عید اور ہماری ذمہ داریاں

دوست

محفلین
اللہ کی رحمتوں کا مہینہ ختم ہو چلا ہے۔ اس کے بعد جس چیز کا ہم کو شدت سے انتظار ہوتا ہے اور اس بار بھی ہے وہ عیدالفطر یعنی میٹھی عید ہے۔ جسے روزہ داروں کا انعام بھی کہا گیا ہے۔
مگر اس بارکچھ خاص ہے۔
عید کی خوشیوں میں کچھ غم بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کسی کی یتیمی کا غم،کسی کی بیوگی کا غم کسی کی بے اولادی کا غم،کسی کی معذوری کا غم اور کسی کی بےگھری کا غم۔ مگر ان غموں کو برداشت کرنا ہے۔ کہ رضائے الٰہی یہ ہی تھی۔
ہمارا عید کا فلسفہ تو ویسے بھی ہمیں ایثار و قربانی سکھاتا ہے۔ اپنے مفلس و مسکین بھائیوں کی مدد کرنا ہم پر لازم قرار دے دیا گیا ہے۔
تو اس کا بالخصوص خیال رکھیے گا کہ کوئی ہے جو آپ کی امداد کا منتظر وہاں غیروں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے ۔ اگر یہ ہی مقدر میں ہے تو ہم کیوں نہیں۔
اور غیر بھی کہ سو بار یاد دلانے پر ایک بار کچھ دیتے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق اقوامِ متحدہ کے پاس صرف چند ہفتوں تک امدادی آپریشن چلانے کے فنڈز ہیں۔ جتنی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا اس سے آدھی بھی نہیں دی گئی۔ اور میں محسوس کرتا ہوں کہ پہلے ڈیڑھ ہفتے جو جوش و خروش ہم میں تھا اب کم ہوتا جارہا ہے۔ شائد ہم مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب کرنے والے آگئے ہیں۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے والے آپ ہیں۔ اپنے اپنوں کی مدد نہیں کریں گے تو غیر کیا خاک توجہ دیں گے۔ ابھی وقت نہیں ہوا کہ ہم امدادی سرگرمیوں سے منہ موڑ لیں ۔ ابھی تو کئی علاقوں تک خیمے نہیں پہنچ سکے ۔وہاں کے روزانہ فضائی آپریشن کا خرچہ ہی اتنا ہے کہ ہماری دی گئی امداد دنوں میں اڑ جائے گی۔ آسان لفظوں میں پُھنک جائے گی۔ یہ تو ایسا گڑھا ہے کہ بھرنے کے لیے اس طرح کے کئی گنا جذبات کی ضرورت ہے۔
اس لیے میری ایک درخواست۔
“فطرانہ“ ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ آپ، ہم سب ادا کرتے ہیں۔ کسے ادا کرتے ہیں۔ اکثر پیشہ وروں کو۔ اس بار مستحقین کا بھی خیال کر لیجیے گا۔ میں شریعت کا عالم نہیں نہ ہی فقہی ہوں بس جو دل میں آئی وہ عرض کر رہا ہوں میرے خیال میں اس کے سب سے بڑھ کر مستحقین وہ ہیں جو اس وقت کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔
خدارا اس عید پر یہ بھی خیال کیجیے گا اپنے بچوں کو عیدی دیتے وقت یہ سوچ ضرور لیجئے گا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے بچے بھی ہیں جنھیں عیدی تو کیا گھر نصیب نہیں،کھانا نصیب نہیں۔
اگر اس بار آپ وہ عیدی اپنے بچوں کو دینے کی بجائے ان بچوں کے لیے دے دیں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی بلکہ اپنے بچوں کو باور کرائیں کہ آپ کے کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو اس کے اصل مستحق ہیں۔ بچے معصوم ہوتے ہیں خدا کی قسم مجھے اس بات کا یقین ہے کہ کوئی بچہ بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ نا کہے ڈیڈی یہ عیدی آپ ان کو دے دیں ہم نہیں لیں گے۔
مجھے امید ہے میرے قارئین اس بات پر توجہ دیں گے کہ اس بار عید ذرا سادگی سے منا لی جائے،عید کیک نا لایا جائے،اچھے اچھے کھاناے ڈھیر سارے کی بجائے ایک دو ڈش پکا لی جائیں،کہیں گھومنے نہ جایا جائے ،اپنا اور اپنے گھر والوں کا فطرانہ اور ہو سکے تو اپنے بچوں کی رضامندی سے انھیں بتا کر احساس دلا کر انکی عیدی بھی یہ سب ان کو دیا جائے جن کا ہم پر حق ہے۔
یاد رکھیے گا یہ ان پر احسان نہیں یہ ان کا آپ پر حق ہے مسلمان کا مسلمان پر حق ہے نیز یہ آپ اپنی آخرت سنوارنے کے لیے کریں گے اور کسی کے لیے نہیں۔
اللہ رب العٰلمین سے دعا ہے کہ وہ رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں اس آزمائش میں پورا اترے کی توفیق دے۔
آمین یا ربّ العٰلمین۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

