اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

فرحت کیانی

لائبریرین
واہ۔ @عائشہ عزیز آپ نے تو کمال کر دیا۔ بہت شکریہ :) جیتی رہئیے۔ اور بتائیں کہ 83 صفحہ ابھی ٹائپ ہونا باقی ہے کیا؟ میں کر لوں؟
 

عائشہ عزیز

لائبریرین

فرحت کیانی

لائبریرین
اپیا یہ میں ہوں عائشہ :)
جی وہ میں کررہی تھی کہ بجلی بند ہوگئی ۔ابھی کرتی ہوں ۔
اف معذرت عائشہ میں آپ کا نام لکھتے لکھتے پھر ناعمہ لکھ گئی۔ :embarrassed: اب آپ کو دوبارہ سے بہت سا شکریہ کہہ دوں اورساتھ بہت سی دعائیں بھی۔ :happy:
:rose: :rose: :rose:
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(83)

چیف صاحب کا حکم میں نے سر آنکھوں پر رکھا اور اگلے مہینے کی پہلی تاریخ سے اپنا کام شروع کردوں گا۔

ابن الوقت : بس آپ نے یہ خوشی کی خبر سنائی اور دلی کے مسلمان اگر میری طرح آپ سے واقف ہوں تو ان کے گھروں میں گھی کے چراغ جلانے چاہیں ورنہ گورنمنٹ کے حکم احکام دھرے ہی رہتے اور حکامِ اضلاع اپنے ذاتی غیض و غضب سے آفت توڑ مارتے۔

نوبل صاحب : عام انگریزوں کے غصے کا یہ حال ہے کہ ایک مجمع میں آپ کی خیر خواہی کا ذکر تھا تو جتنے تھے سب کے سب مخاصمانہ اشتہاہات کرنے لگے کہ ایک شخص جس کو تم سے بلکہ سرکار انگریز سے کسی طرح کا تعلق نہیں اور جس کے خاندان میں مذہبی تعصب اس شد و مد کے ساتھ ظاہر ہو ' کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس نے تم کو کیوں پناہ دی۔ایسے خاندان کا آدمی سچّا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں تو اس نے تمہاری پناہ دہی پر بھی سرکارِ انگریزی سے کسی طرح کا تعلّق پیدا کرنا نہیں چاہا۔ آپ تو کیمپ میں کیا جاتا اس نے بھی تو کوئی عرضی بھیجی ' نہ کوئی اپنا آدمی روانہ کیا اور تمہاری پناہ دہی کے سوائے اس نے اور کوئی کام خیرخواہی کا کیا نہیں ' پس ضرور دال میں کچھ کالا ہے ۔ ہم تو ایسا سمجھتے ہیں کہ اس نے تم کو شاید اس غرض سے زندہ رکھا کہ اس کو سرکارِ انگریزی پر زیادہ دباؤ ڈالنے کا موقع ملے اور اگر دلی فتح نہ ہوتی تو وہ ضرور تمہیں بے رحمی کے ساتھ مار ڈالتا۔ پس جن لوگوں کے نظر میں خیر خواہی کی یہ وقعت ہو ان کی سختی کا کیا ٹھکانہ ہے اور رعایا کو ایسے احکام سے کیا فلاح کی امید ہوسکتی ہے۔

ابن الوقت : یہ سچ ہے کہ میں نے سرکار انگریزی کی خیر خواہی کی نظر سے آپ کو ہرگز پناہ نہیں دی۔ سوائے اس کے کہ میں چند سال تک سرکاری کالج میں پڑھا اور کسی طرح کا تعلق مجھ کو بلکہ ہمارے خاندان میں سے کسی کو کبھی سرکار انگریزی سے نہیں رہا۔ ہم لوگ پشت ہا پشت سے شاہِ دہلی کے نمک خوار رہے ہیں۔ میں نے اپنے پندار میں آپ کی پناہ دہی سے فرض انسانیت ادا کیا ہے اور بس۔ میں نے اس
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(66)

