تاریخ بروالہ کے صفحات: 39تا48

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

سسٹرشگفتہ، تاریخ بروالہ کے میں نے صفحات 39تا48 مکمل کرلئےہیں جوکہ یہی پرلوڈکررہاہوں۔باقی صفحات بھیج دیں تاکہ ٹائپ کرسکوں (شکریہ)

ہریانہ اورہانسی

بروالہ سیدان کاعلاقہ:- گذشتہ با ب میں اس بات کی توپوری طرح وضاحت ہوگئی ہے کہ بروالہ سیدان کی بستی ان آبادیوں میں سے ہےجوبہت قدیم زمانہ میں میں سرسوتی دریائے گھگھرکی کسی شاخ کے کنارے آبادکی گئی تھیں۔ مگر اس بات کاتعین بھی ضروری ہے کہ بعدکے زمانوں میں اس بستی کاشمار کس علاقہ میں کیاجاتارہاہےاورجغرافیائی، تاریخی اورانتظامی لحاظ سے اس بستی کوکس علاقہ میں شامل سمجھاگیاہے۔ اس بات کاتعین کرنے کے بعدہی ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ بعدکے ادوارمیں اس تاریخی حالات کو سمجھ۔ سکیں۔اس لحاظ سے یہ تمام علاقہ جس میں یہ بستی آبادہے قدیم زمانہ سے "ہریانہ"کے نام سے موسوم چلاآتاہے۔چنانچہ تقسیم برصغیرکے کچھ۔ عرصہ بعدہندوستان کی حکومت نے اپنے ملک کے صوبوں کی نئے سرے سے حدبندی کی تو اس علاقہ کوپھرسے اس کاقدیم نام دے دیاگیاہےاب یہ علاقہ پنجاب سے علیحدہ ایک صوبہ کی حیثیت رکھتاہے اوراس صوبہ کانام"ہریانہ"ہے۔
ہریانہ:- یہ علاقہ اپنی اہمیت اورمنفردخصوصیات کی بناء پرنمایاں اورممتازرہاہےتاریخ کی کتابوں میں اس کاذکرخصوصی طورپرکیاگياہے۔مفتی غلام سرورلاہوری نے لکھاہے۔
'یہ ایک بڑاعلاقہ اورفراخ زمین ماتحت لیفٹینٹ گورنربہادرپنجاب ہے۔شمال مغرب وشمال مشرق کی طرف اس کے سرہندکے علاقہ کے شہراورمشرق میں ضلع رہتک و دادری وجنوب میں دادری کاعلاقہ ولوہاروومغرب میں ریاست بیکانیروبٹھیانہ ہے۔کل سطح اس کا تین ہزارتین سومربع میل ہے۔اس کے زمین کے بہت سے نشان ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویاان پر کبھی دریاچل چکاہے۔دریائے گھگھروچتنگ وغیرہ ندیاں کوہ ہمالہ سے نکل کراس میں بہتی ہیں۔زمین اس کی بہت سے مقامات سے زرخیزولائق پیداواربسبب مل جانے پانی مناسب کے ہے،پیداواریہاں کی شالی،گہیوں،جووغیرہ ہرایک قسم کاغلہ ہے۔اس علاقہ میں جن جن مقامات پرپانی کی کمی ہے زمینداروں نے وہاں پرپختہ تالاب بنوائے ہوئے ہیں۔برسات کے موسم میں وہاں پانی جمع ہوجاتاہےاورمکئی کے موسم میں ان تالابوں سے وہ پانی خرچ میں لاتے ہیں۔اوراگربرسات نہ ہوتوکنوؤں کے ذریعہ سے زراعتوں کوپانی دیتے ہیں۔کنوئیں یہاں بعض ایک سواوربعض ایک سوبیس فٹ تک گہرے ہوتے ہیں۔زمین یہاں بہت سے مقامات سے خشک و سوختہ ہےاگربرسات نہ ہوتوکنوؤں کے پانی خشک ہوجاتے ہیں۔(مفتی غلام سرورلاہوری۔تاریخ مخزان پنجاب،نولکشور،لکھنو1877 ص 53)
اس اقتباس سے جہاں ہریانہ کے علاقہ کی نمایاں خصوصیات کاپتہ چلتاہے وہاں اس کے طبعی حالات ،پیداوار
























اورطرززندگی کابھی اندازہ ہوجاتاہے۔بلکہ یہاں تواس علاقہ کے حدوداربعہ کاذکربھی کردیاگیاہے۔انسائکلوپیڈیاآف اسلام میںبھی اس علاقہ کاذکرملتاہے۔اس میں لکھاہے۔
