مکمل کودک کہانی : ایک کہانی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "ایک کہانی" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل چار اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کہانی کو مقدس ٹائپ کر رہی ہیں۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
bUn1.jpg


bUn2.jpg


bUn3.jpg


bUn4.jpg
 

مقدس

لائبریرین
یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب ہندستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ انگریزی کپڑوں اور انگریزی زبان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اس زمانے میں ہر ایسا آدمی جو حکومت سے کچھ فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا، اپنے لباس اور بول چال میں انگریزوں جیسا بننے کی کوشش کرتا۔ بہت سے لوگ ایسے تھے، جن کے پاس کھیتی باڑی کے لیے بڑی بڑی زمینیں تھیں۔ بہت سے
 

مقدس

لائبریرین
آدمیوں کی شہروں میں جائدادیں تھیں۔ ایسے لوگوں کو اس بات کی تو کوئی فکر ہوتی نہیں تھی کہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے رپیہ کہاں سے کمائیں۔ ان کے پاس تو جائیداد کا کرایہ آجاتا یا پھر کھیتوں سے پیسہ اور اناج گھر پہنچ جاتا۔ ایسے بڑے آدمی آرام سے زندگی گزارتے تھے۔ انھی میں سے کچھ ایسے تھے، جنھوں نے انگریزی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ یہ لوگ کود کو انگریزوں کا وفادار ثابت کرنے کے لیے بالکل ہی انگریزوں کی نقل کرنے لگتے۔

انگریزوں کے دور حکومت میں جہاں بہت سے ایسے زمیندار موجود تھے، جو انگریزوں سے وفاداری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے، وہیں ایسے بھی بہت سے لوگ تے جو انگریزوں سے نفرت کرتے تھے۔ وفادار قسم کے زمیں دار بالکل انگریزوں ہی کی طرح منھ ٹیڑھا کر کے انگریزوں سے نفرت کرنے والوں کو برا بھلا کہتے رہتے، ان لوگوں کی یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ انگریز ان کی کی وفادری کے بدلے انھیں کوئی خطاب دے دیں۔ ایسے بہت سے آدمیوں کی یہ خواہش پوری بھی ہو گئی۔ ان میں سے کوئی خان صاحب ہو گیا، کوئی خان بہادر اور کوئی رائے صاحب بن گیا۔

انور چاچا بھی دراصل ایسے ہی لوگوں میں سے تھ، جن کے سر ہو انگریزوں سے وفاداری کا بھوت سوار تھا۔ اتفاق سے انور چاچا نے تھوڑی بہت تعلیم بھی حاصل کر لی تھی۔ تھوڑی بہت تعلیم سے یہ مقصد تھا کہ میٹرک کے امتحان میں پانچ چھے بار شرکت کر چکے تھے۔ انور چاچا کے والد چوں کے بہت بڑے زمیں دار تھے اور انور چاچا ان کے اکلوتے بیٹے تھے، اس لیے لاڈلے ہونے کی وجہ سے امتحان میں کام یاب ہونے کی تکلیف ان سے برداشت نہ ہو سکی۔ ممتحن کی اس نالائقی پر انور چاچا کو اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے مزید پڑھنے لکھنے کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور اپنی زمین کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔ اب ان کا کام ہر چھوٹے بڑے کو گھرکنا اور نصیحتیں کرنا رہ گیا۔ شاید اسی کی وجہ سے سارا شہر انھیں انور چاچا پکارنے لگا تھا۔ ہاں اتنی بات ضرور تھی کہ جب لوگ انھیں چاچا کہہ کر پکارتے تو ان کی گردن کچھ اور اکڑ جاتی۔
 

مقدس

لائبریرین
ابھی انور چاچا کو اپنی زمینوں پر پہنچے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ ہندستان میں بھی فوجیوں کے لیے بھرتی شروع ہوئی۔ ہندستان کے بڑے زمیں داروں اور جاگیرداروں نے دل کھول کر انگریزوں کی مدد کی اور اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کے والد بھی تو آخر زمیں دار ہی تھے، انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کا فوج میں عہدہ کیا تھا اور فوج کی ملازمت انھوں نے کس طرح حاصل کی، اس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔ البتہ انور چاچا کے والد اپنے بیٹے کو ہمیشہ کپتان ہی کہتے تھے۔ یہ دوسری بات تھی کہ شہر والوں کو اس پر یقین کبھی نہیں آیا ۔