لڑائیاں کسی کے خواب و خیال میں بھی تھیں۔مار کٹائی میں اگر کسی کے خون نکل آیا تو سارے شہر میں کئی کئی دن اس کا چرچا رہتا ہے۔اب ہر شخص اپنی جگہ ایک رائے لگاتا تھا جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کہتا تھا کہ بس جو کچھ ہونا تھا ہوچکا، رات کو رہے سہے باغی بھی اپنا منہ کالا کر جائیں گے شکر ہے مدتوں میں نیند بھر کر سونا تو نصیب ہوگا۔ دوسرا پیشین گوئی کرتا ہےکہ لڑائی کا پیچھا ہی بھاری ہوتا ہے انگریز اس قدر غضب ناک ہورہے ہیں کہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں تو سہی۔ تیسرا بول پڑتا ہے کہ نہیں جی ایسا نہیں ہوسکتا شہر کو مسمار کردیں گے تو حکومت کا ہے پر کریں گے ، ڈلوں پر ، پتھروں پر؟ چوتھا یہ صلاح دیتا ہے کہ دو چار دن گھر سے باہر نکلنا ٹھیک نہیں ، آدمی سامنے پڑا اور ٹائیں سے اڑا دیا۔

یہ اور ان سے بہت زیادہ باتیں خود ابن الوقت کے گھر میں ہورہیں تھیں کہ کوئی پہر ڈیرھ پہر رات گئے سڑک کی طرف بڑے زور سے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی اور پھر معلوم ہوا کہ سوار مکان کے برابر آٹھہرا۔ چند لمحے کے بعد کسی نے ابن الوقت کا نام لے کر اسے پکارا۔ سب کو حیرت ہوئی کہ ایسے اندھیرے میں کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا ، کون آیا ہوگا۔ ابن الوقت نے دروازے کے پاس جاکر آہٹ لی تو معلوم ہوا کہ جان نثار ہے۔گھبرا کر پوچھا : " کیا صاحب بھی ہیں؟ "

جان نثار : " ہوں تو میں اکیلا مگر صاحب کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ ان کی نوکری کوڑیا پل کے مورچے پر ہے ، مورچہ چھوڑ کر نہیں آسکتے۔ مجھ کو دوڑایا ہے کہ ہم سب لوگ سمجھتے تھے کہ شہر ایک دن فتح ہوجائے گا مگر ابھی تک باغی موجود ہیں۔نہیں معلوم کتنی لڑائیاں شہر پناہ کے اندرہوں۔ عین لڑائی میں دوست دشمن کا امتیاز نہیں ہوسکتا۔ آپ مال و متاع کا ہرگز لالچ نہ کیجئے ، فقط جانیں لے کر راتوں رات شہر سے باہر نکل جائیے۔ جب اچھی طرح تسلط بیٹھ جائے گا تو آپ ہم مل لیں گے۔ صبح ہوتے ہوتے خود تمہارے ہی محلے پر دھاوا ہے۔

جلدی جلدی اتنا کہہ کر جان نثار تو چلتا ہوا ، ابن الوقت یہ پیام سن کر کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ پھر تھوڑی سی دیر بعد ہوش آیا تو سارے گھر کو سر پر اٹھا لیا کہ چلو چلو نکلو۔ اس وقت تک نوبل صاحب کا حال ابن الوقت نے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیاتھا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(67)

اب اک سے غل مچانے پر جو لوگوں نے حجت شروع کی اور الکسائے تو اس کو بے مجبوری ساری حقیقت بتانا پڑی۔ رات کا وقت ، بال بچوں کا ساتھ اور دفعتہََ گھر سے نکلنا اور وہ بھی محض بے سروسامانی سے خیر وہ تو جان ہی کچھ ایسی پیاری تھی کہ ہچکچا کر ، مچل کر ، نکلے پر نکلے۔

