You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly. You should upgrade or use an alternative browser.
سعید خان
بہت شاداب لیکن بے ثمر تھا
کسی ناراض موسم کا شجر تھا
وہ صدیوں کا تھکا ہارا مسافر
جسے درپیش لاحاصل سفر تھا
وہ اپنے آپ سے بچھڑا ہوا تھا
تلاشِ گم شدہ میں در بدر تھا
بدن کہتا تھا کتنی داستانیں
زباں چپ تھی کہ رسوائی کا ڈر تھا
وہ سوچوں میں ستارے ٹانکتا تھا
کہ اس کی راکھ میں کوئی شرر تھا
مثالِ آئنہ تھیں اس کی آنکھیں
مگر اس کا زمانہ کم نظر تھا
وہ اَن دیکھے خداکو مانتا تھا
فرشتوں سے زیادہ معتبر تھا
خرد مندوں کے شہرِ بے ہنر میں
وہ زندہ تھا یہی اس کا ہنر تھا
دیا اس کا ُبجھا رہتا تھا عاجزؔ
کسی آسیب کا شاید اثر تھا
مشتاق عاجز