جنگ ختم ہوئی تو انور چاچا بھی واپس آگئے، لیکن اتنے دن فوج میں رہنے کی وجہ سے بالکل ہی بدل چکے تھے۔ داڑھی مونچھیں بالکل صاف تھیں۔ فوج سے واپسی کے بعد شہر کے کسی آدمی نے انور چاچا کو کبھی پاجامے اور کرتے میں نہیں دیکھا، کیوں کہ انور چاچا ہر وقت سوٹ پہنے رہتے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چاچا کا انگریزی کپڑوں کا اتنا شوق ہے کہ سوتے وقت بھی ٹائی باندھ کر سوتے ہوں گے۔ بہرحال فوج سے واپسی کے کچھ ہی دن بعد انور چاچا کی شادی بھی ہو گئی۔ انھوں نے اپنی بیوی یعنی چاچی کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ لیا۔

اسی طرح کچھ دن گزر گئے۔ انور چاچا کے والد بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ اب تو انور چاچا کے عیش تھے۔ کھیتوں پر کاشت کار کھیتی باڑی کرتے اور چاچا اپنے گھر پر آرام کرتے۔ البتہ ان کے ہاں آئے دن انگریز افسروں کی دعوتیں ضرور ہوتی رہتیں۔ انور چاچا کا گھر خآصا بڑا تھا۔ کی کمرے خالی پڑے رہتے۔ گھر کے سامنے ایک بہت بڑا میدان بھی تھا۔ یہ زمین بھی انور چاچا ہی کی تھی۔ کھلی جگہ ہونے کی وجہ سے اکثر انگریز افسر چھٹیاں گزارنے ان کے گھر چلے آتے، ان کے گھر میں جو بےشمار کمرے خالی پڑے رہتے تھے، ان میں انگریز افسروں کی رہائش کا انتظام بھی آسانی سے ہو جاتا تھا۔ پھر چاچا کی طرف سے مدارات کا جو سلسلہ شروع ہوتا تو آخری دن تک جاری رہتا۔ اس طرح انگریز افسروں کے چھٹیوں کے زمانے میں پیسے بھی بچ جاتے۔ اس
 

مقدس

لائبریرین
کے علاوہ جس شہر میں انور چاچا کا مکان تھا، اس کی آب و ہوا بھی بہت اچھی تھی۔

ایک مرتبی ایک انگریز افسر چاچا کا مہمان تھا۔ اس افسر نے چاچا کے مکان کے سامنے بہت بڑا میدان جو دیکھا تو ایک دن کھانے کے بعد اس نے چاچا کو مشورہ دیا کہ اس میدان میں ایک چھوٹا دا خوب صورت باغ لگوا دیا جائے۔ اس نے چاچا کو یہ بھی بتایا کہ خود اسے باغبانی کا بہت شوق ہے۔ یہ شوق ایسا ہے جو ہر بڑے آدمی کو ہوتا ہے۔ اس انگریز افسر کو غالباً باغبانی سے طہت زیادہ دل چسپی تھی، اس لیے اس نے بہت سے بڑے بڑے انگریزوں کی مثالیں بھی دیں، جنھیں باغبابی کا شوق تھا، بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس آدمی کو باغبانی کا شوق نہ ہو اسے تو بڑا آدمی کہا ہی نہیں جا سکتا۔

انگریز افسر کی بات انور چاچا کے دل میں اتر گئی اور انھوں نے فوراً ہی برا آدمی بننے کا فیصلہ کر لیا، بس پھر کیا تھا، دوسرے ہی دن میدان کے چاروں طرف احاطے کی دیوار بننا شروع ہو گئی، یہ چہار دیواری اس طرح بنائی گئی کہ پورا میدان انور چاچا کے مکان کا احاطہ بن گیا، لیکن اب باغ لگانے کا مسئلہ پیدا ہوا۔ انور چاچا نے تو زندگی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا۔ وہ بھلا باغبانی جیسا سخت کا کیسے کرتے؟ بہرحال یہ مسئلہ بھی جلد حل ہو گیا۔ چاچا نے قریب کے شہر سے ایک تربیت یافتہ مالی کا بلا لیا۔ وہ مالی تو بےچارہ دیہات کا رہنے والا تھا، لیکن انور چاچا نے اسے بھی زبردستی پتلون پہنا دی۔ دیہاےی زبان میں بات چیت کرنے والا غریب مالی جب انور چاچا کی دلائی ہوئی پتلون پہن کر اپنی دیہاتی زبان میں بات چیت کرتا تو بڑا عجیب سا لگتا، لیکن چاچا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور اکثر کہا کرتے: "میں نے تو اپنے مالی کو بھی انگریز بنا کر رکھا ہے۔"

