یہ جو دھواں دھواں سا ہے دشت گماں کے آس پاس
کیا کوئی آگ بجھ گئی ہے سرحد جاں کے آس پاس
شور ہوائے شام غم یوں تو کہاں کہاں نہیں
سنیے تو بس سنائی دے درد نہاں کے آس پاس
آگ
فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے
اے گل تازہ بہت دیر لگا دی تو نے
کوئی صورت بھی رہائی کی نہیں رہنے دی
ایسی دیوار پہ دیوار بنا دی تو نے
شہزار احمد
رہائی
جشن مہتاب گرفتار بھی کر سکتے ہیں
روشنی روزن و دیوار بھی کر سکتے ہیں
یوسف شہر ، تجھے تیرے قبیلے والے
دام لگ جائیں تو بازار بھی کر سکتے ہیں
عرفان صدیقی
دام
دل میں شرمندہ ہیں احساس خطا رکھتے ہیں
ہم گنہ گار ہیں پر خوف خدا رکھتے ہیں
ہم نے مانا کہ تہی دست ہیں پر سب کے لئے
دل میں گنجینہ اخلاص و وفا رکھتے ہیں
وفا
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی میرے گھر کا ہی مقدر کیوں ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
محسن نقوی
سزا