خود پسندی یا نرگسیت ۔۔۔ ایک نفسیاتی عارضہ

سین خے

محفلین
’خودپسندوں‘ کی دنیا
27 مار چ 2019
بی بی سی اردو

سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ دنیا خود پسندی کا شکار ہو چکی ہے۔ کم سے کم سوشل میڈیا کی دنیا تو ضرور۔

اس نتیجے پر پہنچ کر آپ غلطی نہیں کر رہے۔ دماغی صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خود پسندی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور عام نظر آ رہی ہے۔

لیکن لوگ اتنی بڑی تعداد میں خود پسندی یا نرگسیت کا شکار کیوں ہیں؟ بی بی سی کی جولین جنکنز نے یہی معلوم کرنے کی کوشش کی۔

خودپسندی یا نرگسیت کیا ہے؟

کالنز انگلش ڈکشنری کے مطابق اس کا مطلب ہے اپنے آپ خاص طور پر اپنے روپ میں غیر معمولی دلچسپی اور اس سے متاثر ہونا۔

یہ اپنی اہمیت اور صلاحیتوں کے حد سے بڑھے ہوئے احساس اور اپنے آپ میں دلچسپی کا دوسرا نام ہے۔ خودپسندی کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو کسی حد تک شاید ہم سب میں موجود ہیں لیکن زیادہ تر معاملوں میں یہ ایک بیماری کی شکل میں سامنے آتی ہے جیسے نارسیسٹک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر (این پی ڈی) یعنی یہ خیال ہونا کہ آپ بہت اہم ہیں۔

نرگسیت یا خود پسندی کے مریض کو پہچانا کیسے جاتا ہے؟
ایک برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینیسن لی کے مطابق اس بیماری کو پرکھنے کے نو نکات ہیں جو پوری دنیا میں رائج ہیں۔ خودپسندی کا مریض قرار دیے جانے کے لیے ان نو میں سے پانچ شرائط پوری ہونی چاہیں۔

* اپنی اہمیت کا انتہائی احساس

* کامیابی اور طاقت کے بارے میں وہم ہونا

* اپنے آپ کو انوکھا اور منفرد خیال کرنا

* سراہے جانے کی حد سے زیادہ طلب

* ہر چیز پر اپنا حق سمجھنا

* باہمی رشتوں میں صرف اپنے بارے میں سوچنا

* ہمدردی کے احساس کی کمی

* ہر ایک پر رشک کرنا

* مغرور اور گھمنڈی رویے رکھنا

ہم سب کے ملنے جلنے والوں میں غالباً ایسے لوگ ہوں گے جن میں ان میں سے کچھ خصوصیات موجود ہوں گی لیکن یہ بیماری کب بن جاتی ہیں؟ لی کے مطابق ایسا اس وقت کہا جا سکتا ہے جب ان خصوصیات کی وجہ یہ لوگ اپنے لیے یا دوسروں کے لیے پریشانیاں اور مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں۔

خودپسندی بیماری کی صورت میں کتنی عام ہے؟
ڈائگنوسٹک اینڈ سٹیٹیسٹیکل مینوئل کے معیار کے مطابق کی گئی ایک تحقیق کے مطابق امریکی آبادی کا 6 فیصد خود پسندی کا شکار ہے۔ تاہم اس کے علاوہ اس سے زیادہ سخت معیار پر کیے گئے پانچ جائزے ایسے بھی ہیں جن کے مطابق امریکہ میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے۔

سو مختلف ماہرین سے بات کریں تو معلوم ہو گا کہ یا تو خود پسندی کا مرض بہت عام ہے یا بہت کم۔

ڈاکٹر لی کا کہنا ہے کہ یہ بیماری ہے جس پر میڈیکل کے میدان میں ابھی زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ ان کے خیال میں یہ مسئلہ ہمارے اندازے سے زیادہ بڑا ہے۔

انوشکا مارسن جنہوں نے خود پسندی کی علامات دکھانے والے اپنے شریکِ حیات کو چھوڑ دیا تھا اور اب نفسیات کی کنسلٹنٹ کا کام کرتی ہیں خود پسندی کے مریضوں کو پہچانے میں مدد دے سکتی ہیں۔