مالی نے باغ لگانا شروع کر دیا تھا۔ وہ روزانہ کوئی نہ کوئی نیا پودا ضرور لگاتا، نئی کیاریاں بناتا، پرانی کیاریوں کی صفائی کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چاچا کے باغ میں پھولوں کے بہت سے پودے نظر آنے لگے۔ ان میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوتے۔ بعض پھلوں کے پودے بھی تھے، لیکن ان میں ابھی پھل نہیں آئے تھے۔ چاچا بھی ان زیادہ وقت اپنے باغ ہی میں گزارتے تھے، لیکن ان کا کام
 

مقدس

لائبریرین
صرف یہ تھا کہ کبھی کسی پودے کے پاس کھڑے ہو جائیں، کبھی کسی پھول کو ہاتھ میں لے کر دیکھیں۔ کبھی کوئی پھول مرجھاتا ہوا دکھائی دیتا تو فوراً مالی کو آواز دیتے: " آگسٹس! آگسٹس !"

اصل میں مالی کا نام گھسیٹا خان تھا، لیکن چاچا نے مالی کو انگریز بنانے کی خاطر اس کا نام گھسیٹا خان کے بجائے آگسٹس خین رکھ دیا تھا۔

چاچا کا باغ لگ گیا تو ان کے یہاں دعوتوں کا سلسلہ اور زیادہ بڑھ گیا۔ دعوت پر آنے والے انگریز افسروں کی تعداد بڑھ گی۔ کچھ ایسے انگریز افسروں نے جو چاچا کے زیادہ گہرے دوست بن گئے تھے، ایک آدھ بار خود بھی کیاریوں کی صفائی وغیرہ کی تو چاچا کو خیال آیا کہ صرف مالی رکھ کر باغ لگوانا ہی بڑا آدمی بننے کے لیے کافی نہیں۔ مجھے خود بھی باغبانی کرنی چاہیے۔ اس خیال کے آتے ہی انھوں نے باغبانی کے لیے خاص قسم کے جوتے خریدے، تاکہ ان کی پتلون کے پائنیچے مٹی میں خراب نہ ہونے پائیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ زمین کس طرح بنائی جاتی ہے اور بیج کس طرح لگائے جاتے ہیں۔ یہ تو چاچا کو معلوم ہی نہیں تھا، اس لیے اکثر یہ ہوتا کہ چاچا کہیں بیج بوتے وہاں کوئی پودا نہ اگتا۔ کبھی کبھی چاچا گھسیٹا خاں عرف آگسٹس خین کی بنائی ہوئی کیاری تباہ کر دیتے۔ بیچارہ دیہاتی گھسیٹا خان انگریزی کپڑے پہن کر آگسٹس خین بنے رہنے سے یوں بھی اکتایا ہوا تھا، اس لیے چاچا کے سے چڑچڑانے لگتا، لیکن آدمی محنتی تھا، اس لیے چاچا اس کے چڑچڑے پن کو برداشت کر لیتے کہ کہیں آگسٹس خین ناراض ہو کر نوکری نہ چھوڑ دیں اور ان کا باغ ویران نہ ہو جائے۔

ایک دن چاچا کو خیال آیا کہ اتنے سارے انگریز آفسر ان کے دوست ہیں، لیکن اس کے باوجود انھیں ابھی تک برطانیہ کی حکومت نے کوئی خطاب نہیں دیا، حالانکہ وہ فوج میں بھی رہ چکے ہیں اور انگریز حکومت کے وفادار بھی ہیں۔ آخر انہوں نے اس سلسلے میں اپنے انگریز افسر دوستوں سے بھی مشورہ کیا۔ ان میں سے ایک افسر نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے باغ میں کوئی ایسا پھل پیدا کریں جو اپنی مثال آپ ہو یا ایسا پھل ہو جو اس شہر میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر اسے سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں افسروں اور وائسرائے کے نمائندے کے سامنے پیش کریں تو انھیں بھی
 

مقدس

لائبریرین
خطاب مل جائے گا۔ یہ مشورہ انور چاچا کو پسندآیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان میں انگریز حکومت کی طرف سے وائسرائے ہی سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے۔ اگر اس کے نمائندے کو میرے باغ کا پھل پسند آ گیا تو مجھے ضرور خطاب مل جائے گا۔