یہ ہندوستانی پنجاب میں دہلی کے شمال مغرب میں واقع علاقہ کانام ہے۔جوموجودہ ضلع حصارمیں حصارفیروزہ اورہانسی کے شہروں کے اردگردواقع ہے اور مشرق میں ضلع رہتک تک پھیلاہواہے۔یہ گھگھرندی کے جنوب میں واقع ہے یہ ندی جزوی طورپرقدیم دریائے سرسوتی کاہی حصہ ہے۔جوکسی زمانہ میں سندھ سے جاکرمل جاتاتھا۔اورآجکل ایک برساتی نالہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔اوراس کاپانی راجستان کے ریگزاروں میں گم ہوجاتاہے۔اس علاقہ کانام کے معنی سبزعلاقہ ہیں۔ اگرچہ آجکل یہ علاقہ نیم صحراکی صورت میں ہے۔ایک عام روایت یہ بھی ہے کہ اس علاقہ کانام علاقہ کے روایتی حکمران ہری چندکے نام پررکھاگياتھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ علاقہ مویشیوں کی پرورش کے لیے بہت مشہورہےاورہندوستان میں ہریانہ کے مویشیوں کوبہت اعلی سمجھاجاتاہے۔((Encyloped of Islem Loadon (Holland)1979 V.III.P.225
امپیریل گزیٹزمیں اس علاقہ کاذکربڑی تفیصل سے کیاگیاہےاس میں بتایاگیاہے۔
یہ پنجاب میں ضلع حصارمیں ایک علاقہ ہےایک روایت کے مطابق اس کانام ایک قدیم بادشاہ ہری چندکے نام پررکھاگیاتھاجوکسی نامعلوم زمانہ میں اودھ سے یہاں آیاتھااوراس نے اس تمام علاقہ کوآبادکیاتھا۔یہ علاقہ ضلع کے مرکزمیں ہموارمیدان پرمشتمل ہے۔جس میں جہاں جہاں ریتلاعلاقہ آجاتاہےاورجس میں اکثرجگہ جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔بتایاجاتاہےکہ یہ جھاڑیاں کسی زمانہ میں تمام علاقہ کوڈھکے ہوئے تھیں۔نہرجمن غربی جواس علاقہ کوتقریبادوبرابرٹکڑوں میں تقسیم کرتی ہے۔وہ اب اپنے کناروں پرآباددیہات کوسیراب کرتی ہےلیکن اپنے مقامی حکمرانوں کے عہد میں ہریانہ خشک علاقہ مشہوررہاہے۔جوراہپوتانہ کے صحراکےکنارے پرواقع تھا۔پانی صرف کنوؤں سے حاصل ہوتاہےجوسوسے ایک سوتیس فٹ تک گہرے ہوتے ہیںاوراسطرح کے کنوئیں کی تعمیرکے اخراجات ایک سوپچاس پونڈسے کم نہیں ہوتے۔چنانچہ کنوؤں سے آبپاشی کی کوشش سوائے بہت خراب موسم کے کبھی نہیں کی جاتی۔اورجب ایساکیاجائے تب بھی زیادہ سے زیادہ چندایکڑزمین سبزیوں کے لئے گاؤں کے نزدیک سیراب کی جاسکتی ہےاس علاقہ کی زمین سخت ہے۔جیسے زیادہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔اورجس میں ہل چلانامشکل ہوتاہے۔جس زمانہ میں بارش نہیں ہوتی،تواس علاقہ میں قطعاکوئی پیداوارنہیں ہوتی۔چنانچہ خشک موسم میں یہاں نہ صرف غلہ کی فصل نہیں ہوتی بلکہ چارہ کی فصل بھی نہیں ہوتی۔یہاں تک کہ گھاس تک نہیں اگتا۔www.hunter.lenperfai.gazebeer of India.London (665.P.337
ایک اورکتاب میں اس علاقہ کی بارے میں تحریرہے۔

























ہریانہ کے علاقہ کی زمین قریباہمواراوراچھی مٹی والی ہے۔کہیں کہیں کوئی ٹکڑاسخت مٹی کاآجاتاہے یا کہیں کہیں ریت کاکوئی ٹیلاموجودہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہرجمن غربی اس قطعہ زمین کے درمیان میں سے مغرب سے مشرق کی جانب بہتی ہوئی گزرتی ہے۔یہ زیرکاشت زمین کے صرف چارفیصدرقبہ کوسیراب کرتی ہےکنوؤں سے آبپاشی اس علاقہ میں ناممکن ہے کیونکہ کنوئیں یاتوبہت گہرے ہیں یاان کاپانی نمکین ہے ۔اوران سے آبپاشی پرخرچ ہونے والی رقم بھی فصل سے واپس نہیں مل سکتی۔البتہ انتہائی قحط کے دنوں میں آبپاشی کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ورنہ اصولی طورپران سے صرف پینے کاپانی حاصل کیاجاتاہے۔وہ بھی صرف بہارکےموسم میں یاگرمی میں جب کے تالابوں کاپانی خشک ہوجاتاہے۔(حصارڈسٹرکٹ سیٹلمنٹ رپورٹ۔92-1887 ص 2)
