اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

فہیم

لائبریرین
ممکن نہ تھا۔ ناچار ابن الوقت کسی قدر ناامید ہوکر لوٹا مگر دل میں علمائے خانقاہ کے فتوے کی تصویب کرتا تھا اور اس خیال سے خوش تھا کہ ایک سرغنہ نہیں اگر ساری دنیا ایک طرف ہو تو خانقاہ والے مذہبی معاملے ڈرنے دھمکنے والے نہیں اور باغی خانقاہ والوں کا کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔ اگر خانقاہ میں سے کسی کا بال بھی بیکا ہوا تو کشتوں سے پشتے لگ جائیں گے۔
بارے ابن الوقت پھر گھر لوٹ آیا۔ جوں دروازے میں قدم رکھتا تھا کہ جان نثار نے یہ خوش خبری سنائی کہ دھونے سے صاف کرنے سے معلوم ہوا کہ کہیں کاری زخم نہیں لگا اور صاحب نے آنکھ بھی کھولی ہے مگر ضعف کے سبب بول نہیں سکتے۔ مرہم پٹی تو ہوسکتی تھی، خدا کی قدرت، صرف ٹھنڈا پانی ٹپکانے سے کوئی سوا ڈیڑھ مہینے میں سب زخم بھر آئے اور باوجود کہ صبح س شام کی مشی بند ہوگئی تھی اور گو ابن الوقت جان نثار کی مدد سے ہر طرح کا اہتمام کرتا تھا مگر غذا میں بہت بڑا فرق واقع ہوگیا تھا، باایں ہمہ صاحب کا اصل مرض بھی جس کے علاج کے لیے ولایت جانے والے تھے، قدرے قلیل ہی باقی رہ گیا تھا۔ ان کو غالباً کثرت سے کتاب بینی کی وجہ سے ہلکا ہلکا درد سر ہر وقت رہتا تھا، اب کتاب بینی ہوئی یوئی یک قلم موقوف اور دماغ کو زحمت مطالقہ سے مل راحت اور سو دوا تو یہ بھی تھی کہ طبیعت ہوئی دوسری طرف مشغول، وہ درد سر بھی تھوڑی دیر کے لئے کبھی کبھار ہوتا تھا اور صاحب خود اس کو اختلاف غذا کی طرف منسوب کرتے تھے۔
تین مہینے نو دن نوبل صاحب ابن الوقت کے گھر رہے۔ اس عرصے میں دونوں میں اس درجے کا ارتباط بڑھا کہ آج تک کسی ہندوستانی کو کسی انگریز کے ساتھ ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ ابن الوقت نامجانست اور صاحب کی علو منزلت کے خیال سے ابتداء کسی قدر رکا رہا مگر صاحب کی کتاب اور اخبار اور کچہری اور ہوا خوری اور ملاقات سب کچھ جاکر ایک ابن الوقت کی صحبت رہ گئی تھی، وہ کسی طر ح ایک لمحے کو ابن الوقت کا اپنے پاس سے ہٹنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انسان کے اصلی خیالات کے لئے نعمت اور مصیبت کی حالتیں دو کسوٹیاں ہیں۔ نوبل صاحب کا یہ تو حال تھا کہ زخمی، معذور، محتاج، بے کس، غریب الوطن اور زندگی ہے کہ ہر وقت عرضہ خطر بلکہ نجات وہوم ہے، ہلاکت متیقن۔ مگر اللہ اللہ کس بلا کا استقلال مزاج تھا کہ ضعف و اضطراب کی کوئی حرکت تمام مدت قیام میں ان سے سرزد نہ ہوئی، وہ گیا دعوے دار مہمان تھے اور ہیکٹر مستامن۔ جانثار بے چارہ تو بھلا کس گنتی میں تھا، ابن الوقت کو اتنی خصوصیتیں اور اس قدر حقوق ہوتے ساتے ان کے پاس۔ محابا چلے جانے میں تامل ہوتا تھا۔
ابن الوقت کو تاریخ اور جغرافیہ اور اخبار کی معلومات نے پہلے انگریز پسند بنا رکھا تھا۔ پس نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں کی باتوں کا سلسلہ، سلسلہ نامتناہی تھا۔ دونوں کو کبھی آدھی آدھی رات باتوں میں گزر جاتی اور ایک بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا مگر ان کی گفتگو غالباً تین طرح کی ہوتی تھی۔ اکثر تو غدر کا تذکرہ کہ واقعات ہر روزہ سے جہاں تک ابن الوقت کو قلعے کے ذریعے سے دریافت ہوتے تھے، شروع ہرکر آخر کو امو عامہ میں بات جا پڑتی مثلاً یہ کہ غدر ہوا تو کیوں ہوا؟ کہاں تک اس آفت کے پھیلنے کا احتمال ہے؟ آیا یہ ایسا موقع ہے کہ ہندوستا کی مختلف ہندو، مسلمان، سکھ، مرہٹے، بنگالی، مدراسی، راجپوت، جاٹ، گوجر، اس میں مل کر کوشش کریں گے؟ ہندوستا کے باشندوں میں فوجی وقت کس درجے کی ہے؟ راجواڑوں میں کس کس کے بگر بیٹھنے کا خوف ہے؟ شاہ وظیفہ خوار کی دہلی کے لوگوں کی نظر میں کیا دقعت ہے؟ سرحدی قومیں جیسے گورکھے اور افغانسان کے لوگ شریک بغاوت ہوں گے یا نہیں؟ کوئی ہم عصر سلطنت ایسی بھی ہے جو ایسے وقت میں سلطنت ہندوستان کی طمع کرے؟ یہ غدر فوج کی شوزش فوری ہے یا س کی ہنڈیا مدّت سے پک رہی تھی اور رعایا بھی فوج کی شریک حال ہے؟ حکومت انگریزی سے لوگ رضامند ہیں یا ناراض اور ناراض ہیں تو کیوں؟ کہاں تک مذہبی خیال غدر کا محرک ہوا؟ مسلمانوں کے معتقدات میں یہ غدر داخل جہاد ہے یا نہیں؟ اسی طرح بات میں سے بات نکلتی چلی تی تھی۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ نوبل صاحب ابن الوقت سے ہندوستانیوں کے رسم و رواج اور طرز تمدن اور معاشرت کے حالات دریافت کرتے اور ابن الوقت ہندی کی چندی کرکے ان کو بتاتا اور سمجھاتا رہا۔
ابن الوقت، اس کی تو سدا کی عادت تھی کہ غیر ملک کے حالات کو ہر ایک سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

