خود کوتقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو

خاور بلال

محفلین
اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی

پھر اسی بندوق کی گولی ہے میری سمت کہ جو
اس سے پہلے بھی میری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی

پھر وہی آگ در آئی ہے میری گلیوں میں
پھر میرے صحن میں بارود کی بو پھیلی ہے

پھر سے تو کون ہے، میں کون کا آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و تو پھیلی ہے

اس سے پہلے بھی تو پیمان وفا ٹوٹے تھے
شیشہ دل کی طرح آئنہ جاں کی طرح

اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی طرح

نعرہ حب وطن مال تجارت کی طرح
جنس ارزاں کی طرح دین خدا کی باتیں

ضدی پائوں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں ہاتھوں پہ جل بجھا انگار حنا

شبنمی آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ باز کیلئے زلف کا بادل رویا

اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم
نوک دشنہ سے کھنچی تھی میری مٹی پہ لکیر

آج ایسا نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
اے میرے سوختہ جانو، میرے پیارے لوگو

اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو

کسی قاتل، کسی ظالم کسی غاصب کیلئے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو

(یہ نظم میری ڈائری میں لکھی تھی لیکن شاعر کا نام نہیں تھا، کوئی ساتھی نام بتا سکیں تو بہتر ہے)
 
احمد فراز

احمد فراز

اب تو جیسے بھی ہیں حالات ہمارے لوگو
خود کو تقسیم نہ کرنا، میرے پیارے لوگو
 

اظہرالحق

محفلین
ایک پرانا ملی نغمہ یاد آ گیا عارفین نے اسکو کیا خوب گایا تھا ۔ ۔ ۔

اپنے دیس کا ہر اک موسم ، ہم کو پیارا لگتا ہے
لو بھی اچھی لگتی ہے ، بادل بھی اچھا لگتا ہے

باہر جتنی رنگینی ہو جتنا سونا چاندی ہو
اپنا گھر پھر اپنا گھر ہے ، امن جزیرہ لگتا ہے

اور ایک سچی سی بات لکھ رہا ہوں پتہ نہیں اسے شیئر کرنا چاہیے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اتوار کو آفس میں دل بہت اکتایا ہوا رہا ۔۔ ۔ واپسی پر جانے کیوں ملی نغمے لگا دئیے (میں ڈرائیونگ کے درمیان زیادہ تر پاکستانی گانے سنتا ہوں خاصکر احمد رشدی کے ) کچھ نغمے تو گذر گئے مگر ۔ ۔۔ جب عالی جی کا جیوے پاکستان لگا تو قسم سے دل اتنا بھر گیا کہ میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ۔ ۔ ۔ شارجہ کی سڑکوں پر شام کو بہت رش ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اسلئے گاڑی بہت سلو تھی ۔ ۔۔ اردگرد کے لوگوں کو لگا کہ شاید میں کسی پرابلم میں ہوں اشارہ کیا کہ کیا ہوا ۔ ۔ ۔ کیا بولتا بڑی مشکل سے گاڑی سائیڈ پر کی ۔۔ ۔ ۔ اور پھر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ ۔ ۔۔ میں اس اتوار کو پہلی دفعہ زندگی میں اپنے وطن کے لئے رویا ۔ ۔ ۔ میں نے کراچی میں بہت ظلم دیکھا مگر نہ رویا ۔ ۔ ۔ اور اس اتوار کو ۔ ۔ ۔ میں وطن سے دور ۔۔ ۔ ایک پرائے دیس میں اپنے وطن کے لئے ۔۔ ۔ ۔ ۔ رو دیا ۔ ۔ ۔ اور قسم سے اس دن واقعٰی ہی جیوے پاکستان کی صدا دل سے نکلی ۔۔ ۔ ۔

جھیل گئے دکھ جھیلنے والے ، اب ہے کام ہمارا
ایک رکھیں گے ، ایک رہے گا ، ایک ہے نام ہمارا
ایک ہے نام ہمارا ۔ ۔ ۔ ۔
پاکستان۔۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔۔
پاکستان، پاکستان۔ ۔ ۔ جیوے پاکستان ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
 