ان تمام اقتباسات سے اس علاقہ کے جغرافیائی حالات ، طبعی کیفیت ، محل وقوع،تاریخی پس منظر،طرزمعاشرت پیداوار،اوردیگرمتعلقہ باتوں کابخوبی علم ہوجاتاہے۔یہی وہ علاقہ ہے جس کی بستیوں میں سے ایک اہم اورتاریخی بستی کانام بروالہ سیدان تھا۔اس بستی کے تاریخی حالات اورجغرافیائی کیفیات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے اس علاقہ سے واقفیت ضروری ہے۔کیونکہ اس علاقہ کے حالات کے ذیل میں ہی اس بستی کے حالات کوسمجھاجاسکتاہے۔
زمین کی ایک قسم کانام:- ہریانہ کالفظ جہاں ایک مخصوص علاقہ اورخاص قطعہ زمین کے نام کے لیے استعمال ہواہےوہاں اس زمین کے بندوبست کے موقع پرزمین کی ایک قسم کے لیے بھی استعمال کیاگياہےدونوں مقامات پراس لفظ کااستعمال بالکل مختلف معنوں میں ہواہےاس لیے اس امتیازکے پیش نظررکھناچاہیے اول الذکرمعنی میں اس کااطلاق تاریخی اورجغرافیائی حیثیت کے حامل ایک خطہ زمین پرہوتاہےاورثانی الذکرمعنی میں یہ محض زمین کے بندوبست اورمحمکہ مال کی ایک اصطلاح کے طورپراستعمال ہواہےمثلاایک جگہ مال گذاری کے لحاظ سے اس علاقہ اوراس سے ملحقہ علاقہ کو اس طرح تقسیم کیاگیاہے۔
اس علاقہ کواسطرح تقسیم کیاجاتاہے۔
1-ہریانہ یابانگریادیس،یہ وہ علاقہ ہے جوحصارکے مشرق میں واقع ہے اور ضلع حصارکے مشرقی علاقہ کے ساتھ۔ ساتھ۔ ضلع رہتک کابڑاحصہ بھی اس میں شامل ہے۔جمناکے نزدیک بانگرکالفظ اونچی زمین کے معنی میں استعمال کیاجاتاہےجوکھادریادریائی زمین کامتضادہےہریانہ کودیس شایداس لیے کہاجاتاہےکہ یہ جاٹوں کادیس ہے۔اس علاقہ کے رہنے والے جاٹوں کودیسوالی جاٹ کہاجاتاہے۔سرسہ ضلع کاکوئی حصہ ہریانہ میں شامل نہیںاورہریانہ کاعلاقہ مغرب میں حصارسے آگے نہیں بڑھتا۔
2- نالی یاسوترکاعلاقہ یہ وہ علاقہ ہے جوگھگھرکی وادی میں یااس کےساتھ۔ ساتھ۔ واقع ہے۔
3- باگڑ:یہ علاقہ بانگرسے بالکل علیحدہ ہے اوریہ وہ ریتلاخشک علاقہ ہے جوگھگھرکی وادی کے جنوب میں بیکانیر























تک پھیلتاچلاگیاہے۔
-4روہی یاجنگل:- یہ وسیع اورخشک علاقہ ہے جو گھگھراورستلج کی وادی کے درمیان واقع ہے۔
زمین کی یہ ساری تقسیم اس کی پیداواری قوت کے لحاظ سے کی گئی ہے تاکہ اس کے مطابق اس پر مالیہ اور محصول عائدکیاجاسکے۔اس لحاظ سے ہریانہ کے نام سے منسوب ہونے والی زمین کی خصوصیات اس طرح بیان کی کئی ہیں۔
اس نام کاقطعہ باقی قطعات سے وسیع ہے اور اس میں ضلع حصارکے 631میں سے 292دیہات شامل ہیں یہ ضلع کے درمیان میں واقع ہے اورنہرجمن غربی اس کے بیچ میں سے مغرب سے مشرق کی جانب بہتی ہے۔اس کی مٹی دوطرح کی ہے ان دوقسموں کواصلاحی طورپر،ڈاکر،اورروسلی، کے نام دیئے جاتے ہیں۔اول الذکرسخت ہوتی ہےاوربجائی سے قبل اسے کافی زیادہ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہےجبکہ مؤخرالذکرکسی حدتک ریتلی مٹی ہوتی ہےاوراسے کم پانی کی ضرورت ہوتی ہےاس تمام علاقہ کی زمین ایسی ہے کہ اگراسے کافی پانی مل جائے توبھرپورپیداواردیتی ہےلیکن بارش نہ ہونے کی صورت میں یہاں کچھ۔ بھی پیدانہیں ہوتا۔زیرزمین پانی سوسے ایک تیس فٹ تک گہرائی پرملتاہےاورپکے کنوئیں کی تعمیرپرڈیڑھ سوپونڈسے کم خرچ نہیں اٹھتا۔