تھینکس فہیم ، میں پوسٹ کرتی ہوں ۔

IbW-0009.gif
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ص 54

کرید کرید کر اور کھود کھود کر پوچھا کرتا تھا ، نوبل صاحب سے اس نے خوب ہی دل کھول کر جو جو کچھ جی میں آیا تھا اور نوبل صاحب نے بھی جہاں تک زبان نے یاری دی بھلی یا بری کوئی بات اپنے وطن اور اپنی قوم کی اٹھا نہ رکھی۔ ابن الوقت نے نوبل صاحب کی ہم نشینی میں انگریزوں کے تفصیلی حالات سے اس قدر واقفیت حاصل کی کہ بس آنکھوں سے دیکھنے کی کسر باقی رہ گئی تھی ۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ ابن الوقت کو انگریزوں کے ساتھ ایک طرح کی عقیدت تو پہلے سے تھی ہی ۔ تین سوا تین مہینے نوبل صاحب کے ساتھ رہ کر اس کے خیالات اور بھی راسخ ہو گئے اور عجب نہیں اسی اثنا میں اس نے تبدیل وضع کا ارادہ کیا ہو۔

ہم کو نوبل صاحب یا ابن الوقت کے حالات غدر لکھنے منظور نہیں ، تسلسل سخن کے لیے اتنا لکھنا ضرور ہے کہ نوبل صاحب کو جس وقت سے ابن الوقت کے گھر ہوش ہوا ، آخر تک انھوں نے اپنی ذاتی تکلیف اور مصیبت کی کبھی شکایت کی ہی نہیں ۔ ہاں یہ ان کا تکیہ کلام تھا کہ افسوس میں ایسی حالت میں ہوں کہ کسی طرح اپنی قوم کی مدد اور اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتا ۔ وہ کاہل اور بیکار زندگی سے مرنے کو بہ مدارج بہتر سمجھتے تھے اور خبروں کے نہ ملنے سے ان کا وقت سخت پریشانی میں گزرتا تھا ۔ جتنی دیر ابن الوقت ان کے پاس رہتا ، باتیں کرتے ورنہ دالان میں ٹہلتے رہتے ۔ ابھی ان کے زخم اچھی طرح بھرے بھی نہ تھے کہ انھوں نے ابن الوقت پر تقاضا شروع کیا کہ کسی ڈھب سے مجھے انگریزی کیمپ میں پہنچاؤ۔ ابن الوقت ان کے بے موقع اور بے جا اصرار سے دل میں سخت آزردہ ہوتا ، مگر جانتا تھا کہ "اہل الغرض مجنون" باہر چلتے پھرتے ہوتے تو دیکھتے کہ چاروں طرف کیسی آگ لگی ہوئی ہے ، ہمارے ملک کی عورتوں کی طرح گھر کی چار دیواری میں مقید ہیں ، دنیا و مافیہا سے خاک خبر نہیں ، شاید دل میں خیال کرتے ہیں کہ میں عمدا پہلوتہی کرتا ہوں ۔ زخموں کے اچھا ہوتے ہی نوبل صاحب اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ کئی بار بگڑ بگڑ کر ابن الوقت کو دھمکایا کہ اگر مجھ کو زیادہ روکو گے تو میں نکل بھاگوں گا۔ ابن الوقت ان کی ایسی ایسی باتیں سن کر ہنستا اور کبھی جھنجھلاتا کہ ایسی ہی جان دوبھر ہے اور خود کشی کرنی ہے تو مجھی کو ثواب غذا حاصل کرنے کی اجازت دیجئے ۔



