وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی ٴ دل و جاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں...
ہر ایک لمحے کے اندر قیام تیرا ہے
زمانہ ہم جسے کہتے ہیں نام تیرا ہے
درائے اول و آخر ہے تو مرے مولٰی
نہ ابتدا نہ کوئی اختتام تیرا ہے
تری ثنا میں ہے مصروف بےزبانی بھی
سکوتِ وقت کے لب پہ کلام تیرا ہے
شعور نے سفرِ لاشعور کر دیکھا
تمام لفظ ہیں اسکے ’دوام‘ تیرا ہے
تمام عمر کٹے اِک طویل سجدے میں...