میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد

لائبریرین
دلچسپ واقعات کے لیے “ یادگار لمحات“ کا زمرہ ضرور دیکھیے گا۔ میں شرط لگانے کو تیار ہوں آپ کو اس میں بہت مزہ آئے گا۔

یہ “ میری ڈائری کا ایک ورق“ ہے۔ باجو نے اپنی اپوئنٹمنٹ لکھ لکھ کے اس کا برا حال کر دیا ہے۔ وگرنہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

اور یہ واحد زمرہ ہے جس میں میرے ایک خط پر آپ نے تعریف بھی کی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
دو دوست ساحل کنارے سیر کے لیے نکلے۔دورانِ سیر ان دونوں میں کسے بات پر بحث چل نکلی۔بحث میں ایک دوست کو غصہ آ گیا اور اس نے دوسرے دوست کو زوردار تھپڑ رسید کر دیا۔جس دوست کو تھپڑ لگا وہ خاموشی سے چلتا رہا اور کچھ دور جا کر اس نے ریت پر یہ لکھا “ آج میرے بہترین دوست نے مجھے تھپڑ مارا۔“

دونوں خاموشی سے آگے چلتے رہے۔جس دوست کو تھپڑ لگا تھا اس نے سوچا کہ سمندر میں نہایا جائے۔اس نے اپنا سامان سمندر کنارے رکھا اور نہانے چلا گیا۔دوسرا دوست کنارے پر کھڑا رہا۔

سمندر میں وہ ذرا گہرے پانی میں چلا گیا۔ اچانک ایک زوردار لہر آئی اور وہ ڈوبنے لگا۔دوسرا دوست جو سمندر کنارے کھڑا تھا اس نے فوراَ اپنے دوست کو بچایا اور خیریت سے سمندر کنارے لے آیا۔

جب اُس دوست کی حالت ذرا بہتر ہوئی تو وہ اٹھا اور ہتھوڑی اور لوہے کی کیل سے ایک بڑے پتھر پر یہ کُندہ کر دیا “آج میرے بہترین دوست نے میری جان بچائی“

جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور اس کی جان بچائی تھی،اس نے پوچھا “جب میں نے تمہیں تکلیف دی تو تم نے ریت پر لکھا ،اب اس پتھر پر کیوں لکھا ہے“ ۔

دوسرے نے جواب دیا “ جب کوئی آپ کو تکلیف پہچائے تو آپ اسے ریت پر لکھ دیں جہاں معافی کی آندھیاں اس کو مٹا دیں گی، اور جب کوئی آپ کے ساتھ اچھائی کرے تو اسے پتھر پر کندہ کر دیں تاکہ رہتی دنیا تک مثال بن جائے“
 

شمشاد

لائبریرین
جوتا چرانے کی رسم

اس موقع پر دولہا کی سالیاں اپنے برادر ان لاء کو جوتیاں اتار کر بیٹھنے پر زور دیتی ہیں۔ چنانچہ جب وہ جوتیاں اتارتا ہے تو موقع پا کر یہ سالیاں جوتیاں غایب کر دیتی ہیں۔ بعد میں اس جوتی کی واپسی کے لیے دولہا کو منہ مانگی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ جوتی چرانے کی یہ رسم شادی بیاہ کے علاوہ ہر جمعے کو مسجدوں کے باہر بھی ادا کی جاتی ہے۔ اور یہ رسم سالیاں ادا نہیں کرتیں۔ ممکن ہے یہ رسم سالے ادا کرتے ہوں۔ تاہم میں نے اس ضمن میں کوئی تحقیق نہیں کی۔

(عطاء الحق قاسمی کی “ قندِ مکرر“ سے)
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دفعہ علی گڑھ میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ اہل ذوق دور دور سے مشاعرے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ علامہ اقبال بھی موجود تھے۔ مشاعرے کے اختتام پر چند مقامی شعراء نے ایک مصرعہ منتخب کر کے علامہ کو اس پر گرہ لگانے کو کہا :

مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں ہرن پانی میں​

علامہ اقبال اس قسم کی گرہ بازی سے پرہیز کرتے تھے تاہم یہ مصرعہ لگا کر شعر مکمل کر دیا :

اشک سے دشت بھریں آہ سے سوکھے دریا
مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں ہرن پانی میں​
 

