمارے افسر نے پیش کر دیا‘ آصف علی زرداری نے کپ اٹھایا لیکن کپ ان کے ہاتھ میں لرز رہا تھا۔

وہ اپنا دوسرا ہاتھ کپ کے نیچے رکھنے پر مجبور ہو گئے‘ وہ بڑی مشکل سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ گرین ٹی کا کپ ختم کر پائے‘ شاید فریال تالپور کو خاتون ہونے کی وجہ سے رعایت مل جائے لیکن آصف علی زرداری نہیں بچ سکیں گے“ وہ رکے اور بولے ”میاں برادران کا ایشو بھی سیدھا اور سادا ہے‘ ہم نے میاں شہباز شریف کے داماد علی عمران کو بلا کر پوچھا صاف پانی کمپنی نے آپ کو 48 کروڑ روپے کی پے منٹ کیوں کی اور یہ آپ کے اکاﺅنٹ میں جمع کیوں ہوئی؟

ہم نے کاغذات بھی اس کے سامنے رکھ دیئے‘ وہ بولا میں نے صاف پانی کمپنی کو اپنا پلازہ کرائے پر دیا تھا‘ یہ کرائے کی رقم تھی‘ ہم نے ان کو گھر جانے دیا‘ میں رات کو ٹیکسی لے کر علی عمران کے پلازے پر چلا گیا‘ وہ پلازہ ابھی زیر تعمیر تھا‘ پانچ منزلوں کی چھتوں کے کنکریٹ کو پانی دیا جا رہا تھا‘ ہم نے اگلے دن علی عمران کو دوبارہ بلا لیا‘ ہم نے اس سے پوچھا‘ آپ کا پلازہ ابھی زیر تعمیر ہے‘ یہ تین سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکے گا لیکن آپ نے اس کا کرایہ وصول کر لیا‘ کیوں اور کیسے؟ علی عمران کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

وہ گھر گیا اور اگلے دن دوبئی بھاگ گیا‘ ہم نے سلمان شہباز کو بلا کر پوچھا‘ آپ کو اربوں روپے باہر سے کیوں آتے رہے‘ وہ بولے مجھے چند دن دے دیں میں اپنی فیملی اور سٹاف سے پوچھ کر جواب جمع کرا دوں گا‘ ہم نے وقت دے دیا اور وہ بھی لندن بھاگ گئے‘ ہمارے پاس حمزہ شہبازشریف کے خلاف بھی تمام ثبوت موجود ہیں‘ حمزہ شہبازکا سوال نامہ میں نے خود اپنے ہاتھ سے ڈرافٹ کیا تھا‘ میں سیشن جج سے سپریم کورٹ کا سینئر جج رہا ہوں‘ میں نے عدالتی بیک گراﺅنڈ کو سامنے رکھ کر سوال نامہ تیار کیا۔

یہ عدالتی آڑ کے پیچھے چھپ رہے تھے لیکن بینچ تبدیل ہو چکا ہے بس ان کی ضمانت منسوخ ہونے کی دیر ہے اور یہ بھی اندر ہوں گے‘ یہ بھی اگر ملک سے بھاگ نہ گئے تو!“ میں نے ان سے پوچھا ”آپ کے بارے میں تاثر ہے آپ کی کلہاڑی صرف سویلین پر گرتی ہے“ وہ تڑپ کر بولے ”میں نے اپریل 2018ءمیں جنرل جاوید اشرف کے خلاف رائل پام گلف کلب کا ریفرنس بنایا‘ کیا یہ سویلین ہیں‘ یہ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی ہیں‘ میرے ساتھیوں نے مجھے روکا لیکن میں نے ان سے کہا ‘ہم اگر انہیں چھوڑ دیتے ہیں تو پھربیوروکریٹس اور سیاستدانوں کا کیا قصور ہے!۔

ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں بھی ریٹائرڈ فوجی افسروں کے نام آئے‘ ہم نے ان کے خلاف بھی انکوائری شروع کرا دی‘ یہ بھی حوالات میں جائیں گے‘ ڈی ایچ اے سٹی میں میرے اپنے 43 لاکھ روپے پھنس گئے تھے‘ یہ لوگ چیک لے کر میرے پاس آ گئے‘ میں نے ان سے کہا‘ آپ یہ چیک مجھے نہیں چیئرمین نیب کو دے رہے ہیں‘ میں نے چیک واپس کر دیا اور ان سے کہا‘ آپ پہلے دوسرے 1385 لوگوں کو پیسے واپس کریں‘ مجھے آخر میں چیک دیجئے گا‘کیا یہ بھی سویلین ہیں؟ آپ اگلی بار آئیں گے تو میں نان سویلین ریفرنسز کی فہرست آپ کے سامنے رکھ دوں گا‘ملک میں سب کا احتساب ہو رہا ہے‘ ہم نے کسی پارٹی اور کسی محکمے کو رعایت نہیں دی“ میں نے ان سے پوچھا ”کیا آپ کو خریدنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی“ وہ ہنس کر بولے ”مجھے صدر پاکستان بنانے کی پیشکش تک ہوئی تھی“

میرے لئے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا یہ انکشاف حیران کن تھا‘ وہ فرما رہے تھے ”مجھے میرے ایک عزیز کے ذریعے پیشکش کی گئی آپ نیب سے استعفیٰ دے دیں‘ آپ کوسینیٹر بنا دیا جائے گا اور آپ پھر کچھ عرصے بعد صدر پاکستان بن جائیں گے“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ”آپ کو یہ آفر کس نے دی اور کب دی“ وہ مسکرا کر بولے ”یہ میں آپ کو چند دن بعد بتاﺅں گا“ میں نے اصرار کیا تو ان کا جواب تھا ”یہ پچھلی حکومت کے آخری فیز میں ہوئی تھی“۔

