مجموعہ ممتاز شیریں


اتوار کی صبح جاگے تو فورا ڈان اخبار ہمارے ہاتھ میں تھمادیا گیا۔ خبروں کے صفحات کا طائرانہ جائزہ لینے کے بعدمیگزین کی جانب نگاہِ التفات فرمائی۔ کتابوں کے ایک اشتہار پر نظریں پڑیں اور وہیں جم کر رہ گئیں۔ سنگِ میل پبلیکیشنز نے اپنی نئی کتابوں کا اعلان کیا تھا۔ اشتہار کے درمیان میں ایک نام چمک رہا تھا۔


کبھی آپ کی کوئی دیرینہ خواہش یکدم پوری ہوجائے تو کس طرح خوشی سے چھلانگیں لگانے کو جی چاہتا ہے۔ بس یہی حالت ہماری تھی۔ پہلے تو آنکھوں پر یقین ہی نہ آتا تھا۔ کیا واقعی؟ ایک مرتبہ آنکھیں مل کر نیند کو دور کیا اور اس سطر پر نظریں گاڑ دیں۔
مجموعہ ممتاز شیریں : اپنی نگریا، میگھ ملہار، داستاں کہتے کہتے ( افسانے) ممتاز شیریں ترتیب آصف فرخی

ممتاز شیریں نہ صرف اردو کی ایک اعلیٰ درجے کی نقاد تھیں بلکہ افسانہ نگار بھی تھیں۔ ادھر وہ ہماری والدہ کی ممانی بھی تھیں۔ ہم نے اب سے پیشتر دو موقعوں پر ان کی تخلیقات سے محفلین کو روشناس کروایا ہے۔ یادش بخیر فروری ۲۰۱۲ میں ہم نے ’’کفارہ ایک جائزہ ‘‘ کے نام سے ایک مضمون میں محترمہ کے شہرہٗ آفاق افسانے ’’کفارہ‘‘ پر ایک تعارفی مضمون لکھا تھا۔

کفارہ ۔ایک جائزہ


کیمبرج سسٹم سے او ۔لیول اردو ادب کا پرچہ دینے والے طلبا اس افسانے سے واقف ہیں۔

فروری ۲۰۱۲ میں جامعہ کراچی کے کتب میلے سے ہم نے اسی تحریک اورترقی پسند ادب سے متعلق احمد پراچہ صاحب کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک (تحقیقی اور تنقیدی جائزہ) خریدی۔ اس کتاب میں ترقی پسند ادب اور تحریک کے بارے میں کئی ایک قیمتی مضامین کو یکجا کردیا گیا ہے، جن میں اردو کی ممتاز نقاد محترمہ ممتاز شیریں کا مضمون ’’ترقی پسند ادب‘‘، ’’دلی کی شام‘‘ ناول کے خالق اور ’’انگارے‘‘ کے مرتب جناب پروفیسر احمد علی کا مضمون ’’تحریکِ ترقی پسند مصنفین اور تخلیقی مصنف‘‘ ، ڈاکٹر عبادت بریلوی کا مضمون ’’ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک( ایک تنقیدی جائزہ)‘‘ اور فردوس انور قاضی کا ’’ انگارے کے افسانے‘‘ سمیت اور بہت سے قابلِ ذکر مضامین شامل ہیں۔ بہت عمدہ کتاب ہے، جس میں ماضی میں لکھے گئے کئی قیمتی مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو فکشن ھاؤس مزنگ روڈ لاہور نے چھاپا۔ممتاز شیریں کے متذکرہ بالا مضمون کوہم اختصار کے ساتھ محفلین کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کی پلاٹینم جوبلی، ظہیر اختر بیدری