شمشاد

لائبریرین
مسجد کا خوشبودار مینار

مراکش میں ایک عظیم الشان مسجد ہے جس کے فلک بوس مینار سے بھینی بھینی خوشبو آتی ہے۔ موجدین کے تیسرے فرمانروا یعقوب المنصور نے الفانسو ہشتم کو اسپین کے مقام الارکو میں شکست دی تو فتح کی یاد میں یہ مسجد بنوائی۔ اس کے حکم پر گارے میں مشک کی 960 بوریاں ڈالی گئیں تا کہ وہ خوشبودار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تھی اس مینار سے خوشبو آتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قائد کو خراجِ عقیدت

ہندوستان کے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن مس وجے لکشمی پنڈت نے ایک موقع پر کہا :

“ اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام ہوتے اور کانگرس کے پاس صرف محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان تقسیم نہ ہوتا۔“

(دیدہ بینائے قوم سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
رشید احمد صدیقی ان دنوں شعبہ اردو (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کے صدر تھے۔ گرلز کالج کی پرنسپل ممتاز حیدر نے کہا کہ کالج کی لڑکیاں شعبہ اُردو دیکھنا چاہتی ہیں۔ آپ کوئی مناسب وقت اور تاریخ بتا دیں۔

رشید احمد صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا “ وہ تو ٹھیک ہے لیکن تاریخ تو لڑکی والے ہی طے کرتے ہیں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
مچھر طائر لاہوتی کی طرح اونچی پرواز نہیں کرتا کہ اس سے مچھر کی انسان دوستی پر حرف آتا ہے۔ وہ زمین کے باسیوں سے اپنا رشتہ قائم رکھتا ہے اور پہاڑوں پر نشیمن بنانے کے لیے چنداں تردد نہیں کرتا۔ وہ طبع امیرانہ مگر مزاج فقیرانہ رکھتا ہے۔ دوسروں کے شکار کو حرص ہو آس کی نظر سے نہیں دیکھتا۔

جھپٹنا، بلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا اس کے لیے خون کو گرم رکھنے کا بہانہ نہیں بلکہ رزقِ حیات حاصل کرنے کا وسیلہ ہے اور وہ اس کے لیے تگ و دو جاودانہ کرتا ہے۔ چنانچہ مچھر ہمیشہ تازہ خون تلاش کرتا ہے۔ اس نے وہ رزق کبھی تلاش نہیں کیا جس سے اس کی چھوٹی سی پرواز میں کوتاہی پیدا ہو۔
(مچھر کی مدافعت - اس انور سدید)
 