انور چاچا جس شہر میں رہتے تھے، اس کی آب وہوا میں یوں تو بہت سے پھل پیدا ہو سکتے تھے، لیکن خربوزہ بالکل پیدا نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے باغ میں خوبوزہ ہی پیدا کرنا چاہیے۔ انھوں نے آگسٹس پر اپنا یہ خیال ظاہر کیا تو اس نے خربوزے پر محنت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس شہر میں خربوزہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا، لیکن چاچا کے سر میں تو خربوزے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ آگسٹس راضی نہیں ہوتا تو کیا ہوا۔ میں خود ہی خربوزہ اگانے کی کوشش کروں گا۔ چناں چہ انھوں نے پہلے تو دہلی خط لکھ کر ایک کتاب منگوائی، جس میں خربوزے پیدا کرنے کے طریقے اور اس کی کاشت کے ضروری قاعدے لکھے ہوئے تھے۔ اس کتاب میں ایک ترکیب ایسی تھی، جس پر عمل کر کے خربوزے پیدا کرنے کے لیے کھلی جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بلکہ مکان کے اندر بھی گملے میں خربوزہ اگایا جا سکتا تھا۔ چاچا نے اسی ترکیب پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور گھر کے اندر ہی ایک گملے میں کتاب دیکھ دیکھ کر خربوزے کے بیج لگائے۔ پھر وہ ہر روز صبح اٹھ کر کتاب میں لکھی ہوئی ترکیب کے مطابق اس میں پانی دالتے اور ہر پندرہ دن کے بعد کھاد بھی ڈالتے۔

خربوزے کے ننھے سے پودے کی خدمت کرتے ہوئے انھیں کافی دن ہو گئے۔ اب یہ خربوزے کا ننھا سا پودا بڑھ کر بیل کی شکل اختیار کر گیا۔ چاچا نے اب اس کی دیکھ بھال میں بھی اضافہ کر دیا۔ گھر میں تو انھیں پہلے بھی کوئی کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اب تو انھوں نے خود کو بالکل ہی خربوزے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ کچھ دن بعد اس بیل میں ایک ننھا منا سا خربوزہ نظر آیا۔ اب تو چاچا کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ چاچا نے اب پندرہ دن کے بجائے ہر ہفتے خربوزے کی بیل میں کھاد ڈالنا شروع کر دیا۔ اسی طرح چھ مہینے گزر گئے۔ اب خربوزہ بہت بڑا ہو چکا تھا۔ جو بھی یہ
 

مقدس

لائبریرین
خربوزہ دیکھتا حیرت میں رہ جاتا، کیوں کہ وہ عام خربوزوں سے کئی گنا بڑا تھا۔ بالکل ایک چھوٹی میز کے برابر۔ ابھی اس کا رنگ بالکل ہرا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ ابھی اور بڑھے گا۔ خربوزہ دیکھ کر لوگ یہ سوچتے کہ یہ خربوزہ نجانے پکنے کے بعد کتنا بڑا ہوگا۔

جب چاچا انھیں بتاتے کہ وہ یہ خربوزہ سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں رکھیں گے تو لوگ سوچنے لگے کہ اس وقت تک تو یہ خربوزہ بہت ہی بڑا ہو چکا ہوگا، کیوں کہ ابھی نمائش میں پورے چھ مہینے باقی تھے۔

دن اسی طرح گزرتے رہے اور خربوزہ بڑا ہوتا رہا۔ اتنا بڑا کہ اب اسے ایک یا دو آدمی بھی مل کر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ پھر جب نمائش کا وقت آیا تھا یہ خربوزہ ایک چھوٹے کمرے کے برابر ہو چکا تھا۔ اونچا بھی اتنا ہی تھا کہ خربوزے کے اوپر کا حصہ دیکھنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت پیش آتی۔

خدا خدا کرکے نمائش کا دن آیا تو چاچا نے سیڑھی لگا کر خربوزے کو بیل سے کاٹ کر الگ کیا پھر ایک بڑی بیل گاڑی کا انتظام کیا، جس میں خربوزے کو نمائش تک پہونچایا گیا۔ نمائش شروع ہوئی تو ہر طرف چاچا کے خربوزے کا ہی ذکر تھا۔ بہت سے انگریز افسر نمائش دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ چاچا ایک عمدہ سی سوٹ پہنے اپنے خربوزے کے پاس کھڑے تھے۔ نمائش میں ہمیشہ کی طرح وائسرائے کے نمائندے نے بھی شرکت کی تھی۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نمائش دیکھنے آیا تھا۔ نمائش دیکھتے دیکھتے جب وہ چاچا کے خربوزے کے پاس پہونچا تو چاچا نے فوراً سیڑھی لگائی اور قسائی والے ایک چھرے سے خربوزے کی بڑی سی قاش کاٹی۔ یہ قاش اتنی بڑی تھی کہ چاچا کو اسے دونوں ہاتھوں سے سنبھالنا پڑا۔ وائسرائے کا نمائندہ اس قاش کو بڑی حیرت سے دیکھتا رہا۔ بہر حال اس نے وائسرائے سے چاچا کی باغبانی اور خربوزے کاشت کرنے میں چاچا کی مہارت کی بڑی تعریف کی، جس کے نتیجے میں کچھ دن کے بعد چاچا کو انگریز حکومت نے ایک خطاب اور خربوزے اگانے کے متعلق ایک سند بھی دی۔

