شِکنجے ٹُوٹ گئے ، ’’زَخم‘‘ بدحواس ہُوئے
سِتم کی حد ہے کہ اِہلِ سِتم اُداس ہُوئے
عُدو نے ایسا بہایا ، لہو کا سونامی
سفینے زِندہ دِلوں کے بھی ، غرقِ یاس ہُوئے
حساب کیجیے ، کتنا سِتم ہُوا ہو گا
کفن دَریدہ بدن ، زِندگی کی آس ہُوئے
کچھ ایسا مارا ہے شب خون ، اِبنِ صحرا نے
سمندَروں کے سَبُو پیاس ،...
سانسوں میں بغاوَت کا سُخن بول رہا ہے
تقدیر کے فرزَند کا دِل ڈول رہا ہے
اَفلاک کی وُسعت پہ تلاطُم ہی تلاطُم
شاہین اَبھی پرواز کو پر تول رہا ہے
چیتے کی گرج دار صدا ، قومی ترانہ
شیروں کا شروع سے یہی ماحول رہا ہے
پرواز کی قیمت پہ ملے رِزق تو لعنت
غیور پرندوں کا یہی قول رہا ہے
دِہقان کے اِفلاس...
دِل دَھڑکنے پہ بھی پابندی لگا دی جائے
لاش اِحساس کی سُولی پہ چڑھا دی جائے
ذِہن کی جامہ تلاشی کا بنا کر قانون
سوچنے والوں کو موقعے پہ سزا دی جائے
آرزُو جو کرے دیوانوں میں کر دو شامل
خواب جو دیکھے اُسے جیل دِکھا دی جائے
جاں بچانے کا پتنگوں کی بہانہ کر کے
شمع جلنے سے بھی کچھ پہلے بجھا دی جائے...
سنگلاخ چٹانوں کی گھٹا دیکھ رہا ہوں
دھرتی پہ خشم گین خدا دیکھ رہا ہوں
یہ زلزلے کا جھٹکا ہے یا رب نے کہا ہے
اِس شہر میں جو کچھ بھی ہوا ، دیکھ رہا ہوں
اِقرا کے مبلغ نے سرِ عرش یہ سوچا
اب تک میں جہالت کی فضا دیکھ رہا ہوں
اِکراہ نہیں دین میں ، نہ جبر روا ہے
تلواروں پہ یہ صاف لکھا دیکھ رہا ہوں...
غُرور بیچیں گے ، نہ اِلتجا خریدیں گے
نہ سر جھکائیں گے ، نہ سر جھکا خریدیں گے
قَبول کر لی ہے ، دیوارِ چین آنکھوں نے
اَب اَندھے لوگ ہی ، رَستہ نیا خریدیں گے
جھُکیں تو اُس کو ’’سخاوت‘‘ لگے یہ جھُکنا بھی!
اَب اَپنے قَد کا ’’کوئی‘‘ دیوتا خریدیں گے
یہ ضدی لوگ ہیں اِن سے وَفا کی رَکھ اُمید
جفا...