میں نے پوچھا ”کیا یہ واحد پیشکش تھی“ بولے ”نہیں‘ مجھے اس سے پہلے بھی ایک پیشکش ہوئی تھی‘ مجھے کہا گیا تھا آپ مستعفی ہو جائیں‘ آپ دنیا میں جہاں کہیں گے آپ کو وہاں سیٹ کر دیا جائے گا“ میں نے پوچھا ”لیکن آپ کے استعفے سے کسی کو کیا فائدہ ہوتا؟“ وہ بولے ”میں اگر مستعفی ہو جاتا تو چیئرمین نیب کی کرسی خالی ہو جاتی‘الیکشن سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان شدید اختلافات تھے‘ دونوں میں نئے چیئرمین کےلئے اتفاق رائے نہ ہوپاتا اور یوں آج کے بے شمارمجرموں کے خلاف انکوائریاں رک جاتیں“۔
میں نے پوچھا ”آپ کا کیا جواب تھا“ وہ ہنس کر بولے ”جواب واضح تھا‘ میاں نواز شریف اس وقت جیل میں ہیں اور میں آج بھی چیئرمین کی کرسی پر بیٹھا ہوں“ میں نے عرض کیا ”وفاقی وزراءبار بار این آر او کی بات کر رہے ہیں‘ کیا میاں برادران کی طرف سے این آر او یا رعایت کی درخواست کی گئی“ وہ رکے‘ چند سیکنڈ سوچا اور پھر جواب دیا ”میاں شہباز شریف کی طرف سے ایک پیشکش آئی تھی‘ یہ سیاست سے ریٹائر ہونے اور رقم واپس کرنے کےلئے تیار تھے لیکن ان کی تین شرطیں تھیں“۔

یہ رکے اوربولے ”یہ رقم خود واپس نہیں کرنا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا کوئی دوسرا ملک پاکستان کے خزانے میں رقم جمع کرا دے گا‘ دوسرا انہیں کلین چٹ دے دی جائے اور تیسرا حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا جائے“ وہ رکے اور بولے ”میاں شہباز شریف نے اس سلسلے میں نیلسن منڈیلا اور ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن کی مثال دی تھی لیکن میرا جواب تھا جنوبی افریقہ کے ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن کی چار شرطیں تھیں‘ مجرم اپنا جرم مانیں‘ ریاست سے معافی مانگیں‘ پیسہ واپس کریں اور آئندہ غلطی نہ دہرانے کا وعدہ کریں لیکن میاں صاحب کہہ رہے ہیں یہ اپنا جرم نہیں مانیں گے اور معافی بھی نہیں مانگیں گے۔

یہ صرف پیسہ واپس کریں گے اور وہ بھی خود نہیں دیں گے کوئی دوسراشخص یا کوئی دوسرا ملک جمع کرائے گا تو پھر پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا چنانچہ یہ پیشکش قابل قبول نہیں تھی“ وہ رکے اور بولے ”میاں نواز شریف اور ان کا خاندان بھی اس قسم کے ارینجمنٹ کےلئے تیار تھا“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ”سر میاں برادران نے یہ پیشکش کس کے ذریعے کی‘ کس کو کی اور کب کی“ وہ فوراً بولے ”یہ میں آپ کو چند دن میں بتاﺅں گا“ میں نے ہنس کر عرض کیا ”آپ ہر سوال کے جواب میں چند دن کہتے ہیں‘ آپ چند دن میں کہیں مستعفی تو نہیں ہو رہے؟“ وہ ہنس کر بولے ”میں خود نہیں بھاگوں گا‘ میں اپنی مدت پوری کروں گا باقی جو اللہ کرے“۔

میں نے سوال تبدیل کرتے ہوئے پوچھا ”کیا آپ پر دباﺅ ہے“ وہ فوراً بولے ”ہاں ہے‘ اپوزیشن اور حکومت دونوں ناراض ہیں‘ آپ کواگلے چند دنوں میں نیب کے خلاف ن لیگ‘ پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف تینوں ایک پیج پر دکھائی دیں گی“ میں نے پوچھا ”کیا آپ سب کا دباﺅ برداشت کر لیں گے“ وہ بولے ”میرے پاس کھونے کےلئے کچھ نہیں‘ میں ملک کےلئے اپنا کردار ادا کر رہا ہوں اور میں آخری سانس تک کرتا رہوں گا“ میں نے پوچھا ”کیا آپ کو احساس ہے نیب کی وجہ سے بیورو کریسی اور بزنس کمیونٹی دونوں نے کام چھوڑ دیا ہے‘ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے“۔

وہ فوراً بولے ”یہ نیب کے خلاف پروپیگنڈا ہے‘ میں نے وفاقی بیورو کریسی اور پنجاب بیورو کریسی دونوں کو یقین دلایا تھا آپ کے خلاف کوئی نوٹس جاری نہیں ہو گا‘ آپ کام کریں‘ میں نے تاجر اور صنعت کار برادری کو بھی پیشکش کی آپ کو اگر نیب کے خلاف کوئی شکایت ہو تو آپ فوراً میرے ساتھ رابطہ کریں‘ جاوید صاحب یقین کریں میری پیشکش کو آج چار ماہ اور 17 دن ہو چکے ہیں لیکن مجھے بیورو کریسی اور تاجر برادری دونوں کی طرف سے ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔

