میر بار ہا گورِ دل جھنکا لایا

صادق آبادی

محفلین
بارہا گورِ دل جھنکا لایا
اب کے شرطِ وفا بجا لایا

قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دِکھا لایا

سب پہ جس بار نے گِرانی کی
اس کو یہ ناتَواں اُٹھا لایا

دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں مِلا لایا


ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میؔر
پھر مِلیں گے اَگر خُدا لایا
 
Top