ص 55

فصل سوم

ابھی غدر فرو بھی نہ ہوا تھا کہ نوبل صاحب انگریزی کیمپ میں جا داخل ہوئے ۔

ہر چند ہر بار ابن الوقت بات کو کسی نہ کسی تدبیر سے ہنسی میں اڑا دیا کرتا تھا مگر دل میں یہ بھی سوچتا تھا کہ ایسا نہ ہو گھٹ گھٹ کر بیمار پڑ جائیں تو وہی مثل ہو کہ کھلائے پلائے کا نام نہیں رلائے کا الٹا الزام ۔ آخر یہ صلاح ٹھہری کہ نوبل صاحب حاکم فوج انگریزی کو چٹھی لکھیں اور جان نثار اس کو چھپا کر گوڑگانوہ ، رہتک ، کرنال ، تین ضلعوں کے دیہات میں چکر کاٹتا ہوا کسی جگہ پنجاب کے راستے میں جا ملے اور وہاں سے ابگریزی کیمپ میں داخل ہو ۔ جان نثار نے اس کا بیڑا اٹھایا اور چٹھی لے کر روانہ ہوا۔ اس کا پیٹھ موڑنا تھا کہ یہاں نوبل صاحب اور ابن الوقت لگے اس کی واپسی کا حساب کرنے ۔ ہر چند دونوں چپے چپے سے زمین کے جغرافیے سے آگاہ تھے مگر باوجودیکہ کئی دن تک برابر رد و کد ہوتی رہی ، جان نثار کی واپسی کی تاریخ پر متفق نہ ہو سکے۔ وجہ کیا تھی کہ جان نثار کو آمد و شد میں جن اتفاقات کے پیش آنے کا احتمال تھا اگر چہ کوئی شخص حتیٰ جان نثار بھی ان کو نہیں جان سکتا تھا مگر ابن الوقت پھر بھی ان کا کسی قدر ناقص ، ناتمام ، ادھورا اندازہ کرتا تھا اور نوبل صاحب چونکہ خود مستعجل تھے ، کسی احتمال مخالف کو اپنے ذہن میں آنے ہی نہیں دیتے تھے ۔ تاہم انھوں نے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سیدہ شگفتہ، معذرت مجھے اس کھیل کا علم نہیں۔ ذرا بتائیے گا کہ کیا کرنا ہے؟

سادہ سا ہے ، جس اسکین صفحہ کے لیے آپ کو ٹیگ کیا جائے اسے ٹائپ کر کے اسی دھاگہ میں پوسٹ کر دیں ۔ اور اس کے بعد اگلے اسکین صفحہ کو ٹائپ کرنے کے لیے لائبریری اراکین میں سے کسی بھی نام کو ٹیگ کر دیں ٹیگ سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے ۔