میں نے پورے نیب کو حکم جاری کر رکھا ہے یہ 17گریڈ سے اوپر کسی سرکاری افسر کو میری اجازت کے بغیر طلب نہیں کریں گے‘ بزنس مین کمیونٹی کو بھی میری اجازت کے بغیر طلب کرنے سے روک دیا گیا ہے چنانچہ یہ ہمارے خلاف سراسر پروپیگنڈا ہے“ میں نے پوچھا ”کیا آپ پولیٹیکل انجینئرنگ کےلئے استعمال نہیں ہو رہے‘ آپ حکومت کے مخالفین کو پکڑ لیتے ہیں اور حکومت کا ساتھ دینے والوں کو چھوڑ دیتے ہیں“ وہ ہنس کر بولے ”میں پورے ملک کو چیلنج کر رہا ہوں میں نے اگر کسی ایم پی اے یا ایم این اے سے کہا ہو آپ فلاں کو چھوڑ کر فلاں کو جوائن کر لیں یا میں نے کسی عوامی نمائندے سے چائے کا ایک کپ بھی پیا ہو تو میں خود استعفیٰ دے کر گھر چلا جاﺅں گا‘ آپ وہ شخص لے آئیں‘ میں عہدہ چھوڑ دوں گا“۔

وہ رکے اور ذرا سا سوچ کر بولے ”تاہم یہ درست ہے ہم اگر آج حکومت کے اتحادیوں کو گرفتار کر لیں تو یہ حکومت دس منٹ میں گر جائے گی لیکن خدا گواہ ہے ہم یہ حکومت کےلئے نہیں کر رہے‘ہم یہ ملک کےلئے کر رہے ہیں‘ ہمارے ایک قدم سے ملک میں خوفناک بحران پیدا ہو جائے گا‘ ملک کو نقصان ہو گا اور ہم یہ نہیں چاہتے“ میں نے پوچھا ”کیا حکومت اپنے اتحادیوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے“ وہ ہاں میں سر ہلا کر بولے ”یہ ان کی خواہش ہے لیکن میں حکومت کے دباﺅ میں نہیں ہوں‘ میں صرف ملک کے مفاد میں خاموش ہوں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں انکوائری یا ریفرنس تیار نہیں ہو رہے۔ نیب کی تیاری مکمل ہے‘جلد یا بدیر حکومت کے اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی“۔

میں نے عرض کیا ”آپ ریفرنس بنا دیتے ہیں لیکن یہ ریفرنس منطقی نتیجے تک نہیں پہنچتے‘ کیا یہ آپ لوگوں کی نااہلی نہیں“ وہ ہنس کر بولے ”مجھے آپ لوگوں کے ایسے تجزیوں پر اعتراض ہے‘ ہمارے پاس شکایت آتی ہے‘ ہم شکایت کی پڑتال کرتے ہیں‘ شکایت ٹھیک ہو تو انکوائری ہوتی ہے‘ ثبوت جمع کئے جاتے ہیں‘ تفتیش ہوتی ہے اور پھر ریفرنس بنا کر مقدمہ عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے‘ کیس وہاں جا کر رک جاتے ہیں‘ نیب نے اس وقت ساڑھے تین ہزار ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔

ہمارے پاس عدالتیں صرف 25 ہیں‘جج تیس دن میں فیصلے کا پابند ہے لیکن دس دس سال سے مقدمے لٹک رہے ہیں‘ ہمارے وکیل 75 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں ‘ مخالفین دس دس کروڑ روپے کے وکیل کھڑے کر دیتے ہیں‘ ہمارے ایک کیس میں ملزم نے علی ظفر کو 25 کروڑ روپے فیس دی تھی جبکہ ہمارے وکیل عمران کی ماہانہ تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے تھی‘ آپ فرق دیکھ لیجئے‘ دوسرا کرپٹ لوگ گینگ کی شکل میں کام کرتے ہیں‘ یہ بااثر اور رئیس لوگ ہوتے ہیں۔

یہ ایک دوسرے کو سپورٹ بھی کرتے ہیں‘ یہ عدالتوں سے بھی ریلیف لے لیتے ہیں‘ یہ حکومتوں میں بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ پورے سسٹم کو بھی ہائی جیک کر لیتے ہیں اور یوںاحتساب بے بس ہو جاتا ہے لیکن ہم نے اس کے باوجودساڑھے تین ہزارریفرنس بھی دائر کئے اور303ارب روپے کی ریکوری بھی کی‘ یہ چھوٹا کارنامہ نہیں‘ یہ نیب ہے جس کے خوف سے ملک ریاض نے سپریم کورٹ میں 460 ارب روپے ادا کرنے کا اعلان کیا‘ ہم نہ ہوتے تو یہ کبھی اتنی بڑی رقم کا وعدہ نہ کرتے۔

یہ ہم ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں غریب لوگوں کو ان کی ڈوبی ہوئی رقم واپس ملی‘ آپ ہاﺅسنگ سکیموں کے سکینڈل اٹھا کر دیکھ لیں‘ ہزاروں غریب لوگوں کو ان کی پوری زندگی کی جمع پونجی واپس ملی لیکن میڈیا کو یہ نظر نہیں آتا‘ آپ لوگ ہمیں نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف علی زرداری اور بابر اعوان کے ریفرنس سے دیکھتے ہیں‘ ملک میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے‘ یہ ملک کرپشن کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے‘ یہ ہماری ماضی کی غلطیاں اور بدعنوانیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم آج در در بھیک مانگ رہے ہیں‘ ہم اگر اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں ہم ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو جائیں گے“۔