ابھی کوئی سو قدم بھی گھر سے دور نہیں جانے پائے تھے کہ جیسا جان نثار نے کہا تھا محلے پر اولوں کی طرح گولوں کی بارش ہونے لگی۔ دو ہفتے کامل شہر کے باہر خدائی خوار خاک چھاننے پڑے پھرے۔دن کو کوٹلے میں ہیں تو رات کو عرب سرائے میں ، آج پہاڑ گنج ہیں ، تو کل قدم شریف۔ جہاں جاتے کوئی کھڑے ہونے تک کا روادار نہیں ہوتا۔ بارے سنا کہ پٹیالے والے کے حکیم خواجہ باقی باللہ میں ہیں اور ان کی وجہ سے وہاں سرکاری پہرہ بیٹھا ہے اور امن ہے۔ رشتہ نہیں ، قرابت نہیں مگر ، الغریق یتشبث بالحشیش ، آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر چلے کہ شاید ہم وطنی کا پاس کریں۔ گرتے پڑتے ہوئے سڑک کو بچائے چلے جاتے تھے ، اور کچھ راہ گیر شہر کے جلا وطنوں میں سے سڑک پر بھی تھے ، یکایک کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ سوار ہیں اور سڑک پر پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ ان لوگوں نے چاہا کہ دبے پاؤں آڑ میں ہولیں۔ سوار گھوڑا دوڑا کر سر پر آموجود ہوا اور مضبوط مضبوط آدمیوں کو چن چن کر کشاں کشاں سڑک پر لے گیا۔ معلوم ہوا کہ لوٹ کے مال کے کچھ گٹھر ہیں ، ان کو اٹھوا کر رسالے میں لے جانا چاہتے ہیں اور رسالہ وزیر آباد میں ہے ، یہاں سے کچھ نہیں تو چار کوس اور دلی کے مرزا منشوں کے حق میں ہزار کوس۔ زبردست کا ٹھینگا سر پر ، قریب تھا کہ ایک گٹھر ابن الوقت کو بھی سر پر لادنا پڑے ، اتنے میں رجال الغیب کی طرح چند انگریز گھوڑوں پر سوار آپہنچے۔ ان کو دیکھ کر لوگ لگے فریاد کرنے کہ دیکھئے خداوند ہم کو بیگار پکڑتے ہیں۔اتفاق سے انگریزوں میں نوبل صاحب تھے اور بیگاروں میں ابن الوقت۔ دونوں کی آنکھیں دوچار ہوئیں ، آنکھوں کا چار ہونا تھا کہ نوبل صاحب گھوڑے سے کود ، دوڑ کر ابن الوقت کو لپٹ گئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا : "یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے مجھ کو اپنے گھر پناہ دی تھی۔" ان انگریزوں نے بھی اتر کر ابن الوقت کے ساتھ بڑے تپاک سے ہاتھ ملائے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عائشہ عزیز ، یہ لیجیے

IbW-0071.gif
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
فصل شانزدھم
ابن الوقت کا انگریزی طرز سے متاذّی ہونا

الغرض ابن الوقت کی نسبت لوگوں کے پاس اس قسم کے خیالات تھے۔ہندوستانی سوسائٹی میں نہ استثناء محدودے چند جنہوں نے اس کی وضع کی تقلید کر لی تھی ، کوئی اس کو پسند نہیں کرتا تھا۔ انگریزوں میں اعلٰی درجے کی انگریز وہ بھی سب نہیں ، البتہ اس کے خیالات کی قدو وقعت کرتے تھے۔ بہرکیف اس کے مخالف بہت تھے اور یہ بات خود ابن الوقت کو بھی معلوم تھی اور یہ خیال اس کو اکثر رنجیدہ رکھتا تھا۔ اس کے اپنے بی بی بچے تو سب غدر سے پہلے کےمرکھپ چکے تھے اور یہ بے تعلقی اگر باعث نہیں ہوئی تو اس کی آزادی میں موید تو ضرور ہوئی۔ تاہم وہ بھائی ، بھتیجوں اور دوسرے رشتہ داروں کی مفارقت کے خیال سے بھی متاذی ہوتا تھا۔ رشتہ دار تو رشتہ دار اس کو ہندوستانی سوسائٹی کے چھوٹ جانے کا بھی افسوس تھا اور ہم نے بتحقیق سنا ہے کہ اس نے بارہا اپنے رازداروں سے کہا کہ میرے یہاں کے کھانے کی ساری چھاؤنی میں تعریف ہے مگر میرا یہ حال ہے کہ انگریزی کھانا کھاتے ہوئے اتنی مدت ہوئی ، سچ تو یہ ہے کہ ایک دن مجھے سیری نہیں ہوئی میں اکثر خواب میں اپنے تئیں ہندوستانی کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔

ابن الوقت کے خاص خدمت گار کی زبانی معتبر روایت ہے کہ ایک بار اس کو سخت تپ لاحق ہوئی اور عادت کے موافق لگا بہکنے تو وہ ہندوستانی کھانوں کے نام لے لے کر روتا تھا اور کھانے بھی پلاؤ ، زردہ ، متنجن ، بریانی نہیں بلکہ مونگ کی دال کا بھرتا ، دھوئی ماش کی پھر ہری دال ، قلمی بڑے کباب ، امرودوں کےکچالو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چٹپٹی چیزوں کو ترس گیا۔

معلوم ہے کہ ابن الوقت ابتدائے تبدیل وضع سے گھر بار چھوڑ کر باہر چھاؤنی میں جارہا تھا۔ اس کے پاس اتنے نوکر چاکر تھے کہ اس کی کوٹھی کا احاطہ بجائے خود ایک چھوٹا سا محلّہ تھا لیکن اس کی زندگی ویسی ہی اداس زندگی تھی جیسی ایک بیچلر کی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ وہ نوکروں کے حق میں بڑا سیر چشم آقا تھا۔ اس کے یہاں نوکروں کی ایسی بھاری تنخواہیں تھیں کہ دلی کی اتنی بڑی چھاؤنی میں بس دو چار ہی جگہ اور ہوں گی ، اس لیے کہ اس کے تمام نوکر سلیقہ مند اور مستعد تھے اور حقیقت بات ہے کہ انہیں نوکروں نے انگریزی سوسائٹی میں اس کی اتنی بات بھی بنا رکھی تھی۔ مگر نوکر کیسے ہی ہوشیار کیوں نہ ہوں پھر بھی مالک کی تائید کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ انگریزی زندگی ایسے بکھیڑے کی زندگی تھی کہ ابن الوقت کی جتنا وقت کچہری اور ملاقات سے بچتا تھا ، صفائی کی نگرانی اور ہر چیز کی خبر گیری کے لیے بمشکل وفا کرتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس کے نوکر انگریزی مذاق سے خوب واقف تھے مگر ابن الوقت سے خود صبر نہیں ہوسکتا تھا اور وہ اپنی طرف سے ایسی خراش تراش ایجاد کرنے لگا تھا کہ خواہی نہ خواہی اس کو دیکھنا پڑتا تھا۔

دعوت ایسے مزے کی چیز ہے کہ کھلانے والا اور کھانے والا دونوں ہی خوش ہوتے ہیں مگر ابن الوقت کے یہاں کی دعوت اس کے حق میں ایک مصیبت ہوتی تھی۔ کھانا تو کہیں جاکر رات کو نو دس بجے نصیب ہوتا اور اہتمام کی آندھی صبح سویرے سے چلنی شروع ہوجاتی تھی۔ ہم کو تو کوئی دعوت ایسی یاد نہیں کہ ابن الوقت تکان کی وجہ سے اس کے بعد علیل نہ ہوا ہو۔ پھر چھٹے چھ ماہے دعوت ہو تو خیر ، یہاں ہر مہینے کچھ نہ ہوتو بڑے کھانے دو تین۔ بلکہ بعض اوقات تو ابن الوقت گھبرا کر بول بھی اٹھا تھا کہ یہ میں نے کہاں کا کھڑاگ اپنے پیچھے لگا لیا ہے۔

