سید عمران

محفلین
کچھ عرصہ قبل اس فورم پر چند محفلین نے پاکستان کے تعلیمی نظام کے موضوع پر خیال آرائی فرمائی۔۔۔
کچھ ان کے خیالات و تجربات، کچھ گوگل پر موجود لوگوں کے تجربات اور کچھ ذاتی مشاہدات، تجربات اور خیالات کو اکٹھا کرکے اس نظام کے بارے میں تجزیہ ترتیب دیا ہے۔۔۔
اس موضوع پر مفید اور تعمیری رائے اور خرابیوں کا حل پیش کرکے اسے کارآمد اور قابل عمل بنانے میں محفلین کا کردار یقیناً قابل تحسین ہوگا۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
آج کل لوگوں پر بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کے لیے بدحواسی کا عالم طاری ہے۔ میڈیا نے اسکول کی تعلیم کو ایسا ہوّا بنا کر پیش کیا ہے کہ جو اسکول میں نہیں پڑھتا وہ تعلیم یافتہ ہی نہیں۔ تعلیم یا قابلیت کے لحاظ سے ہماری تسلی صرف اسکول، کالج یا یونیورسٹی کے سرٹیفکیٹ سے ہوتی ہے حالاں کہ ہمارا تعلیمی نظام چند کتابوں کا رٹّا لگوا کر جو ڈگری دیتا ہے وہ زندگی کے تجربہ کی گرد کو بھی نہیں چھوسکتی۔
آئیے ذرا اس اس تعلیمی نظام کا جائزہ لیتے ہیں جو ہوش کے پرزے اڑانے کے لیے کافی ہے۔یہ تعلیمی نظام چاہے سرکاری ہو یا غیر سرکاری سب کا حال برا ہے۔
اسکولوں کا حال​

اسکولوں میں بچوں کی ابتدائی علوم کی بنیاد مضبوط کرنے بجائے ان پر کئی مضامین کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے نتیجۃً جن علوم کی بنیاد مضبوط ہونی چاہیے وہ ناقص رہ جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کے آٹھویں جماعت کے طلبہ کی اردو کا یہ حال ہے کہ عام فہم الفاظ کا صحیح املا لکھنے سے قاصر ہیں، انگریزی ، ریاضی اور دیگر مضامین کا حال تو اور بھی برا ہے۔ پرائیوٹ ادارے بچوں پر بستے کا بوجھ تو لاد دیتے ہیں اور رٹا لگوا کر کچھ مضامین یاد بھی کرادیتے ہیں مگر ابتدائی علوم کو سمجھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ درسی کتابوں سے ہٹ کر ان بچوں سے کچھ پوچھا جائے تو حیرت سے منہ تکنے لگتے ہیں یا شرم سے سر جھکالیتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر ان تجارتی اداروں کی فیسیں والدین کی جیب خالی کررہی ہیں۔
کالجوں کی خستہ حالی​

اسکول سے اگلے مرحلہ کالج کا ہے جس کا حال یہ ہے کہ طلبہ کلاسیں بنک کرکے آوارہ گردی کرتے ہیں اور اپنا وقت اور والدین کا پیسہ ضایع کرتے ہیں۔ امتحان آتے ہیں تو نقل کرکے اُلٹے سیدھے نمبر لے کر اگلی کلاس میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ ڈگری تو ہاتھ آتی ہے مگر علمی لحاظ سے صفر ہوتے ہیں۔ جو طلبہ واقعی پڑھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ کالج میں شام کو ٹیوشن یا کوچنگ سینٹرز میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ان کوچنگ سینٹرز میں کالج کے وہی اساتذہ پڑھاتے ہیں جو کالج کے تنخواہ دار ملازم ہونے کے باوجود وہاں نہیں پڑھاتے بلکہ طلبہ کو اپنے کوچنگ سینٹرز میں داخلے کی پیشکش کرتے ہیں تاکہ دل کھول کر فیس وصول کرسکیں۔
 