ان کے خیال میں بھی یہ ایک بیماری ہے اور بہت عام ہے۔

خودپسندی کا علاج
ڈاکٹر لی کے مطابق ان کے پاس آنے والے خود پسندی کا شکار بہت سے مریض اپنے آپ کو ڈپریشن کا مریض سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے مریضوں پر ڈپریشن کی دوائی بالکل اثر نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا کہ خود پسندی کا علاج آسان نہیں۔ ایک تو یہ کہ خود پسندی کے مریض دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں اور ان سے یہ منوانا کہ مسئلہ ان کے ساتھ ہے مشکل کام ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ خود پسندی عمر کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک بات جو دنیا بھر کے لیے سچ ہے وہ یہ ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں میں نوجوانوں کے مقابلے میں خودپسندی کا رجحان کم ہوتا ہے۔

خودپسندی کا رجحان
تو کیا ہمارا مقابلہ خود پسندی کی وبا سے ہے یا یہ صرف ایک اخلاقی مسئلہ ہے؟

سین ڈیایگو یونیورسٹی میں سائیکالوجی کے پروفیسر جین ٹوینگ کا کہنا ہے کہ یہ بیماری پھیل رہی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’خودپسندی کی وبا‘ میں لکھا کہ امریکی طالب علم جتنا اب خود پسندی کا شکار اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ انھوں نے کہا حالیہ دہائیوں میں اپنے آپ کو ’خود پسند‘ کہنے والے طالب علموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقصد کے حصول میں اور قائدانہ صلاحیتوں میں اپنے آپ کو اوسط سے بہتر سمجھنے والے طالب علموں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔

اپنے آپ کو خودپسند کہنے والا جو دوسروں کی مدد کرنا چاہتا ہے
ایچ جی ٹیوڈر اپنے آپ کو برطانیہ کے بڑے خود پسندوں میں شمار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں کم عمری سے معلوم تھا کہ وہ خود پسند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں لوگوں کا فائدہ اٹھانے میں مزہ آتا تھا۔

ٹیوڈر نے بتایا کہ انہیں پہلی بار یونیورسٹی میں سائیکالوجی کی طالب علم ان کی گرل فرینڈ نے بتایا کہ وہ ’نرگسیت کے مریض‘ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انھیں لوگوں کو پہنچے والی تکلیف کا احساس نہیں ہوا کیونکہ ان کا اپنا الو تو سیدھا ہو رہا تھا۔

اب اسی بیماری کو انہوں نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور وہ آن لائن مشاورت بھی کرتے ہیں جس کی فیس 70 ڈالر ہے۔ اس مشاورت میں وہ خود پسندی کا شکار لوگوں کے ساتھ رہنے والے افراد کی مدد کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ کیسے اپنے ساتھیوں سے نمٹ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کا بڑھتا ہوا کاروبار اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے۔

تاہم ایک پروفیسر ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں یونیورسٹیوں میں خود پسندی کم ہوئی ہے۔ یونیورسٹی آف الینائے میں پروفیسر برینٹ رابرٹس نے اپنی تحقیق کے لیے تین مختلف یونیورسٹیوں سے اعداد و شمار حاصل کیے۔

انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ خود پسندی کی تعریف کرنا آسان لیکن اس کا تعین کرنا مشکل ہے اور یہ کہ سوشل میڈیا اس کے بڑھنے کی ایک وجہ ہے۔
 

سین خے

محفلین
نرگسیت: اپنی ذات سے محبت کی عجیب بیماری
26.12.2019
DW
یہ تاثر عام ہے کہ نرگسیت کے ذہنی خلل کے حامل شخص کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ ایسے لوگوں کو ہمدردی بھی قبول نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ اگر خود کو پریشانی میں مبتلا نہیں کرنا تو ان سے دوری ہی بہتر ہے۔
ایک ماہر نفسیات بیربیل وارڈٹیسکی کا کہنا ہے کہ نرگسیت کے مارے ہوئے افراد بنیادی طور پر ہمدردی سے عاری ہوتے ہیں اور وہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی کم رکھتے ہیں۔ وارڈٹیسکی نرگسیت کے ذہنی خلل کی ماہر ہیں اور اس موضوع پر کئی کتابیں بھی تحریر کر چکی ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ نارسیسٹ یا نرگسیت کے مارے ہوئے کم ہی دوسروں کی بات سننے کی کوشش کرتے ہیں اور زیادہ تر اُن کی گفتگو کا محور اُن کی اپنی ذات ہوتی ہے۔