میں نے سوال کیا ”ملک ریاض کا کیا قصور ہے“ وہ بولے‘ میں اس شخص کا فین ہوں‘ میں خود بحریہ ٹاﺅن میں رہتا ہوں‘ میرا بھانجا آسٹریلیا سے آیا‘ اس نے بحریہ ٹاﺅن دیکھا اور بے اختیار کہا‘ یہ مجھے کینبرا جیسا لگتا ہے‘ میں بھیس بدل کر اس کے دستر خوان تک میں گیا‘ میں نے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا‘ آپ یقین کریں وہ کھانا میری بیوی کے ہاتھوں سے پکے ہوئے کھانے سے بہتر تھا‘ میں سمجھتا ہوں ملک ریاض کو مزید کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا لیکن میں اس کے باوجود یہ بھی کہتا ہوں ملک ریاض نے بھی اگر گڑ بڑ کی ہے تو یہ بھی سزا بھگتیں گے۔

سپریم کورٹ جس دن ان کا کیس ہمارے حوالے کرے گی ہم اس دن انہیں بھی کوئی رعایت نہیں دیں گے‘ میں نے پوچھا ”اور احد چیمہ اور فواد حسن فواد کا کیا قصور تھا“ وہ ہنس کر بولے ”ایک کو تکبر لے بیٹھا اور دوسرے نے سفارشیں شروع کرا دی تھیں“ اورمیں نے آخری سوال کیا ”آپ باہر سے رقم واپس کیوں نہیں لا رہے“ وہ ہنس کر بولے ”باہر کی طاقتیں ہمارے کرپٹ لوگوں کی مدد کر رہی ہیں‘ یہ لوگ ان کو سپورٹ کر رہے ہیں“۔ملاقات ختم ہوگئی۔

وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئے‘ گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور میں باہر آ گیا‘ مجھے محسوس ہوا یہ کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں‘ یہ دل سے غیرجانبدارانہ احتساب چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں کرپشن اور ملک دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے اور یہ کسی پارٹی‘ کسی شخص اور کسی محکمے کو سپورٹ کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں لیکن سوال یہ تھا یہ غیرجانبدار رہ کر کتنا عرصہ سروائیو کر سکیں گے؟ مجھے محسوس ہوا یہ بھی بہت جلداسد عمر بنا دیئے جائیں گے‘ یہ بھی زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چیرمین نیب کی پریس کانفرنس اور میرے سوال کا بھنبھناتا مچھر
22/05/2019 اعزاز سید


یوں تو انیس مئی اتوار چھٹی کا دن تھا۔ مگر اس روز چئیرمین نیب جسٹس رئٹائرڈ جاوید اقبال کی پریس کانفرنس کا شیڈول غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ عام طور پر چھٹی کے دن سرکاری ادارے پریس کانفرنس کرنے کا خطرہ اس لیے مول نہیں لیتے کہ صحافی کم ہی آئیں گے۔ مگر ملکی سیاسی صورتحال کے پیش نظر نیب کی پریس کانفرنس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا شاید نیب کو بھی اپنی اہمیت کا مکمل احساس تھا۔

پریس کانفرنس کا وقت دن 12 بجے مقرر تھا۔ مگر صحافی ساڑھے گیارہ بجے ہی نیب اسلام آباد کے پرانے ہیڈکوارٹر کی عمارت میں پہنچنا شروع ہو گئے۔ اکثرصحافتی چھٹی کے دن اس پریس کانفرنس کے بارے میں کھسر پھسر کررہے تھے۔ جاوید اقبال جب سے اس عہدے پر براجمان ہوئے ہیں میری یادداشت کے مطابق انہوں نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔ سابق چیرمین نیب قمرزمان چوہدری کبھی کبھی ضرور میڈیا سے بات کرتے تھے۔ جاوید اقبال شاید ایسا کربھی نہیں سکتے کیونکہ پریس کانفرنس میں سوال ہوتے ہیں اور بعض سوال ایسے ہیں جن کا جواب شاید ان کے پاس شرمندگی کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو۔ مفت میں سب کچھ لیا جا سکتا ہے، شرمندگی نہیں۔

میں دی نیوز کے سینئرصحافی عاصم یسین کے ہمراہ بیٹھا تھا۔ میرا خیال یہی تھا کہ چیرمین نیب جاوید چوہدری کے کالم میں چھپنے والی اپنی گفتگو پر رائے کا اظہار کریں گے اور نکلتے بنیں گے۔ ہمیں سوال کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جائے گا۔ ابھی ہم انتظار ہی کر رہے تھے کہ نیب کے ترجمان نوازش علی عاصم سب سے ہاتھ ملاتے اور چھوٹی موٹی گپ لگاتے میری طرف بڑھتے نظر آئے۔ نوازش صحافیوں کو چیرمین کی بات غور سے سننے کی تاکید کررہے تھے۔ جونہی وہ میرے قریب آئے تو ایک دو صحافی بھی آن کھڑے ہوئے۔ نوازش اپنے چیرمین کی تعریف کرنے لگے۔ مجھے بازو پکڑ کر بولے دیکھو تم سوال کرنے کی بجائے چیرمین کی گفتگو غور سے سننا، وہ اہم باتیں کریں گے۔ میں پوچھ رہا تھا کہ جاوید چوہدری کی ملاقات میں کیا وہ بھی شریک تھے یا نہیں مگر نوازش کہاں صحافی کی مرضی کا جواب دیتے ہیں ؟ وہ واضح طور پر اشارہ کر رہے تھے کہ میں پریس کانفرنس میں ہاتھ ہولا رکھتے ہوئے سوال ہی نہ کروں۔