اس روز سے انور چاچا شہر میں "خان بہادر خربوزہ جنگ" مشہور ہو گئے۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
bUn1.jpg
یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ انگریزی کپڑوں اور انگریزی زبان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اس زمانے میں ہر ایسا آدمی جو حکومت سے کچھ فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا، اپنے لباس اور بول چال میں انگریزوں جیسا بننے کی کوشش کرتا۔ بہت سے لوگ ایسے تھے، جن کے پاس کھیتی باڑی کے لیے بڑی بڑی زمینیں تھیں۔ بہت سے
آدمیوں کی شہروں میں جائیدادیں تھیں۔ ایسے لوگوں کو اس بات کی تو کوئی فکر ہوتی نہیں تھی کہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے روپیہ کہاں سے کمائیں۔ ان کے پاس تو جائیداد کا کرایہ آجاتا یا پھر کھیتوں سے پیسہ اور اناج گھر پہنچ جاتا۔ ایسے بڑے آدمی آرام سے زندگی گزارتے تھے۔ انھی میں سے کچھ ایسے تھے، جنھوں نے انگریزی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ یہ لوگ خود کو انگریزوں کا وفادار ثابت کرنے کے لیے بالکل ہی انگریزوں کی نقل کرنے لگتے۔

انگریزوں کے دور حکومت میں جہاں بہت سے ایسے زمیندار موجود تھے، جو انگریزوں سے وفاداری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے، وہیں ایسے بھی بہت سے لوگ تھے جو انگریزوں سے نفرت کرتے تھے۔ وفادار قسم کے زمیندار بالکل انگریزوں ہی کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے انگریزوں سے نفرت کرنے والوں کو برا بھلا کہتے رہتے، ان لوگوں کی یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ انگریز ان کی وفاداری کے بدلے انھیں کوئی خطاب دے دیں۔ ایسے بہت سے آدمیوں کی یہ خواہش پوری بھی ہو گئی۔ ان میں سے کوئی خان صاحب ہو گیا، کوئی خان بہادر اور کوئی رائے صاحب بن گیا۔

انور چاچا بھی دراصل ایسے ہی لوگوں میں سے تھے، جن کے سر پر انگریزوں سے وفاداری کا بھوت سوار تھا۔ اتفاق سے انور چاچا نے تھوڑی بہت تعلیم بھی حاصل کر لی تھی۔ تھوڑی بہت تعلیم سے یہ مقصد تھا کہ میٹرک کے امتحان میں پانچ چھ بار شرکت کر چکے تھے۔ انور چاچا کے والد چوں کہ بہت بڑے زمیں دار تھے اور انور چاچا ان کے اکلوتے بیٹے تھے، اس لیے لاڈلے ہونے کی وجہ سے امتحان میں کامیاب ہونے کی تکلیف ان سے برداشت نہ ہو سکی۔ ممتحن کی اس نالائقی پر انور چاچا کو اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے مزید پڑھنے لکھنے کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور اپنی زمین کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔ اب ان کا کام ہر چھوٹے بڑے کو گھرکنا اور نصیحتیں کرنا رہ گیا تھا۔ شاید اسی کی وجہ سے سارا شہر انھیں انور چاچا پکارنے لگا تھا۔ ہاں اتنی بات ضرور تھی کہ جب لوگ انھیں چاچا کہہ کر پکارتے تو ان کی گردن کچھ اور اکڑ جاتی۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
bUn2.jpg
ابھی انور چاچا کو اپنی زمینوں پر پہنچے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ ہندوستان میں بھی فوجیوں کے لیے بھرتی شروع ہوئی۔ ہندوستان کے بڑے زمیں داروں اور جاگیرداروں نے دل کھول کر انگریزوں کی مدد کی اور اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کے والد بھی تو آخر زمیں دار ہی تھے، انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کا فوج میں عہدہ کیا تھا اور فوج کی ملازمت انھوں نے کس طرح حاصل کی، اس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔ البتہ انور چاچا کے والد اپنے بیٹے کو ہمیشہ کپتان ہی کہتے تھے۔ یہ دوسری بات تھی کہ شہر والوں کو اس پر یقین کبھی نہیں آیا ۔

جنگ ختم ہوئی تو انور چاچا بھی واپس آگئے، لیکن اتنے دن فوج میں رہنے کی وجہ سے بالکل ہی بدل چکے تھے۔ داڑھی مونچھیں بالکل صاف تھیں۔ فوج سے واپسی کے بعد شہر کے کسی آدمی نے انور چاچا کو کبھی پاجامے اور کرتے میں نہیں دیکھا، کیوں کہ انور چاچا ہر وقت سوٹ پہنے رہتے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چاچا کو انگریزی کپڑوں کا اتنا شوق ہے کہ سوتے وقت بھی ٹائی باندھ کر سوتے ہوں گے۔ بہرحال فوج سے واپسی کے کچھ ہی دن بعد انور چاچا کی شادی بھی ہو گئی۔ انھوں نے اپنی بیوی یعنی چاچی کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ لیا۔

