ذوالفقار علی بخاری کی سرگزشت تیسری مرتبہ شائع ہوگئی ہے

Rashid Ashraf

محفلین
ذوالفقار علی بخاری کی خودنوشت بعنوان "سرگزشت" کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوگیا ہے

کتاب کی اشاعت یقیننا ایک مستحسن عمل ہے لیکن اس معاملے میں نیشنل بک فاونڈیشن کے مختار اعلی مظہر السلام کے ہوتے ہوئے ایک ایسی فاش غلطی کی گئی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ خودنوشت ذوالفقار علی بخاری کی ہے جبکہ سرورق پر تصویر ان کے بڑے بھائی پطرس بخاری کی شائع کردی گئی ہے۔ يہ ايک حيرت انگيز بات ہے ليکن اس کي بھي کوئي وجہ رہي ہوگي، يہ الگ بات ہے کہ وہ وجہ، بلاوجہ ہو، مظہر السلام سے براہ راست دريافت کيا جاسکتا ہے، ديکھيے غلطي کا اقرار کرتے ہيں يا کوئي جواز، بلاجواز پيش کرتے ہيں

ہمارے دوست و کرم فرما جناب عقیل عباس جعفری کا تبصرہ ملاحظہ ہو:

"يہ سرکاري ادارے کچھ بھي کرسکتے ہيں جناب۔۔ کچھ عرصے قبل اکادمي ادبيات پاکستان نے پاکستاني ادب کے مشاہير سيريز ميں سيد آل رضا کي جو کتاب چھاپي تھي اس پر تصوير وحيد الحسن پاشمي کي چھپي تھي ۔۔ جن مصنفہ کي کتاب تھي انھوں نے سيد آل رضا پر پي ايچ ڈي کي ڈگري حاصل کي ہوئي ہے۔
راشد مياں! اب تو عذر گناہ بد تر از گناہ والا قصہ ہوگا۔۔ مطہر صاحب يہي کہيں گے کہ کيا فرق پڑتا ہے، صحيح بخاري نہ سہي ، غلط بخاري سہي"

عقیل جعفری صاحب نے صحیح بخاری/غلط بخاری والی بات خوب کہی، خدا جانے يہ پھبتي کس نے کسي تھي, اس وقت ياد نہيں آرہا۔ ہندوستان کے ایک دوست کے مطابق یہ مجاز مرحوم کا فقرہ ہے۔
یہاں بي بي سي سي کے تعلق سے سردار ديوان سنگھ مفتوں کي دونوں بھائيوں پر کسي پھبتي ياد آرہي ہے جس ميں سردار صاحب نے کہا تھا کہ يہ بي بي سي دراصل بخاري برادرز کارپوريشن ہے, اس زمانے ميں بڑے اور چھوٹے بخاري، دونوں بي بي سي ميں تھے
اور زيڈ اے بخاري صاحب نے کچھ اس قسم کي بات کہي تھي
واہ سردار ديوان سنگھ! تم جيسا نہ دوست ديکھا اور نہ دشمن!

