شہباز خالدؔ کلکتوی

شہباز خالدؔ کلکتوی

اصل نام محمد شہباز عالم اور قلمی نام شہباز خالدؔ ہے۔والد محترم جناب واجد حسین اور والدہ محترمہ حسنہ آرا ہیں ایک بڑی بہن (رخسار واجد) اور دو چھوٹے بھائی (کوثر اور توقیر) ہیں پیدائش 25 جولائی 2000ء کو کولکاتا کے چھوٹے سے قصبے کمرہٹی میں ہوئی بچپن سے بہت سنجیدہ پر بڑے ہو کر ذرا سی تبدیلی آئی اور سماجیات کا اثر پڑا لوگوں کی صحبت اور الگ الگ فکر کے لوگوں کی نسبت سے کافی تبدیلیاں ہوتی رہی سوچنے کی عادت تو دورِ طفلی سے رہا شروع سے اردو زبان سے بہت محبت رہی اور اسی محبت کے بنا پر آج اردو آنرس کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی تیاری میں ہیں۔اردو ادب کی صنفِ شاعری پر زور دیے ہوئے ہیں مگر ڈرامہ نگاری اور مضامیں بھی لکھا کرتے ہیں۔بچپن سے اپنی آواز سے نعت کے اشعار پڑھنے کا شوق رہا اسی شوق سے آگے شاعری کرنے میں بہت مدد ملی اور مل رہی ہے

شاعری کا آغاز......
جب ساتویں جماعت میں پہنچے تب ہی سے شاعری کے جراثیم جسم میں گردش کرنے لگے اور نویں جماعت سے مکمل شعر گوئی شروع کردی آغاز میں دورانِ کلاس نثار نامی استاد کی بے پناہ عنایت رہی انکے پڑھانے اور شعر سجھانے کا انداز شاعری کی طرف رغبت بڑھانے میں کافی حد تک مدد کرتا رہا۔ڈاکٹر عرفان الہٰ بادی نے محمد شہباز عالم کو شہباز خالد بنایا انہوں نے ہی راہ چلتے ہوئے کہا کہ شہباز تم شہباز عالم شہباز سے شہباز خالد ہو جاؤ انکی پیشکش بہت پسند ہوئی

اخلاق اور پیار محبت سیکھا دیا
اوراقِ زندگی مجھے ہنس کر پڑھا دیا
احسان ہے یہ آپ کا اے ڈاکٹر عرفان
تنہا سا میں شہباز تھا خالدؔ بنا دیا


تعلیمی دور ........
ابھی کولکاتا کے مشہور کالج جس کا نام مولانا آزاد کالج ہے جو کہ اردو آنرس کیلئے بہت ہی بہترین کالج ہے اسی کالج کے طالبِ علم ہیں چونکہ اردو والے ہیں تو اردو آنرس ہی لیکر پڑھ رہے ہیں اسی کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنی ہے اور آگے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہندوستان کے کسی بڑے اردو کے ادارے کسی بڑی یونیورسیٹی سے حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں

گھریلوں حالات .........
ایک اکیلا والد ہی گھر کی ذمہ داریاں اٹھائیں ہوئے ہیں اور گھر پر چھ لوگ ہیں ساتھ ہی اپنا کوئی ذاتی مکان نہ ہونے کی صورت میں ہر دو تین سال کے بعد کئی دوسری رہائش گاہ کے انتظام میں لگ جاتے ہیں

زخم آلودہ ابھی میرا بدن لگتا ہے
کیا کرایے کے مکان میں کبھی من لگتا ہے
شہباز خالدؔ کلکتوی

کبھی کسی جلسے یا مشاعرے سے خود کی آمدنی نکل آتی ہے اور خود کا بوجھ والد پر نہیں پڑتا بچوں کو پڑھانے کی وجہ سے بھی خود کے اخراجات میسر ہوجاتے ہیں

خوب ابّا کی کمائی کا مزا تم نے لیا
اب تو وقت آگیا خالدؔ کہ کمانا ہوگا
خالد کلکتوی

شاعری رنگ ......
ساتویں جماعت میں نعت لکھنی کی کوشش کی مگر کیا کہے
آغاز ہر شاعر کی طرح غزل کے شعر سے ہی ہوا عشق مجازی دنیاوی محبت ہجر و وصال لب و رخسار زلف و گیسوں ابرو و آنکھیں یہ سارے موضوع ہوئے اب بھی کبھی کبھی ایسے موضوع ہوجاتے ہیں پر اب رنگ بہت مخلتف ہو چکا ہے اب شاعری میں حالات جذابات تصوف عشق حقیقی کا مواد زیادہ ہوتا ہے۔اپنی شاعری سے مسلمانوں کو بھی پیغام اور انکی اصلاح کی کوشش ہوا کرتی ہے جذبائے ایمانی کو بیدار کرنے والے شعر بھی لکھا کرتے ہیں

اب جو سہتے رہے! روداد ہی ہوجائیں گے
بھولی بسری ہوئے اک یاد ہی ہوجائیں گے
ہم دعا مانگتے فریاد ہی ہوجائیں گے
اب نہ سمجھیں گے تو برباد ہی ہوجائیں گے
اٹھ کے بتلا ؤ کہ اس قوم کی پہچان ہے کیا
روشن ہو جائے حقیقت میں مسلمان ہے کیا

شہباز خالدؔ کلکتوی

بہت سارے اشعار لکھے اور لکھ رہے ہیں ان شاءاللّہ بہت جلد کلام کا مجموعہ منظرِ عام پر آنے والا ہے
یوم پیدائش
جولائی 25، 2000 (عمر: 23)
ذاتی ویب سائٹ
https://www.facebook.com/shahbaz.khalid.5076
مقام سکونت
کولکاتا
موڈ
Cheerful
Gender
Male
Occupation
طالب علم

تمغے

  1. 2

    کسی نے آپ کا پیغام پسند کیا ہے۔

    Somebody out there reacted positively to one of your messages. Keep posting like that for more!
  2. 1

    پہلا پیغام

    اس ٹرافی کو حاصل کرنے کے لیے اس سائٹ پر کہیں کوئی مراسلہ شامل کریں۔
Top