اس لیے کنوؤں سے آبپاشی کی یہاں کوشش ہی نہیں کی جاتی۔البتہ بہت خراب موسم ہوتوہرگاؤں کے آس پاس چندایکڑزمین سبزی کی کاشت کے لیے کنوؤں سے سیراب کرنے کی کوشش کرلی جاتی ہے۔خشک موسم میں غلہ کی فصل توایک طرف عام چارہ کی فصل بھی ختم ہوجاتی ہےچنانچہ بارش سے زیادہ زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے زمینوں کے وسیع ٹکڑوں کوکاشت کے بغیرچھوڑدیتے ہیں ان میں جوپانی جمع ہوجاتاہےاسے نالوں کے ذریعہ کاشت شدہ کھیتوں میں لے جاتے ہیں۔اوراسطرح پیداوارمیں اضافہ کرتے ہیں۔(www.hunter.imperial of India. London 1885 P226.27)
ان اقتباسات کے پیش نظررکھاجائے تو لگتاہےکہ "ہریانہ"کے لفظ کے الگ الگ استعمال کرنے کے باوجوددونوں معنوں میں بہت سی خصوصیات مشترک ہیں۔ظاہرہے کہ یہ ایک قدرتی امرہے۔کچھ۔ خصوصیات کی بناپرہی ایک خاص نام کو استعمال کیاجاتاہےمگراس کے باوجودکچھ۔ پہلوایسے بھی موجودہیں جودونوں معنوں کوایک دوسرے سے ممتازکرتے ہیں اس لحاظ سے اول الذکرمعنی کے لئے "ہریانہ"کالفظ اورموخرالذکرمعنی کے لیے "چک ہریانہ"استعمال کیاجائے توزیادہ مناسب ہے۔
وجہ تسمیہ:- ہریانہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کئی روایتیں بیان کی جاتی ہیں(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرز۔مصاء اورلوہاروسیٹیٹ۔1904۔)ایک روایت تووہی ہے جس کاگذشتہ صفحات میں ذکرہوچکاہےکہ ہری چندکاکوئی راجہ ادوھ سے آیاتھا۔جس نے اس علاقہ کوآباد

























کیااوریہاں اپنی حکومت قائم کی۔ہوسکتاہے کہ مہابھارت کےبعدکے زمانہ میں ایساہواہو۔ورنہ مہابھارت سے قبل کازمانہ تووہے جب پنجاب کے علاقہ سے آریاؤں نے گنگااورجمناکے میدانوں میں منتقل ہوکراپنی حکومتیں قائم کی تھیں دوسری روایت میں اس نام کاتعلق"ہری"کے لفظ سے قائم کیاجاتاہےاس لفظ کے معنی قتل کے ہیں اوربیان کیاجاتاہےکہ پارس رام نامی کسی راجہ نے اس علاقہ میں اکیس مرتبہ کھریوں کاقتل عام کیاتھا۔اس طرح علاقہ کانام"ہریانہ"پڑگیا۔تیسری روایت اس نام کوایک جنگلی پودے"ہریابان"سے متعلق کرتی ہےکہاجاتاہےکہ کسی زمانہ میں یہ تمام علاقہ اس جنگلی پودے سے اٹاہواتھااس لیے اس کانام ہریانہ پڑگیا۔اس روایت کوہنٹرکے اس بیان سے تقویت ملتی ہےجسکاگذشتہ صفحات میں ذکرآیاہے کہ کسی زمانہ میں یہ تمام علاقہ جھاڑیوں سے ڈکھاہواتھا۔ہوسکتاہے کہ یہ جھاڑیاں اس پودے "ہریابان"کی ہی ہوں۔آخری روایت یہ ہے کہ یہ نام لفظ "ہرا"کی نسبت سے پڑاہےہراکے معنی سرسبزکے ہیں اوراگریہ روایت درست ہے تویہ زمانہ کی یادگارہے جب دریائے سرسوتی اوراس کی معاون شاخیں اس تمام علاقہ کوسیراب کرتے تھے۔بارشیں بھی اتنی کم نہیں ہوتی تھیں جنتی کم بعدمیں ہونے لگیں۔اوریہ علاقہ سرسبزوشاداب تھا۔اسکی آبادیاں پررونق تھیں اوریہاں کی حالت ویسی بنجراوربے آبادعلاقے کی نہیں تھی جیسی بعدمیں ہوگئی۔
ان تمام روایات میں سے پہلی اورآخری روایت زیادہ قابل اعتبارنظرآتی ہیں۔ان دونوں میں سے کسی روایت پربھروسہ کرلیاجائے۔بات ایک ہی ہے کہ یہ علاقہ جب آباداورپررونق تھااس وقت اس کانام ہریانہ رکھآگیاتھا۔یہ نام خواہ اس کے آبادکرنے والے کے نام پررکھاگیایاعلاقہ کی سرسبزی کے باعث رکھاگیا۔بات ایک ہی ہےبعدمیں اس علاقہ کایہی نام اب تک باقی ہےخواہ اسکی ظاہری حالت کتنی ہی تبدیل ہوگئی ہے۔