پاکستانی

محفلین
اظہرالحق نے کہا:
ایک پرانا ملی نغمہ یاد آ گیا عارفین نے اسکو کیا خوب گایا تھا ۔ ۔ ۔

اپنے دیس کا ہر اک موسم ، ہم کو پیارا لگتا ہے
لو بھی اچھی لگتی ہے ، بادل بھی اچھا لگتا ہے

باہر جتنی رنگینی ہو جتنا سونا چاندی ہو
اپنا گھر پھر اپنا گھر ہے ، امن جزیرہ لگتا ہے

اور ایک سچی سی بات لکھ رہا ہوں پتہ نہیں اسے شیئر کرنا چاہیے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اتوار کو آفس میں دل بہت اکتایا ہوا رہا ۔۔ ۔ واپسی پر جانے کیوں ملی نغمے لگا دئیے (میں ڈرائیونگ کے درمیان زیادہ تر پاکستانی گانے سنتا ہوں خاصکر احمد رشدی کے ) کچھ نغمے تو گذر گئے مگر ۔ ۔۔ جب عالی جی کا جیوے پاکستان لگا تو قسم سے دل اتنا بھر گیا کہ میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ۔ ۔ ۔ شارجہ کی سڑکوں پر شام کو بہت رش ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اسلئے گاڑی بہت سلو تھی ۔ ۔۔ اردگرد کے لوگوں کو لگا کہ شاید میں کسی پرابلم میں ہوں اشارہ کیا کہ کیا ہوا ۔ ۔ ۔ کیا بولتا بڑی مشکل سے گاڑی سائیڈ پر کی ۔۔ ۔ ۔ اور پھر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ ۔ ۔۔ میں اس اتوار کو پہلی دفعہ زندگی میں اپنے وطن کے لئے رویا ۔ ۔ ۔ میں نے کراچی میں بہت ظلم دیکھا مگر نہ رویا ۔ ۔ ۔ اور اس اتوار کو ۔ ۔ ۔ میں وطن سے دور ۔۔ ۔ ایک پرائے دیس میں اپنے وطن کے لئے ۔۔ ۔ ۔ ۔ رو دیا ۔ ۔ ۔ اور قسم سے اس دن واقعٰی ہی جیوے پاکستان کی صدا دل سے نکلی ۔۔ ۔ ۔

جھیل گئے دکھ جھیلنے والے ، اب ہے کام ہمارا
ایک رکھیں گے ، ایک رہے گا ، ایک ہے نام ہمارا
ایک ہے نام ہمارا ۔ ۔ ۔ ۔
پاکستان۔۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔۔
پاکستان، پاکستان۔ ۔ ۔ جیوے پاکستان ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
ان حالات پر ایک سچا پاکستانی چاہیے وہ کہیں بھی ہو ایسا نہیں جس کا دل رو نہ رہا ہو، ہر دل سے ایک ہی آواز آ رہی ہے۔
الہی پاکستان کی حفاظت فرما۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پاکستانی نے کہا:
اظہرالحق نے کہا:
ایک پرانا ملی نغمہ یاد آ گیا عارفین نے اسکو کیا خوب گایا تھا ۔ ۔ ۔

اپنے دیس کا ہر اک موسم ، ہم کو پیارا لگتا ہے
لو بھی اچھی لگتی ہے ، بادل بھی اچھا لگتا ہے

باہر جتنی رنگینی ہو جتنا سونا چاندی ہو
اپنا گھر پھر اپنا گھر ہے ، امن جزیرہ لگتا ہے

