اسرائیلی فورس کی طرف سے غزہ پر حملے کا اعلان

فرقان احمد

محفلین
فلسطینی اپنے مطالبہ پر بضد ہیں کہ ماضی کی جنگوں میں ہوئے بے گھر فلسطینی (جن کی تعداد اس وقت50 لاکھ کے لگ بھگ ہے) کو واپس اسرائیل میں نقل مکانی کی اجازت دی جائے۔ اسرائیل کی کل آبادی اس وقت 87 لاکھ ہےجس میں سے 20 فیصد فلسطینی ہیں اور آئینی و قانونی طور پراسرائیل کے آزاد شہری ہیں۔
اسرائیلی لیڈرشپ کہتی ہے کہ اگر وہ اس فلسطینی مطالبہ کو تسلیم کر لیں تواسرائیل کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔ جو کہ فلسطینی انتہا پسندجماعت حماس کا مقصد ہے۔ یعنی اسرائیل کا مکمل خاتمہ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ اور تاحال حل نہیں ہو سکا۔
اس متعلق آپ کی کیا رائے ہے، اگر کوئی ہے ؟ :) کس کا موقف زیادہ درست معلوم ہوتا ہے آپ کو؟
 

جاسم محمد

محفلین
اس متعلق آپ کی کیا رائے ہے، اگر کوئی ہے ؟ :) کس کا موقف زیادہ درست معلوم ہوتا ہے آپ کو؟
فلسطینیوں کا موقف اصولا درست ہے کیونکہ ان کے ساتھ تاریخی نا انصافی ہوئی ہے۔ انہیں واپس اپنے آبائی گھروں (جو اب اسرائیل میں ہیں) نقل مکانی کی اجازت ملنی چاہئے۔
اسرائیلیوں کا موقف بھی درست ہے کہ اگر وہ تمام فلسطینیوں کے لئے اپنے بارڈر کھول دیں تو ان کی یہودی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اور یوں یہودی ریاست اسرائیل کا وجود ختم ہو جائے گا۔
اس تنازع کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئےفلسطینی مہاجرین کی ایک خاص تعداد کا تعین کرنا ہوگا۔ جو دونوں اطراف کی لیڈرشپ کو قابل قبول ہو۔ یہ معاملات مذاکرات کی میز پر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ ماضی کی طرح وہاں سے بھاگ کر نہیں۔
اب بس دعا ہی کریں کہ اللہ تعالیٰ حماس اور اسرائیلیوں کو کچھ عقل دے تاکہ امسال 9 اپریل کے اسرائیلی الیکشن کے بعد دوبارہ انتہا پسند نتانیاہو کی حکومت قائم نہ ہو پائے۔ کیونکہ ان کے مخالفین (سینٹر اور بائیں بازو کی جماعتیں) بہرحال فلسطینیوں سے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ جبکہ حالیہ انتہا پسند حکومت پچھلے دس سال سے فلسطینیوں سے مسلسل جنگ کر رہی ہے۔ اور آئندہ بھی یہ پالیسی جاری رکھے گی اگر اس بار پھر الیکشن جیت گئی۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بے فکر رہیں، شاید آپ کا موقف بھی درست ہو ۔۔۔!
یہ تنازع اسرائیل اور فلسطین کے مابین چل رہاہے۔ ہمیں اس میں فریق بننے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ غیرجانبداری سے تنازع کا مطالعہ کریں تو دونوں اطراف کے مطالبات جائز ہیں۔ جہاں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل نے تاریخی ناانصافی ہے۔ وہیں اس کی تلافی اسرائیل کا مکمل وجود ختم کرنے سے ممکن نہیں ہوگی۔
اگر واقعتا امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دونوں اطراف کی لیڈرشپ کو بہرحال کہیں نہ کہیں اپنے مطالبات پر سمجھوتا کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اسرائیل فلسطین کے تمام مطالبات تسلیم کر لے یا فلسطین اسرائیل کے آگے مکمل گھٹنے ٹیک دے۔ دونوں پڑوسیوں کو بالآخر امن کے ساتھ ہی رہنا پڑے گا۔ کیونکہ ہم ہر چیز بدل سکتے ہیں۔ مگراپنے ہمسائے نہیں بدل سکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ ایک جملہ پوری گفتگو کا خلاصہ بیان کر رہا ہے۔
معاملات سادہ ہی تو نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو کیا آئے روز فلسطینی و اسرائیلی ایک دوسرے پر بمباری کرتے؟
یہ تنازع بیسیوں سال پرانا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس میں تناؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بہتر ہوتا اگر بہت پہلے دونوں اطراف کے لیڈران صلح صفائی سے امن معاہدہ پر عمل درآمد شروع کر دیتے۔ لیکن افسوس دونوں نے امن مذاکرات کی بجائے جنگ کو ہی ترجیح دی۔ جس کا خمیازہ ان کی آنے والی نسلیں بھگت رہی ہیں۔
 