ہانسی کی اہمیت:- بروالہ سیدان کاقدیم تاریخی قصبہ برصغیرکے جس علاقہ میں واقع ہے اسے ہریانہ کانام دیاجاتاہےاوراس علاقہ سے ہم گذشتہ صفحات میں پوری واقفیت حاصل کرچکے ہیں۔اس پورے علاقہ میں جو شہرقدیم ترین زمانہ سے آبادرہااورجسے ہمیشہ یکساں اہمیت حاصل رہی۔وہ ہانسی کاشہرہے۔اس شہرکومدت مدیدتک ہریانہ کے علاقہ کے دراالحکومت کی حیثیت حاصل رہی ہے اور علاقہ کے تاریخی حالات کاجائزہ زیادہ تراسی شہرکے حوالے سےلیاجاسکتاہے۔یہ شہرجن حالات سے گزرتارہا۔وہی حالات گویااس تمام علاقہ کے بھی رہے ہیں۔خاص طورپربروالہ سیدان توہانسی کے نواح میں واقع ہےاس لیے ہانسی کے حالات سے بروالہ سیدان کے حالات کی پوری طرح عکاسی ہوسکتی ہے۔حصارفیروزہ کے آبادہونے تک قدیم ترین زمانہ سے ہانسی ہی اس علاقہ کامرکزی شہرتھااوراسکی قریب ترین قدیم آبادی بروالہ سیدان ہی کی تھی۔اس لیے بروالہ سیدان کے حالات جاننے کے لیے ہانسی کی اہمیت ہردوسری بستی سے زیادہ ہے۔یوں لگتاہے کہ پرانے زمانے میں علاقوں کی انتظامی تقسیم صوبوں کی بنیادپرنہیں بلکہ قلعوں کی بنیادپرہوتی تھی۔ہرعلاقہ کے کسی مرکزی مقام پر مضبوط قلعہ بناہوتاتھاجہاں قعلہ وارمتعین ہوتاتھااوراردگردکاتمام علاقہ
















اس کے انتظامی اختیارمیں ہوتاتھا۔ہانسی میں ایک ایساہی قلعہ موجودتھااوراس کے انتظامی حدودکے اندرسب سے قریب اورسب سے نزدیک بستی بروالہ سیدان کی تھی۔چنانچہ ہانسی میں وقوع پذیرہونے والےہرحادثہ،ہرتبدیلی اورہرچھوٹے سےچھوٹے واقعہ کااثربروالہ سیدان پربھی ضرورپڑتاتھا۔چنانچہ مختلف تاریخی ادوارکے دوران بروالہ سیدان کی حالت کامطالعہ ہانسی کے حالات کے حوالہ سے ہی ہوسکے گا۔اس لیے پہلے ہمیں ہانسی کے بارے میں بھی پوری حاصل کرلینی چاہیے تاکہ بعدکے حالات کوسمجھنے میں آسانی رہے۔
ہانسی کامحل وقوع:- اس شہرکے محل وقوع کی تفصیلات متعددذرائع سے مہیاہوجاتی ہیں۔چونکہ یہ قدیم مشہوراوراہم شہررہاہےاس لیے ہرکتاب میں اسکے متعلق کافی تفصیلات موجودہیں۔ایک ذریعہ سے یہ تفیصل حاصل ہوتی ہے۔
"ہانسی کاشہر"19ب،29"شمالی بلداور70مشرقی عرض بلدپردہلی سرسہ روڈپرحصارسے سومیل کے فاصلہ پرنہرجمن غربی کے کنارے واقع ہےاس نہرکی وجہ سے اس کے آس پاس کاعلاقہ سرسبزہے اور شہرکے چاروں طرف درختوں کی بہتات ہے(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ104)
ایک اورکتاب میں لکھاہے۔
"ہزجمن غربی کے کنارےپر19ب 290شمالی اور19-26"مشرقی درجہ پرواقع ہے حصاردہلی سڑک پرحصارشہرسےسولہ میل مشرق کی جانب واقع ہے(www.hunter.imperial guzetter of India (London 1885 P.311
ایک اورجگہ تحریرہے
"یہ شہرحصارسے جانب شرق بفاصلہ تیرہ کوس اوردہلی سے سمت شمال مغرب نواسی میل کے فاصلہ پردہلی کی سڑک اورفیروزشاہی نہرکے کنارے پرآبادہے(مفتی غلام سرورلاہورتاریخ مخزان پنجاب۔نولکشور،لکھنؤ1877۔59)
شہرسے متعلق تفصیل:- اس شہرکےبارے میں تاریخ کی کتابوں میں بڑی تفصیلات درج ہیں ان میں سے کچھ۔ اہم باتیں یہاں صرف اس غرض سے درج کی جاتی ہیں کہ ان کے ذریعہ اس شہرکی واقفیت بہترطورپرحاصل ہوسکےگی۔ایک جگہ اس کے بارے میں لکھاہے۔