سید عمران

محفلین
کوچنگ سینٹرز کی تباہ کاریاں​
جھاڑیوں کی طرح گلی کوچے میں ٹیوشن سینٹرز اگے ہوئے ہیں۔جس کا دل چاہتا ہے کوچنگ سینٹر کھول لیتا ہے۔ مشہور سینٹرز کی فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ یہ سینٹرز تباہ شدہ تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کے نتیجے میں انتہائی نفع بخش کاروبار کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان میں بھی تعلیم کی صورت حال نہایت دگرگوں ہے، اسکول و کالج کی طرح یہاں بھی رٹا لگوانے کا نظام رائج ہے۔ امتحان دینے کے لیے بنے بنائے نوٹس اہم اثاثہ ہوتے ہیں۔ سینٹرز کے اساتذہ یہ نوٹس بناتے ہیں اور شاگردوں کو بیچتے ہیں۔ ان سینٹرز میں لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کے باعث جو ناقابل تلافی اور بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں وہ الگ رہے۔
گاؤں کا تعلیمی نظام​

یہ حال تو شہروں کا ہے۔ گاؤں کے اسکولوں کا تو کوئی حال نہیں۔ بچے ٹاٹ کے بورے پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں، استاد کے لیے لسی مکھن، گھر کا سودا سلف اور دوسرے کام کرتے ہیں، اسکول سے بھاگ کر کھیتوں میں چلے جاتے ہیں۔ آدھی چھٹی میں استاد کے سر میں تیل کی مالش کرتے ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں اسکول میں تاش، گوٹیاں یا لڈو کھیلتے ہیں، استاد کلاس میں سگریٹ بھی پی لیتے ہیں اور عموماً ان کا لباس بھی صاف ستھرا نہیں ہوتا،ایک استاد کئی کئی مضامین پڑھاتا ہے اور ہر کلاس میں ضرورت سے زیادہ بچے ہوتے ہیں ۔ نتیجہً ان اسکولوں کے میں پڑھائی کے علاوہ اور سب کچھ ہوتا ہے۔
اساتذہ کی حالت زار​

شہر سے گاؤں تک اور اسکول سے یونیورسٹی تک اساتذہ کی قابلیت غور طلب ہے۔ کہیں استاد خود تو تعلیم یافتہ ہے مگر بچوں کو پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتا، حالاں کہ اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے جگہ جگہ ٹیچرز ٹریننگ کورسز ہورہے ہیں، حکومتی سطح پر ایلمینٹری ٹریننگ کالجز بھی موجود ہیں لیکن اساتذہ میں محنت کرنے اور مزید کچھ سیکھنے کی خواہش ہی نہیں ہے۔ اکثر اسکولوں میں تو استاد کی تعلیمی قابلیت مطلوبہ معیار سے کم ہے۔ایک اسکول میں دسویں جماعت کو پڑھانے والے اُستاد خود میٹرک کا امتحان دے رہے تھے۔
 

سید عمران

محفلین
یونیورسٹیوں کی زبوں حالی​
یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار کا یہ حال ہے کہ ان کا شمار دنیا کی دس بہترین جامعات میں تو کیا سو بہترین جامعات میں بھی نہیں ہوتا۔ برطانوی ادارے ’’کواکواریلی سامانڈز‘‘کے سروے کے مطابق پاکستان کی ایک یونیورسٹی دنیا کی ۴۰۱ ویں نمبر پر ہے، باقی یونیورسٹیاں مزید سینکڑوں درجے نیچے ہیں۔ اور دنیا کا تو ذکر ہی کیا ایشیا میں بھی یہ یونیورسٹی ۱۱۹ ویں نمبر پر ہے۔
اب اس تعلیمی نظام کی اعلیٰ ترین ڈگری یعنی پی ایچ ڈی کی صورت حال ملاحظہ فرمائیے۔ پی ایچ ڈی کے پروفیسر کسی کتاب میں سے پڑھنا شروع کردیتے ہیں، جب ایک یا دو پیراگراف پڑھ چکتے ہیں جس میں کئی بنیادی الفاظ کی ادائیگی غلط کرتے ہیں، تو طلبہ کو ’’ڈسکس‘‘ کرنے کے لیے کہتے ہیں۔اس ’’ڈسکشن‘‘ کے دوران ایک یا دو طالب علم ان کے پڑھے ہوئے پیراگراف کو گھما پھرا کر واپس دہرا دیتے ہیں۔ اگر کوئی بحث کرنے کی کوشش کرے اور پروفیسر کی علمی قابلیت کا پول کھلنے لگے تو ان کو تشویش لاحق ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہہ کر طالب علم کو خاموش کردیتے ہیں کہ ہم اصل موضوع سے ہٹ رہے ہیں جس کے لیے وقت نہیں ہے۔ہر جگہ نہیں تو اکثر جگہ یہی ہوتا ہے۔ اکثر پروفیسرز کو اکیڈمک ریسرچ کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ زیادہ تر پروفیسرز صرف سینیارٹی کی بنا پر اوپر پہنچتے ہیں مثلاً ایک پروفیسر اگر چند برسوں تک لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دیتا رہے تو اسے اسسٹنٹ پروفیسر کا درجہ دے دیا جاتا ہے چاہے علمی قابلیت اور عملی تربیت جس سطح کی بھی ہو۔ایسے پروفیسر طلبہ کو کیا ریسرچ کروائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ادارہ ایچ ای سی سالانہ سینکڑوں پی ایچ ڈیز پیدا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن ان اسکالرز میں سے زیادہ تر کی ریسرچ شاید ہی دنیا میں کسی جگہ شائع ہوتی ہو۔
 