مزید تفصیل کا سراغ اسی دھاگہ کی پہلی پوسٹ سے مل جائے گا ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نے آپ ہی اپنے نزدیک یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جان نثار کو آج کے پندرھویں دن ضرور ضرور واپس آنا چاہیئے۔​
ہرچند نوبل صاحب بڑے ہی مستقل مزاج آدمی تھے مگر سچ کہتے ہیں "الانتظار اشد من الموت" جان نثار کی واپسی کے انتظار میں تو ان سے بھی ضبط نہ ہو سکا۔ جان نثار کو گئے ہوئے ایک ہی ہفتہ گذرا تھا کہ انہوں نے مڑ مڑ کر دروازے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور دسویں دن سے تو یہ حال ہوا کہ سارے سارے دن دروازے میں کھڑے رہنے لگے۔ ہر چند ابن الوقت گھسیٹ گھسیٹ کر اندر لے لے جاتا تھا مگر قابو ملا اور دروازے میں۔ جب پندرہ دن بھی گذر گئے اور جان نثار کا کہیں پتا نہیں تو نوبل صاحب کی اس دن کی یاس دیکھ کر ابن الوقت بھی بدحواس ہو گیا۔ زخمی ہونے کی حالت میں پھر بھی ان کے چہرے پر ایک طرح کی رونق تھی یا دفعتہً ان کی حالت اس قدر جلد جلد متغیر ہونے لگی کہ جان نثار کے سامنے سے آدھے بھی نہیں رہے تھے۔ بھوک بالکل بند ہو گئی، نیند ایسی اچاٹ ہوئی کہ ساری ساری رات کروٹیں بدل بدل کر صبح کر دیتے تھے۔ آخر جان نثار کی روانگی سے انیسویں دن ابن الوقت نے کہا کہ جان نثار کو جو اس قدر دیر لگی، آپ اس کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟​
نوبل صاحب: "کیا بتاؤں، جان نثار کی وفاداری پر شبہ کرنے کی تو میں کوئی وجہ نہیں پاتا۔ اس نے اس مصیبت میں جس قدر میری رفاقت کی، آپ کو معلوم ہے۔ شاید ایسا ہو کہ وہ لوگ جواب کے عوض میرے نکال لے جانے کی فکر میں ہوں اور جان نثار کو میری نشان دہی کے لئے ٹھہرا لیا ہو۔"​
ابن الوقت: "میں آپ کی دل شکنی کے ڈر سے عرض نہیں کر سکتا لیکن میرا خیال تو یہ ہے کہ جان نثار کو ابھی تک انگریزی کیمپ میں پہنچنا بھی نصیب نہ ہوا ہو تو عجب نہیں۔"​
نوبل صاحب: "کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میری چٹھی پکڑی گئی۔ نہیں نہیں، ایسا ہو نہیں سکتا۔ جانثار نہایت ہوشیار آدمی ہے اور اس نے چٹھی کو ضرور ایسی طرح چھپایا ہوگا کہ کوئی گمان نہ کر سکے اور خود جانثار کی صورت اور وضع ایسی ہے کہ اس پر جاسوسی یا مخبری کا گمان نہیں ہو سکتا۔ نہیں نہیں، مجھ کو پورا اطمینان ہے کہ وہ چٹھی سمیت صحیح سلامت کیمپ میں پہنچا۔"​
ابن الوقت: "آپ کو کچھ مفصلات کی بھی خبر ہے؟ تمام دیہات میں لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، راستے بند پڑے ہیں، اکے دکے کی مجال نہیں کہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا قصد کرے اور ایسی بے تمیزی کہ ناحق ناروا کوئی کسی کو مار دے تو کیا لگتا ہے۔"​
نوبل صاحب: "اگر آپ نے یہ حال مجھ سے پہلے کہا ہوتا تو میں ہرگز جانثار کے بھیجنے کا ارادہ نہ کرتا۔ افسوس ہے کہ میں نے اپنے فائدے کے لئے اس کی جان کو خطرے میں ڈالا۔"​
ابن الوقت: "میں نے احتمال عقلی کے طور پر عرض کیا ورنہ جانثار ان گنواروں کے بس میں آنے والی اسامی نہیں۔ اس کی جان کی تو انشاء اللہ سب طرح سے خیر ہے، ہاں راستے میں کہیں اٹک گیا ہو تو خبر نہیں۔ مگر خدا نے چاہا تو صبح شام پہنچنے ہی والا ہے۔"​
نوبل صاحب: "آپ صرف دیر کی وجہ سے ایسا قیاس کرتے ہیں یا؟"​
ابن الوقت: "(ہنس کر) نہیں، ایک کوا چھجے پر بیٹھا ہوا کاؤں کاؤں کر رہا تھا، میں نے اپنے ملک کی رسم کے مطابق شگون لیا اور کوے سے کہا جانثار آتا ہو تو اڑ جا۔ یہ کہنا تھا کہ کوا اڑ گیا۔"​
ابن الوقت اور نوبل صاحب یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ باہر کے کواڑوں میں سے کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ سنتے ہی ابن الوقت بول اٹھا: "لیجئے، الحمدللہ وہ جانثار آ پہنچا۔" ابن الوقت نے دوڑ کر کواڑ کھولے تو سچ مچ جانثار تھا۔ دور سے نوبل صاحب نے پوچھا "کہو خیر ہے؟"​
جان نثار: "(قاعدے کے مطابق سلام کر کے) خداوندا حضور کے اقبال سے جواب لایا۔"​
@محمد امین اس سے اگلے صفحے کو اپنائیں :)
 

زین

لائبریرین
زین بھائی ، آپ کو لائبریری میں دیکھنے کی خواہش بالآخر مکمل ہوئی :happy: دلی خوشی ہوئی، خیلی خوش آمدید !
آپ نے ٹائپنگ مقابلہ کا لکھا تھا ناں اس لیے مقدس کے ساتھ آپ کو بھی ٹیگ کر دیا ہے :happy: یہ صفحہ آپ کے لیے ۔
بہت شکریہ :) میری بھی خواہش تھی لیکن میں بہت سست ہوں اور وعدہ خلاف بھی ثابت ہوا ہوں اس لئے رکنیت لینے سے کتراتا رہا۔


رات کو میں مصروف تھا اس لئے مقابلہ نہ ہوسکا :)
 

زین

لائبریرین
(50)