پرانے شہرکے چاروں طرف پختہ اینٹوں کی فصیل اس طرح بنی ہوئی ہے جیسے کہ ہرقدیم اوراہم شہرکے گردبنی ہوتی ہے اس فیصل میں کئی دروازے ہیں اورشہرکے دفاع کے لیے اس کے اوپربرجیاں بنی ہوئی ہیں اندرون شہرمکانات قدیم




















طرزپرچھوٹی اینٹوں کے بنے ہوئے ہیں۔اس قدیم شہرمیں دوچوری سڑکیں ہیں۔جوایک دوسری کوکئی جگہ سے کاٹتی ہیں باقی گلیاں قدیم شہروں کی طرح تنگ اورپیچ درپیچ ہیں:(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ۔1904)
اس شہرکی مرکزی اہمیت کوتوہرمؤرخ نے تسلیم کیاہے اورلکھاہے کہ یہ ہریانہ کے علاقہ کاسب سے بڑااوراہم شہرتھااورقدیمی دارالحکومت تھااوربہت طویل مدت تک اسی تمام علاقہ کامرکزرہاہے۔(www. Hunter. Imperal gazetter of India London 1885 P.311)مفتی غلام سرورلاہوری نے اس کے ساتھ۔ بہنے کی بھی کچھ۔ تفصیل لکھی ہے۔
شہرسے بجانب مشرق بفاصلہ ایک کوس جمناکی نہرپرچادرپل ہے۔جہاں سے نہرکی دوشاخیں ہوکرایک شاخ جنوب اوردوسری شمالی رویہ گھوم کرآتی ہے پھریہ تینوں شاخیں نیچے جاملتی ہیں۔اورشہرکانواح اس نہرکے سبب بہت پرفضاوخوشنمامعلوم ہوتاہے۔(مفتی غلام سرورلاہوری تاریخ مخزان پنجاب۔نولکشورلکھنؤ1877ص59)
مفتی صاحب نے اس شہرکی مرکزی اہمیت اجاگرکرنے کے لیے ان سڑکوں کی تفصیل لکھی ہے جواسے دوسرے شہروں سے ملاتی ہیں خیال رہے کہ یہ تفصیل اس زمانہ کی ہے جب سڑکیں کچی اورذرائع آمدورفت غیرمشینی اورمحدودتھے۔ان حالات میں اس دورافتادہ شہرتک اتنی سڑکوں کاموجودہونابجائے خوداس کی اہمیت کوواضح کرنے کے لیے کافی ہے جواس گئے گزرے زمانہ میں بھی اس شہرکوحاصل تھی۔سڑکوں کی تفصیل یہ ہے۔
1- ہانسی سے دہلی براستہ بہادرگڑھ،رہتک،جگووہ، دوھدووغیرہ۔
2- ہانسی سے لدھیانہ براستہ راملی،سنگروروغیرہ
3- ہانسی سے پمخ براستہ دادری،کانوند،نارنول وغیرہ
4- ہانسی سے متھرابراستہ جھجر
5- ہانسی سے بھٹنیربراستہ سرسہ(غلام سرورلاہوری تاریخ مخزان پنجاب نوکہشورہ لکھنؤ1877)
ہانسی کی اہمیت کااندازاہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ یہاں 1867میں میونسپل کمیٹی قا‏ئم کردی گئی تھی(Encyip 1983 V.IV.P804)۔موجودہ شہرکی ایک جھلک شایداس اقتباس سے نظرآجائے۔





























یہ شمال مغربی ہندوستان کی ریاست ہریانہ میں ضلع حصارکاایک شہرہے پکی سڑک پرواقع ہے جوشمال مغرب میں حصاراورجنوب مشرق میں دہلی کوجاتی ہےاہم تجارتی اورمواصلاتی مرکزہےدوکالج موجودہیں جوکوروکھیشتریونیورسٹی کے ساتھ۔ ملحق ہیں۔کپاس بیلنے،دستی کھڈیوں اوردھات کی صنعتیں موجودہیں۔یہ بہت قدیم اوراہم شہرہے۔( ایضا)
ہانسی کاقلعہ:- جس طرح ہانسی کاشہربرصغیرکی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے اسی طرح یہاں کے قلعہ کے بارے میں مؤرخ یک زبان ہیں کہ یہ برصغیرکے انتہائی قدیم قلعوں میں سے ایک ہےایک رائے یہ ہے کہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں یہ قلعہ کشن خاندان کااہم متقرتھا۔(ایضا)اسی سے اس کی قدامت کااندازہ کیاجاسکتاہے کہ غالبایہ قلعہ اس زمانہ سے قبل موجودتھااس کے متعلق بیان کیاگیاہے کہ:
