ایک تازہ کلام
استادِ محترم الف عین
اور دیگر اساتذہ و احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں
یہ مرے حرف یہ مری آواز
جرسِ کاروانِ زیست کا ساز
میں بھی موجود و منتظر ہوں یہیں
دیکھ ادھر کو بھی اے بتِ طناز
یہ تری چپ ہے بے نیازی کیا
یا پھر اظہار کا نیا انداز
کم نہیں ہیں ریاضتیں میری
اک...
محترم یاسر شاہ صاحب
آپ کا تبصرہ پڑھ کر خوشی ہوئی۔
میری محدود سمجھ کے مطابق میں نے کسی ایک مخصوص رات ہی کا ذکر کرنا چاہا تھا، تبھی تو دوسرے مصرعے میں آج کا محل بنتا۔ اور ہاں وہ مخصوص رات ہر بار دسمبر میں آتی ہے۔ اور ایک ہی ستمگر یاد دلاتی ہے۔ مختصر یہ کہ جیسا آپ نے سمجھا...
بھیگتی رات لئے پھر سے دسمبر آیا
آج پھر یاد ہمیں ایک ستمگر آیا
پھر سے ملنا ہے اسے اور بچھڑ جانا ہے
ہائے کس موڑ پہ لے کر یہ مقدر آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ پتھر ہے دھرا سینے میں
ذکر پھر کس کا چھڑا ہے کہ یہ جی بھر آیا
شہرِ ظلمت میں جلانے کو نئی شمعِ امید
نامہِ عشق لئے کون پیمبر آیا
چیختی خامشی...
میری ابزرویشن معاملے کیسرعی حیثیت کے حوالے سے نہیں بلکہ ایک سماجی رویئے سے متعلق تھی اور میرے بچپن کا دور آج سے پانچ عشرے پرانا ہے ستر کی دہائی کی بات کر رہا ہوں۔ :)
یہ خاصا پیچیدہ موضوع چھیڑ دیا محترم، میری صرف ایک ابزرویشن ہے، کونڈوں کو عموما خفیہ رسم کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، لیکن اپنے بچپن میں مجھے یاد ہے کہ محلے میں اہلِ تشیع گھروں میں کھلے عام اس کی دعوت ہوتی تھی اور ہم اہلِ سنت محلہ داروں کو بھی مدعو کیا جاتا تھا اور ہم چلے بھی جاتے تھے۔ کچھ روشنی...
یہ غزل نوے کی دہائی میں لکھی تھی۔ محفل میں شمولیت کے ابتدائی دنوں میں اصلاح سخن میں پیش کی تو کئی اغلاط سامنے آئیں۔ اب ان کی درستی کرکے یہاں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
محترم الف عین اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
رفاقتوں کے عذاب سارے ،گئی رتوں کے حساب سارے
تمہارے ہی نام منتسب ہیں مری...