السلام علیکم سب کو
سلام کے بعد ایک غزل حاضر هے
شرارتیں بھی ، محبت بھی ، بدگمانی بھی
عجیب سی ہے صنم ! آپ کی کہانی بھی
تمہارے قرب کی لذت سے ہوگئے واقف
بسر کریں گے ، بنا تم یہ زندگانی بھی
سنا ہے شوق ہے اسکو پرانے قصوں کا
اسے سنانا کسی دن مری کہانی بھی
وہی تو ایک حسینہ ہے میرے گاؤں کی
ملی ہے موت...
زمیں پر چاند اترا ہے
کبھی دیکھا نہیں تم نے
کبھی گر دیکھنا چاہو
مجھے کہنا
ٹهکانہ میں بتا دو گا
ہمارے گھر سے بس کچھ ہی
مسافت پر
وہ مغرب کی طرف مسجد
وہ مسجد سے لگا کمرہ
اُسی کے سامنے والا
جو گھر تم کو نظر آئے
وہ میرے چاند جی کا ہے
ارشد خان
صبح کو رات میں داخل بھی وہی کرتا ہے
درمیاں شام کو حائل بھی وہی کرتا ہے
وہی گویائی عطا کرتا ہے رفتہ رفتہ
پھر زباں حمد کے قابل بھی وہی کرتا ہے
حوصلہ دیتا ہے وہ بے سر و سامانی میں
دل کو دنیا کے مقابل بھی وہی کرتا ہے
وقت اس کا ہے، زماں اُس کے، زمانے اُس کے
ان کو احساس پہ نازل بھی وہی کرتا ہے...
رختِ سفر ہے اِس میں قرینہ بھی چاہیے
آنکھیں بھی چاہئیں ، دلِ بینا بھی چاہیے
اُن کی گلی میں ایک مہینہ گذار کر
کہنا کہ اور ایک مہینہ بھی چاہیے
مہکے گا اُن کے در پہ کہ زخمِ دہن ہے یہ
واپس جب آؤ تو اسے سینا بھی چاہیے
رونا ہو تو چاہیے ہے کہ دہلیز اُن کی ہے
رونے کا رونے والو، قرینہ بھی چاہیے
دولت...