عید الفطر کے موقع پر صدر اوبامہ کا پیغام

اب جب کہ امریکہ اور دنیا بھر کے مسلمان ماہ صیام مکمل کرکے عید الفطر منارہے ہیں، مشیل اورمیں اس پرمسرت موقع پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ عید تیس دن کی شب وروزعبادت کی تکمیل پر خوشی منانے کا وقت ہے۔ لیکن خوشی کے اس تہوار کو مناتے ہوئے بھی مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد سمیت ان لوگوں کو یاد رکھتے ہیں جو کم خوش نصیب ہیں۔ پورے ماہ رمضان میں ، مسلمان کمیونٹیز زکواة الفطر اکٹھی اور تقسیم کرتی ہیں تاکہ تمام مسلمان عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں ۔ جیسا کہ میں نے قاہرہ میں کہا تھا ، میری انتظامیہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ مسلمان صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ سارا سال اپنی فلاحی ذمہ داریاں پوری کر سکیں ۔ ہم امریکی عوام کی جانب سے امریکہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس متبرک دن پر مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ عید مبارک۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
عید الفطر کے موقع پر صدر اوبامہ کا پیغام

اب جب کہ امریکہ اور دنیا بھر کے مسلمان ماہ صیام مکمل کرکے عید الفطر منارہے ہیں، مشیل اورمیں اس پرمسرت موقع پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ عید تیس دن کی شب وروزعبادت کی تکمیل پر خوشی منانے کا وقت ہے۔ لیکن خوشی کے اس تہوار کو مناتے ہوئے بھی مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد سمیت ان لوگوں کو یاد رکھتے ہیں جو کم خوش نصیب ہیں۔ پورے ماہ رمضان میں ، مسلمان کمیونٹیز زکواة الفطر اکٹھی اور تقسیم کرتی ہیں تاکہ تمام مسلمان عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں ۔ جیسا کہ میں نے قاہرہ میں کہا تھا ، میری انتظامیہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ مسلمان صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ سارا سال اپنی فلاحی ذمہ داریاں پوری کر سکیں ۔ ہم امریکی عوام کی جانب سے امریکہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس متبرک دن پر مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ عید مبارک۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov

بہت اچھے۔
صدر اوباما کوایک عام پاکستانی کاپیغام پہنچانے کی گذارش کرتا ہوں کہ وہ مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد پر آپ کا ایک احسان یہ ہوگا کہ پوری دنیا میں جہاں جہاں امریکی افواج ہیں ان کو واپس بلا لیں۔ جو کے بدامنی کا باعث بن رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد پر بھی آپ کا احسان ہوگا جو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات سے دربدر ہیں جس کی وجہ امریکہ کی پاکستان میں دراندازی، ڈرون حملے، پاکستان میں زی سیکیورٹی کمپنی کی وجہ سے پھیلا ہوا انتشار۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا پورا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ 9/11 سے پہلے کوئی خودکش حملہ، بم دھماکے ، فرقہ واریت کا ماحول نہیں تھا۔ لیکن آج امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ جس کا نقصان صرف اور صرف مسلمان اور خصوصی طور پر پاکستان اٹھا رہا ہے۔ جس کا ذمہ دار صرف اور صرف امریکہ ہے۔
درج بالا میسج صدر صاحب پہنچا دیں تو آپ کا احسان ہوگا۔
شکریہ
 

