تنخواہ انکے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اصل اہمیت مراعات اور وزارت کے کاروباری فوائد کی ہے۔
زرداری نے ایوان صدر کیلئے اربوں کے فنڈز منظور کروائے، علیم خان کی سوسائٹی منظور ہوگئی، باقی وزراء بھی بہتی گنگا میں نہارہے ہیں۔
زرد صحافت ہر دور میں ہی تھی، پہلے کچھ بھرم رہ جاتا تھا اور چپکے چپکے سب ہوتا تھا، مگر اب سب کھل کھلاکر ہوتا ہے، صحافی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں سے وابستگی کھل کر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں تمغے اور انعام ملتے ہیں اور وہ اس پر شرمندہ ہونیکی بجائے فخر کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ہمارے حلفائے راشدین نے ہمیں حکومت کرنے کا ماڈل بناکر دیا ہے لیکن ہم اس بحث میں پڑے ہیں کہ جمہوری نظام میں پارلیمانی نظام بہتر ہے یا صدارتی نظام
وہ قومیں ہمیشہ ذلیل اور پسماندہ رہتی ہیں جو زمانے کیساتھ آگے نہیں بڑھتی۔۔ ہماری حکومتیں نئی ٹیکنالوجی اور ٹرینڈز سے مستفید ہونے کی بجائے کنوئیں کی مینڈک بنی رہتی ہیں۔ایک کردار پیشہ ور مولویوں کا بھی ہے جو کبھی موبائل فونز کو فتنہ، ٹی وی کو شیطان کا ہتھیار کہہ کر جہنم واصل کرنیکا کہتے ہیں اور آج...
تیسری دنیا کے ممالک میں سیاست میں اخلاقیات صرف مخالف کیلئے ہوتی ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے دوسروں کے ووٹ کی بے حرمتی کرتے ہیں سندھ ہاؤس میریٹ ہوٹل کی طرح
جو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں اسے دوسروں کیلئے حرام سمجھتے ہیں
تحریک انصاف کی حکومت ہے اسلئے جیت گئی، پیپلزپارٹی بھی آزادکشمیر الیکشن جیتی تھی لیکن جنرل الیکشن میں بہت مارپڑی تھی انہیں ۔پتہ تو جنرل الیکشن میں چلے گا
پاکستان میں مانگنے کے رجحان کو بھکاریوں سے زیادہ ہمارے سیاستدانوں نے فروغ دیا۔یہی وجہ ہے کہ ہم قرض بھی لیتے ہیں تو وہ بھی بھیک کی صورت میں ہمیں ملتا ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران اگر چاہیں تو بہت سے کام نپٹائے جاسکتے ہیں جیسے کوئی آئی ٹی سے وابستہ ہے تو نئے ڈویلپمنٹ ٹول سیکھ لے، کوئی انفارمیشن والی ویب سائٹ بنالے جس سے آمدن ممکن ہو۔۔
لاک ڈاؤن کے دوران بیوی کے ساتھ ہاتھ بٹائیں اور مزیدار کھانے پکانے سیکھیں ۔
فارغ بیٹھنے سے صرف لڑائی جھگڑے اور مسائل ہیں۔