ادھرلڑکپن میں ہی کتابوں سے بے پناہ عشق ہمیں کتابیں جمع کرنے اور اپنی ایک ذاتی لائبریری بنانے کی جانب کشاں کشاں لے چلا ۔ اپنی اماں کی ممانی جان جنھیں ہم بھی ممانی جان ہی کہتے تھےسے ملاقات صرف ایک مرتبہ ہوئی جب وہ ہمارے لڑکپن میں کراچی تشریف لائیں اور ہمارے ہی گھر پر قیام فرمایا۔ بعد میں ۱۹۷۲ میں انھوں نے اسلام آباد میں انتقال فرمایا ۔ اگلے سال ان کی پہلی برسی کے موقعے پر ہم نے ان کی یاد میں ایک مضمون لکھا جو جنگ کراچی میں چھپا۔ ہمیں قوی امید ہے کہ کسی دن ہم جنگ کے دفتر جاکر اس مضمون کی کاپی حاصل کرہی لیں گے۔ ادھر ہم نے ان کی دو ایک کتابیں بھی اپنے خزانے میں جمع کی ہوئی تھیں ، جن میں سے اپنی نگریا تو اچھی طرح یاد ہے۔


ہم ملازمت کے سلسلے میں اسلام آبادپہنچے تو گھر پر ہماری کتابوں اور کاغذوں کے تمامتر خزانے کو بڑے بھائی نے صفائی کے بہانے ٹھکانے لگادیا ۔ وہ دن اور آج کا دن ہم اپنے گھر پر نہ کسی کو اپنی کتابوں کو ہاتھ لگانے دیتے ہیں اور نہ ہی بیگم صاحبہ کو ہمارے کسی کاغذ کو پھینکنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کتابوں کا نئے سرے سے جمع کیا ہوا ذخیرہ دن دونی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ شیلف کم اور کتابوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے الماریوں اور شیلفوں کے اوپر کتابوں کے ڈھیر موجود ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بہت سی کتابیں گتوں کے ڈبوں میں بند گھر کی مسہریوں کے نیچے آرام فرمارہی ہیں۔


ارادہ ہے کہ اس کتاب کو پہلی فرصت میں خرید لیا جائے تاکہ ہماری لائبریری کا ’’ممتاز شیریں ‘‘ سیکشن مکمل ہوجائے جس میں بس اب انہی دو تین کتابوں کی کمی ہے جو اس مجموعے میں موجود ہیں۔ ’’داستاں کہتے کہتے‘‘ سے ہم واقف نہیں، شاید آصف فرخی نے محترمہ کے نامکمل مسودوں سے ڈھونڈ کر کچھ افسانے نکالے ہیں جنھیں انھوں نے یہ نام دیا ہے۔


اسلام آباد سے آنے کے بعد ہمارے خزانے میں جس کتاب کا اضافہ ہوا وہ ہمیں شاید سب سے زیادہ عزیزہے۔ یہ سن انیس سو اٹھاون کا مکتبہٗ شعور کا چھاپا ہوا جان اسٹین بیک کے مشہورِ زمانہ ناول ’’دی پرل ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ، جسے ’’ دُرِ شہوار‘‘ کے نام سے ممتاز شیریں نے اردو کے قالب میں ڈھالا۔ یہی ناول ہماری بڑی بٹیا رانی کا وجہِ تسمیہ بھی بنا۔


اس کتاب میں ناول کے خوبصورت ترجمے کے علاوہ محترمہ کا ایک نہایت عمدہ تنقیدی مضمون کتاب کے مقدمے کی شکل میں موجود ہے۔


اردو ادب اور اردو افسانے پر ممتاز شیریں کی بڑی گہری نظر تھی۔ آپ کی نظر میں سعادت حسن منٹو اردو کاشاید سب سے بڑا افسانہ نگار تھا۔ آپ کی بڑی خواہش تھی کہ منٹو پر ایک کتاب لکھی جائے ۔ یہ خواہش ان کی زندگی میں تو پوری نہ ہوئی البتہ ۱۹۸۵ میں ان کے مسودوں میں سے کھنگال کر آصف فرخی ہی نے اس کتاب کے لیے لکھے گئے مضامین کو اکٹھا کیا اور ’’ منٹو: نوری نہ ناری‘‘ کے نام سے شہرزاد پبلیکیشنز سے شائع کروایا جس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۴ میں چھپا اور ہم نے ۲۰۰۶ میں خرید کر اپنی لائبریری میں شامل کیا۔