arifkarim

معطل
بہت اچھے۔
صدر اوباما کوایک عام پاکستانی کاپیغام پہنچانے کی گذارش کرتا ہوں کہ وہ مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد پر آپ کا ایک احسان یہ ہوگا کہ پوری دنیا میں جہاں جہاں امریکی افواج ہیں ان کو واپس بلا لیں۔ جو کے بدامنی کا باعث بن رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد پر بھی آپ کا احسان ہوگا جو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات سے دربدر ہیں جس کی وجہ امریکہ کی پاکستان میں دراندازی، ڈرون حملے، پاکستان میں زی سیکیورٹی کمپنی کی وجہ سے پھیلا ہوا انتشار۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا پورا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ 9/11 سے پہلے کوئی خودکش حملہ، بم دھماکے ، فرقہ واریت کا ماحول نہیں تھا۔ لیکن آج امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ جس کا نقصان صرف اور صرف مسلمان اور خصوصی طور پر پاکستان اٹھا رہا ہے۔ جس کا ذمہ دار صرف اور صرف امریکہ ہے۔
درج بالا میسج صدر صاحب پہنچا دیں تو آپ کا احسان ہوگا۔
شکریہ

بہت اچھے، دیکھتے ہیں صدر اوبامہ کیا جواب دیتے ہیں :chatterbox:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

بہت اچھے۔
صدر اوباما کوایک عام پاکستانی کاپیغام پہنچانے کی گذارش کرتا ہوں

ہم يقينی طور پر تجزيہ نگاروں اور رائے دہندگان کے موقف اور نقطہ نظر کو اہميت ديتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کئ زبانوں ميں مختلف ممالک کے عوام کے ساتھ رابطے ميں ہے۔ يہ امريکی انتظاميہ کی جانب سے دورياں کم کرنے اور براہ راست رسائ کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ ميں عمومی ثقافت اور طرز حکومت اس بات کو يقينی بناتی ہے کہ مختلف فورمز پر لوگ اپنے نظريات اور خيالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ واشنگٹن ميں مختلف تھنک ٹينکس کی جانب سے ورک شاپس، سيمينار، کانفرنسس اور سياسی ملاقاتوں اور اجتماعات کا انعقاد روز کا معمول ہے۔ ان کا مقصد ہی يہ ہوتا ہے کہ مختلف پس منظر اور سياسی خيالات اور سوچ رکھنے والے افراد امريکی حکومت کی پاليسيوں اور فيصلوں پر بحث کر سکيں۔ امريکی ميڈيا ميں ايسے بہت سے لکھاری موجود ہيں جو پاليسيوں کے حوالے سے رائے کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

اس سارے عمل کا عينی شاہد ہونے کی حيثيت سے ميں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ امريکی حکومت ميں انتہائ اعلی سطح پر فيصلہ سازی کا عمل مشاورت، بحث و مباحثہ اور اتفاق رائے سے کيا جاتا ہے۔ کسی بھی ايشو کے حوالے سے حکمت عملی وضح کرنے کے لیے حکومت کے بے شمار ادارے اور دفاتر مل کر کام کرتے ہیں۔ يہ سسٹم اور طرز حکومت آمريت سے بالکل مختلف ہے جس ميں ايک فرد يا گروہ فيصلے کرتے ہيں اور پھر قوت کے استعمال سے ان فيصلوں کو نافذ کيا جاتا ہے۔

يہ طريقہ کار امريکی آئين ميں درج اصول اور قوانين کے خلاف ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