"قلعہ یہاں کامٹی کے بھراؤسے نہایت سنگین،مضبوط اوراونچابناہواتھاسابق میں اس کی مرمت ہمیشہ ہوتی رہتی تھی اورقلعہ کے اندربھی اچھے اچھے مکانات بنے ہوئے تھے۔اورچودہ پندرہ برس سے قلعہ بالکل بے مرمت ہوگیاہے اورعمارت واراضی بھی قلعہ کی نیلام ہوگئیں اورمکانات نیلام سے بچے وہ مسمارکرائے گئے۔غرض اب قلعہ میں کوئی عمارت نہیں رہی(مفتی غلام سرورلاہوری تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877-ص59)
اس قلعہ کوتباہ اورمسمارکرکے اس کی زمین کونیلام کردینے کی کاروائی انگریزحکومت نے کی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ 1957 کی جنگ آزادی میں یہ تمام علاقہ مجاہدین آزادی کابہت بڑا مرکزبن گیاتھابعدمیں انگریزوں نے انتقامااس قلعہ کوملیامیٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔یہ قلعہ شہرکے شمالی حصہ میں ایک بلندجگہ پربناہواتھا۔جنگ آزادی میں علاقہ کے مجاہدین نے اس قلعہ کواپنامضبوط مرکزبنالیاتھا۔اس لیے بعدمیں اس کے بیشترحصہ کو مسمارکرکے ملبہ کونیلام عام کے ذریعہ فروخت کردیاگیاتھا۔قلعہ کاتھوڑاساشمالی حصہ باقی رہ گیاتھاوہ بھی بیشترکھنڈرات کی صورت میں تھا۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)
ہانسی کی وجہ تسمیہ:- ہانسی اس قدرقدیم شہرہے کہ اب تک درست طورپریہی اندازہ نہیں لگایاجاسکاکہ اسے کس زمانہ میں آبادکیاگیاتھااس لیے اس کی وجہ تسمیہ بھی درست طورپربیان نہیں کی جاسکی ہے صرف مفتی غلام سرورنے کچھ۔ روایات بیان کی ہیں اگرچہ ان روایات پریقین انہیں بھی نہیں ہے انہوں نے لکھاہے۔
"وجہ تسمیہ اس شہرکی باسم ہانسی کسی کومعلوم نہیں بعضوں کاقول ہے کہ راجہ انلگپال تنوارنے اس کوآبادکیاتھااوربعض کہتے ہیں کہ رائے پتھوراکی یہ آبادی ہےبعض کہتے ہیں کہ آساجاٹ،ہالی کے رہنے والے کے نام پرآبادہوکرآسی نام رکھاگیاتھا۔

























اورایک مشہورتقریریہ ہے کہ چوہان راجپوتوں کی سلطنت میں ایک راجہ کی لڑکی بیمارتھی توتبدیل آب وہواکے واسطے یہاں بھیجی گئی۔یہاں آتے ہی اس کے مرض میں آفاقہ ہوا اوروہ ہنسی اس کی تندرستی کی خبرسن کر دہلی سے راجہ بھی یہاں آیااورلڑکی کے ہنسنے کومبارک سمجھ۔ کراس نے یہ شہرآبادکرکے ہنسی نام رکھاجواب ہانسی مشہورہے۔یہ قلعہ بھی اس کی بنیادرکھی ہوئی ہےاورقلعہ کے نیچے کی جانب اسی لڑکی کے نام پرایک تالاب بھی تعمیرکرایا۔اس تالاب کانام اب تک ابنتی مشہورہے۔(مفتی غلام سرورلاہورتاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤص59)
اگرچہ ایک اورذریعہ نے بھی اس شہرکوراجہ اننگپال تنوارکابسایاہوابیان کیاہے(www. Hunter . imperial gazette of India London 1885 P 311)لیکن یہ بیان اس لیے اعتبارکے قابل نہیں کہ اس قلعہ کوتوپہلی اوردوسری صدی عیسوی میں کشن خاندان کااہم مقام ہونابیان کیاگیاہےاورراجہ اننگپال کازمانہ اس کے بہت بعدکاہےاسی طرح رائے پتھوراکازمانہ تواس کے بھی بعدکاہےاس نے اتناضرورکیاتھاکہ اس قلعہ کی مرمت کراکے اسے ایک مضبوط فوجی مرکزکی حیثیت دےدی تھی اوراس شہرکوبھی ترقی دے کراہم مقام بنادیاتھا۔جہاں تک چوہان راجہ کی لڑکی کاقصہ ہے وہ بھی بے بنیادہی لگتاہےدہلی پرچوہان خاندان کی حکومت بہت بعدکی بات ہےیہ قلعہ اورشہرتواس سے ہزارہاسال قبل سے موجودتھےاس لیے یہ تمام روایات ناقابل اعتبارہیں۔اورحقیقت یہ ہے کہ اس شہریااس قلعہ کی بنیادیااس کی وجہ تسمیہ کاکھوج اب تک کوئی نہیں لگاسکاہے۔
