پچپن میں بھی بچپن تھا《ایک پیروڈی》

یاسر شاہ

محفلین
اعجاز عبید صاحب کی ایک خوبصورت غزل کی پیروڈی کی ہے۔ان کی وسعت قلبی سے یہی امید ہے کہ درگزر فرمائیں گے۔:)

غزل
(اعجاز عبید)

رات تھی اور گھنا بن تھا
دل کا کیا وحشی پن تھا

پیار میں کیا کیا لڑتے تھے
ہم میں کتنا بچپن تھا

تو مرے گیتوں کی لے تھی
میں ترے پاؤں کی جھانجھن تھا

ہم دونوں زنجیر بپا
کیسا اپنا بندھن تھا

آگ تو تھی جنگل میں لگی
میں کیوں اس میں ایندھن تھا

پتوں کے گھنگھرو سے بجے
ورنہ گُپ چُپ آنگن تھا

ہلتے ہاتھ جو نیچے آئے
پھر سونا اسٹیشن تھا


پیروڈی

بڈھے تھے جب جوبن تھا
اب پچپن میں بھی بچپن تھا

تجھ کو خوف_سوتن تھا
میں تھالی کا بینگن تھا

تو گر مجھ پر لٹو تھی
میں بھی تجھ پر چھکن تھا

تو مری مادھوری ڈکشت
میں بھی تیرا متھن تھا

"پیار میں کیا کیا لڑتے تھے"
یاں جھاڑو تھا واں بیلن تھا

میری ماں ترے درپے تھی
سسرا میرا دشمن تھا

میں تو چلو تھا میٹرک فیل
تجھ میں کونسا لچھن تھا

بس میں چلی تو میکے کو
خوش سارا اسٹیشن تھا
 
آخری تدوین:
اعجاز عبید صاحب کی ایک خوبصورت غزل کی پیروڈی کی ہے۔ان کی وسعت قلبی سے یہی امید ہے کہ درگزر فرمائیں گے۔:)



پیروڈی

بڈھے تھے جب جوبن تھا
اب پچپن میں بھی بچپن تھا

تجھ کو خوف_سوتن تھا
میں تھالی کا بینگن تھا

تو گر مجھ پر لٹو تھی
میں بھی تجھ پر چھکن تھا

تو مری مادھوری ڈکشت
میں بھی تیرا متھن تھا

"پیار میں کیا کیا لڑتے تھے"
یاں جھاڑو تھا واں بیلن تھا

میری ماں ترے درپے تھی
سسرا میرا دشمن تھا

میں تو چلو تھا میٹرک فیل
تچھ میں کونسا لچھن تھا

بس میں چلی تو میکے کو
خوش سارا اسٹیشن تھا
لاجواب بہت پر مزاح پیروڈی
مزہ آگیا۔
 

یاسر شاہ

محفلین


اب ہی ہے۔مطلب جوانی میں تو بڈھے تھے اب پچپن برس میں بچپن ہے۔

یاسر بھائی بہت خوب۔۔ ماشاء اللہ حسِ مزاح بھی بہت خوب پائی آپ نے

جزاک اللہ خیر روفی بھائی:)
 

یاسر شاہ

محفلین
Top