تھا۔ جان نثار کی طرف ظاہر میں متوجہ رہا مگر اس کی بہت سی باتیں اس نے مطلق دھیا ن سے نہیں سنیں۔ آکر ابن الوقت نے اپنے دونوں نوکروں سے کہا : ” کیوں بھئی تمہاری کیا اصلاح ہے؟“ ایک نے کہا : ”ہم خانہ زاد جان و مال سے حاضر ہیں۔ جیسا حکم ہو تعمیل کریں۔“ ابن الوقت نے کہا : ” بس تم سے اتنی مدد درکار ہے کہ اول تو ہم سب روزے سے ہیں‘ راز داری کا حلف کریں دوسرے‘ صاحب اگر زندہ ہوں تو جو طرح بن پڑے‘ اٹھا کر گھر تک لے چلیں۔“ ابن الوقت کے دونوں نوکروں نے قبلے کی طرف کو ہاتھ اٹھا کر قسم کھائی اور چاروں شخص لوٹ کر پھر لاشوں کے پاس گئے۔ جان نثار نے سب کو نوبل صاحب کے سر پر لے جا کر کھڑا کردیا۔ جھٹپٹا ہو چلا تھا۔ جان نثار نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو بدن گرم تھا۔ خون میں لتھڑے ہونے کی وجہ سے اس وقت معلوم نہ ہوسکا کہ کہاں کہاں زخم لگے ہیں اور کس قسم کے ہیں۔ ہر چند کوئی آدمی کہیں چلتا پھرتا دکھائی نہیں دیتا تھا مگر خوف کے مارے ذرا کہیں پتا کھڑکتا تو یہ لوگ سہم جاتے ۔بارے جان نثار نے ابن الوقت اور اس کے نوکروں کی مدد سے صاحب کو چڈھی چڑھایا۔ صاحب اس قدر بے ہوش تھے کہ ان کو سنبھلنا دشوار تھا۔ سارے رستے بن الوقت اور اس کے نوکر سہارا لگاتے آئے۔ ان لوگوں کو اس سے بڑی تسلی اور تقویت تھی کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھتے تھے کسی طرف کوئی آتا جاتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ابن الوقت مجروح کو اٹھوانے کو تو اٹھوا لایا مگر اس وقت تک اس نے ذرا بھی نہیں سوچا تھا کہ گھر پہنچ کر کیا کرنا ہوگا۔ حقیقت میں اس کو اس بات کے سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی ۔ جان نثار کی درناک حکایت سنتے ہی وہ مجروح کو اتھانے دوڑا گیا اور مجروح کو اٹھائے پیچھے سارے رستے اس کی روک تھام میں لگا رہا ۔ گھر کی نکڑ پر پہنچ گیا تھا کہ اس کو تنبہ ہوا کہ میں نے یہ کیا کیا اور اس کے نباہ کی کیا صورت ہوگی۔ ابن الوقت کی بیوہ پھوپھی شروع بیوگی سے بال بچوں سمیت اسی کے گھر میں رہتی تھیں اور شوہری ترکے کی وجہ سے ان کو بڑی مقدرت تھی۔ اب ان کے بچے سیانے ہوئے تو انہوں نے اپنا مکان علیحدہ بنوانا چاہا۔ پدری ترکے سے ان کو ابن الوقت کے مکان کے پہلو میں زمین ملی تھی اور وہ زمین مدتوں سے یوں ہی پڑی تھی ۔ اب کوئی

(51)

