امیرِ شہر تری سادگی قیامت ہے
تُو محوِ جشن ہے فاقوں سے مر رہے ہیں لوگ
مجھے بھی اپنی زباں کھولنا پڑے گی نوید
مری خموشی پہ الزام دھر رہے ہیں لوگ
نویدصدیقی
السلام علیکم! یہ میری ہی ایک غزل کا مصرعہ ہے ۔مکمل غزل کچھ یوں ہے:
بیاں میں جرم کے حد سے گزر رہے ہیں لوگ
خلافِ واقعہ تحریر کر رہے ہیں لوگ
شعور کا ہے کرشمہ یہ شوقِ تنہائی
کہ رفتہ رفتہ نظر سے اتر رہے ہیں لوگ
یہ آج کل کا نہیں ہے رواج صدیوں کا
ہوا جدھر کی چلی بس ادھر رہے ہیں لوگ
ہے غم چھپانے کا نسخہ تپاک تھوڑی ہے
یہ بات بات پہ ہنسنا مذاق تھوڑی ہے
ہم اپنے آپ کو ہربار کیوں غلط سمجھیں؟
جہان سارا خطاؤں سے پاک تھوڑی ہے
ہمارا وقت اسی شغل میں گزرتا ہے
پڑھانا پڑھنا طبیعت پہ شاق تھوڑی ہے
یہ اور بات کوئی مانتا نہیں ہے مگر
ہمارے ملک میں سب ٹھیک ٹھاک تھوڑی ہے
کسی بھی کام کو انجام...