بھارت میں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان آج ہوگا، مودی کی جیت کا امکان

جاسم محمد

محفلین
بھارت میں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان آج ہوگا، مودی کی جیت کا امکان
200218_1408315_updates.jpg

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے اعلان کے موقع پر بھارتی وزارت داخلہ نے سیکیورٹی الرٹ جاری کیا ہے — فوٹو: فائل
نئی دہلی: سات مراحل میں ہونے والے بھارتی لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان آج کیا جائے گا۔

بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات 11 اپریل کو شروع ہوئے اور 7 مرحلوں میں 19 مئی کو مکمل ہوئے جس کے بعد کل ہی ووٹوں کی گنتی کی جائے گی اور نتائج کا اعلان بھی کل کیا جائے گا۔

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے اعلان کے موقع پر بھارتی وزارت داخلہ نے سیکیورٹی الرٹ جاری کیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق انتخابی نتائج کے دوران ممکنہ ہنگامہ آرائی پر ریاستی حکام کو ہدایات جاری کردی گئیں، ووٹوں کی گنتی والے مراکز کی سیکیورٹی بھی سخت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

بھارتی انتخابات کا آخری مرحلہ ختم ہونے کے بعد ایگزٹ پولز جاری کیے گئے ہیں اور زیادہ تر ایگزٹ پولز نے نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی جیت کی پیشگوئی کی ہے۔

دوسری جانب بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے لوک سبھا انتخابات کے ایگزٹ پول نتائج مسترد کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ کارکن ایگزٹ پول کے جھوٹے نتائج کے پروپیگنڈے سے مایوس نہ ہوں، اپنی محنت پر یقین رکھیں، محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھارتی مسلمانوں اور ہندو دلتوں کیلیے بری خبر؛ اگلی حکومت بھی بی جے پی بنائے گی
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1677276-modi-1558588643-586-640x480.jpg

بھارتی ایوان زیریں کے انتخابات 7 مرحلوں میں مکمل ہوئے فوٹو: فائل

نئی دلی: بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعت کو فیصلہ کن برتری حاصل ہوگئی ہے جس کے بعد نریندرا مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

بھارت میں 542 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا (ایوان زیریں ) کے انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور ابتدائی نتائج کے مطابق بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کا پلڑا بھاری ہے۔ بی جے پی اور اس کا اتحاد (این ڈی اے) 320 نشستوں پر آگے ہے جب کہ کانگریس اور اس کا یو پی اے 109 نشستوں پر فتح یاب ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ 91 نشستوں پر علاقائی جماعتیں آگے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) کے انتخابات 11 اپریل کو شروع ہوئے اور 7 مرحلوں میں 19 مئی کو مکمل ہوئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھارتی انتخابات: بی جے پی مسلسل دوسری مدت کیلئے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی

نئی دہلی: بھارت میں لوک سبھا کی 542 نشستوں کے لیے 7 مراحل میں ہونے والے ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی جس کے مطابق نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں دوسری مدت کے لیے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق لوک سبھا کی 543 میں سے 542 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کی ووٹنگ مکمل کرلی گئی جس کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کا اتحاد 'نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس' نے 324 نشستیں حاصل کیں۔

200222_6972705_updates.jpg


بی جے پی کے مخالف انڈین نیشنل کانگریس کے اتحاد 'یونائٹیڈ پروگریسیو الائنس' نے 106 نشستیں جب کہ دیگر جماعتوں نے 112 نشستیں حاصل کیں۔

حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 272 نشستیں درکار ہوتی ہیں اور بے جے پی اتحاد نے مطلوبہ تعداد سے زیادہ نشستیں حاصل کرلیں۔

یاد رہے کہ 2014 میں حکومت بنانے والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے 336 نشستیں حاصل کی تھیں جب کہ اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کو 60 نشستیں ملی تھیں۔

گزشتہ انتخابات کے نتائج کا تناسب دیکھا جائے تو بی جے پی اتحاد کو 28 نشستوں کے خسارے کا سامنا رہا جب کہ کانگریس اتحاد نے 41 نشستیں زیادہ حاصل کیں، اسی طرح دیگر جماعتوں نے 13 نشستیں کھودیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف طبقہ ’ووٹ کو عزت دو‘ مانگتا ہے۔ بھارت میں ووٹ کو عزت مل چکی ہے۔ بھارتی اقلیتیں اور نچلا طبقہ اب مزید 5 سال اکثریت تلے پسے گا۔ یہ ہے ووٹ کو عزت دو کی اصل حقیقت۔۔۔
Capture.jpg
 