9/11 سے پہلے کوئی خودکش حملہ، بم دھماکے ، فرقہ واریت کا ماحول نہیں تھا۔ لیکن آج امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ جس کا نقصان صرف اور صرف مسلمان اور خصوصی طور پر پاکستان اٹھا رہا ہے۔ جس کا ذمہ دار صرف اور صرف امریکہ ہے۔

ميں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بيشتر خودکش حملے پاکستان ميں حاليہ برسوں ميں ہوئے ہيں۔ اور اس کی وجہ يہ ہے کہ حکومت پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف عملی کاروائ چند برسوں ميں شروع کی ہے ۔ اس حوالے يہ دليل دی جاتی ہے کہ دہشتگردی پاکستان کا مسلۂ نہيں تھا اور اگر ان کے خلاف آپريشن نہ کيے جاتے تو پاکستان دہشت گردی کی کاروائيوں سے محفوظ رہتا۔ ميں اس سوچ سے متفق نہيں ہوں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ صورتحال قابل قبول ہوتی کہ لوگ پاکستان ميں دہشت گردی کی تربيت حاصل کر کے دنيا بھر ميں اپنی کارواۂياں کرتے اور حکومت پاکستان ان کے خلاف کوئ کاروائ نہ کرتی اس دليل کے ساتھ کہ "دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں"

9/11 کے واقعات کے بعد بڑی تعداد ميں طالبان اور القائدہ تنظيم کے لوگ پاکستان کے سرحدی حدود ميں داخل ہو گئے تھے۔ گزشتہ چند ماہ ميں مولوی فضل اللہ اور بيت اللہ محسود جيسے لوگوں کا اثر ورسوخ اتنا بڑھ گيا تھا کہ وہ اپنے قوانين نافذ کر رہے تھے اور اپنے ريڈيو اسٹيشن چلا کر نئے لوگوں کو اپنی تنظيم ميں شامل کر رہے تھے۔ ان حالات ميں حکومت پاکستان کے ليے ناگزير ہو گيا تھا کہ وہ ان لوگوں کے خلاف کاروائ کرے۔ دہشت گرد چند دنوں ميں تيار نہيں ہوتے، ان کی تربيت ميں کافی عرصہ درکار ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان کی کاروائيوں کے نتيجے ميں دہشت گردی کے واقعات سے يہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دہشت گردي پاکستان کا مسلۂ ہے اور دہشت گردی کا مرض معاشرے ميں نہ صرف موجود ہے بلکہ اگر اسے روکنے کے ليے سب نے اپنا کردار ادا نہيں کيا تو اگلے چند برسوں ميں اس ميں مزيد اضافہ ہو گا۔

پاکستانی افواج کے آپريشن کے بعد دہشت گردوں کی بے گناہ لوگوں کے خلاف کاروائيوں کو "ردعمل" قرار دينا ان کے جرائم کو جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ دہشت گردوں کی جانب سے دانستہ پاکستانی شہريوں پر حملے سے يہ ثابت ہے کہ يہ لوگ کسی بھی صورت ميں پاکستان کے خير خواہ نہيں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی اس سوچ کو اپنے معاشرے ميں پيھلنے سے روکيں جس کے نتيجے ميں خودکش حملہ آور تيار ہوتے ہيں۔ ہم امريکہ کی خارجہ پاليسی کے بہت سے پہلوؤں سے اختلاف کر سکتے ہيں، ليکن ہر قومی مسلئے کی طرح اس مسلئے کو بھی "بيرونی ہاتھ" اور "امريکی سازش" قرار دے کر قومی ذمہ داريوں سے چشم پوشی، دور انديشی اور اس مسلئے کا حل نہيں ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

بہت اچھے۔
صدر اوباما کوایک عام پاکستانی کاپیغام پہنچانے کی گذارش کرتا ہوں کہ وہ مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد پر آپ کا ایک احسان یہ ہوگا کہ پوری دنیا میں جہاں جہاں امریکی افواج ہیں ان کو واپس بلا لیں۔