سید عمران

محفلین
کردار سازی کا فقدان​
تعلیمی لحاظ سے یہ ادارے انحطاط کا شکار تو ہیں ہی، ان کے ذریعے انسان اچھی ملازمت حاصل کرنے کا اہل بھی نہیں ہوتا سوائے میڈیکل، انجینئرنگ، اکاؤنٹ اور فنانس وغیرہ جیسے شعبوں کے۔تیسرا ان اداروں کا ڈسا ہوا اچھا انسان بھی نہیں بن پاتا۔ یہ لوگ کمپیوٹر اورجدید مواصلات کی معلومات سے تو آگاہ ہوتے ہیں مگر شخصیت اور کردار میں نکھار، نظم وضبط ، طرزتکلّم، نشست وبرخاست، شہری حقوق کی آگاہی اور دیگر بنیادی اخلاقی اقدار سے محروم ہوتے ہیں۔ بڑوں سے بدزبانی، ماں باپ سے بدتمیزی، بہن بھائیوں سے جھگڑے، رشتے داروں سے دشمنی، معاشرتی جرائم میں بڑھتا ہوا کردار، علم و فن و ہنر سے عاری اور زندگی کے قیمتی لمحات فضولیات اور غیر نفع بخش مشغولیات میں ضائع کرتے یہ افراد معاشرے کی گراوٹ اور تنزلی کا باعث بنتے ہیں۔ہمارے معاشرے کی موجودہ صورت حال اس اخلاقی گراوٹ کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
 

سید عمران

محفلین
مغرب کا تعلیمی نظام​
نظامِ تعلیم کا یہ حال صرف ہمارے ملک کا نہیں، مغرب کا بھی ہے۔ مغرب کا تعلیمی نظام بھی کوئی معرکۃ الآراء نہیں ہے۔ یہاں بھی صرف وہی طلباء کچھ بن سکتے ہیں جو یا تو قدرتی طور پر ذہین ہوں یاجن کے والدین اپنے بچوں پر خاص توجہ دیں۔مغرب میں سرکاری اسکولوں کے ساتھ پرائیویٹ اسکول بھی ہیں جہاں صرف امراء کی اولادیں ہی پڑھ سکتی ہیں۔ ان اسکولوں میں اچھے گریڈز حاصل کرنا سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوتا ہے۔
یورپ کے مختلف ممالک مثلاً جرمنی، سوئٹزرلینڈ وغیرہ میں طلباء کو ان کی قابلیت کے حساب سے اسکولوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اگر کوئی طالب علم پڑھائی میں کمزور ہے تو اس کو ایسے اسکول میں بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ کسی صورت اعلیٰ تعلیمی اداروں تک نہیں پہنچ سکتا۔
اسکینڈےنیوین ممالک (یعنی ناروے، ڈنمارک، سوئیڈن وغیرہ)میں تعلیم کا یہ حال ہے کہ پہلی سے دسویں جماعت تک ہونے والے پرچوں کے نتائج کو جزوی لیا جاتا ہے یعنی اگر کوئی طالب علم سالانہ امتحان میں فیل بھی ہو جائے تو اس کو اگلی کلاس میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی لسانیات اور مذاہب کے مضامین میں رٹا سسٹم ہی چلتا ہے۔ صرف سائنس اور معاشرتی علوم میں ذہانت آزمانے کی کچھ گنجائش موجود ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خود مغرب بھی اپنے تعلیمی نظام سے پریشان ہے۔
مغرب کے امراء و مفکرین کا نکتہ نظر​