اسی طرح کچھ دن گزر گئے۔ انور چاچا کے والد بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ اب تو انور چاچا کے عیش تھے۔ کھیتوں پر کاشت کار کھیتی باڑی کرتے اور چاچا اپنے گھر پر آرام کرتے۔ البتہ ان کے ہاں آئے دن انگریز افسروں کی دعوتیں ضرور ہوتی رہتیں۔ انور چاچا کا گھر خاصا بڑا تھا۔ کئی کمرے خالی پڑے رہتے تھے۔ گھر کے سامنے ایک بہت بڑا میدان بھی تھا۔ یہ زمین بھی انور چاچا ہی کی تھی۔ کھلی جگہ ہونے کی وجہ سے اکثر انگریز افسر چھٹیاں گزارنے ان کے گھر چلے آتے، ان کے گھر میں جو بےشمار کمرے خالی پڑے رہتے تھے، ان میں انگریز افسروں کی رہائش کا انتظام بھی آسانی سے ہو جاتا تھا۔ پھر چاچا کی طرف سے مدارات کا جو سلسلہ شروع ہوتا تو آخری دن تک جاری رہتا۔ اس طرح انگریز افسروں کے چھٹیوں کے زمانے میں پیسے بھی بچ جاتے۔ اس

کے علاوہ جس شہر میں انور چاچا کا مکان تھا، اس کی آب و ہوا بھی بہت اچھی تھی۔

ایک مرتبہ ایک انگریز افسر چاچا کا مہمان تھا۔ اس افسر نے چاچا کے مکان کے سامنے بہت بڑا میدان جو دیکھا تو ایک دن کھانے کے بعد اس نے چاچا کو مشورہ دیا کہ اس میدان میں ایک چھوٹا سا خوب صورت باغ لگوا دیا جائے۔ اس نے چاچا کو یہ بھی بتایا کہ خود اسے باغبانی کا بہت شوق ہے۔ یہ شوق ایسا ہے جو ہر بڑے آدمی کو ہوتا ہے۔ اس انگریز افسر کو غالباً باغبانی سے بہت زیادہ دل چسپی تھی، اس لیے اس نے بہت سے بڑے بڑے انگریزوں کی مثالیں بھی دیں، جنھیں باغبابی کا شوق تھا، بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس آدمی کو باغبانی کا شوق نہ ہو اسے تو بڑا آدمی کہا ہی نہیں جا سکتا۔

انگریز افسر کی بات انور چاچا کے دل میں اتر گئی اور انھوں نے فوراً ہی بڑا آدمی بننے کا فیصلہ کر لیا، بس پھر کیا تھا، دوسرے ہی دن میدان کے چاروں طرف احاطے کی دیوار بننا شروع ہو گئی، یہ چہار دیواری اس طرح بنائی گئی کہ پورا میدان انور چاچا کے مکان کا احاطہ بن گیا، لیکن اب باغ لگانے کا مسئلہ پیدا ہوا۔ انور چاچا نے تو زندگی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا۔ وہ بھلا باغبانی جیسا سخت کام کیسے کرتے؟ بہرحال یہ مسئلہ بھی جلد حل ہو گیا۔ چاچا نے قریب کے شہر سے ایک تربیت یافتہ مالی کو بلا لیا۔ وہ مالی تو بےچارہ دیہات کا رہنے والا تھا، لیکن انور چاچا نے اسے بھی زبردستی پتلون پہنا دی۔ دیہاتی زبان میں بات چیت کرنے والا غریب مالی جب انور چاچا کی دلائی ہوئی پتلون پہن کر اپنی دیہاتی زبان میں بات چیت کرتا تو بڑا عجیب سا لگتا، لیکن چاچا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور اکثر کہا کرتے: "میں نے تو اپنے مالی کو بھی انگریز بنا کر رکھا ہے۔"

مالی نے باغ لگانا شروع کر دیا تھا۔ وہ روزانہ کوئی نہ کوئی نیا پودا ضرور لگاتا، نئی کیاریاں بناتا، پرانی کیاریوں کی صفائی کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چاچا کے باغ میں پھولوں کے بہت سے پودے نظر آنے لگے۔ ان میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوتے۔ بعض پھلوں کے پودے بھی تھے، لیکن ان میں ابھی پھل نہیں آئے تھے۔ چاچا بھی اپنا زیادہ وقت اپنے باغ ہی میں گزارتے تھے، لیکن ان کا کام
 

زلفی شاہ

لائبریرین
bUn3.jpg
صرف یہ تھا کہ کبھی کسی پودے کے پاس کھڑے ہو جائیں، کبھی کسی پھول کو ہاتھ میں لے کر دیکھیں۔ کبھی کوئی پھول مرجھاتا ہوا دکھائی دیتا تو فوراً مالی کو آواز دیتے: " آگسٹس! آگسٹس !"