سارہ ایک نوجوان خاتون خانہ ہیں اور اب وہ ایک کم سن بچے کی ماں بھی ہیں۔ ان کی اپنے پارٹنر سے علیحدگی کی وجہ یہی ذہنی خلل بنا۔ اُن کا پارٹنر بیربل وارڈٹیسکی کی نرگسیت زدہ افراد کی تعریف کا حامل تھا۔ ان کا ساتھی گھریلو شاپنگ بھی خود ہی کرنا پسند کرتا تھا۔ سارہ کے پارٹنر کی ساری زندگی کا محور و مقصد اس کی اپنی ذات تھی اور چند ماہ قبل اُس نے اپنے پارٹنر سے علیحدہ ہونے میں عافیت سمجھی۔

ماہر نفسیات وارڈٹیسکی کا کہنا ہے کہ نرگسیت بجا طور پر ایک ذہنی مرض ہے اور اس میں مبتلا شخص کی تعریف ہی کافی نہیں اور اگر اُس کی کسی بات سے اختلاف کیا جائے تو وہ فوراً برہم ہو سکتا ہے۔ وارڈٹیسکی کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ نرگسیت زدہ شخص کی یا تو تعریف کریں یا پھر اسے ڈرا دھمکا کر خاموش بٹھا دیا جائے۔

نرگسیت کے ذہنی عارضے پر مسلمہ اتھارٹی خیال کی جانے والی بیربل وارڈٹیسکی کا کہنا ہے کہ اس مرض کی مکمل اور بھرپور تشریح ممکن نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خود پر غیرمعمولی یقین رکھنا ایک اور عمل ہے اور اس کا اپنی ذات کے عشق میں مبتلا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

وارڈٹیسکی کے مطابق اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ خود کو پسند کرتا ہے تو عموماً یہ اپنی ذات کی تکریم ہے۔ اپنی ذات کی عزت کرنے والے افراد اپنے جذبات پر قابو بھی رکھنا جانتے ہیں اور اس سے بھی آگاہ ہوتے ہیں کہ کن حالات میں راحت کا حصول کیونکر اور کیسے ممکن ہے۔

51657528_101.jpg


مرضیاتی نرگسیت کے حامل لوگ اپنی ذات کی عزت و تکریم غیرمعمولی حد تک زیادہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرضیاتی نرگسیت کے حامل لوگ اپنی ذات کی عزت و تکریم غیرمعمولی حد تک زیادہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کے اندرونی شبہات کی شدت کی وجہ سے اپنی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تا کہ رویے کی خامیاں چھپی رہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایسا رویہ عموماً کسی بھی شخص میں اُس کے بچپن میں پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔

بیربل وارڈٹیسکی کا کہنا ہے کہ نرگسیت کے حامل اشخاص کا بچپن واضح طور پر یا تو نظر انداز کیا گیا ہوتا ہے یا پھر انہیں بہت ہی بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہوتا ہے۔ انہیں دو کیفیتوں میں بڑے ہو کر کوئی بھی شخص اپنی ذات کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہی نرگسیت قرار دی جا سکتی ہے۔ اپنے پارٹنر سے علیحدہ ہونے والی سارہ کا کہنا ہے کہ اُس کے پارٹنر کو کم عمری ہی میں نظرانداز کر دیا گیا تھا اور وہ اپنی خالہ کے پاس پلا بڑھا تھا۔

ژولیا ورجینیا (ع ح ⁄ ک م)
 

سین خے

محفلین
(لڑی کے موضوع سے غیرمتعلق ایک سوال: ) قوسین میں موجود حروف acronyms معلوم ہوتے ہیں، لیکن کن چیزوں کے؟

سعادت بھائی اس اخبار کے غیر ملکی صحافیوں کے نام کے آگے ایسے ہی acronyms درج ہوتے ہیں جیسے اس آرٹیکل میں لوئس سینڈرز کے نام کے آگے یہ (ع ت، م م) درج ہیں۔ یہ جرمن الفاظ کے بھی acronyms ہو سکتے ہیں۔ ایک دو بار ان کے معنی معلوم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کچھ بامعنی مل نہیں سکا تھا۔
 
Top