نوازش علی عاصم سے میرا عجیب تعلق ہے۔ اس سے لڑائی بھی ہوتی ہے اور دوستی بھی رہتی ہے۔ اس کی اپنے افسران سے وفاداری پر پیار بھی آتا ہے اور غصہ بھی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی ادارے کی نوکری نہیں کر رہا بلکہ اپنے باس کے ساتھ ذاتی وفاداری نبھا رہا ہے۔ میڈیا مینجر اور صحافی پیشہ وارانہ اعتبار سے مخالف سمتوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ میڈیا مینجر منفی خبریں اور سوالات روکتے ہیں جبکہ صحافیوں کا دھندہ ہی تنازعات سے بھرپور خبروں، اسکینڈلز اور سوالات سے چلتا ہے۔

چیرمین نیب چالیس منٹ تاخیر سے بارہ بجکر چوالیس منٹ پر کمرے میں داخل ہوئے۔ ایک باریش شخص نے تلاوت کی اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنی تقریر کرنا شروع کردی۔ وہ مسلسل بول رہے تھے۔ نیب کی کارکردگی اور اپنی غیر جانبداری کے یک طرفہ دعوے بڑے احسن انداز میں جاری تھے۔ جب کوئی شخص اپنے ہی منہ سے اپنی تعریفیں کرتا ہے تو بڑا عجیب لگتاہے۔ ویسے یہ وہ غلطی ہے جو مجھ سمیت ہم سب کبھی نہ کبھی ضرورکرتے ہیں لیکن بڑے عہدوں پر براجمان اشخاص ایسا کریں تویہ اس لیے بھی زیادہ برا لگتا ہے کہ ان کی کارکردگی ہم کسی نہ کسی طریقے سے دیکھ ہی رہے ہوتے ہیں۔ وہ کارکردگی عام طور پر ان کے دعووں کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ خود ستائی ایسی شخصیات کا کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتی۔

چئیرمین نیب جسٹس رئٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنی تقریر میں حکومت کو بھی نصیحتیں کیں اور نیب کی صفائیاں بھی پیش کیں۔ مجھے علم تھا کہ وہ صحافیوں کے سوالوں کا جواب ہرگز نہیں دیں گے۔ وہ چاہیں گے کہ اخبارات اور ٹی وی ان کے خطاب کو پریس کانفرنس سے خطاب کے طور پر شائع اور نشر کریں مگر عملی طور پر وہ پریس کانفرنس کے بنیادی اصول یعنی سوالوں کے جواب کو پامال کرنا چاہتےتھے۔ کم و بیش دو دہائیوں سے اس ملک میں صحافت کرتے ہوئے مجھے اتنی تو سمجھ آ گئی ہے کہ بڑی شخصیات اور اہم عہدیدار بیسیوں کیمرے اور درجنوں صحافی دیکھ کر لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں مگر جب صحافیوں کے کڑے سوالات کی باری آتی ہے تو وہ وقت کی کمی کا بہانہ کرکے اکثر موقع سے فرار ہو جاتے ہیں۔ دراصل پاکستان میں طاقت، اختیار اور قانون کے یکساں اطلاق کے درمیان بہت فاصلہ ہے اور اہم عہدوں پر بیٹھے اکثرافراد عہدوں اور طاقت کے حصول کے لیے کچھ بنیادی اخلاقی اصول بھی پامال کردیتے ہیں۔ اسی لیے وہ سوالوں کے جواب دینے سے گریز ہی کرتے ہیں۔

چیرمین نیب جاوید اقبال کس طرح اس عہدے پر تعینات ہوئے تھے اور ماضی میں وہ کہاں کہاں کیا کیا کچھ کرتے رہے یہ سب میری نظر میں تھا اس لیے مجھے اندازہ تھا کہ وہ سوالوں کے جواب ہرگز نہیں دیں گے۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنی تقریر کے آخر پر اعلان کیا کہ آپ کو سوالوں کی تشنگی ضرور ہو گی مگر آج نہیں، عید کے بعد سوال جواب ہوں گے۔ میں جسٹس جاوید اقبال کے سامنے موجود میز پران کے سامنے بائیں ہاتھ کی رو پر دسویں نمبر پر بیٹھا تھا۔

صورتحال کو بھانپتے ہوئے میں بلند آواز میں معزز چیرمین سے مخاطب ہوا اور انہیں عرض کی کہ جناب آپ سوالوں کا جواب نہیں دیتے لیکن اس ادارے کی خاطر میرے سوال کا جواب ضرور دے کر جائیں۔ چیرمین نیب نے کمال فراخدلی سے ادارے کے وسیع تر مفاد میں مجھے بولنے کی اجازت دی۔