شمشاد

لائبریرین
جاپان میں شادی سے لیکر جنازے تک کے لیے “مہمان کرائے پر مل جاتے ہیں“۔ ایسے مہمان شادیوں میں دولہا یا دلہن کے بچپن کے ہم جماعت، رشتے دار حتٰی کہ “ والد اور والدہ “ تک بن جاتے ہیں۔ مہمان مہیا کرنے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ فی الحال 110 سے 180 ڈالر خرچ اٹھتا ہے۔ شاید کچھ عرصے کے بعد دولہا یا دولہن تھی کرایہ پر ملنا شروع ہو جائیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
کسی مغربی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ کون کہتا ہے کہ محبت کوئی سائنسدان لیبارٹری میں پیدا نہیں کر سکتا۔ محبت لیبارٹری میں ہو سکتی ہے بشرطیکہ لیبارٹری اسسٹنٹ واقعی پیاری ہو۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی “ شیطانیاں“ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
کہتے ہیں کہ آج کل بے لوث محبت کرنے والا نہیں ملتا۔ یہ غلط ہے، وہ تو آپ کو ہر گلی اور ہر سٹرک پر مل جائے گا جو آپ کی محبت میں جان تک قربان کر سکتا ہے مگر اس کی اس لیے قدر نہیں ہوتی کیونکہ وہ دُم ہلا کر پاؤں میں لوٹ تو سکتا ہے، زبان ہلا کر “ آئی لو یُو“ کہہ کر دل نہیں لوٹ سکتا۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی “ شیطانیاں“ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں جتنے حادثے گھر میں ہوئے اتنے آج تک کسی سڑک پر نہیں ہوئے۔ یوں بھی سڑک کے حادثے میں بال بال بچ سکتے ہیں مگر گھر کے حادثے میں‌ بال نہیں بچتے۔ بیوی کے آنے سے چھوٹا سا گھر بھی اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ خاوند کو بلانے کے لیے بھی بیوی کو یوں پکارنا پڑتا ہے کہ وہ بعد میں سنتا ہے پہلے محلے والے سن لیتے ہیں۔ ویسے بھی گھر یا تو اتنا چھوٹا ہونا چاہیے کہ لڑائی جھگڑے کے لیے جگہ نہ ملے یا پھر اتنا بڑا کہ لڑائی جھگڑے کے کا موقع نہ ملے۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی “ شیطانیاں“ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
بیوی گھر میں نہ رہے تو گھر چلانا مشکل ہو جاتا ہے اور خاوند گھر میں رہے تو بھی گھر چلانا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود آج کے ایٹمی دور میں بھی گھر کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لیے مارکیٹ میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو خاوند سے بہتر ہو۔ نقل و حمل کے لیے بھی خاوند مذہب سے بہتر ہے۔ یہاں نقل و حمل سے مراد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی “ شیطانیاں“ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
ہم سے پہلے بھی کوئی صاحب گزرے ہیں جنہوں نے بیٹھے بٹھائے بکری پال لی تھی اور پھر عمر بھر اس کے زانوں پر سر رکھ کے منمناتے رہے تھے۔ ہمیں غیب سے یہ سوجھی کہ اتفاق سے ولایت جا رہے ہیں کیوں نہ وہاں سے نئی کار لائی جائے؟ یعنی کیوں نہ جانے سے پہلے پرانی کار بیچ دی جائے۔ اور یہ سوچنا تھا کہ جملہ اندیشہ شہر کو لپیٹ کر ایک کونے میں رکھ دیا اور کار بیچنا شروع کر دی۔ بوٹی بوٹی کر کے نہیں، سالم۔ ہمارے کار فروشی کے فعل کو سمجھنے کے لیے کار سے تعارف لازم ہے۔ یہ کار ان کاروں میں سے نہ تھی جو خود بک جاتی ہیں۔ اس متاع ہنر کے ساتھ ہمارا اپنا بکنا بھی لازم تھا۔ یعنی اس کار کے بیچنے کے لیے ایک پنچ سالہ منصوبہ کی ضرورت تھی۔ لیکن ہمارے پاس صرف تین دن تھے کہ چوتھے روز ہم نے فرنگ کو پرواز کر جانا تھا۔ سو ہم نے ازراہِ مجبوری ایک سہہ روزہ کریش پروگرام بنایا جس کا مختصر اور مقفی لبِ لباب یہ تھا : آج اشتہار، کل خریدار، پرسوں تیس ہزار۔ سو ہم نے اشتہار دے دیا “‌ کار بکاؤ ہے “ ایک کار، خوش رفتار، آزمودہ کار، قبول صورت فقط ایک مالک کی داشتہ، مالک سمندر پار جا رہا ہے۔ فون نمبر 62259 پر رابطہ کریں۔
(کرنل محمد خان کی کتاب “بزم آرائیاں“ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
کھلا دروازہ

کھلا دروازہ

احمد بن ابي غالب چھٹي صدي ہجري کے بزرگ تھے، لوگ ان کے پاس دعا کيلئے عموما حاضر ہوتے تھے۔

ايک مرتبہ کوئي صاحب ان کي خدمت ميں آئے اور کسي چيز کے متعلق کہا کہ۔۔۔۔
آپ فلاں صاحب سے ميرے لئے وہ چيز مانگ ليجئيے۔

احمد فرمانے لگے ميرے بھائي ميرے ساتھ کھڑے ھوجائيے، دونوں دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ ہي سے کيوں نہ مانگ ليں، کھلا در چھوڑ کر بند دروازے کا رخ کيوں کيا جائے۔

يقينا اللہ کا در ہر وقت کھلا ہے، يقین اور ايمان کي کمزوري ہوتي ہے، کہ اسے چھوڑ کر مخلوق کے بند دروازوں پر کھڑے ہوکر ذلت اٹھائي جائے، اس کھلے دروازے کي طرف رجوع کي عادت تو ڈالئيے، آزما کر تو ديکھئیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ايسا کہاں سے لاؤں؟

