جاسم محمد
محفلین
جس معاشرہ میں آزاد بحث و مباحثہ تک کو سازشی نظریہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں ترقی کیا خاک ہوگیاس کا پروپگنڈا ونگ اس پاپولر بیان والی خبر کی تشہیر کرواتا اور بحث مباحثہ کرواتا ہے تا کہ حکومت کا امپریشن عوام کی نظروں میں بہتر ہو سکے۔
جس معاشرہ میں آزاد بحث و مباحثہ تک کو سازشی نظریہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں ترقی کیا خاک ہوگیاس کا پروپگنڈا ونگ اس پاپولر بیان والی خبر کی تشہیر کرواتا اور بحث مباحثہ کرواتا ہے تا کہ حکومت کا امپریشن عوام کی نظروں میں بہتر ہو سکے۔
بجا فرمایا آپ نےلوگ چاہے جو بولیں، جو تاویلیں کریں، جو دلائل دیں۔۔۔
بڑھتے ہوئے ریپ کیس اس بات کے زمینی حقائق ہیں۔۔۔
پیٹرول کے قریب آگ لائی جائے گی تو تباہی کے امکانات کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں!!!
معاشی ترقی ؟ آئی ایم ایف سے ڈکٹیشنجس معاشرہ میں آزاد بحث و مباحثہ تک کو سازشی نظریہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں ترقی کیا خاک ہوگی
جب آپ کوئی چیز سیکھتے ہیں مثلا پروگرامنگ تو کیا اس کے سیکھنے کے بعد پروگرامنگ کرنے کے لیے اپنا اختیار استعمال کرتے ہیں؟جب آپ نے ایک چیز پروگرام کر دی تو پھر اس بندے کا اختیار کہاں رہ جاتا ہے؟ جس چیز پر اختیار نہ ہو کیا اس کی سزا دینی چاہیے؟
یہ ایسے ہی ہے کہ جب آپ کسی بینک سے قرض لینے جائیں اور وہ اس قرض کی واپسی کیلئے شرائط رکھے تو آپ اسے ڈکٹیشن کہنا شروع کر دیں۔ جو قرضہ دے رہا ہے وہ آپ کا کیا لگتا ہے جو بغیر کسی شرط کے قرض دے دے؟آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن
ہارڈ کوڈ آپ پروسیسر کو کرتے ہیں جو وہی کرتا ہے جس کا آپ اسے انسٹرکشن دیتے ہیں۔جب آپ کوئی چیز سیکھتے ہیں مثلا پروگرامنگ تو کیا اس کے سیکھنے کے بعد پروگرامنگ کرنے کے لیے اپنا اختیار استعمال کرتے ہیں؟
مزید یہ کہ از خود سیکھنے کے علاوہ سکھانے والے ذرائع کو بھی آپ تجزیہ میں شامل کریں
ہاں ویسے بات تو آپکی بھی صحیح ہے ۔ محترم وزیر اعظم صاحب خالی خولی بیان دینے کی بجائے کوئی عملی اقدام کرتے ، قانون نافذ کرواتے تو ۔ زیادہ بہتر ہوتا۔معاشی ترقی ؟ آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن
ان سب سے قوم کی توجہ ہٹانے کے لیے کوئی پاپولر بیان دینا تو ضروری ہے نا؟
نہیں
کیا اس طرح کی حفاظت کے لیے اس طرح کا سامان چاہئیے؟؟؟جی بہت اچھی بات ہے۔ خواتین کے پاس پیپر اسپرے اور ٹیزرز وغیرہ ہوں تو اپنا دفاع کافی بہتر انداز میں کر سکتی ہیں۔
نہیں۔۔۔کیا کم سن بچوں اور بچیوں کا ریپ بھی عریانی کی وجہ سے ہو سکتا ہے؟
بحث ہم چاہے جتنی مرضی کر لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ریپ اور بچوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے پیچھے کوئی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ کئی ایک عوامل شامل ہیں، جن میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
-ملک میں عمومی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال۔ مجرموں کو کوئی بھی جرم کرتے ہوئے اس بات کا کسی حد تک اطمینان ہوتا ہے کہ ہم اس جرم کی سزا سے بچ سکتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
-ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری جس کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکار ہو کر نوجوان بہت سے جرائم میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن میں جنسی جرائم بھی شامل ہیں۔
-ہمارے معاشروں میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی یا فحاشی۔ اس پر بہت لے دے ہو رہی ہے لیکن یہاں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا معاشرہ مغربی معاشروں سے مختلف ہے، یہاں جن باتوں پر خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہو جاتے ہیں مغربی معاشروں میں وہ کوئی بات ہی نہیں سمجھی جاتی۔ یہ محض ایک وجہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ سب سے معمولی وجہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک بڑی وجہ ہو۔ اس بات کو جانچنے کے لیے کوئی "ایمپریکل" ڈیٹا ہمارے پاس نہیں ہے سو فقط قیافے ہی لگائے جا سکتے ہیں اور اس معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ وجہ بہرحال یہاں موجود ہے چاہے مغربی معاشروں میں یہ وجہ ہو یا نہ ہو۔ یہ بات چونکہ ایک "بگ ماؤتھ" سے نکل گئی ہے سو اس کا بتنگڑ بھی بن گیا ہے۔
مشہور افریقی کہاوت ہے:یہ بات چونکہ ایک "بگ ماؤتھ" سے نکل گئی ہے سو اس کا بتنگڑ بھی بن گیا ہے۔
تحقیق سے یہ بات درست ثابت نہیں ہوتیکیا پرتشدد ویڈیو گیمز کھیلنے والے بچے لڑائی جھگڑا کرنے کا رویہ رکھتے ہیں؟
ریپ کی بنیادی وجہ جنسی بھوک کا حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص دو چار دن سے پیٹ سے بھوکا ہو تو وہ کچھ بھی کھانے کو تیار ہو گا بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص مسلسل کئی دن سے جنسی بھوک کا شکار ہو تو وہ اسے مٹانے کے لیے کسی کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرے گا پھر کوئی چاہے بے پردہ ہو یا باپردہ۔ دوسری طرف اس کے برعکس دوسری جنس میں بھی اسی قدر جنسی بھوک پائی جاتی ہے لیکن چونکہ یہ طبقہ میل ڈومینینٹ معاشرے میں محکوم تصور کیا جاتا ہے یا خود کو خود ساختہ کمزور تصور کرتا ہے اس لیے ان کی شاید اس قدر ہمت نہیں پڑتی یا اگر وہ ایسا کریں بھی تو معاشرے کی ان پر نظر نہیں جاتی اور اگر چلی بھی جائے تو پہلا گمان یہی کیا جائے گا یہ کسی مرد کی کارستانی ہے۔
اگر ہم یہ خیال کریں کہ بے پردہ عورت جنسی بھوک کے شکار مرد کے لیے ایک لذیذ اور آسانی سے میسر کھانے کی مانند ہے جو اس کی بھوک کو ابھارتی ہے تو ممکن ہے بے پردہ مرد کے لیے عورت کے بھی یہی جذبات ہوں اور وہ عمومی طور پر مرد طاقتور ہے جیسے ماحول میں ایسا کرنے سے کتراتی ہو یا نظروں میں نہ آتی ہو۔
اگر ہم یہ خیال کریں کہ اگر عورت با پردہ ہو گی تو مرد اس کی طرف اٹریکٹ نہیں ہو گا یا کم ہو گا تو یہ تھیوری بھی مکمل طور پر درست تصور نہیں کی جا سکتی کیونکہ انسان فطری طور پر اس طرف زیادہ توجہ کرتا ہے جہاں تجسس ہو۔ جیسے مرد کے داڑھی رکھ لینے سے یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ریپ نہیں کرے گا، اسی طرح پردہ دار عورت کے بارے میں بھی یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ریپ کا شکار نہیں ہو گی۔
جہاں تک پردے کی بات ہے تو پردہ کی تعریف ہر معاشرے میں مختلف ہے۔ ہمارے یہاں اگر باپردہ عورت کے پاؤں دیکھ کر بھی جنسی جذبات جاگ جاتے ہوں لیکن بے پردہ معاشروں میں صورتحال اس کے بر عکس بھی ہو سکتی ہے۔ ہمارے یہاں اس کی وجہ شاید شدید جنسی گھٹن ہے۔