یہ تو میزبانی کی لذتیں تھیں ، مہمانی کے ذائقے ان سے بھی زیادہ تلخ۔ اگر اسٹیشن
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
( 180 )


میں کسی انگریز کے یہاں کھانا ہے اور اس نے ابن الوقت کو دعوت نہیں کی اور ایسا اکثر ہوتا رہتا تھا ، تو اس کے دل پر ایک صدمہ گزر جاتا تھا اور وہ اس کو اپنی تذلیل سمجھتا تھا۔ نہ صرف انگریزی سوسائٹی میں بلکہ جی ہی جی میں اپنے نوکروں تک سے کئی کئی دن شرمندہ رہتا تھا۔ اگر اس کا بھی بلاوا ہوا تو صاحب خانہ کے گھر میں قدم رکھتے ہی اس کو ان فکروں نے آگھیرا کہ کس کی کیسی آؤ بھگت ہوئی ، کون لیڈی کس صاحب کے پاس بیٹھی اور اگر یہ پھٹیل رہ گیا یا کوئی چیز اپنے یہاں بہتر نظر پڑ گئی تو وہ دعوت اس کے لیے عداوت ہوجاتی تھی۔

الغرض انگریزی سوسائٹی کے داخل ہونے خبط نے اس کو ایسا بے چین کر رکھا تھا کہ دن رات میں دو چار منٹ کے لیے وہ بھی شاید، اس کو خوشی ہوتی ہو تو ہوتی ہو ، ورنہ جب دیکھو منقبض ، جب سنو آزردہ۔ذرا سوچنے اور خیال کرنے کی بات ہے کہ جو شخص دنیا میں اس قدر منہمک ہو ، اس کو دین داری سے کیا سروکار۔ سچی دین داری کی بڑی شناخت ہے زہد ، جتنا جس سے ہوسکے اور کجا زہد اور کجا یہ فضول و لایعنی بکھیڑے۔ سو بھی ہم نے ابھی تک سب نہیں بلکہ نمونے کے طور پر چھوٹی چھوٹی باتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ابن الوقت بیچارے مصیبت کے مارے کو ایک سے ایک سخت مشکل درپیش تھی کہ وہ تو وہی ہٹ کا پورا تھا کہ ان آفتوں کو بری طرح یا بھلی طرح جھیلتا رہا ، دوسرا تو کبھی کا بھاگ کھڑا ہوتا اور پھر ساری عمر انگریزی سوسائٹی کا نام نہ لیتا۔ ہاتھیوں کے ساتھ گنے کھانا ایسا کیا کچھ لڑکوں کا کھیل ہے۔

ابن الوقت غدر سے پہلے بھی اچھا خاص خوش حال تھا۔ قلعے کی تنخواہیں تو تھوڑی تھیں مگر اوپر سے انعام اکرام وغیرہ ملا کر بہت کچھ پڑ رہتا تھا۔ ہمارے اندازے میں ابن الوقت کی آمدنی پچاس روپے ماہوار سے ہرگز کم نہ تھی اور غدر کے بعد سے تو کچھ پوچھنا ہی نہیں ، نہ سو نہ سوا سو ، ماشاءاللہ ایک دم سے پانسو۔ اس کی آمدنی پر اچھے سے اچھا کھانا ، اچھے سے اچھا پہننا ، غرض امیرانہ خرچ رکھتا مگر ہندوستانیوں کا سا ہوتا تو چند سال کے عرصے میں اس کے پاس معتدبہ سرمایا ہوجاتا لیکن اس نے کرنی چاہی انگریزوں کی ریس۔ پورا برس بھی خیریت سے گزرنے نہیں پایا تھا کہ لگا ادھار کھانے۔ جس وقت اس کو جان نثار کے نہلا دھلا کر پہلے پہل انگریزی کپڑے پہنائے تو کوٹھی کا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(181)