وہ دور گیا جب ریڈیو سے ایسے لوگ وابستہ تھے جنہوں نے ملازمت کو ملازمت نہ سمجھا، بلکہ عبادت سمجھ کر کرتے رہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ریڈیو سے جو بھی شخص وابستہ ہوگا وہ نہایت باخبر ہوگا، سیاست سے بھی اور ادب سے بھی، شائستگی اس پر ختم ہوگی، زبان کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی، خوش لباسی اس پر ختم ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن صاحب پچھلے دنوں کراچی حسن اسکوائیر میں واقع ایف ایم 101 کے دفتر گیا تھا، پان کی پیکوں سے استقبال ہوا جو سیڑھیوں کے آغآز ہی سے کونوں میں اپنی بہار دکھلا رہی تھیں، خیر جانے دیجیے، کبھی کبھی ہم بھی پان سے شوق کرلیتے ہیں لیکن عملے کے دو ارکان ایسے تھے جن کے منہ میں ‘گٹکا‘ نظر آیا جو پان کی ایک خطرناک حد تک بگڑی ہوئی شکل ہے، چلیے چھٹی ہوئی، اب وہ حضرات ہم سے گفتگو کرلیں یا اپنے گٹکے کو سنبھال لیں۔ پھر اس نامعقول چیز کو تھوڑی تھوڑی اگلنا بھی پڑتا ہے، اس کے لیے غسل خانے کون جائے، دیواروں کے کونے جو ہیں!
یہاں زبانیں اب دھلی ہوئی نہیں بلکہ رنگی ہوئی نظر آتی ہیں!
جناب ذوالفقار علی بخاری، جناب حمید نسیم، جناب ابو الحسن نغمی، جناب جمیل زبیری، جناب ناصر قریشی نے ریڈیو کے تعلق سے آپ بیتیاں لکھ کر ایک عہد کو سمیٹا اور محفوظ کردیا۔ پڑھنے والوں نے پڑھنے کا حق ادا کردیا، دل کی آنکھوں سے پڑھا اور ذہنوں میں محفوظ کیا، آج بھی لوگ مجھ سے فرمائش کرتے ہیں کہ کتابوں کے اتوار بازار سے اگر بخاری صاحب کی "سرگزشت" ملے تو خرید لیجیے گا، لیکن صاحب کہاں ملتی ہے آسانی سے، ایک مرتبہ 1962 میں شائع ہوا پہلا ایڈیشن نظر آیا تو اٹھا کر سینے سے لگایا اور فرط مسرت سے جھومتا ہوا آگے بڑھا تھا، اتنا کہ کتب فروش کو پیسے دینا ہی
بھول گیا!
سرگزشت مین ایک جگہ ذوالفقار علی بخاری لکھتے ہیں:
اس زمانے میں چینل بدلنے کے لیے اسٹوڈیو میں ریڈیو کی گھنڈی موڑنا پڑتی تھی، سلطنت انگلشیہ کے بادشاہ جارج پنجم گزر گئے، ان کی خبر نشر ہورہی تھی، حکم تھا کہ تمام پروگرامز بند کردو، صرف خبریں سناؤ اور لہجہ ایسا ہو کہ جیسے تمہارا کوئی اپنا مرگیا ہے۔
دوسری طرف طبلہ نواز استاد ملنگ خان اپنے پروگرام کی تیاری میں مصروف تھے اور مزاج ان کا بگڑا ہوا تھا۔ ایک چینل سے آغآ اشرف خبر نشر کررہے تھے " ملک معظم نے انتقال سے سے پانچ منٹ قبل فرمایا"
آغا صاحب کو اسی وقت سخت کھانسی اٹھی، اور انہوں نے جھٹ گھنڈی گھما دی، وہاں استاد ملنگ خان غصے میں فرما رہے تھے: "میری ہتھوڑی کون حرامزادہ لے گیا ہے"
بخآری صاحب لکھتے ہیں، یہ جملہ یوں مکمل حالت میں نشر ہوگیا :
"ملک معظم نے انتقال سے تقریبا پانچ منٹ قبل فرمایا میری ہتھوڑی کون حرامزادہ لے گیا ہے"
اے حمید صاحب نے ریڈیو پاکستان لاہور کے ساتھیوں کے خاکے لکھے اور کیا عمدہ لکھے، ان کی کتاب چاند چہرے میں یہ خاکے شامل ہیں، مشفق خواجہ مرحوم اس نوع کی کتابوں کو خودنوشت آپ بیتیوں ہی میں شمار کیا کرتے تھے۔
کراچی مقیم سعید قریشی صاحب روزنامہ امت میں ریڈیو کے 25 برس کے عنوان سے اپنی آپ بیتی قسط وار لکھ رہے ہیں، 100 اقساط سے زیادہ ہوچکی ہیں، تاحال کتابی شکل میں شائع نہیں ہوئی ہے۔
سرگزشت پہلی مرتبہ 1966 میں لاہور سے شائع ہوئی جبکہ دوسری مرتبہ 1995 میں اسے لاہور نے ناشر غالب پبلشر نے شائع کیا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی مانگ ہر دور میں رہی ہے۔ راقم کو لاتعداد احباب نے تاکید کررکھی تھی کہ اس کتاب کا نسخہ جہاں بھی نظر آئے ان کے لیے خرید لیا جائے، خصوصا پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے۔ ہفتہ و اتوار 11 اور بارہ فروری کو ہونے والے کراچی لٹریچر فیسٹویل میں ویلکم بک پورٹ کے اسٹال پر اس کتاب کے نسخے چند گھنٹوں میں فروخت ہوگئے تھے۔