امریکہ کے بڑے بڑے کروڑ پتی گھرانے بھی اسکول کالج اور یونیورسٹی کے مروّجہ نظام کے خلاف ہورہے ہیں اور اسے زندگی کے قیمتی سال برباد کرنے کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔ دنیا کے دوسرے امیر ترین آدمی ’’کارلسن سلم‘‘ اپنی زندگی کا ایک مشاہدہ پیش کرتے ہیں کہ امریکہ کے سو ارب پتی وہ لوگ ہیں جو انسان کی صلاحیتوں کو منجمدکردینے والے اس نظام سے دور رہے، درمیان تعلیم اسکول چھوڑ کر عملی میدان میں آگئے۔
امریکی مفکرین اس تعلیمی نظام کو ’’تخلیقی صلاحیتوں کا قاتل‘‘قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظام کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ کل جس ملازمت کے لیے بی اے کی ضرورت تھی اس کے لیے آج ایم اے کی ڈگری چاہیے اور ایم اے کی ڈگری والی ملازمت کے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہونا ضروری ہے۔ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اس نظام پر مکمل بھروسہ کرنے کے بجائےاپنے ٹیلنٹ اور اپنی صلاحیتوں کو دریافت کریں اور ان سے کام لے کر اپنی زندگی کی سمت کا تعین کریں۔
 

سید عمران

محفلین
اپنے مستقبل کا خود تعین کریں​
حقیقی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد مفکر اور اسکالرز جو اسکولوں کالجوں کی تعلیم کو فرض عین اور واجب کا درجہ دے رہیں ان کی بات پر من و عن عمل کرنے کا نتیجہ نہایت ہولناک ثابت ہوگا۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد طالب علم اپنی جوانی اور ادھیڑ عمری کی درمیانی عمر میں پہنچ کر اپنی قیمت لگاتا ہے تو دو ٹکے کی نہیں ہوتی۔ کاروبار سیکھنے اور جمانے کا سنہرا دور گزر چکا ہوتا ہے اور ڈھنگ کی کوئی ملازمت بھی نہیں ملتی۔ نتیجۃً ڈھلتی عمر میں شادی ہوتی ہے اور بڑھاپے میں ان کے بچے جوان ہونے سے پیشتر ہی یتیم ہوجاتے ہیں۔