میں نے عرض کی کہ جناب آپ کہتے ہیں کہ نیب کسی کے استعمال میں نہیں ہے، یہ بڑا غیر جانبدار ہے ، یہ بیان تو بہت اچھے ہیں۔ آپ نے اپنی تقریر میں بلوچستان کی بیوروکریسی کا حوالہ دیا۔ اس حوالے سے نیب نے بلوچستان کے افسر رئیسانی اور خالد لانگو کی ضمانتوں کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کیا مگر اپیل نہیں کی۔ اس پر جسٹس جاوید اقبال نے مجھے ٹوکا ، یہ آپ کی اطلاعات درست نہیں ہیں۔ میں دوبارہ بولا جناب مجھے میری بات مکمل کر لینے دیں۔ دراصل شروع میں ہلکا سوال کر کے میں چیرمین نیب کو انگیج کرنا چاہتا تھا کہ وہ میری پوری بات سنیں۔ مجھے علم تھا کہ میرے سوال میں ایک نہیں، تین سوالات چھپے تھے۔ ایک شیریں اور دو تلخ۔

“بات جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا علیم خان کے بارے میں نیب نے اپیل نہیں کی”۔ علیم خان حکمران تحریک انصاف کے رہنما تھے جنہیں عدالت نے حال ہی میں ریلیف دیا تھا۔ میں نے بات مزید جاری رکھی ، ” ہم دیکھتےہیں کہ جب سیاستدانوں کے خلاف کیسز آتے ہیں نیب سیاستدانوں کوگرفتار کرتی ہے مگر جب ملک ریاض صاحب کا کیس آتا ہے، پانچ کیسز ہیں ملک ریاض صاحب کے خلاف، آپ پر الزام ہے کہ آپ نے چیرمین نیب تعینات ہونے کے لیے ملک ریاض صاحب اور آصف زرداری سے ملاقاتیں کیں، میں نے وضاحت کرتے ہوئے ایک براہ راست سوالیہ حملہ کیا ، “میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ان سے ملے ہوِئے ہیں مگر یہ سنگین الزامات ہیں”۔

دوسری طرف چیرمین نیب کے چہرے کے تاثرات جو تھوڑی دیر پہلے تقریرکرتے ہوئے بڑے خوشگوارتھے مکمل سنجیدگی میں بدل گئے۔ وہ بولے کہ علیم خان کے بارے میں اپیل کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ زیر غور ہے۔ ہم نے لانگو کے بارے میں اپیل کی ہے۔ سیکرٹری صاحب نے پلی بارگین کی درخواست کی ہے جسے عدالت نے دیکھا ہے۔ یہ باتیں کر کے چیرمین نیب اپنی تعیناتی سے قبل آصف زرداری اور ملک ریاض سے اپنی ملاقاتوں کے سوال کی جانب آئے اور ان کا نام لیے بغیر بولے، “جن شخصیات کا نام آپ نے لیا ہے اگر میرے ان کے ساتھ اتنے ہی مراسم ہوتے تو ان کے خلاف ریفرنس دائر نہ ہوتے، “۔ یہ کہتے ہی چیرمین نیب روسڑم سے ہٹے اور ہماری نظروں کے سامنے ہال کے باہر جا کر گم ہو گئے۔

بات واضح تھی چیرمین نیب میری بات کا براہ راست جواب نہیں دے پائے۔ وہ چیرمین نیب تعیناتی کے لیے اپنی ملاقاتوں پر بات ہی نہیں کر پاِئے۔ دراصل چیرمین نیب کی ساری پریس کانفرنس کو غور سے سنا جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مشہورصحافی جاوید چوہدری کے دو قسطوں پر لکھے گئے کالم کے کم و بیش تمام حصوں کی تصدیق کی ہے ہاں کچھ کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔

معروف بھارتی فلم سٹار نے کسی فلم میں مشہورڈائیلاگ بولا تھا، ایک مچھر ہیجڑہ بنا دیتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ حقائق پر مبنی ایک سوال بھی طاقتور سے طاقتور آدمی کو۔۔۔ کیا کیا کچھ بنا دیتا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
ابھی دو ویڈیوز موصول ہوئی ہیں چیئرمین نیب کے خلاف۔ اللہ تعالیٰ کرے فیک ہوں۔ جاوید چوہدری کے کالم میں مذکور ملکی و عالمی بلیک میلر گینگز، اڑانے کے علاوہ بھی کوئی راستہ اختیار کریں گے۔
بچوں اور جائداد کی بے فکری کے علاوہ اتنے بڑے کارناموں کو سرانجام دینے کے لیے معاشرے کے لحاظ سے مضبوط اور بےداغ کردار بھی ہونا چاہیے۔
لگتا ہے انہیں فارغ کردیا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
چیرمین نیب کے خلاف ویڈیو اسکینڈل میں منظم گروہ ملوث ہونے کا انکشاف
نمائندہ ایکسپریس 4 گھنٹے پہلے
1678991-javediqbal-1558692735-282-640x480.jpg

یہ گروہ لوگوں سے اب تک کروڑوں کا فراڈ کرچکا ہے، سردار اعظم رشید فوٹو:فائل

لاہور: چیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے خلاف ویڈیو اسکینڈل میں منظم گروہ ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس گروہ کے ہاتھوں متاثرہ افراد سردار اعظم رشید، صبا حامد، شمشاد جہان نے انکشاف کیا کہ چیرمین نیب کی وڈیو بنانے والے گروہ کے کارندے طیبہ گل اور اس کا خاوند فاروق نول ہیں، گروہ میں خواتین سمیت پولیس، آئی بی، سی آئی اے، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کے افسران ملوث ہیں۔ یہ گروہ اغوا، زمینوں پر قبضے اور جعلی ویزا پر بیرون ملک بھیجنے کا کام کرتے ہیں۔

