فورم پہ ہی ایک دھاگے میں فراز صاحب کی ایک غزل " سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں "کے بارے میں دیکھا تو اس کا وزن " مَفَاعِلُن فَعِلاتُن مَفَاعِلُن فَعلُن/فعلن/فعلان/فعلان " بتایا گیا اس کی تقطیع کرنے کی کوشش کی کافی سارے شعروں کی کامیاب تقطیع کر لی مگر کچھ اشعار میں تھوڑی مشکل پیش آ رہی ہے...
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے...
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
ان اشعار کی تقطیع میں نے دو طرح سے کی ہے
1--- مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
یعنی سارے مصرعے ایک ہی بحر میں
مف عو ل م فا عی...
اور اس شعر کی تقطیع آسی صاحب نے یوں کی ہے
یہ کیا ماجرا ہے کیا اس پر ماہرین روشنی ڈالیں گے
اور ‘ فاعلن فاعلن مفاعیلن ‘ بحر کا کیا نام ہے
اور ‘ فعلت فاعلن مفاعیلن ‘ بحر کا کیا نام ہے اور کیا پوری غزل اس بحر میں کہی جا سکتی ہے
سوری غلطی ہو گئی آئندہ خیال رکھوں گا اصل متن یہ ہے
ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اُڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو
یا سانس کا لینا بھی گزر جانا ہے جی سے
یا معرکہء عشق بِھی اک کھیل تَھا دل کو
وہ آئیں تو حیرَاں وُہ...
نیرہ نور کی آواز میں ایک غزل سنی اور اس کے بعد اس کے درج ذیل تقطیع کی ہے کس حد تک درست ہے رائے کا انتظار رہے گا
مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
ہر چن د س ہا را ہَ ت رے پا ر کَ دل کو
رہ تا ہَ م...
وہ کہتے ہیں، نکلنا اب تو دروازے پہ مشکل ہے
قدم کوئی کہاں رکھے؟ جدھر دیکھو اُدھر دل ہے
کہیں ایسا نہ ہو تُجھ پر بھی کوئی وار چل جائے
قضا ہٹ جا کہ جُھنجھلایا ہوا اِس وقت قاتل ہے
طنابیں کھینچ دے یارب، زمینِ کوئے جاناں کی
کہ میں ہوں ناتواں، اور دن ہے آخر، دُور منزل ہے
مرے سینے پہ رکھ کر ہاتھ کہتا ہے...
شکریہ الف عین صاحب
مطلب یہ تقطیع درست ہو گی
ف عو لن == ف عو لن == ف عو لن == ف عو لن
ت ام ال == تو تا ان == کُ آ نے == م قا صد
م گر یہ == ب تا طر == ز ان کا == ر کا تی
نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
کھنچے خود بخود جانب طور موسی
کشش...