بھارتی مسلمانوں اور ہندو دلتوں کیلیے بری خبر؛ اگلی حکومت بھی بی جے پی بنائے گی
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1677276-modi-1558588643-586-640x480.jpg

بھارتی ایوان زیریں کے انتخابات 7 مرحلوں میں مکمل ہوئے فوٹو: فائل

نئی دلی: بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعت کو فیصلہ کن برتری حاصل ہوگئی ہے جس کے بعد نریندرا مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

بھارت میں 542 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا (ایوان زیریں ) کے انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور ابتدائی نتائج کے مطابق بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کا پلڑا بھاری ہے۔ بی جے پی اور اس کا اتحاد (این ڈی اے) 320 نشستوں پر آگے ہے جب کہ کانگریس اور اس کا یو پی اے 109 نشستوں پر فتح یاب ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ 91 نشستوں پر علاقائی جماعتیں آگے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) کے انتخابات 11 اپریل کو شروع ہوئے اور 7 مرحلوں میں 19 مئی کو مکمل ہوئے۔
یہ مسلمانوں کے لیے قطعی بری خبر نہیں ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
انڈیا الیکشن 2019: 543 ارکان کی لوک سبھا میں گنتی کے مسلمان
مرزا اے بی بیگ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی
_107091026_2d5e0b1e-9a22-43bc-8d01-39ea8bc47914.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاسدالدین اویسی تلنگانہ سے رکنِ اسمبلی بنے ہیں لیکن ان کی جماعت نے مغربی ریاست مہاراشٹر میں بھی کامیابی حاصل کی ہے
انڈیا کے پارلیمانی انتخابات میں ہندو نظریات کی حامل بھارتیہ جنتا پارٹی کی دوبارہ شاندار کامیابی نے ملک کے مستقبل کی راہ کم و بیش طے کر دی ہے۔

اس الیکشن میں مسلمان نمائندوں کی کارکردگی بھی ماضی کے مقابلے میں مایوس کن رہی۔ خود بی جے پی نے جن چھ مسلمانوں کو اپنا امیدوار بنایا تھا ان میں سے ایک بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔

543 کے ایوان میں اب تک صرف 22 مسلمان ارکان ہی جگہ بنا پائے ہیں اور یہ تعداد گزشتہ پارلیمان کے مسلم ارکان کے مقابلے میں بھی کم ہے تاہم ابھی تک مکمل نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا اور یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔

نو منتخب مسلم ارکان میں سے صرف دو خواتین ہیں۔

مغربی بنگال کی ریاست سے گزشتہ پارلیمان میں آٹھ مسلمان ارکان منتخب ہو کر آئے تھے تاہم اس مرتبہ اس میں 50 فیصد کی کمی ہوئی ہے اور صرف چار مسلمان ہی اس ریاست سے لوک سبھا میں پہنچ پائے ہیں جن میں نصرت جہاں روحی سمیت دو خواتین بھی شامل ہیں۔

ایسی ہی صورتحال بہار میں ہے جہاں چار کے مقابلے میں اس مرتبہ صرف دو مسلم امیدوار کامیاب ہو سکے ہیں۔

اس کے علاوہ جنوبی ریاست کیرالہ اور شمال مشرقی ریاست آسام میں بھی مسلم نمائندگی میں کمی آئی ہے۔

آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے سربراہ بدرالدین اجمل آسام سے خود تو کامیاب ہو گئے لیکن ان کی دوسری نشست اس بار ان کے ہاتھوں سے نکل گئی۔

آسام میں غیرقانونی شہریت کا مسئلہ بہت سنگین ہے اور مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو شہریت چھننے کا خطرہ ہے۔

_107091028_859268de-b436-4e5e-afae-ef1b946e44f4.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES/FACEBOOK/JAYAPRADA
Image captionسماجوادی پارٹی کے اہم رہنما اعظم خان بی جے پی کی امیدوار اور اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ جیا پردا کو شکست دے کر لوک سبھا میں پہنچے ہیں
تاہم ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں صورتحال اس رجحان کے برعکس رہی ہے۔ گذشتہ پارلیمان میں یہاں سے مسلم نمائندگی صفر تھی لیکن حالیہ پارلیمان میں وہاں سے سب سے زیادہ چھ امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔

ان میں سماجوادی پارٹی کے اہم رہنما اعظم خان بھی ہیں جنھوں نے بی جے پی کی امیدوار اور اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ جیا پردا کو شکست دی ہے۔

اس کے علاوہ پنجاب اور مہاراشٹر سے بھی ایک، ایک مسلم امیدوار محمد صادق اور امتیاز جلیل کامیاب ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں ایک عرصے کے بعد کسی مسلم امیدوار کو کامیابی ملی ہے۔

امتیاز جلیل اورنگ آباد سے مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ کانگریس کے ٹکٹ پر محمد صادق رکنِ اسمبلی بنے ہیں۔

معروف مسلم رہنما اور مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی گزشتہ الیکشن میں آندھر پردیش سے منتخب ہوئے تھے لیکن اس بار ان کی سیٹ تلنگانہ میں آئی۔

جموں کشمیر سے اس بار بھی تین مسلم اراکین منتخب ہوئے ہیں جس میں صرف فاروق عبداللہ ہی واحد امیدوار ہیں جو پھر سے کامیاب ہوئے ہیں۔

انڈین پارلیمان کی تاریخ میں مسلم نمائندوں کی سب سے بڑی تعداد یعنی 49 نمائندے سنہ 1980 کے انتخابات میں منتخب ہوئی تھی جب ایمرجنسی کی ہزیمت کے بعد اندراگاندھی کی قیادت میں کانگریس واضح اکثریت سے حکومت میں آئی تھی۔ اس پارلیمان میں کانگریس کی جانب سے 30 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

اس کے برعکس سب سے کم 11 مسلم امیدوار پہلی لوک سبھا میں منتخب ہوئے تھے۔

_107091030_nusratjahan1.jpg

تصویر کے کاپی رائٹBBC/SHIB SHANKAR CHATTERJEE
Image captionمغربی بنگال سے دو مسلم خواتین نے کامیابی حاصل کی ہے جن میں ایک نصرت جہاں روحی بھی شامل ہیں
دہلی کی ایک اہم یونیورسٹی میں سیاسیات کا مضمون پڑھانے والے ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مسلمانوں کی پارلیمان میں نمائندگی کے سلسلے میں بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مسلمان پہلے سے ہی پارلیمان میں اپنے مسائل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں البتہ سیکولر جماعتیں مسلمانوں کے مسائل کو اٹھاتی تھیں لیکن اب ان کی اپنی ہی بقا کا مسئلہ ہے اس لیے اب کوئی پارٹی سیکولرازم کی بات بھی نہیں کرتی۔

انھوں نے کہا کہ پہلے کانگریس، لالو پرشاد، ملائم سنگھ یادو یا مایاوتی وغیرہ مسلمانوں کے مسائل کو اپنے فائدے کے لیے اٹھاتے تھے گوکہ ان کے حل کی کم ہی کوشش کی جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مسلم امیدوار جو پارلیمان میں پہنچے ہیں وہ اپنی جماعت کی پالیسی کے تحت کام کریں گے نہ کہ مسلمانوں کے مسائل کو اٹھائیں گے۔

انھوں نے کہا اس معاملے میں مجلس اتحاد المسلمین کو استثنیٰ حاصل ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کی سیاست کرتی ہے اور ان کے مسائل پر بات کرتی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انٹرنیشنل سٹڈیز میں استاد محمد سہراب نے اس بارے میں کہا کہ 'مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے اور ان کے ووٹ کے حقوق کو ختم کرنے کا عمل ہے جو ایک عرصے سے جاری ہے اور رواں انتخاب تو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف لڑا گیا ہے جس میں مسلمانوں کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'اس کے اثرات مزید یہ ہوں گے کہ ان کے آزادی کے آئینی حقوق پر قدغن لگائی جا سکتی ہے۔'
 

جاسم محمد

محفلین
543 کے ایوان میں اب تک صرف 22 مسلمان ارکان ہی جگہ بنا پائے ہیں اور یہ تعداد گزشتہ پارلیمان کے مسلم ارکان کے مقابلے میں بھی کم ہے تاہم ابھی تک مکمل نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا اور یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔
مسلمان بھارت کا 14 فیصد ہیں۔ اس تناسب سے کم از کم 76 سیٹیں بنتی ہیں۔ بہرحال یہی جمہوریت کا حُسن ہے۔
 
Top