اس مرتبہ ‘سرگزشت‘ کو نیشنل بک فاونڈیشن نے شائع کیا ہے، اس کی قیمت 500 روپے مقرر کی گئی ہے، اردو بازار کراچی میں یہ ویلکم بک پورٹ اور فضلی سنز پر دستیاب ہے۔ ویلکم بک پورٹ پر رعایتی قیمت کے ساتھ یہ کتاب 400 میں فروخت کے لیے رکھی گئی ہے۔ سرگزشت کی تعداد اشاعت ایک ہزار ہے

نیشنل بک فاونڈیشن کا رابطہ نمبر و دیگر تفصیلات یہ ہیں

6-Mauve Area, G-8/4, Taleemi Chowk, P. Box No. 1169, Islamabad, Pakistan
(051-2255572, 9261533, 9261535, 9261036, 9261123, 9261039, 9261121
Fax: 2264283 & 9261534
e-mail: books@nbf.org.pk
website: http://www.nbf.org.pk
 

محمد وارث

لائبریرین
عقیل جعفری صاحب نے صحیح بخاری/غلط بخاری والی بات خوب کہی، خدا جانے يہ پھبتي کس نے کسي تھي, اس وقت ياد نہيں آرہا۔ ہندوستان کے ایک دوست کے مطابق یہ مجاز مرحوم کا فقرہ ہے۔

یہ فقرہ مولانا عبدالمجید سالک کا ہے اور انہوں نے اپنی خودنوشت "سرگزشت" میں لکھا ہے کہ ایک محفل میں انکی اور پطرس بخاری کی ملاقات ہوئی تو پطرس نے ازراہِ تفنن ان سے کہا کہ مولانا جب آپ کی نطموں کا مجموعہ شائع ہو تو اسکا نام "کلامِ مجید" رکھیے گا، جواب میں مولانا نے کہا کہ جب آپ کا مجموعہ شائع ہو تو اسکا نام "صحیح بخاری" رکھیے گا۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
وارث بھائی
بہت شکریہ، آپ کا حوالہ مستند ہے
لندن سے آصف جیلانی صاحب نے اسی سلسلے میں یہ مراسلہ بھیجا ہے:

خالد صاحب پطرس بخاری کو صحیح بخاری کا خطاب دراصل سب سے پہلے ممتاز موسیقار غزنوی صاحب نے سن پچاس کے اوایل میں روزنامہ امروز میں دالفقار علی بخاری کے بارے میں اپنے مضامین کے سلسلے میں دیا تھا۔ مخلص۔ آصف جیلانی
 

Rashid Ashraf

محفلین
کراچی لٹریچر فیسٹویل کی روداد شامل کرنا چاہتا ہوں، کہاں شامل کروں ؟ مطالعہ کتب کے علاوہ زیادہ واقف نہیں ہوں
 

Rashid Ashraf

محفلین
اسی طرح مستنصر تارڑ صاحب کے حالیہ انٹرویو کے جواب میں ایک مضمون سرزد ہوا ہے، اسے بھی شامل کرنا چاہتا ہوں
 

محمد وارث

لائبریرین
کراچی لٹریچر فیسٹویل کی روداد شامل کرنا چاہتا ہوں، کہاں شامل کروں ؟ مطالعہ کتب کے علاوہ زیادہ واقف نہیں ہوں

Rashid Ashraf صاحب، اس طرح کی روداد اور خبریں آپ اردو نامہ میں شامل کر سکتے ہیں۔

اسی طرح مستنصر تارڑ صاحب کے حالیہ انٹرویو کے جواب میں ایک مضمون سرزد ہوا ہے، اسے بھی شامل کرنا چاہتا ہوں

اور اپنے ادبی مضامین آپ بزمِ سخن میں شامل کر سکتے ہیں۔
 
Top