چار مہینے سے کھلے موسم کے آتے ہی اس میں مدد لگی تو اس وقت تک مکان ہر طرح سے بن بناکر تیار ہوچکا تھا۔ صرف استر کاری باقی تھی کہ غدر ہوا۔ مدد بند کردی گئی۔ سامان تعمیر کی حفاظت کے لیے اور اس غرض سے بھی کہ مکان میں رات کو چراغ چلنا ضرور ہے‘ ابن الوقت کے انہی دو نوکروں میں سے جو نوبل صاحب کے لانے میں شریک تھے ‘ باری باری سے ایک شخص رات کو آپڑتا ۔ ابن الوقت نے نوبل صاحب کو اسی خالی مکان میں اتروایا اور اپنے آدمیوں میں سے جس کی باری مکان میں سونے کی تھی‘ جان نثار کے ساتھ متعین کردیا کہ اندر سے کواڑ بند رکھو اور میرے آنے تک صاحب کے زخموں کی شست و شو کرو مگر خبردار جو کسی نے آہٹ پائی۔
ابن الوقت نے گھبراہٹ اور جلدی میں اتنا خیال البتہ کرلیا تھا کہ باغیوں اور شہر کے بدمعاشوں نے تو اس قدر سر اٹھا رکھا ہے کہ ناحق انگریزوں کے لگاﺅ کا چھدا رکھ رکھ کر لوگوں کی جان اور آبرو کے خواہاں ہیں‘ بے کسی زبردست کے آسرے کے اتنی بڑی جوکھم اپنے سر لینا ٹھیک نہیں ۔ کل کلاں کو ” دیوار ہم گوش دارو“ خدا بری گھڑ ی نہ لائے‘ بات کھل پڑی تو میں اکیلا چنا بھاڑ کا کیا کرلوں گا ۔ پاس تھی شاہ حقانی صاحب کی خانقاہ اور ایک اعتبار سے سارا شہر ان کا معتقدتھا اور ہزارہا ولایتیوں کو اس خانقاہ سے بیعت تھی اور چالیس پچاس بلکہ بعض اوقات سو سو ولایتی فیضان تلقین حاصل کرنے کے لیے خانقاہ میں ٹھہرے رہتے تھے۔ ابن الوقت کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر شاہ حقانی صاحب اس ارادے میں میرے سر پر ہاتھ رکھیں توبس پھر کسی طرح کا خدشہ نہیں ۔ ابن الوقت کو اس بات کا بھی پورا بھروسا تھا کہ اگر شاہ صاحب راضی بھی نہ ہوئے تاہم ان کی شان اس سے ارفع ہے کہ کسی پر اس راز کو ظاہر کریں۔
پس ابن الوقت نے مکان کے اندر پاﺅں بھی نہ رکھا اور سیدھا خانقاہ کو ہولیا۔ وہاں¾ پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ ساری خانقاہ میں کچھا کھچ آدمی بھرے پڑے ہیں کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ سرغنہ باغیاں علمائے خانقاہ سے جہاد کے فتوے پر مہریں کرانے لایا ہے ۔ ظہر کے وقت سے حجت ہورہی ہے ‘ شاہ حقانی صاحب ہیں کہ کسی طرح نہیں مانتے اور انگریزوں سے لڑنے کو غدر اور ”فساد فی الارض “ کہے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت ایسے ہجوم میں شاہ صاحب تک پہنچنا اور تخلیہ کرانا کسی طرح​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
58


نوبل صاحب نے ایسی جلدی کی کہ جوتی کے تلے سے چٹھی نکالنا دشوار کردیا۔بارے خدا خدا کرکے چٹھی نکلی تو نوبل صاحب ا س کو بغور پڑھ رہے تھے اور ان کے منہ کی طرف ابن الوقت کی ٹکٹکی بندھی ہوئی تھی ۔نوبل صاحب کے چہرے سے فکر کے سوائے اور کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی تھی‘ چاہتے تھے کہ چٹھی کو دوبارہ پڑھیں‘ ابن الوقت نے چٹھی پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا : "آپ کو ہمارے انتظار کی قدر کرنی بھی ضروری ہے ۔چٹھی کہیں بھاگی نہیں جاتی ۔پہلے خلاصہ فرما دیجئے‘ تب دوبارہ‘ سہ بارہ جب تک جی چاہے پڑھا کیجئے گا۔"
نوبل صاحب : کوئی خاطر خواہ جواب نہیں آیا ۔لکھتے ہیں کہ ابھی تک ہم لوگ دشمن کے حملوں کو ہٹا رہے ہیں ۔قلعہ شکن توپیں منگوائی گئی ہیں‘ وہ پہنچ جائیں تب ہمارے دھاوے شروع ہوں ۔اس وقت تک جہاں ہو چپ چاپ بیٹھے رہو۔جس وقت ہماری طرف سے گولے جامع مسجد کے پار جانے لگیں یا قلعے میں گرنا شروع ہوں تو جاننا کہ توپیں پہنچ گئیں اور پھر وہ امید کرتے ہیں کہ باغیوں کے پاؤں جلد اکھڑ جائیں گے۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ تمہارا آدمی سولہویں دن کیمپ میں پہنچا اور اس کے بیان سے معلوم ہوا کہ اس کو راہ میں بڑی مشکلیں پیش آئیں ۔پس تم دوبارہ اس کو بھیجنے کا قصد مت کرنا ۔شہرمیں صدہا آدمی ہندو مسلمان سرکار کے خیرخواہ موجود ہیں اور شہر کی خبریں برابر چلی آتی ہیں ۔جب موقع ہوگا تو کسی خیر خواہ کے ذریعے سے تم کو ایما کردیا جائے گا اور تم نکل آنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا اور جن صاحب کے گھر میں تم نے پناہ لی ہے ان کے تفصیل حالات اور ان کے مکان کا پتا سب تمہارے آدمی سے دریافت کرلیا گیا ہے ۔ان پر سرکار اور تمام سرکاری عہدہ دار ان ملکی وفوجی کی احسان مندی کماحقہ طور پر ظاہر کردینا اور یقین ہے کہ وہ ان تمام وعدوں سے جن کا اس وقت کرلینا بہت آسان ہے‘ اس کی بہت زیادہ قدر کریں گے ۔
ابن الوقت : اس سے بہتر اور کیا جواب ہوسکتا تھا۔اس جواب کی نسبت کافی اور شافی اور معقول اور مناسب جو کچھ کہا جائے سب بجا ہے ۔
نوبل صاحب : مگر یوں بے کار پڑے پڑے ضرور مر جاؤں گا ۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
59