ہانسی کے تاریخی آثار:- ہانسی کے تاریخی آثارمیں سب سے اہم قلعہ کی عمارت تھی۔یہ قلعہ برصغیرکے قدیم ترین فوجی مراکزمیں سے تھا۔اوربرصغیرکے تمام انقلابات کاشاہدرہا۔مگرانگریزوں نے(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904) 1857کی جنگ آزادی میں ہریانہ اورہانسی کے شامل ہونے کی سزاصرف انسانوں کوہی نہیں دی۔بلکہ ان کے انتقام کانشانہ تاریخی عمارتیں بھی بنیں۔چنانچہ ہانسی کے قلعہ کوبھی اس جذبہ انتقام کے تحت مسمارکردیاگیا(ایضا)اوراس کے ملبہ کونیلام عام کے ذریعہ فروخت کردیاگیا۔بعدمیں یہ قلعہ مٹی کے ایک بہت بڑے ٹیلے کی صورت میں باقی رہ گیا۔یہ ٹیلاشمالاجنوباتین سوسترگزاورشرقاغرباتین سوپنتالیس گزتھا۔اسکی اونچائی باون فٹ اورچوڑائی سینتیں فٹ تھی ۔ اس قلعہ کابڑادروازہ اوردربانوں کی جگہ بھی باقی تھی جس سے اس قلعہ کی عظمت ،وسعت اوربلندی کااندازہ کرنامشکل نہیں تھا۔
قلعہ کے احاطہ کے اندرکچھ۔ نئی سرکاری عمارتیں تعمیرہوگئی تھیں۔مگرکچھ۔ قدیم آثاربھی باقی تھے۔ان آثارمیں دوپرانے کنوئیں اور


























ایک احاطہ میں بنی ہوئی دومسجدیں شامل تھیں اورسب سے اہم کہ یہ یہاں سیدنعمت اللہ کامزارتھا(ایضا)ان کے بارے میں تمام تاریخیں یہ بتانے میں متفق ہیں کہ یہ بزرگ شہاب الدین غوری کے ساتھ۔ تشریف لائے تھے۔غوری نے ہانسی پرقبضہ کرنے کے لیے جوجنگ کی اس میں ایسے وقت شہیدہوئے جب کہ قلعہ پرقبضہ ہوہی گیاتھا۔ان کامزارقلعہ کے اندراسی جگہ بنایاگیاجس جگہ وہ شہیدہوئے تھےکہاجاتاہے کہ ان کامزاراورمذکورہ بالادومسجدوں کااحاطہ ہانسی پرمسلمانوں کے قبضہ کے فورابعدکی تعمیرات میں سے ہیں۔کہتے ہیں کہ مسجدوں کے اس احاطہ پر589 کاکتبہ لگاہواہےاگریہ تاریخ درست لکھی ہوئی ہے تویہ مسجدیں برصغیرکی قدیم ترین مساجدمیں سے ہوں گی(encyclopaidia of islam London 1979 P 168)
شہرکے مغرب کی جانب بھی ایک تاریخی مسجدموجودتھی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)اس کے قریب ہی چارقطب کی درگاہ تھی اس مقام پرتین احاطے بنے ہوئے تھےایک احاطہ میں مسجدبنی ہوئی تھی جس کے صحن میں ایک حوض بھی موجودتھا۔اس مسجدکو1491 میں کسی شخص نے تعمیرکرایاتھاجس کانام ابوبکرجوانی تھادوسرے احاطے میں حضرت قطب جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ اوران کے تین جانشینوں کے مزارات تھے۔اس طرح یہ چارقطب کی بارگاہ کہلاتی تھی۔اس مقبرہ پرواحدگنبدبناہواتھاجوکافی عرصہ بعدکی تعمیرمعلوم ہوتاتھاتیسرے احاطہ میں چاردیوانوں کے مزارات تھےیہ چارقطب کی بارگاہ کے اولین سجادہ نشین تھے(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)
ہانسی شہرسے قریباتین میل کے فاصلہ پربھی ایک ٹیلہ اوراسے اوپرایک مسجدموجودتھی۔اسے شہیدگنج کہاجاتاتھا(ایضا)روایت کے طورپربیان کیاجاتاتھاکہ اس مقام پرڈیڑھ لاکھ۔ مسلمان شہیدہوئے تھےکہاجاتاہے کہ یہ وہ مقام تھاجہاں مسعودغزنوی نے ہانسی کے قلعہ پرقبضہ کرنے کے لئے ہندوراجوں کے ساتھ۔ پہلی لڑائی لڑی تھی مسعودغزنوی کواس جنگ میں شکست ہوگئی تھی اوربے شمارمسلمان اس جنگ میں شہیدہوئے تھے۔ہانسی پرقبضہ کرنے کے لیے مسلمانوں کایہ اولین حملہ تھا۔
 
Top