ضربِ وقت

چار برس گزر گئے
کیسے عجیب حال میں
کش مکشوں کے جال میں
بے کسیِ کمال میں
جان کے اک وبال میں
اپنے فقط خیال میں

دل کی برآمدات میں
کوئی امید ہی نہیں
فکر کے حادثات میں
ایک نوید بھی نہیں

زیست کے اس مقام پر
راہ تو ہے سفر نہیں
قافلے رہ زنوں کے ہیں
اور کوئی راہبر نہیں
اپنے سوا نصیب میں
کوئی بھی ہم سفر نہیں

اس پہ ملال دیکھیے
سوزشِ ممکنات کا
وقت کی ضربِ تند خو
وقت کی ضربِ آتشیں
کیسے تراشتی گئی
میرا وجودِ ظاہری
میرا وجودِ باطنی
مطلقاً اس کے برخلاف
جو کہ یہاں تھا معتبر

پھر بھی خدا کا شکر ہے
اس پہ کہ جو ملا ہمیں
کتنے ہی لوگ دہر میں
اس سے بھی خستہ حال ہیں
پر ہمیں یہ بتائیے
اس میں قصور کس کا ہے؟
 
اچھی نظم ہے ریحانؔ صاحب، ماشاء اللہ
ذرہ نوازی ہے آپ کی احسن بھائی۔
چار برس کی کیا معنویت ہے؟ کیا یونیورسٹی سے تازہ تازہ تخرج ہوا ہے؟
آپ کا قیاس درست ہے. تخرج ابھی ہوا تو نہیں مگر آخری سمیسٹر شروع ہو چکا ہے۔
 
Top