شِکنجے ٹُوٹ گئے ، ’’زَخم‘‘ بدحواس ہُوئے-شہزاد قیس

عتیق منہاس

محفلین
شِکنجے ٹُوٹ گئے ، ’’زَخم‘‘ بدحواس ہُوئے
سِتم کی حد ہے کہ اِہلِ سِتم اُداس ہُوئے

عُدو نے ایسا بہایا ، لہو کا سونامی
سفینے زِندہ دِلوں کے بھی ، غرقِ یاس ہُوئے

حساب کیجیے ، کتنا سِتم ہُوا ہو گا
کفن دَریدہ بدن ، زِندگی کی آس ہُوئے

کچھ ایسا مارا ہے شب خون ، اِبنِ صحرا نے
سمندَروں کے سَبُو پیاس ، پیاس ، پیاس ہُوئے

نجانے شیر کے بچے ، اُٹھا لیے کِس نے
یہ مُوئے شَہر جو ، جنگل کے آس پاس ہُوئے

خُدا پناہ! وُہ کڑوا خِطاب رات سُنا
کریلے نیم چڑھے ، باعثِ مِٹھاس ہُوئے

ہر ایک فیصلہ ، محفوظ کرنے والو سنو!
جھکے ترازُو ، شَبِ ظلم کی اَساس ہُوئے

گلابی غُنچوں کا موسم اُداس کرتا ہے
کچھ ایسے دِن تھے ، جب اُس گل سے رُوشناس ہُوئے

ہر ایک شخص کا ، سمجھوتہ اَپنے حال سے ہے
خوشی سے سانس اُکھڑنا تھا ، غم جو راس ہُوئے

قبائے زَخمِ بَدن ، اَوڑھ کر ہم اُٹھے قیس
جو شاد کام تھے ، مِحشَر میں بے لباس ہُوئے

شہزاد قیس کی کتاب "اِنقلاب" سے انتخاب
 
Top