اس میں کوئ شک نہيں کہ اس ايشو کے حوالے سے آپ کی ايک مخصوص سوچ اور نقطہ نظر ہے۔ ليکن میں چاہوں گا کہ آپ صرف دو روز قبل پاکستان کے وزير خارجہ شاہ محمود قريشی کا سی – اين – اين کو ديے گئے انٹرويو کا يہ حصہ پڑھيں جس ميں ان سے سوال کيا گيا تھا کہ اگر امريکہ اس خطے سے اپنی فوج واپس بلوا لے تو اس کے کيا نتائج نکليں گے۔ ان کا جواب تھا

"يقينی طور پر اس سے مکمل انتشار پھيلے گا۔ آپ نے جس کام کا بيڑا اٹھايا ہے اسے مکمل کيے بغير واپس نہيں جا سکتے۔ ورنہ 911 جيسے حادثات رونما ہوں گے۔ يہ دہشت گرد آپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہوں گے۔ کيا آپ چاہتے ہيں کہ ايسا ہو؟ يقينی طور پر نہيں۔ عالمی معيشت پر بھی اس کے منفی اثرات ہوں گے۔ کيا آپ ايسا چاہتے ہیں؟ يقينی طور پر نہيں۔"

يہ بيان اس ايشو کے حوالے سے ايک جمہوری منتخب حکومت پاکستان کے موقف اور نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ اس وقت پاکستان ميں پر تشدد واقعات کی ذمہ دار امريکی افواج نہيں بلکہ القائدہ اور اس سے معلقہ انتہا پسند تنظيميں اوردہشت گرد ہيں جو خودکش حملوں کے ذريعے معصوم پاکستانی اور افغان شہریوں کو قتل کر رہے ہيں۔ کچھ دن قبل افغانستان کی ايک مسجد ميں خود کش حملہ اور اس کے نتيجے ميں 22 بے گناہ شہريوں کی ہلاکت اس کی تازہ مثال ہے۔

جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو اس خطے سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جائے خود امريکی صدر اوبامہ نے ايک سے زائد موقعوں پر اس حقیقت کو واضح کيا ہے ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس وقت امريکی افواج افغانستان ميں منتخب افغان حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور افغان افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ خطے سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ حکومت پاکستان سميت بہت سے ماہرين اور تجزيہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جائے گا۔

ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ اب تک سينکڑوں کی تعداد ميں امريکی فوجی بھی اس جنگ ميں ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ افغانستان سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ افغان حکومت اس قابل ہو جائے کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام شہريوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی اور سارے خطے کا امن خطرے ميں پڑ جائے گا۔

اسی حقيقت کو پاکستان کے وزير خارجہ نے اپنے بيان ميں تسليم کيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

x boy

محفلین
بہت اچھے۔
صدر اوباما کوایک عام پاکستانی کاپیغام پہنچانے کی گذارش کرتا ہوں کہ وہ مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد پر آپ کا ایک احسان یہ ہوگا کہ پوری دنیا میں جہاں جہاں امریکی افواج ہیں ان کو واپس بلا لیں۔ جو کے بدامنی کا باعث بن رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد پر بھی آپ کا احسان ہوگا جو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات سے دربدر ہیں جس کی وجہ امریکہ کی پاکستان میں دراندازی، ڈرون حملے، پاکستان میں زی سیکیورٹی کمپنی کی وجہ سے پھیلا ہوا انتشار۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا پورا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ 9/11 سے پہلے کوئی خودکش حملہ، بم دھماکے ، فرقہ واریت کا ماحول نہیں تھا۔ لیکن آج امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ جس کا نقصان صرف اور صرف مسلمان اور خصوصی طور پر پاکستان اٹھا رہا ہے۔ جس کا ذمہ دار صرف اور صرف امریکہ ہے۔
درج بالا میسج صدر صاحب پہنچا دیں تو آپ کا احسان ہوگا۔
شکریہ

