اداسی کا ہیولا جس دل میں پنجے گاڑھ دیتا ہے
امیدوں کے سبھی پتے شجر سے جھاڑ دیتا ہے
یہی ہے ڈر "دسمبر" کا جبھی تو پہلے سے مضطر
"نومبر" کے گزرنے پر "کیلنڈر" پھاڑ دیتا ہے
ایک مصرعہ کہ،
کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی
پر بندہء ناچیز نے کچھ طبع آزمائی کی ہے تصحیح اور اصلاح کی درخواست ہے۔
۔
رانی محل سرا کی بہت مہ جبین تھی
کہتے ہیں اہل علم ، یہیں پر مقیم تھی
گو،، حال خستہ حال ہے ماضی تو خوب تھا
کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی
کب تک رہو گے آخر یوں دور دور ہم سے
ملنا پڑے گا تم کو ایک دن ضرور ہم سے
دامن بچانے والے یہ بے رخی ہے کیسی
کہہ دو اگر ہوا ہے کوئی قصور ہم سے
کب تک رہو گے آخر یوں دور دور ہم سے
ملنا پڑے گا تم کو اک دن ضرور ہم سے
دامن بچانے والے یہ بے رخی ہے کیسی
کہہ دو اگر ہوا ہے کوئی قصور ہم سے
ہم چھین لیں...
اَربابِ علم دانش سے گذارش ہے کہ
یہ چند اشعار کے پہلے مصرعے ہیں جو اس پوسٹ میں شامل نہیں کیے گئے اگر آپ کے علم میں ہوں تو اِن کو بھی مکمل کر دیجیئے۔ میں بذات خود انٹرنیٹ پر ان
کو تلاش کرنے کی سعی کرچکا ہوں لیکن ناکامی ہوئی،
)ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمکو بھی لے ڈوبیں گے1)
کھنڈر بتا رہے ہیں...
مانی متیئے روپ گمان بھریئے
بھیڑو کاریئے گرب گہیلیئے نی
ایڈے فن فریب کیوں کھیڈ نی ایں
کسے وڈے استاد دیئے چیلیئے نی
تیری بھابھی دی نہی پرواہ سانوں
وڈی ہیر دی انگ سہیلیئے نی
ملے سراں نوں نہ وچھوڑ دیجیے
ہتھوں وچھڑے سراں نوں میلیئے نی
کیہا ویر فقیر دے نال چائیو نی
پچھا چھڈ انو کھیئے لیلیئے نی
وارث...