سردار اعظم رشید نے کہا کہ یہ گروہ لوگوں سے اب تک کروڑوں کا فراڈ کرچکا ہے، اس کے بعد متاثرہ افراد کے خلاف ایف آئی آر کٹوا کر بلیک میل کرتے ہیں، پھر ان کے بچوں کو اغوا کرکے ڈرا کر ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں روپے ہتھیاتے ہیں۔

متاثرین نے بتایا کہ طیبہ گل اور فاروق کے پاس جدید سسٹم ہے جو واٹس ایپ ویڈیوز بناتے ہیں اور لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں، چیرمین نیب کی وڈیو جعلی ہے اور انہیں ٹریپ کیا گیا، اس گروہ کے مختلف سیاستدانوں کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی نے چیئرمین نیب کی مبینہ ویڈیو اور غیر اخلاقی گفتگو نشر کی تھی تاہم بعدازاں اس پر معافی مانگ لی۔ نیب نے نجی ٹی وی پر چیئرمین نیب کے حوالے سے نشر ہونے والی خبر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے حقائق کے منافی، من گھڑت، اور پراپیگنڈا قرار دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن، لفافے، اسٹیبلشمنٹ جو مرضی کر لے۔ احتساب کا عمل اب نہیں رکے گا۔
’چیئرمین نیب جاوید اقبال استعفیٰ نہیں دے رہے‘
24 مئی ، 2019
وسیم عباسی -اردو نیوز اسلام آباد

قومی احتساب بیورو (نیب) کے چئیرمین جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کے حوالے سے ایک مقامی ٹی وی چینل پر چلنے والی ویڈیو کے بعد ان پر اپوزیشن کی جانب سے دباو مزید بڑھ گیا ہے، مگر انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نیب کے ترجمان نوازش علی عاصم نے کہا ’چئیرمین نہ کسی کے دباؤ میں ہیں اور نہ ہی استعفیٰ دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے سب قیاس آرائیاں چل رہی ہیں‘
اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے اس ویڈیو کی پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس میں چیئرمین نیب کو مبینہ طور پر ایک خاتون سے نازیبا گفتگو کرتے ہوئے سنا اور دیکھا جا سکتا ہے۔
نیب کے ترجمان نے کہا کہ ویڈیو سکینڈل کی مرکزی کردارطیبہ خاتون اور اس کے شوہر نے چارسو افراد کے ساتھ فراڈ کیا ہے، جنہوں نے جمعہ کو لاہور میں پریس کانفرنس بھی کی ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن نے معاملے کی پارلیمنٹ کی سطح پر تحقیق کا مطالبہ کیا ہے تو نیب ترجمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اورپارلیمنٹ کی کارروائی کے حوالےسے وہ تبصرہ نہیں کر سکتے۔

000_1go1gb.jpg

نیب نے ایک پریس ریلیز میں ویڈیو ٹیپ کی سختی سے تردید کی تھی۔ تصویر:اے ایف پی

اس سے قبل اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگ نواز کے سینئیر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے ویڈیو کا معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں سوموار کو ان کی پارٹی کے پارلیمانی رہنما خواجہ آصف ایک قرارداد پیش کریں گے جس میں مطالبہ کیا جائے گا کہ پارلیمانی ضوابط کے سیکشن 246-B کے تحت ایک سپیشل کمیٹی تشکیل دیں جو اس معاملے کی تحقیق کرے۔
’یہ کمیٹی تحقیق کرے کہ ویڈیو کے معاملے میں جو کردار ملوث ہیں چاہے وہ وزیراعظم ہوں، سپیکر ہوں چئیرمین نیب ہوں یا ٹی وی چینل اور پیمرا ہوں ان کا قصورعوام کے سامنے لائے۔‘
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سب سے بڑا ایوان ہے جس کا حق ہے کہ وہ اس قومی نوعیت کے سنگین مسئلے پر فوری تحقیقات کرے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت احتساب سے بھاگنا نہیں چاہتی تو پھر وہ اس کمیٹی کے قیام کی مخالفت نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف سب کا حق ہے اور جب تک کسی کے خلاف جرم ثابت نہ ہو وہ معصوم ہے اور اگر چئیرمین نیب اس معاملے میں قصور وار ہوئے تو کمیٹی یہ بات عوام کے سامنے لائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’ یہ معاملہ اہم ہے جس میں نیب کا ادارہ ملوث ہے وزیراعظم کا دفتر ملوث ہے اوران کے مشیر ملوث ہیں‘
دوسری طرف اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پارلیمانی سطح پر چئیرمین نیب کے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پارٹی رہنما اور سابق چئیرمین سینٹ نیئر بخاری نے کہا کہ چئیرمین نیب کا رویہ بھی متنازعہ رہا ہے اور کار کردگی بھی۔

000_del6093975.jpg

پیپلز پارٹی نے بھی پارلیمانی سطح پر چئیرمین نیب کے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ تصویر: اے ایف پی