ابن الوقت : "آپ مرنے والے ہوتے تو مرنے کے بہت سے مواقع تھے‘ اب آپ کی زندگی کا میں بیمہ لیتا ہوں ۔میں جانتا ہوں کہ آپ کی طبیعت بے کاری سے اکتاتی ہے مگر جہاں اتنی مصیبتیں جھیلی ہیں‘ چند ے اور صبر کیجئے۔میں سمجھتا ہوں مہینے سوا مہینے کے آپ ہمارے مہمان اور ہیں ۔"
نوبل صاحب :افوہ! مہینے سوا مہینے ۔
ابن الوقت : اس مدت کے لیے کیا اچھا مشغلہ اس وقت خیال میں آیا ہے ۔"
نوبل صاحب : وہ کیا؟
ابن الوقت : حالاتِ غدرکی یاداشت۔
نوبل صاحب : واہ واہ‘ بہت اچھی صلاح ہے ۔مگر بہت سی باتیں اب مجھ کو اچھی طرح یاد بھی نہیں رہیں ۔
ابن الوقت : جہاں تک آپ کو یاد ہے اپنی یاداشت سے لِکھیےاور زیادہ درکار ہو تومیرے پاس ہر روز کے واقعات کی تفصیلی کیفیت لکھی ہوئی تیار ہے‘ آپ چاہیں تو اسے لے سکتے ہیں ۔میرے اور آپ کےدرمیان یہ قول رہا کہ اس یاداشت سے کسی کو ضرر نہ پہنچے۔
نوبل صاحب : میں نہیں جانتا کہ غدر کے بارے میں گورنمنٹ کی کیا رائے ہوگی مگر باوجودیکہ غدر سے مجھ کو بڑی تکلیفیں پہنچیں‘ میں ولایت جانے سے رہا ‘ میرے اعزہ و احباب نے مجھے مرا ہوا فرض کرکے خدا جانے اپنا کیا حال کیا ہوگا‘ میں زخمی ہوا‘ میری زندگی معرضِ تلف میں رہی‘ میری گیارہ برس کی کمائی سب برباد ہوئی ۔تین مہینے ہونے کو آئے کہ میں بیکار محض پڑا سڑتا ہوں اور ابھی نہیں معلوم کہ کب تک یوں ہی پڑا سڑوں گا‘ مجھ کو اپنے یگانوں اور دوستوں کے مرنے جینے کی مطلق خبر نہیں اور یہ بھی خبر نہیں کہ اس ہنگامے کے فرو ہونے تک کیا کیا ایذائیں اور مصیبتیں پیش آنے والی ہیں ۔باوجود ان تمام صدمات کے میں اس ملک کے لوگوں کو‘ سب کو نہیں تو اکثر کو کسی قدر معذور سمجھتا ہوں ۔ میرے نزدیک غدر ایک شورش جاہلانہ ہے ۔ ہندوستانی فوج نے سرکاری قوت کے اندازہ کرنے میں غلطی کی ۔انہوں نے سمجھا کہ یہ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
60