اصل میں مالی کا نام گھسیٹا خان تھا، لیکن چاچا نے مالی کو انگریز بنانے کی خاطر اس کا نام گھسیٹا خان کے بجائے آگسٹس خین رکھ دیا تھا۔

چاچا کا باغ لگ گیا تو ان کے یہاں دعوتوں کا سلسلہ اور زیادہ بڑھ گیا۔ دعوت پر آنے والے انگریز افسروں کی تعداد بڑھ گی۔ کچھ ایسے انگریز افسروں نے جو چاچا کے زیادہ گہرے دوست بن گئے تھے، ایک آدھ بار خود بھی کیاریوں کی صفائی وغیرہ کی تو چاچا کو خیال آیا کہ صرف مالی رکھ کر باغ لگوانا ہی بڑا آدمی بننے کے لیے کافی نہیں۔ مجھے خود بھی باغبانی کرنی چاہیے۔ اس خیال کے آتے ہی انھوں نے باغبانی کے لیے خاص قسم کے جوتے خریدے، تاکہ ان کی پتلون کے پائنیچے مٹی میں خراب نہ ہونے پائیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ زمین کس طرح بنائی جاتی ہے اور بیج کس طرح لگائے جاتے ہیں۔ یہ تو چاچا کو معلوم ہی نہیں تھا، اس لیے اکثر یہ ہوتا کہ چاچا کہیں بیج بوتے وہاں کوئی پودا نہ اگتا۔ کبھی کبھی چاچا گھسیٹا خاں عرف آگسٹس خین کی بنائی ہوئی کیاری تباہ کر دیتے۔ بیچارہ دیہاتی گھسیٹا خان انگریزی کپڑے پہن کر آگسٹس خین بنے رہنے سے یوں بھی اکتایا ہوا تھا، اس لیے چاچا سے چڑچڑانے لگتا، لیکن آدمی محنتی تھا، اس لیے چاچا اس کے چڑچڑے پن کو برداشت کر لیتے کہ کہیں آگسٹس خین ناراض ہو کر نوکری نہ چھوڑ دیں اور ان کا باغ ویران نہ ہو جائے۔

ایک دن چاچا کو خیال آیا کہ اتنے سارے انگریز آفسر ان کے دوست ہیں، لیکن اس کے باوجود انھیں ابھی تک برطانیہ کی حکومت نے کوئی خطاب نہیں دیا، حالانکہ وہ فوج میں بھی رہ چکے ہیں اور انگریز حکومت کے وفادار بھی ہیں۔ آخر انہوں نے اس سلسلے میں اپنے انگریز افسر دوستوں سے بھی مشورہ کیا۔ ان میں سے ایک افسر نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے باغ میں کوئی ایسا پھل پیدا کریں جو اپنی مثال آپ ہو یا ایسا پھل ہو جو اس شہر میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر اسے سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں افسروں اور وائسرائے کے نمائندے کے سامنے پیش کریں تو انھیں بھی
خطاب مل جائے گا۔ یہ مشورہ انور چاچا کو پسندآیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان میں انگریز حکومت کی طرف سے وائسرائے ہی سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے۔ اگر اس کے نمائندے کو میرے باغ کا پھل پسند آ گیا تو مجھے ضرور خطاب مل جائے گا۔

انور چاچا جس شہر میں رہتے تھے، اس کی آب وہوا میں یوں تو بہت سے پھل پیدا ہو سکتے تھے، لیکن خربوزہ بالکل پیدا نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے باغ میں خوبوزہ ہی پیدا کرنا چاہیے۔ انھوں نے آگسٹس پر اپنا یہ خیال ظاہر کیا تو اس نے خربوزے پر محنت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس شہر میں خربوزہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا، لیکن چاچا کے سر میں تو خربوزے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ آگسٹس راضی نہیں ہوتا تو کیا ہوا۔ میں خود ہی خربوزہ اگانے کی کوشش کروں گا۔ چناں چہ انھوں نے پہلے تو دہلی خط لکھ کر ایک کتاب منگوائی، جس میں خربوزے پیدا کرنے کے طریقے اور اس کی کاشت کے ضروری قاعدے لکھے ہوئے تھے۔ اس کتاب میں ایک ترکیب ایسی تھی، جس پر عمل کر کے خربوزے پیدا کرنے کے لیے کھلی جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بلکہ مکان کے اندر بھی گملے میں خربوزہ اگایا جا سکتا تھا۔ چاچا نے اسی ترکیب پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور گھر کے اندر ہی ایک گملے میں کتاب دیکھ دیکھ کر خربوزے کے بیج لگائے۔ پھر وہ ہر روز صبح اٹھ کر کتاب میں لکھی ہوئی ترکیب کے مطابق اس میں پانی ڈالتے اور ہر پندرہ دن کے بعد کھاد بھی ڈالتے۔