ساز و سامان اور اپنی شان دیکھ کر اس کو اس قدر خوشی ہوئی تھی کہ اپنے آپے میں نہیں سماتا تھا اور ابھی اس خوشی کا اثر طبیعت پر باقی تھا کہ ایک چپڑاسی بڑا لمبا چوڑا لفافہ لیے ہوئے برآمدے تک آیا۔ قاعدے کے مطابق بیرے نے لفافہ کشتی میں رکھ ، نئے صاحب کے حضور پیش کیا۔ کھولا تو جنرل سپلایر کا بل تھا۔ کتنے کا؟ کچھ اوپر پانچ ہزار کا۔ پانچ ہزار کی رقم دیکھ کر قریب تھا کہ حواس خمسہ مختل ہوجائیں مگر "سنگ آمد و سخت آمد" چوں و چرا کرنے کا موقع نہیں "قہر درویش برجان درویش" ۔ دینا ہی پڑا مگر کیوں کر ، ہزار کا توڑا نوبل صاحب کو دیا ہوا سربند رکھا ہوا تھا ، وہ لیا اور یہ ہزار مشکل دو ہزار گھر میں سے فراہم کیے۔ پھر بھی سو دو ہزار اور ہوں تو پنڈ چھوٹے۔ بارے غدر سے پہلے نواب معشوق محل بیگم صاحب کی سرکار میں ابن الوقت کی معرفت گڑوالوں کا لین دین تھا ، ڈرتے ڈرتے ان کو رقعہ لکھا۔ اسامی تھی کھری اور جان دار ، انہوں نے بے تامل روپیہ حوالے کیا۔ یوں جنرل سپلایر کا پوت پورا ہوا۔ "رسید بود بلائے ولے بہ خیر گذشت"۔

لیکن ابن الوقت نے تو خرچ کا دڑبا کھول دیا تھا۔ جس نسبت سے اس کی آمد بڑھی تھی اگر اسی نسبت سے خرچ بھی بڑھتا تو چنداں حرج کی بات نہ تھی ، پر اس نے لیٹتے کے ساتھ چادر کے باہر پاؤں پھیلا دیے۔ اول سرے گھر کے تیمرے ، چوہرے مکان ہوتے ساتے چالیس روپے مہینے کا بنگلہ پھر فٹن ، ٹمٹم (ٹینڈم) بروم ، پالکی گاڑی ، چار قسم کی بگھیاں اور چار کے چار گھوڑے اور ایک زین سواری کا پانچ ، دھوبی ، سقا ، چوکیدار ، فراش ، مشعلچی ، باورچی ، میٹ ، سائیس ، گراس کٹ ، مالی ، بیرا ، دو ڈھائی درجن کے قریب شاگرد پیشہ ، ان کی تنخواہیں اور تنخواہوں کے علاوہ وردی ، اسی کی مناسبت سے دوسرے مصارف باستثناء میز کہ اس کا کچھ اندازہ ہو ہی نہیں سکتا ، مہینے میں اچھے جید دو کھانے بھی ہوگئے تو ساری تنخواہ پر پانی پھر جانا کچھ بات نہیں۔

ابن الوقت نے شروع شروع میں شاید تین یا چار تنخواہیں وقت پر لی ہوں گی ، اس کے بعد سے تو خزانچی کے ساتھ معاملہ ہوگیا۔ ایک چھوڑ دو مہاجن دینے والے ، جب ضرورت ہوتئی جس سے جتنا چاہا منگوا لیا۔ تنخواہ تو اوپر خزانچی لے لیا کرتا تھا اور زمینداری کا محاصل گڑوالوں کی کوٹھی میں چلا جاتا تھا۔ ان بچہ کو انگریز بننے کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی بھائی ، صفحہ 88 آپ نے ٹائپ کر کے پوسٹ کر دیا تھا یہاں اور یہاں دونوں جگہوں پر صفحہ 88 دو بار پوسٹ ہوا ہے تاہم صفحہ 89 ابھی ٹائپ ہو کے پوسٹ نہیں ہوا ۔ کیا آپ یہ صفحہ (89) ٹائپ کر چکے ہیں ؟ اس بارے میں اپڈیٹ کر دیں ۔

 
Top