اس سارے پس منظر کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ اس پراہپیگنڈے کے جھانسے میں ہرگز نہ آیا جائے کہ یہ تعلیمی نظام ہمیں دنیا کا کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حلال رزق کمانے کے لیے اپنے یا اپنی اولاد کے رجحان کو مدنظر رکھیں۔ ضرورت کے مطابق بنیادی علوم مثلاً اردو، انگریزی اور حساب کتاب سیکھنے کے بعد کوشش کرکے میڑک کی ڈگری تو ضرور حاصل کریں۔ کیوں کہ اآج کل یہ اکثر سرکاری دستاویزات بنانے میں کارآمد ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اس پڑھائی میں دل نہیں لگتا تو فوراً ہی دل جمعی کے ساتھ نہایت چھوٹے پیمانے پر ہی سہی کوئی کاروبار سیکھنا شروع کریں یا اعلیٰ ترین درجے میں کسی دستکاری یا ہنر میں مہارت حاصل کریں۔محض ایم اے، بی اے وغیرہ کے چکروں میں نہ پڑیں، کہیں ایسا نہ ہو جو آج کل کے جوانوں کے ساتھ ہورہا ہے کہ عمر کا بہترین دور گزار کر آخر میں ڈگری کے نام پر کاغذ کے پرزے کے سوا کچھ نہ ملا جس کی کوئی مارکیٹ ویلیو نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
شاید یہ بات موضوع سے زیادہ متعلق نہ ہو، تاہم، یہ بات شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ بچوں کی نصابی کتابیں کسی بوجھ سے کم نہیں ہیں۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں میں پہلی جماعت کا نصاب ایسا ہے کہ یوں گمان ہوتا ہے گویا یہ تیسری جماعت کا نصاب ہو۔ سرکاری سکولوں کا جو حال ہے، وہ تو خیر سب کے سامنے ہی ہے۔ مزید ظلم یہ ہے کہ دو تین سال کے بچوں کو سکول میں داخل کروانے کا فیشن بھی بڑھ چلا ہے۔ غالباً ایسا کرنے سے بچوں کی جسمانی نشونما بھی متاثر ہوتی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا حال بھی پتلا ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
شاید یہ بات موضوع سے زیادہ متعلق نہ ہو، تاہم، یہ بات شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ بچوں کی نصابی کتابیں کسی بوجھ سے کم نہیں ہیں۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں میں پہلی جماعت کا نصاب ایسا ہے کہ یوں گمان ہوتا ہے گویا یہ تیسری جماعت کا نصاب ہو۔ سرکاری سکولوں کا جو حال ہے، وہ تو خیر سب کے سامنے ہی ہے۔ مزید ظلم یہ ہے کہ دو تین سال کے بچوں کو سکول میں داخل کروانے کا فیشن بھی بڑھ چلا ہے۔ غالبآ ایسا کرنے سے بچوں کی جسمانی نشونما بھی متاثر ہوتی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا حال بھی پتلا ہے۔
جی ہاں شروع میں ہی یہ بات ذکر کردی گئی ہے کہ بچوں پر غیر ضروری مضامین کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔۔۔
 
ہ بچوں کی نصابی کتابیں کسی بوجھ سے کم نہیں ہیں۔
جب میں چھٹی ساتویں کلاس میں تھا تو میرا بستہ مجھ سے وزنی ہوتا تھا۔
آٹھ مضمون کی کتابیں اور آٹھ ہوم ورک کی کاپیاں اور ایک ریاضی کا رف رجسٹر باقی سلیٹ پنسل اور بستے کا وزن الگ۔ ۔ ۔
یہ جسمانی بوجھ۔ ۔
ذہنی بوجھ کی کبھی ٹینشن ہی نہیں لی :rollingonthefloor:
 
ہم مزے میں رہے۔ سکول ٹائم پر شاپر یا ہاتھ میں کتابیں لے کر جاتے تھے۔ کالج دور میں ٹائم ٹیبل کے حساب سے کم کتابیں اور یونیورسٹی دور ميں صرف ایک یونیورسل رف کاپی اور جیب میں یو ایس بی۔ ای بک، سلائیڈز سے تیاری کی امتحان دیا اور فارغ۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
جب میں چھٹی ساتویں کلاس میں تھا تو میرا بستہ مجھ سے وزنی ہوتا تھا۔
آٹھ مضمون کی کتابیں اور آٹھ ہوم ورک کی کاپیاں اور ایک ریاضی کا رف رجسٹر باقی سلیٹ پنسل اور بستے کا وزن الگ۔ ۔ ۔
یہ جسمانی بوجھ۔ ۔
ذہنی بوجھ کی کبھی ٹینشن ہی نہیں لی :rollingonthefloor:
بچوں کو ابتداء میں صرف اردو پڑھائی جائے۔۔۔
جب تک رواں نہ ہوجائیں کسی اور مضمون کا بوجھ نہ لادا جائے۔۔۔
ویسے ذہنی بوجھ کی بھی خوب کہی!!!:-(:-(:-(
 