فلسفی

محفلین
فلسطینیوں سے ان کے چھرے چاقو، اینٹ روڑے لے لینے چاہییں۔ کسی بھی قسم کا کوئی ہتھیار ان کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔
جب وہ مکمل نہتے ہوجائیں تو انھیں اسرائیلیوں کے سامنے لے جا کے کھڑا کر دیں۔ لیں جی اب فرمائیں کیا حکم ہے؟
حد ہے!
الفاظ بھی ہتھیار ہو سکتے ہیں۔۔۔یہ فلسطینیوں کے خلاف لکھے جانے والے مراسلوں سے پتہ چل رہا ہے۔

مگر ان کو نہتا کرے گا کون؟
ہائے تیری خواہشیں
 

وقارسہیل

محفلین
مگر ان کو نہتا کرے گا کون؟
آپ صرف فلسطینیوں کو ہی نہتا کرنے پر مصر ہیں؟ اسرائیل کا اسلحہ اور ایٹم بم رکھنا جائز اور ایک مسلمان کے لیے حرام۔
جب کہ اسرائیل صرف زخمیوں کا جواب اتنی تباہی اور انسانیت سوز انداز سے دے رہا ہے کیا یہ سب کچھ بنی اسرائیل کے لیے جائز ہیں؟
ویسے یہ قوم اپنے پیغمبروں کی نہیں ہوئی تو انسانیت کی کیا خیر خواہ ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
دونوں بار یعنی 1993 کا امن معاہدہ اور 2005 غزہ سے انخلاء کے بعد اسرائیل نے خود ہی فلسطینیوں کو اپنے آنے والے ملک کی سیکورٹی کیلئے اسلحہ فراہم کیا تھا۔ مگر یہ اسلحہ ان کے اپنے ہی خلاف چل گیا۔
مغربی کنارہ میں کام کرنے والی فلسطینی فورسز
384200C.jpg

غزہ کی پٹی میں حماس کی سیکورٹی فورسز
TELEMMGLPICT000127424279_trans_NvBQzQNjv4BqpVlberWd9EgFPZtcLiMQfyf2A9a6I9YchsjMeADBa08.jpeg


یہ تمام پروفیشنل سیکورٹی فورسز عالمی ایجنسیز سے تربیت یافتہ ہیں اور عموما فلسطینی علاقوں میں قانون نافظ کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ کبھی کبھار حالات زیادہ خراب ہونے پر اسرائیلی فورسز کے خلاف بھی استعمال ہو جاتی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ صرف فلسطینیوں کو ہی نہتا کرنے پر مصر ہیں؟
آپ کو کس نے کہہ دیا کہ فلسطینی نہتے ہیں؟ 1993 امن معاہدہ کے تحت اسرائیل اور دیگر عالمی طاقتوں کے تعاون سے فلسطینی سیکورٹی فورسز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جن کی تعداد اب 20 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ فلسطینی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہر سال ان فورسز کو جاتا ہے۔
 

وقارسہیل

محفلین
آپ کو کس نے کہہ دیا کہ فلسطینی نہتے ہیں؟ 1993 امن معاہدہ کے تحت اسرائیل اور دیگر عالمی طاقتوں کے تعاون سے فلسطینی سیکورٹی فورسز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جن کی تعداد اب 20 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ فلسطینی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہر سال ان فورسز کو جاتا ہے۔
آپ نے نہتا کرنے کی بات کی ہے۔ میں نے صرف یہ عرض کیا کہ دونوں کو نہتا کرنے کی بات کیوں نہیں کرتے آپ۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ نے نہتا کرنے کی بات کی ہے۔ میں نے صرف یہ عرض کیا کہ دونوں کو نہتا کرنے کی بات کیوں نہیں کرتے آپ۔
بھئی آپ کمال کرتے ہیں۔ اسرائیل آزاد و خودمختار ملک ہے۔ فلسطین بھی حتمی امن معاہدہ کے بعد مکمل طور پر آزاد و خودمختار ملک بن جائے گا۔ اس وقت وہاں عبوری حکومت چل رہی ہے جو آگے چل کر مملکت فلسطین کی بنیاد رکھےگی۔ ایسے میں دونوں کو نہتا کر دیا تو ارد گرد کے ہمسایہ ممالک تو انہیں کچا کھا جائیں گے :)
 