اور ایک سچی سی بات لکھ رہا ہوں پتہ نہیں اسے شیئر کرنا چاہیے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اتوار کو آفس میں دل بہت اکتایا ہوا رہا ۔۔ ۔ واپسی پر جانے کیوں ملی نغمے لگا دئیے (میں ڈرائیونگ کے درمیان زیادہ تر پاکستانی گانے سنتا ہوں خاصکر احمد رشدی کے ) کچھ نغمے تو گذر گئے مگر ۔ ۔۔ جب عالی جی کا جیوے پاکستان لگا تو قسم سے دل اتنا بھر گیا کہ میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ۔ ۔ ۔ شارجہ کی سڑکوں پر شام کو بہت رش ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اسلئے گاڑی بہت سلو تھی ۔ ۔۔ اردگرد کے لوگوں کو لگا کہ شاید میں کسی پرابلم میں ہوں اشارہ کیا کہ کیا ہوا ۔ ۔ ۔ کیا بولتا بڑی مشکل سے گاڑی سائیڈ پر کی ۔۔ ۔ ۔ اور پھر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ ۔ ۔۔ میں اس اتوار کو پہلی دفعہ زندگی میں اپنے وطن کے لئے رویا ۔ ۔ ۔ میں نے کراچی میں بہت ظلم دیکھا مگر نہ رویا ۔ ۔ ۔ اور اس اتوار کو ۔ ۔ ۔ میں وطن سے دور ۔۔ ۔ ایک پرائے دیس میں اپنے وطن کے لئے ۔۔ ۔ ۔ ۔ رو دیا ۔ ۔ ۔ اور قسم سے اس دن واقعٰی ہی جیوے پاکستان کی صدا دل سے نکلی ۔۔ ۔ ۔

جھیل گئے دکھ جھیلنے والے ، اب ہے کام ہمارا
ایک رکھیں گے ، ایک رہے گا ، ایک ہے نام ہمارا
ایک ہے نام ہمارا ۔ ۔ ۔ ۔
پاکستان۔۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔۔
پاکستان، پاکستان۔ ۔ ۔ جیوے پاکستان ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
ان حالات پر ایک سچا پاکستانی چاہیے وہ کہیں بھی ہو ایسا نہیں جس کا دل رو نہ رہا ہو، ہر دل سے ایک ہی آواز آ رہی ہے۔
الہی پاکستان کی حفاظت فرما۔
ثمَ آمین
 

باسم

محفلین
اظہر اب تک تو دل سے رو رہے تھے آپ کی تحریر پڑھ کر آنکھ بھی بھر آئی۔ :cry:
 

AHsadiqi

محفلین
الہی آمین ثم آمین
میرے اللہ ہم تیرے گناھگار بندے پردیس میں بیٹھ کر اپنے وطن کی مظلومیت پر آنسو بہارہے ہیں :cry: اے اللہ ہمیں اپنے وطن کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ میرے خالق تجھے اپنے محبوب کے دین کا واسطہ کے جس کے نام پر یہ پاکستان بنا ہے ہمارے ملک کی تا قیامت حفاظت فرما۔
 

باسم

محفلین
احمد فراز کے کچھ مزید اشعار
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے تو کون ہے میں کون ہوں، آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میان من و تو پھیلی ہے
- - -
پھر وہی خوف کی دیوار، تذبذب کی فضا
پھر ہوئی عام وہی اہل ریا کی باتیں
نعرہ حب وطن مال تجارت کی طرح
جنس ارزاں کی طرح دین خدا کی باتیں
- - -
مری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہونگے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے
میرے سینے پہ سدا اپنا ہی خنجر اترا
- - -
تم نے دیکے ہیں جمہور کے قافلے
ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
شاہراہوں پر جمی خون کی پپڑیاں
کہہ رہی ہیں کہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمہارے لیے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
- - -
ایسا لگتا ہے آج ہی کہے ہیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
[align=justify:31fee72128]فصیل ِ شہر بوسیدہ ہے، لوگو جاگتے رہنا
امیدِ شہر خوابیدہ ہے، لوگو جاگتے رہنا

چلی ہیں آندھیاں نفرت کی، طوفاں ہیں حوادث کے
ہر اِک دیوار لرزیدہ ہے، لوگو جاگتے رہنا

خزاں ہے جستجو میں ، اے بہاریں ڈھونڈنے والو!
ابھی ہر ظلم رقصیدہ ہے، لوگو جاگتے رہنا

