وہ مجھے مہندی لگے ہاتھ دکھا کر روئی
میں کسی اور کی ہوں بس اتنا بتا کر روئی
عمر بھرکی جدائی کا خیال آیا تھا شاید
وہ مجھے پاس اپنے دیر تک بٹھا کر روئی
اب کے نا سہی ضرور حشر میں ملیں گے
یکجا ہونے کا دلاسہ دالا کر روئی
کبھی کہتی تھی کہ میں نہ جی پاؤں گی تمہارے بن
اور آج پھر وہ یہ بات دھرا کر روئی...
روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں
احمد فراز
روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سیکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب...
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ...
تنہائی کے لمحات کا احساس ہوا ہے
جب تاروں بھری رات کا احساس ہوا ہے
کچھ خود بھی ہوں میں عشق میں افسردہ و غمگیں
کچھ تلخئ حالات کا احساس ہوا ہے
کیا دیکھیے ان تیرہ نصیبوں کا ہو انجام
دن میں بھی جنہیں رات کا احساس ہوا ہے
وہ ظلم بھی اب ظلم کی حد تک نہیں کرتے
آخر انہیں کس بات کا احساس ہوا ہے...
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے
لٹاتے دولت دنیا کو میکدے...
سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو...
اس پر ایک اور !!!
یوسف نا تھے مگر سرِ بازار آگئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آگئے
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے
آواز دے کے چُھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے
اُٹھا کے پتّھر ہیں مارے تُو نے، بتا کہ اِس میں کمال کیا ہے؟
حبیب بن کر رقیب ٹھہرے، بس اور مجھ کو ملال کیا ہے
شکست میرے نصیب میں تھی، شکست بھی خوب دی ہے تُو نے
ستم بھی تیرے، کرم بھی تیرے۔۔سو اِس سے بڑھ کر مثال کیا ہے؟
کوئی بہانا بنا کے دلبر قریب آئے، مناؤں مَیں شکر
وہ دل دُکھانے ہی آئے ہر دن،...