وقارسہیل

محفلین
بھئی آپ کمال کرتے ہیں۔ اسرائیل آزاد و خودمختار ملک ہے۔ فلسطین بھی حتمی امن معاہدہ کے بعد مکمل طور پر آزاد و خودمختار ملک بن جائے گا۔ اس وقت وہاں عبوری حکومت چل رہی ہے جو آگے چل کر مملکت فلسطین کی بنیاد رکھےگی۔ ایسے میں دونوں کو نہتا کر دیا تو ارد گرد کے ہمسایہ ممالک تو انہیں کچا کھا جائیں گے :)
یعنی آپ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ فلسطین مقبوضہ علاقہ ہے۔ جس پر دنیا بھر کے یہودیوں نے آکر قبضہ کیا ہواہے۔ اس تناظر میں اسرائیل کا وجود ہی ناجائز ہے۔ چہ جائیکہ وہ فلسطینیوں پر حملے کرے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں:struggle:
1993 امن معاہدہ کے تحت فلسطین کی سیکورٹی کیلئے اسرائیل اور دیگر ممالک فلسطینی سیکورٹی فورسز کو تربیت دے رہے ہیں۔ فلسطینی آئین و قانون کے تحت ان فورسز کا کام فلسطینی علاقوں میں قانون نافظ کرنا ہے۔ انہیں اسرائیلی فورسز کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی اسرائیلی فورسز کے پاس ان کے خلاف کاروائی کے اختیارات ہیں۔
اسی لئے اگر کوئی فلسطینی تخریب کار اسرائیل میں کاروائی کر کے بھاگ کر فلسطینی علاقوں میں جا کر چھپ جائے تو اسرائیلی اسے پکڑنے نہیں جاتے۔ بلکہ فلسطینی فورسز اسے پکڑتی ہیں اور قانون کے تحت سزا دلواتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند حماس کی ان آئین و قانون پر چلنے والی فلسطینی سیکورٹی فورسز سے بنتی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی آپ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ فلسطین مقبوضہ علاقہ ہے۔ جس پر دنیا بھر کے یہودیوں نے آکر قبضہ کیا ہواہے۔
بالکل۔ فلسطین کا ایک بڑا علاقہ 1967 سے اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔

اس تناظر میں اسرائیل کا وجود ہی ناجائز ہے۔
کشمیر کا ایک بڑا علاقہ 1947 سے بھارت کے قبضہ میں ہے۔ کیا اس وجہ سے بھارت کا پورا وجود ہی ناجائز ہے؟ اس سوال کا جواب سوچ سمجھ کر دیجئے گا۔
 

فلسفی

محفلین
1993 امن معاہدہ کے تحت فلسطین کی سیکورٹی کیلئے اسرائیل اور دیگر ممالک فلسطینی سیکورٹی فورسز کو تربیت دے رہے ہیں۔ فلسطینی آئین و قانون کے تحت ان فورسز کا کام فلسطینی علاقوں میں قانون نافظ کرنا ہے۔ انہیں اسرائیلی فورسز کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی اسرائیلی فورسز کے پاس ان کے خلاف کاروائی کے اختیارات ہیں۔
اسی لئے اگر کوئی فلسطینی تخریب کار اسرائیل میں کاروائی کر کے بھاگ کر فلسطینی علاقوں میں جا کر چھپ جائے تو اسرائیلی اسے پکڑنے نہیں جاتے۔ بلکہ فلسطینی فورسز اسے پکڑتی ہیں اور قانون کے تحت سزا دلواتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند حماس کی ان آئین و قانون پر چلنے والی فلسطینی سیکورٹی فورسز سے بنتی نہیں۔
یقین کیجیے مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔
 

وقارسہیل

محفلین
بالکل۔ فلسطین کا ایک بڑا علاقہ 1967 سے اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔


کشمیر کا ایک بڑا علاقہ 1947 سے بھارت کے قبضہ میں ہے۔ کیا اس وجہ سے بھارت کا پورا وجود ہی ناجائز ہے؟ اس سوال کا جواب سوچ سمجھ کر دیجئے گا۔
بھارت اور کشمیر آزادی سے قبل انگریزوں کی غلامی میں تھے۔ اس وقت بھی دونوں کا وجود تھا۔ جب کہ فلسطین کے معاملے میں 1948 سے پہلے اسرائیل کا وجود تک نہیں تھا۔ لہذا دونوں ایک دوسرے کا متبادل نہیں ہوسکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھارت اور کشمیر آزادی سے قبل انگریزوں کی غلامی میں تھے۔ اس وقت بھی دونوں کا وجود تھا۔ جب کہ فلسطین کے معاملے میں 1948 سے پہلے اسرائیل کا وجود تک نہیں تھا۔ لہذا دونوں ایک دوسرے کا متبادل نہیں ہوسکتے۔
1947 سے قبل تک تو پاکستان کا بھی وجود نہیں تھا۔ کشمیر مسلم اکثریت کے تحت پاکستان کے پاس جانا چاہئے تھا مگر بھارت نے وہاں سیکورٹی فورسز بھیج کر قبضہ کر لیا جو تا حال جاری ہے۔ صرف اس بنیاد پر بھارت کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ قابض ہے۔ یہی بات اسرائیل پر صادق آتی ہے۔
 
Top