مریم افتخار
محفلین
بھڑوں کے چھتے سے بچیےنہیں بن بادل برسات میں بنا چھتری گھومئیے
بھڑوں کے چھتے سے بچیےنہیں بن بادل برسات میں بنا چھتری گھومئیے
اکھ جدوں دی لڑییہ لڑی چھوڑ ہی نہیں رہی۔۔۔ جائیں کیسے کچن تک۔
لڑی کو شیطان کی آنت کی طرح لمبا کر کے ساتھ لے جائیے۔۔۔مگر وہاں دل گردے بکرے کے کھائیے!یہ لڑی چھوڑ ہی نہیں رہی۔۔۔ جائیں کیسے کچن تک۔
دیکھ میرے بھائیچھوٹی سی گڑیا سر پر چنریا
چھوٹے چھوٹے بوٹ
گوٹے والا سوٹ
پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگاجگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا اک شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
سب کا باوا آدم ہی نرالا ہےایک ہی پرچم کے سائے تلے تو ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔
اب ڈر نہیں۔ پہلے بھی بھڑوں کا قصور نہیں تھا۔ ہم نے ہی حقیقتاً ان کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا تھا۔بھڑوں کے چھتے سے بچیے
پہلاں میرے طرحاں burrrrraaah کرو!فیر سناؤ۔
بنگلہ دیش میں بھی ہوئی کیاچلیں وڈے وڈے دیشوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں
پردے اور بال کا ایسا اشتراک کیوں؟پھر ان نوجوان بچوں کو بال و پر دے
تے نور بصیرت عام کر دے؟
نا جی۔ اسی ریساں نہیں کردے۔ ساڈا اپنا اسٹائل اے۔پہلاں میرے طرحاں burrrrraaah کرو!
جی جی۔ نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں وی کہہ دیو۔۔۔روٹی نہ کھانا۔۔۔بس تقدیراں رلانا؟یعنی کہ تہاڈے کہن دا مطلب اے
مینوں رب نے بنایا تیرے لئی، وے میں ازلاں توں تقدیر تیری![]()
نہیں، بھاوج!محفل رنگ کھیلنے لگی کیا
امین پور والے!کارخانہ بازار والے کارخانے میں
یا لال مل والے میں؟
رات کی رانی نہ ہووے، دن کی سورج مکھی بھلے ہووے!اس کھیت میں رانی کھیت نہ ہو جائے
کیا کیا نہیں ہوتاورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا؟
چھپ جاو تاریو ، پا دیو ہنیر وے۔۔۔۔پردے اور بال کا ایسا اشتراک کیوں؟
عدسے کا ذکر تو کسوٹی میں تھا۔۔۔۔۔ اوہو کیا ناراضگی یاد کروا دی!تو پکار ہائے دال (مسور کی) میں پکاروں ہائے دل
حقہ پانی چلدا رہوے۔۔۔باقی اللہ ہی حافظ!اکھ جدوں دی لڑی
کھانا پانی بند ہو گیا۔
ہن آئی سمجھ
رب کا شکر ادا کر بھائیدیکھ میرے بھائی
رنگ برنگی ٹائی