عذاب ہے کہ پلک پر کوئی دیا بھی نہیں۔اسلم کولسری

عذاب ہے کہ پلک پر کوئی دیا بھی نہیں
ترے بغیر تو رونے کا حوصلہ بھی نہیں
اداس ہونا تو چل دینا کھیتیوں کی طرف
مگر یہ شہر کہ اتنا سا آسرا بھی نہیں
تمام عمر اسی کی تلاش میں گزری
جدا ہوا بھی نہیں جو کبھی ملا بھی نہیں
سزا کے بعد رہائی کا دن بھی آتا ہے
مگر وہ شخص جسے ٹوٹنا سزا بھی نہیں
خدا کرے یہ مسافر بھی راہ پر آئے
عجیب دل ہے مسلسل بھٹک سکا بھی نہیں
ابھی سے دل پہ شب غم کا خوف طاری ہے
ابھی تو صبح کا چہرہ ذرا دُھلا بھی نہیں
سخن میں ہے یہی اسلمؔ مقام عبرت کا
غزل تمام ہوئی اور کچھ کہا بھی نہیں

اسلم کولسری
 
Top