ايسا کہاں سے لاؤں؟

عيد الفطرکا زمانہ تھا، ہر شخص اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے نئے کپڑے خريدنے ميں مصروف تھا، جب بڑوں ميں عيد کيلئے يہ گہما گہمي تھي تو بچے بھي اس خوشي کے موقع سے کیسے غافل رہتے، چنانچہ تمام بچوں نے اپنے اپنے والدين سے عيد کے لئے کپڑوں کي خواہش ظاہر کي اور تمام بچوں کي خواہش تکميل بھي کر دي گئي، اب يہ بچے اپنے نئے کپڑے اپنے دوستوں کو دکھانےلگے، بچے تو پھر بچے ہي ہوتے ہیں، چاہے وہ کسي غريب کے ہوں يا امير کے ، عام شخص کے بچے ہو يا امير المومنین کے، چنانچہ عام بچوں کے نئے نئے کپڑوں کو ديکھ کر انہوں نے بھی اپنی والدہ سے نئے کپڑوں کی فرمائش کی۔ امير المومنين رات کو گھر تشريف لائے تو اہليہ نے بچوں کي خواہش کا ان کے سامنے اظہار کرديا، بچے نئے کپڑے مانگ رہے ہیں۔
امير المومنين خاموش رہے کوئي جواب نہ دیا اور آرام کي غرض سے ليٹ گئے ليکن نيند کہاں آتي يہ نئي پريشاني جو سر پر آپڑي تھي، وہ سوچنے لگے کہ گھر ميں خريدنے کيلئے کچھ بھي نہیں ہے دوسري طرف بچوں کي خواہش تھي اس کو رد کرنا بھي سخت ناگوار تھا، سوچتے سوچتے ان کے ذہن ميں بات آئي کہ بيت المال سے اگلے مہينے کي تنخواہ پيشگي لے ليتا ہوں، جس سے بچوں کي خواہش کي تکميل ہوجائے گي اور اگلےمہينے کے راشن کيلئے اللہ تعالي کوئي نہ کوئي انتظام فرماديں گے، يہ سوچ کر ان کو کچھ اطمينان ہوا۔
اگلے دن صبح ہي امير المومنين بيت المال کے ذمہ دار کے پاس تشريف لے گئے اور ان سے حاجت بيان کی کہ مجھے اگلے مہينے کي تنخواہ پيشگي دے دو، بيت المال کے ذمہ دار نے جواب ديا امير المومنين اس بات کي کيا ضمانت ہے کہ آپ ايک مہينے تک زندہ رہیں گے اور پورے مہينے اپني ذمہ دارياں سرانجام ديں گے، امير المومنين اس بات کے سامنے لاجواب ہوگئے اور خالي ہاتھ ہي واپس لوٹ آئے اور اہليہ سے سارا قصہ بيان کيا اور کہا کہ ہمارے بچے اس عيد میں پرانے کپڑے ہي پہن سکیں گے۔

چنانچہ دنيا نے ديکھا کہ عيد کے دن تمام لوگوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، ليکن امير المو منین کے بچے پرانے کپڑوں میں نماز کيلئے عيدگاہ کي طرف آرہے ہیں، دنيا اس عدل و انصاف اور تقوي و پرہيزگاري کے علم بردار امير المو منين کو حضرت عمر بن عبدلعزيز رحمتہ اللہ کے نام سے جانتي ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بيرم شاہ کو حج کرانا

بيرم شاہ کو حج کرانا

بیرم خان اکبر کا اتاليق تھا، اسي نے اس کي پرورش کي تھي، اور تخت دلايا تھا، اکبر نے تخت پر بيٹھنے کے بعد جب سارے اختيارات قبضے ميں کر لئے توسوچا پہلے اس محسن کے احسانات کا بدلہ چکانا چاہئيے، چنانہ بيرم خاں کو بلايا اور کہا۔۔۔۔۔خان بابا، اب آپ جائيے، حج کر آئيے، کسي کو حج پر بھيجنا خواہ وہ جانا چاہے يا نہ جانے چاہے بڑي نيکي کا کام ہے، اکبر نے اور بھي کئي لوگوں کو انکے نہ نہ کرتے ہوئے حج و زيارات پر بھيجا ليکن خود ناگزير وجوہات اور چند در چند مصروفيات کي وجہ سے کبھي نہ جا سکا۔

بيرم خاں حج کو جاتے ہوئے راستے ميں قتل ہوگيا، ليکن يہ اس کا ذاتي معاملہ تھا، تاريخوں ميں لکھا ہے، کہ اکبر کو اس کے مرنے کي خبر ہوئي تو بہت رنج ہوا، ضرور ہوا ہوگا۔
(ابن انشاء کی تحریر)
 
Top