اس بارے میں انہوں نے کہا ’ہم نے اس ویڈیو سے پہلے بھی چئیرمین نیب سے استعفی کا مطالبہ کیا تھا کیوں کہ ان کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچ رہا تھا اور بیوروکریسی کام کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس معاملے پر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے پہلے معاملے کی تحقیق ضروری ہے’
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹیوں کو اب تک معاملے کا نوٹس لےکرتحقیقات کا آغازکردیناچاہیےتھا۔
نئیر بخاری کے مطابق تحقیقات کے بعد اگر چئیرمین نیب کا قصور ثابت ہو جاتا ہے تو ان کو استعفی دینا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں ویڈیو چلانے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔
گذشتہ روز بھی نیب نے ایک پریس ریلیز میں ویڈیو ٹیپ کی سختی سے تردید کی تھی۔ پریس ریلیز کے مطابق نجی ٹی وی چینل پر چیئرمین نیب کے خلاف چلنے والی خبر حقائق کے منافی، من گھڑت، بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا ہے۔ نیب نے مزید کہا تھا کہ ’یہ ایک بلیک میلرز کا گروپ ہے جس کا مقصد ادارے اور چیئرمین نیب کی ساکھ کو مجروح کرنا ہے۔ تاہم نیب نے تمام دباؤ اور بلیک میلنگ کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس گروہ کے دو افراد کو نہ صرف گرفتار کیا ہے بلکہ ریفرینس کی بھی منظوری دے دی گئی ہے۔‘

000_1833xk.jpg

اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے چیئرمین نیب کی ویڈیو کی پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ تصویر: اے ایف پی

نیب کے مطابق اس گروہ کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں 42 ایف آئی آرزدرج ہیں جن میں بلیک میلنگ، اغوا برائے تاوان، عوام کو لوٹنے اور نیب اور ایف آئی کے جعلی افسر بن کر سرکاری اور پرائیویٹ افراد کو لوٹنے کے ثبوت نیب کے پاس موجود ہیں۔
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے یہ خبر بلیک میلنگ کر کے نیب ریفرنس سے فرار کا راستہ ہے۔
نیب کے مطابق نجی چینل نے اپنی خبر کی تردید اور اسے حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے چیئرمین نیب سے دل آزاری پر معذرت کی ہے جو کے صحافت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
واضح رہے کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال چند روز سے کالم نگار جاوید چوہدری کو دیے گئے ایک انٹرویو کے بعد سے ناقدین کے نشانے پر ہیں۔
ان کے اس انٹرویو پر پاکستان کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے دو روز قبل کہا تھا کہ وہ چئیرمین نیب کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔ '
 

جاسم محمد

محفلین
پہلے پی پی پی اور ن لیگ نے خود باہم مشاورت سے چیئر مین نیب لگایا۔ اب خود ہی استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ کون لوگ او تُسی؟

مسلم لیگ (ن) کا چیئرمین نیب سے استعفیٰ کا مطالبہ
ویب ڈیسک ہفتہ 25 مئ 2019
1680034-malikahmed-1558771139-341-640x480.jpg

چیئرمین نیب اگر ملکی مفاد بیان کریں گے تو پارلیمنٹ کو تالا لگا دیں، ملک احمد خان فوٹو: فائل


لاہور: مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک احمد خان نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب اپنے عہدے سے مستعفی ہوں اور ہم ان کے خلاف ہائی کورٹ میں بھی جارہے ہیں۔

لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ سیاسی عدم استحکام معیشت کا جنازہ نکال دے گا، موجودہ حکومت نے 9 ماہ میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے خوفناک قرضہ لیا ہے، شہباز شریف پر ثبوت کے بغیر الزامات لگائے گئے، صاف پانی کیس میں نیب کو شہباز شریف کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے تھا، نیب تحریک انصاف کا پلاننگ یونٹ ہے، چیئرمین نیب نے کہا حکومت کے خلاف کارروائی کی تو یہ گر جائے گی، کیا چیئرمین نیب اب اس بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے، چیئرمین نیب اگر ملکی مفاد بیان کریں گے تو پارلیمنٹ کو تالا لگا دیں۔

ملک احمد خان نے کہا کہ نیب قانون کا غلط استعمال کر رہا ہے، نیب نوٹسز لوگوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کررہے ہیں، نیب لوگوں کے گھروں کے محاصرے کر لیتا ہے، جب نیب سے پوچھتے ہیں کن وجوہات کی بنا پر گرفتار کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ دستاویزات خفیہ ہیں، نیب ہمیں گرفتاری کی وجوہات بتانے پر بھی تیار نہیں، کیا نیب ماورائے قانون اور بدمعاش ادارہ ہے۔ کیا نیب چاہتا ہے جس کے چاہے گردن پکڑ لے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ نیب قانون میں کہاں لکھا ہے کہ چیئرمین نیب خود سوالنامہ ترتیب دیں۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ چیئرمین نیب کو اخباری کالم کے مندرجات کی تردید کرنا پڑے گی، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ چیئرمین نیب اپنے عہدے سے مستعفی ہوں، ہم اخبار کے کالم پر ہتک عزت کا کیس فائل کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہم چیئرمین نیب کےخلاف لاہور ہائی کورٹ میں بھی جارہے ہیں۔

ملک احمد خان نے کہا کہ چیئرمین نیب نے ملکی نظام کا تماشا لگا دیا ہے، چیئرمین وہ “ملکی مفاد” میں مستعفی نہیں ہوں گے، جس چیئرمین نیب کے خلاف کیس دائر ہوتے ہیں کیا ان کی تعیناتی درست ہے؟ ، چیئرمین نیب متنازع ہو چکے ہیں، اگر وزیر اعظم کو نکالا جا سکتا ہے تو چیئرمین نیب کو کیوں نہیں؟۔
 
Top