زبردست بات کہی ہے
امریکہ کی مداخلت اس وقت ہوتی ہے جب اندر والے مداخلت کا دروازہ کھول دیتے ہیں
 

x boy

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department



اس میں کوئ شک نہيں کہ اس ايشو کے حوالے سے آپ کی ايک مخصوص سوچ اور نقطہ نظر ہے۔ ليکن میں چاہوں گا کہ آپ صرف دو روز قبل پاکستان کے وزير خارجہ شاہ محمود قريشی کا سی – اين – اين کو ديے گئے انٹرويو کا يہ حصہ پڑھيں جس ميں ان سے سوال کيا گيا تھا کہ اگر امريکہ اس خطے سے اپنی فوج واپس بلوا لے تو اس کے کيا نتائج نکليں گے۔ ان کا جواب تھا

"يقينی طور پر اس سے مکمل انتشار پھيلے گا۔ آپ نے جس کام کا بيڑا اٹھايا ہے اسے مکمل کيے بغير واپس نہيں جا سکتے۔ ورنہ 911 جيسے حادثات رونما ہوں گے۔ يہ دہشت گرد آپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہوں گے۔ کيا آپ چاہتے ہيں کہ ايسا ہو؟ يقينی طور پر نہيں۔ عالمی معيشت پر بھی اس کے منفی اثرات ہوں گے۔ کيا آپ ايسا چاہتے ہیں؟ يقينی طور پر نہيں۔"

يہ بيان اس ايشو کے حوالے سے ايک جمہوری منتخب حکومت پاکستان کے موقف اور نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ اس وقت پاکستان ميں پر تشدد واقعات کی ذمہ دار امريکی افواج نہيں بلکہ القائدہ اور اس سے معلقہ انتہا پسند تنظيميں اوردہشت گرد ہيں جو خودکش حملوں کے ذريعے معصوم پاکستانی اور افغان شہریوں کو قتل کر رہے ہيں۔ کچھ دن قبل افغانستان کی ايک مسجد ميں خود کش حملہ اور اس کے نتيجے ميں 22 بے گناہ شہريوں کی ہلاکت اس کی تازہ مثال ہے۔

جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو اس خطے سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جائے خود امريکی صدر اوبامہ نے ايک سے زائد موقعوں پر اس حقیقت کو واضح کيا ہے ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس وقت امريکی افواج افغانستان ميں منتخب افغان حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور افغان افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ خطے سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ حکومت پاکستان سميت بہت سے ماہرين اور تجزيہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جائے گا۔

ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ اب تک سينکڑوں کی تعداد ميں امريکی فوجی بھی اس جنگ ميں ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ افغانستان سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ افغان حکومت اس قابل ہو جائے کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام شہريوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی اور سارے خطے کا امن خطرے ميں پڑ جائے گا۔

اسی حقيقت کو پاکستان کے وزير خارجہ نے اپنے بيان ميں تسليم کيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

اپنے لوگ مروانے کے لئے کیوں بھیج دیتے ہو،، دوسروں پر نہیں تو اپنی قوم پر رحم کھاؤ
 