خربوزے کے ننھے سے پودے کی خدمت کرتے ہوئے انھیں کافی دن ہو گئے۔ اب یہ خربوزے کا ننھا سا پودا بڑھ کر بیل کی شکل اختیار کر گیا۔ چاچا نے اب اس کی دیکھ بھال میں بھی اضافہ کر دیا۔ گھر میں تو انھیں پہلے بھی کوئی کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اب تو انھوں نے خود کو بالکل ہی خربوزے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ کچھ دن بعد اس بیل میں ایک ننھا منا سا خربوزہ نظر آیا۔ اب تو چاچا کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ چاچا نے اب پندرہ دن کے بجائے ہر ہفتے خربوزے کی بیل میں کھاد ڈالنا شروع کر دیا۔ اسی طرح چھ مہینے گزر گئے۔ اب خربوزہ بہت بڑا ہو چکا تھا۔ جو بھی یہ
 

زلفی شاہ

لائبریرین
bUn4.jpg
خربوزہ دیکھتا حیرت میں رہ جاتا، کیوں کہ وہ عام خربوزوں سے کئی گنا بڑا تھا۔ بالکل ایک چھوٹی میز کے برابر۔ ابھی اس کا رنگ بالکل ہرا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ ابھی اور بڑھے گا۔ خربوزہ دیکھ کر لوگ یہ سوچتے کہ یہ خربوزہ نجانے پکنے کے بعد کتنا بڑا ہوگا۔

جب چاچا انھیں بتاتے کہ وہ یہ خربوزہ سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں رکھیں گے تو لوگ سوچنے لگے کہ اس وقت تک تو یہ خربوزہ بہت ہی بڑا ہو چکا ہوگا، کیوں کہ ابھی نمائش میں پورے چھ مہینے باقی تھے۔

دن اسی طرح گزرتے رہے اور خربوزہ بڑا ہوتا رہا۔ اتنا بڑا کہ اب اسے ایک یا دو آدمی بھی مل کر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ پھر جب نمائش کا وقت آیا تھا یہ خربوزہ ایک چھوٹے کمرے کے برابر ہو چکا تھا۔ اونچا بھی اتنا ہی تھا کہ خربوزے کے اوپر کا حصہ دیکھنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت پیش آتی۔

خدا خدا کرکے نمائش کا دن آیا تو چاچا نے سیڑھی لگا کر خربوزے کو بیل سے کاٹ کر الگ کیا پھر ایک بڑی بیل گاڑی کا انتظام کیا، جس میں خربوزے کو نمائش تک پہونچایا گیا۔ نمائش شروع ہوئی تو ہر طرف چاچا کے خربوزے کا ہی ذکر تھا۔ بہت سے انگریز افسر نمائش دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ چاچا ایک عمدہ سی سوٹ پہنے اپنے خربوزے کے پاس کھڑے تھے۔ نمائش میں ہمیشہ کی طرح وائسرائے کے نمائندے نے بھی شرکت کی تھی۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نمائش دیکھنے آیا تھا۔ نمائش دیکھتے دیکھتے جب وہ چاچا کے خربوزے کے پاس پہونچا تو چاچا نے فوراً سیڑھی لگائی اور قصائی والے ایک چھرے سے خربوزے کی بڑی سی قاش کاٹی۔ یہ قاش اتنی بڑی تھی کہ چاچا کو اسے دونوں ہاتھوں سے سنبھالنا پڑا۔ وائسرائے کا نمائندہ اس قاش کو بڑی حیرت سے دیکھتا رہا۔ بہر حال اس نے وائسرائے سے چاچا کی باغبانی اور خربوزے کاشت کرنے میں چاچا کی مہارت کی بڑی تعریف کی، جس کے نتیجے میں کچھ دن کے بعد چاچا کو انگریز حکومت نے ایک خطاب اور خربوزے اگانے کے متعلق ایک سند بھی دی۔

اس روز سے انور چاچا شہر میں "خان بہادر خربوزہ جنگ" مشہور ہو گئے۔
 
Top