سیما علی

لائبریرین
کہیں ایسا نہ ہو جو آج کل کے جوانوں کے ساتھ ہورہا ہے کہ عمر کا بہترین دور گزار کر آخر میں ڈگری کے نام پر کاغذ کے پرزے کے سوا کچھ نہ ملا جس کی کوئی مارکیٹ ویلیو نہیں۔
چلیں اس بہانے محض ڈگری یافتہ ہی ہو جاتے تعلیم تو پاس سے بھی نہیں گذرتی۔۔
افسوس صد افسوس طالب علم ڈگری یافتہ تو بن رہے ہیں مگر تعلیم یافتہ نہیں۔۔۔ہمارے ملک میں پڑھے لکھے تو بہت ہیں ڈگریاں یافتہ تو بہت ہیں لیکن ان میں کردار کی پختگی نہیں پائی جاتی حتیٰ کہ وہ تعلیم کے حرف ”ت“ سے بھی نابلد ہیں۔ کہتے ہیں کہ تعلیم لوگوں میں عقل و شعور اور آگاہی فراہم کرتی ہے اور انسان کی شخصیت اور کردار کے روشن پہلوﺅں کو مزید اجاگر کر کے انسان کے کردار کو مزید نکھارتی ہے۔لیکن اکثر جن کو ہم جاہل سمجھ رہے ہوتے ہیں اُن میں تعلیم یافتہ لوگون سے زیادہ رکھ رکھاؤ اور سوجھ بوجھ پائی جاتی ہے ۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے تو آج کل "تعلیم", "سکول", "کالج","یونیورسٹی" ، "استاد" "طالب علم" "شفقت محمود" "کورونا" "بی ایس" ، "اے ڈی پی" ، سالانہ" ، "سمسٹر" ,"مڈٹرم", "فائینل ٹرم" ۔۔۔۔۔۔ یہ اور ان کے رشتہ دار سب الفاظ و موضوعات سخت اداس کرتے ہیں۔
اور واقعی میں بہت پریشان اور اداس ہوں بھی۔ پھر سے ہمت باندھتی ہوں لیکن "نظام"!
ہم بس کنوئیں کے مینڈک ہیں۔ ہم اس کنویں سے باہر نہیں آ سکتے۔ کم از کم میں اپنی زندگی میں باہر کی دنیا نہیں دیکھ سکوں گی۔
"علم" ۔۔۔ یہ لفظ کتنا پرکشش ہے۔ تعلیمی ادارہ کس قدر خوبصورت جگہ ہو سکتی ہے! طالب علم اور استاد۔۔ کیا ہی پیارا تعلق ہے!
کوئی چاہتا ہی نہیں "تبدیلی" "بدلنا" "بدلاؤ" ۔۔۔ معاملات اور خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ کوئی سنجیدہ طور پہ صورتحال کو بہتر بنانا ہی نہیں چاہتا۔
ہم کیا کر سکتے ہیں! ہم کیا اور ہماری بساط کیا!
احکامات کے غلام۔
ہمارے مقدر میں بس یہی پڑھانا ہے۔ اے فار ایپل ، ایپل معنی سیب۔:cry:
 

فاخر رضا

محفلین
جب انگریز تمام دنیا پر حکومت کررہے تھے تو وائسرائے سے لے کر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر تک زیادہ تر انگریز ہوتا تھا. یعنی اتنی تعداد میں ان کے پاس ایڈمنسٹریٹر موجود تھے. یقیناً کچھ نا کچھ پڑھے لکھے بھی ہوتے ہونگے
انہوں نے جو نظام تعلیم یہاں رائج کیا وہ حکایات سعدی و بوستان وغیرہ کے مقابلے میں وہ تھا جیسے اینٹوں کا بھٹہ. ایک ہی طرح کی اینٹیں بناؤ اور کلرک بھرتی کرتے جاؤ
لالچ انگریزی تعلیم کا خاصہ تھا. ایک آدھ انگلستان کا چکر لگوا دیا اور نواب صاحب خوش ہو گئے
اب انہیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی
اب یہاں کے پڑھے لکھے خود ہی یہاں سے جانے کے لئے تیار رہتے ہیں. بلکہ اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں. وہیں اینٹوں کا بھٹہ آج بھی چل رہا ہے
ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معلم بنا کر بھیجا گیا تھا اور انہوں نے اپنے کوئی اسکول کالج یونیورسٹی نہیں بنائی بلکہ ایک معاشرہ قائم کیا جس میں رہ کر لوگوں کو مہذب بنانے کی کوشش کی
 