ابھی اک سانحہ گزرا، ابھی اِک زخم تازہ ہے
فلک بھی آج نم دیدہ ہے، لوگو جاگتے رہنا

اَجل کے قافلے دیکھے گئے ہیں پھر گلستاں میں
کہ ہر سُو موت رقصیدہ ہے، لوگو جاگتے رہنا


کنور ، بدلا ہُوا لگتا ہے رنگِ آسماں مجھ کو
کوئی طوفان پوشیدہ ہے ، لوگو جاگتے رہنا

۔۔محمد سلیمان کنور

[/align:31fee72128]
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
:cry: :cry: :cry:
مجھے تو آج مولانا صاحب کی یہ بات سمجھ آئی
آزادی مکمل یا ادھوری؟“انگریز نے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور جہاد سے انہیں دور رکھنے کیلئے دوسرا سانپ علاقائی عصبیت اور لسانیت پرستی کا مسلط کیا وہ جانتا تھا کہ مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات اور اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اثر انگیز دعوت کی بدولت ہمیشہ رنگ و وطن سے بالاتر ہوکر ایک جسم کی طرح رہتے ہیں۔ ہر کلمہ گو مسلمان دوسرے کلمہ پڑھنے والے کا بھائی ہے۔ علاقائی حدود ، ملکی بارڈر ، رنگ ، زبانیں اور وطن انہیں جدا جدا نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں مسلمانوں کو مٹانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی کیونکہ اگر مغرب کے کسی کونے سے کوئی مسلمان پکارتا ہے تو پوری دنیا کے مسلمان اس کی مدد کیلئے متحد ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی اخوت کے اس شہد سے میٹھے رشتے کو ختم کرنے کیلئے انگریزوں نے جاگیردارانہ نظام کا سہارا لیا۔ اس نے اپنے وفادار چپڑاسیوں اور دست بستہ نوکروں کی اولاد کو کیمرج اور آکسفورڈ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم کیلئے بھیجا جب وہ پڑھ کر واپس آئے تو ان کو اعلیٰ ملازمتیں اور بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں۔ انگریز کے پروردہ یہ جاگیردار ایک طرف اپنے علاقے اور اپنی قوم کے افراد کا خون چوستے تھے اور ان سے دن رات بیگار لیتے تھے اور ان کے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھتے تھے تو دوسری طرف وہ ان مظلوم افراد میں علاقائی اور لسانی عصبیت کا زہر بھی بھرتے تھے اور ان پسے ہوئے مظلوموں کو یہ باور کراتے تھے کہ ہم تمہارے محافظ ہیں اگر ہم نہ ہوں تو دوسرے علاقے والے اور دوسری قوم والے تمہیں ختم کردیں گے۔ روٹی کے ایک ایک لقمے اور کپڑے کے ایک ایک لتے کے محتاج یہ بیچارے مظلوم یہی سمجھتے تھے کہ ان کے یہ آقا ان سے سچ کہہ رہے ہیں۔ اگرچہ علاقائیت کے یہ جراثیم انگریز سے پہلے بھی موجود تھے مگر انگریز نے اس نظام کو اتنی طاقت دی کہ برصغیر کے کروڑوں غریب عوام اپنے عیاش ، بدکار اور بدخصلت جاگیرداروں کے باقاعدہ غلام بن کر رہ گئے۔ یہ جاگیردار اپنے ہم قوم غلاموں کا خون چوس کر ان سے اپنی دولت بناتے تھے اور ان کی وفاداری کو پکا بنانے کیلئے ان میں علاقہ پرستی کا زہر گھولتے تھے اور پھر اپنی زمینوں کا خراج لے کر یہ جاگیردار انگریز کے دربار میں حاضری دیتے تھے اور اس کے بوٹ اپنی پگڑیوں سے صاف کرتے تھے انگریز اپنے ان وفادار لفافوں سے مطمئن تھا اور اسے یقین تھا کہ جمہوری نظام میں اس کے یہی وفادار ہی غریبوں کے ووٹ لے کر حکومتیں بنائیں گے اور برصغیر کا جاگیردارانہ جمہوری نظام انگریز کی وفاداری پر ہی استوار ہوگا۔

السلام علیکم

واجدحسین

بحوالہ
 
Top