فرقان احمد

محفلین
اللہ کی رحمتوں کا مہینہ ختم ہو چلا ہے۔ اس کے بعد جس چیز کا ہم کو شدت سے انتظار ہوتا ہے اور اس بار بھی ہے وہ عیدالفطر یعنی میٹھی عید ہے۔ جسے روزہ داروں کا انعام بھی کہا گیا ہے۔
مگر اس بارکچھ خاص ہے۔
عید کی خوشیوں میں کچھ غم بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کسی کی یتیمی کا غم،کسی کی بیوگی کا غم کسی کی بے اولادی کا غم،کسی کی معذوری کا غم اور کسی کی بےگھری کا غم۔ مگر ان غموں کو برداشت کرنا ہے۔ کہ رضائے الٰہی یہ ہی تھی۔
ہمارا عید کا فلسفہ تو ویسے بھی ہمیں ایثار و قربانی سکھاتا ہے۔ اپنے مفلس و مسکین بھائیوں کی مدد کرنا ہم پر لازم قرار دے دیا گیا ہے۔
تو اس کا بالخصوص خیال رکھیے گا کہ کوئی ہے جو آپ کی امداد کا منتظر وہاں غیروں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے ۔ اگر یہ ہی مقدر میں ہے تو ہم کیوں نہیں۔
اور غیر بھی کہ سو بار یاد دلانے پر ایک بار کچھ دیتے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق اقوامِ متحدہ کے پاس صرف چند ہفتوں تک امدادی آپریشن چلانے کے فنڈز ہیں۔ جتنی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا اس سے آدھی بھی نہیں دی گئی۔ اور میں محسوس کرتا ہوں کہ پہلے ڈیڑھ ہفتے جو جوش و خروش ہم میں تھا اب کم ہوتا جارہا ہے۔ شائد ہم مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب کرنے والے آگئے ہیں۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے والے آپ ہیں۔ اپنے اپنوں کی مدد نہیں کریں گے تو غیر کیا خاک توجہ دیں گے۔ ابھی وقت نہیں ہوا کہ ہم امدادی سرگرمیوں سے منہ موڑ لیں ۔ ابھی تو کئی علاقوں تک خیمے نہیں پہنچ سکے ۔وہاں کے روزانہ فضائی آپریشن کا خرچہ ہی اتنا ہے کہ ہماری دی گئی امداد دنوں میں اڑ جائے گی۔ آسان لفظوں میں پُھنک جائے گی۔ یہ تو ایسا گڑھا ہے کہ بھرنے کے لیے اس طرح کے کئی گنا جذبات کی ضرورت ہے۔
اس لیے میری ایک درخواست۔
“فطرانہ“ ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ آپ، ہم سب ادا کرتے ہیں۔ کسے ادا کرتے ہیں۔ اکثر پیشہ وروں کو۔ اس بار مستحقین کا بھی خیال کر لیجیے گا۔ میں شریعت کا عالم نہیں نہ ہی فقہی ہوں بس جو دل میں آئی وہ عرض کر رہا ہوں میرے خیال میں اس کے سب سے بڑھ کر مستحقین وہ ہیں جو اس وقت کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔
خدارا اس عید پر یہ بھی خیال کیجیے گا اپنے بچوں کو عیدی دیتے وقت یہ سوچ ضرور لیجئے گا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے بچے بھی ہیں جنھیں عیدی تو کیا گھر نصیب نہیں،کھانا نصیب نہیں۔
اگر اس بار آپ وہ عیدی اپنے بچوں کو دینے کی بجائے ان بچوں کے لیے دے دیں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی بلکہ اپنے بچوں کو باور کرائیں کہ آپ کے کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو اس کے اصل مستحق ہیں۔ بچے معصوم ہوتے ہیں خدا کی قسم مجھے اس بات کا یقین ہے کہ کوئی بچہ بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ نا کہے ڈیڈی یہ عیدی آپ ان کو دے دیں ہم نہیں لیں گے۔
مجھے امید ہے میرے قارئین اس بات پر توجہ دیں گے کہ اس بار عید ذرا سادگی سے منا لی جائے،عید کیک نا لایا جائے،اچھے اچھے کھاناے ڈھیر سارے کی بجائے ایک دو ڈش پکا لی جائیں،کہیں گھومنے نہ جایا جائے ،اپنا اور اپنے گھر والوں کا فطرانہ اور ہو سکے تو اپنے بچوں کی رضامندی سے انھیں بتا کر احساس دلا کر انکی عیدی بھی یہ سب ان کو دیا جائے جن کا ہم پر حق ہے۔
یاد رکھیے گا یہ ان پر احسان نہیں یہ ان کا آپ پر حق ہے مسلمان کا مسلمان پر حق ہے نیز یہ آپ اپنی آخرت سنوارنے کے لیے کریں گے اور کسی کے لیے نہیں۔
اللہ رب العٰلمین سے دعا ہے کہ وہ رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں اس آزمائش میں پورا اترے کی توفیق دے۔
آمین یا ربّ العٰلمین۔
ایک عمدہ تحریر!
 
Top