سیما علی

لائبریرین
ہم کیا کر سکتے ہیں! ہم کیا اور ہماری بساط کیا!
احکامات کے غلام۔
ہمارے مقدر میں بس یہی پڑھانا ہے۔ اے فار ایپل ، ایپل معنی سیب۔
بالکل درست کہا بٹیا !! سوائے افسوس کے کچھ اور نہیں کر سکتے !!
علم" ۔۔۔ یہ لفظ کتنا پرکشش ہے۔ تعلیمی ادارہ کس قدر خوبصورت جگہ ہو سکتی ہے! طالب علم اور استاد۔۔ کیا ہی پیارا تعلق ہے!
کوئی چاہتا ہی نہیں "تبدیلی" "بدلنا" "بدلاؤ" ۔۔۔ معاملات اور خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ کوئی سنجیدہ طور پہ صورتحال کو بہتر بنانا ہی نہیں چاہتا۔
یہی تو اصل بات ہے ۔اُستاد اور طالب علم کیا خوب صورت رشتہ لیکن یہ رشتہ کو بے حد ارزاں دیکھا جب ہم ایم بی اے کر رہے تھے ہم ٹہرے اُن وقتوں کہ جب اُستاد اور والدین کی عزت و احترام ایک طرح کیا جاتا تو ہمارا احترام کرنے پر ہمیں طعنے سننا پڑتے کہ آپ جیسے لوگ اِنکا دماغ خراب کردیتے ہیں ۔دوسرے باہر اُستادِ کے خلاف پورا گروپ بنا کر چھوٹی سی بات پر کہا جاتا ہمیں اِن سے نہیں پڑھنا اور انتہا سے زیادہ بدتمیزی کرنا بڑائی سمجھی جاتی :silent3::silent3:
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
کہتے ہیں کہ تعلیم لوگوں میں عقل و شعور اور آگاہی فراہم کرتی ہے اور انسان کی شخصیت اور کردار کے روشن پہلوﺅں کو مزید اجاگر کر کے انسان کے کردار کو مزید نکھارتی ہے۔لیکن اکثر جن کو ہم جاہل سمجھ رہے ہوتے ہیں اُن میں تعلیم یافتہ لوگون سے زیادہ رکھ رکھاؤ اور سوجھ بوجھ پائی جاتی ہے ۔۔۔
آپ نے صحیح فرمایا سیما آپا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم ہمیں تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ تو شاید بنا دیتا ہے مگر تہذیب یافتہ نہیں بناتا۔ کردارسازی کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھلے وقتوں میں گھروں میں والدین اور سکولز اور کالجز میں ٹیچرز بچوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیتے تھے۔ مگر آج کل اس میں سے تربیت کا عنصر تو بالکل نکل چکا ہے۔ باقی رہی تعلیم تو اس کا حال بھی سید عمران بھیا نے بہت اچھے انداز میں ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اب انہیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی
اب یہاں کے پڑھے لکھے خود ہی یہاں سے جانے کے لئے تیار رہتے ہیں. بلکہ اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں. وہیں اینٹوں کا بھٹہ آج بھی چل رہا ہے
ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معلم بنا کر بھیجا گیا تھا اور انہوں نے اپنے کوئی اسکول کالج یونیورسٹی نہیں بنائی بلکہ ایک معاشرہ قائم کیا جس میں رہ کر لوگوں کو مہذب بنانے کی کوشش کی
فاخر میاں
بالکل درست اینٹوں کا بھٹہ آج بھی چل رہا ہے ۔۔
بے شک نبوت اور تعلیم و تربیت آپس میں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے منصب سے متعلق ارشاد فرمایا۔ بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یہ وہ معلم تھے جن کی تعلیم و تدریس کی مثال پوری تاریخِ انسانیت میں نہیں ،معلم کی حیثیت سے نبی اکرم صلی اللّہ علیہ والہ وسلم اکی ذات اقدس ایک منفرد اور بے مثل ہے۔۔
 
آخری تدوین:
Top