ملک کمپنی بہادر نے ہماری مدد سے سر کیا ہے اورہماری ہی مدد سے اس ملک پر قابض ہے ۔لوگوں کو‘ کیا رعایا کیا فوج‘ سرکاری ضوابط اور قواعد سے بھی کسی قدر نا رضامندی ضروری تھی اور سرکاری عہدہ داروں نے اس نارضامندی کی مطلق پروا نہیں کی‘ اور ہزار باتوں کی ایک بات تو یہ ہے کہ صرف بہ زور شمشیر اپنی حکومت قاہرہ کو بٹھانا چاہا اور سلطنتِ مطمئنہ کی شرط ضروری ،خوشنودی رعایا ‘ افسوس ہے کہ تمام تر نہیں تو اس کو بڑا حصہ فوت ہوا اور گورنمنٹ کا منشا پا کر عہدہ داران سرکار نے بھی استمالت قلوب خلائق کی طرف ذرا توجہ نہ کی ۔اس صورت میں کمپنی بے شک ہندوستان کی بادشاہ ہے مگر اسی طرح کی بادشاہ جیسے جنگل میں شیر۔میری ہرگز یہ رائے نہیں ہے کہ غدر کی کھچڑی مدت سے پک رہی تھی یا سوچ بچار کر صلاح و مشورے سے یہ فساد ہوا۔پس اگر میری رائے پر عمل ہوا اور وہ رائے اس حیثیت سے کہ میری رائے ہے‘ ہرگز قابل وقعت نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ گورنر جنرل جیسا مدبر اور منتظم اور صاحب الرائے ضرور تمام اطراف و جوانب پر نظر کرکے حلم اور درگذر کے اصول پر عمل کرے گا اور تب ہی یہ آگ بجھے گی بھی ۔انتقام کا لینا تو ابقائے رعب اور سیاست کے لیے ضرور ہوگا مگر معمم کے ساتھ نہیں ۔جن لوگوں نے کھلم کھلا بغاوت کی اور بغاوت کو پھیلایا اور مسلح ہو کر سرکار کے مقابلے میں معرکہ آرا ہوئے اور جنہوں نے انگریزوں یا ان کے بی بی بچوں کو صرف اس وجہ سے کہ انگریز ہیں‘ ناحق‘ ناروا قتل کیا‘ ایسے اور صرف ایسے ہی لوگوں کو سخت سزا دینی چاہیے ۔
ابن الوقت : اب مجھ کو پوراطمینان ہے کہ میرا روز نامچہ مجھ سے بہتر محفوظ ہاتھ میں رہے گا۔لیجئے کتاب حاضر ہے ۔
نوبل صاحب کے کئی ہفتے اس روز نامچے کی بدولت آسانی سے کٹ گئے اور یوں ان کی حالت منتظرہ جو تھی سو تھی ہی مگر روز نامچے کا مشغلہ نہ مل گیا ہوتا تو نوبل صاحب شاید اکتا کر اور بولا کر باہر نکل کھڑے ہوتے ۔نوبل صاحب کا روز نامچہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ غدر کے کوئی دو مہینے اور بیس یا بائیس دن بعد عشاء کی اذانیں ہورہی تھیں کہ پہلا گولا قلعے کے دیوانِ عام میں گر کر پھٹا۔سارے شہر میں ایک تہلکہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
61

مچ گیا۔ اس وقت نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں ایک ہی جگہ تھے۔ جوں گولے کا دھماکہ ہوا ، ابن الوقت چونک پڑا اور یہ کہہ کر اٹھا کہ لیجئے جناب ، دہلی کی فتح اور آپ کا انشاء اللہ مع الخیر و العافیۃ کیمپ انگریزی میں داضل ہونا مبارک ، مبارک ، مبارک۔ یہ ضرور قلعے کی آواز ہے۔ جاؤں ذرا اپنی سرکار کی خبر لوں ۔ بیگم صاحب تو شہر کی توپوں کی آواز سن کر سن کر کانپ کانپ اٹھتی تھیں ۔ خدا جانے یہ گولہ کس مقام پر گرا۔ الٰہی خیر ہو ۔

نوبل صاحب: شاید قلعے سے توپ چلی ہو ۔

ابن الوقت: نہیں جناب ، جب قلعے پر توپیں چڑھائی گئیں تو بہت سی بیگمات بلکہ مرشد زادے حضور والا میں فریاد لے کر آئے تھے کہ ہم کو ڈر لگتا ہے ، ایسا نہ ہو کہیں ان توپوں کو چھوڑنے کا حکم ہو تو خانہ زاد آواز سنتے ہی دہل کر مر جائیں ۔ جہاں پناہ نے اسی وقت حکم دے دیا کہ قلعے کی توپوں کے گولہ انداز شہر کی فصیل کے موچوں پر پر رہیں ۔

اس وقت کا کیا گیا ابن الوقت پانچویں دن نواب معشوق محل بیگم صاحب کے پھول کر کے آیا تو نوبل صاحب کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لایا ۔ نوبل صاحب کو معلوم تو ہو ہی گیا تھا ، فرمانے لگے کہ بیگم صاحب کے انتقال کا مجھ کو سخت ملال ہے اور آپ سے جس قدر میں نے ان کی مدح سنی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑی نیک دل ملکہ تھیں مگر ایسے وقت کا مرنا میں ان کی خوش نصیبی کی دلیل سمجھتا ہوں کیوں کہ آپ کے جہاں پناہ نے اپنے ساتھ نسل تیمور اورتمام ضاندان شاہی بلکہ شہر کے برباد اور تباہ کر دینے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ۔ انھوں نے ملک گیری کی ہوس کی ، جب کہ ان کو اور ان کے اعوان و انصار کو ملک داری تو کجا ، خانہ داری کی بھی لیاقت نہ تھی ۔ انھوں نے گورنمنٹ انگریزی کے نزدیک اپنے تئیں محسن کش ، نا شکر گزار ، غدار ثابت کر دیا ۔ انھوں نے ہزار ہا خون جو غدر کی وجہ سے ہوئے اور ہو رہے ہیں اور ابھی خدا جانے کتنے اور ہوں گے ، اپنی گردن پر لیے۔

ابن الوقت : ہر چند میں سکجھتا ہوں کہ بیگم صاحب کا ایسے وقت میں انتقال فرمانا ان
 
Top