ہمارے اس ذوق و شوق میں ہمارے ساتھ چھوٹے بھائی محمد حفیظ الرحمٰن بھی شامل ہیں جن کا ذخیرہ کتب ہمارے ذخیرے سے زیادہ اور علمی نوعیت کا ہے۔ انہوں نے ہمیں ایک کتاب ہدیہ کی جو ممتاز شیریں کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ گو یہ کتاب بھی اُن کی زندگی میں نامکمل رہی اور بعد میں ۱۹۹۰ میں آصف فرخی ہی نے نفیس اکیڈمی سے شائع کروایا۔ یہ کتاب فسادات پر لکھے گئے اردو کے بہترین افسانوں کا مجموعہ ہے جسے محترمہ نے ہی ظلمتِ نیم روز کا نام دیا تھا ۔



ممتاز شیریں نے لکھنا شروع کیا تو رسالہ ساقی ( دہلی) میں ان کا پہلا افسانہ ’’ انگڑائی ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اور شائع ہوتے ہی بقول آصف فرخی ’’ ان کی دھوم مچ گئی‘‘ ۔محمد حسن عسکری نے لکھا کہ: ’’ ممتاز شیریں اردو کے ان چند لکھنے والیوں میں سے ہیں جن کی تاریخ ہی ان کی شہرت سے شروع ہوتی ہے۔ انہیں مشہور ہونے کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ پہلے ہی افسانے کے بعد انہوں نے ادب کے شائقین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی‘‘۔



ڈاکٹر فرمان فتحپوری نے جنوری ۱۹۸۲ میں اردو اکیڈمی سندھ سے ’’ اردو افسانہ اور افسانہ نگار ‘‘ کے نام سے بہترین افسانوں کا ایک مجموعہ شائع کیا جس میں ممتاز شیریں کا یہ پہلا افسانہ ’’انگڑائی‘‘ بھی شامل ہے۔ یہ کتاب ہمیں ایکسپو سنٹر میں کتابوں کی نمائش کے دوران کتابیں کھنگالتے ہوئے ہاتھ آئی۔


ممتاز شیریں پر (جنگ میں ہمارے مضمون کے علاوہ بھی) بہت کچھ لکھا گیا جس میں سے کچھ ہمارے ہاتھ لگا۔ سنا ہے کہ تاج سعید نے ماہنامہ قند کا ’’ممتاز شیریں نمبر‘‘ نکالا تھا، جو ہمارے ہاتھ نہ آسکا۔ خاصے کی تحریریں ہوں گی ۔


اکادمی ادبیات پاکستان نے ’’ پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس میں مختلف ادیبوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے ’’ ممتاز شیریں‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جسے ۲۰۰۷ میں اکادمی ادبیات نے چھاپا اور ہم نے شاید ۲۰۱۴ میں کتابوں کی نمائش سے خرید کر اپنی لائبریری میں شامل کیا۔


اسی طرح اردو اکیڈمی سندھ کے اسٹال پر کتابوں کی تلاش میں ہماری نظر نظیر صدیقی کے شخصی خاکوں ’’ جان پہچان‘‘پر پڑی جو ۱۹۷۹ میں چھپی تھی۔ اس میں دیگر شخصیات کے علاوہ ممتاز شیریں پر بھی ایک خوبصورت خاکہ شامل ہے۔


ادھر ادھر پرانی کتابوں میں تلاشتے ہوئے ہمیں میمونہ انصاری کی میری لائبریری لاہور سے ۱۹۸۹ میں چھپی ہوئی کتاب ’’ تنقیدی زاوئیے‘‘ نظر آئی جس میں ’’ ممتاز شیریں کے افسانے ‘‘ کے نام سے ایک مضمون بھی شامل ہے، جو اس سے پہلے رسالہ سیپ میں چھپ چکا تھا۔ کیا ہم اس کتاب کو خریدنے میں کامیاب ہوسکے؟ یقیناً اب یہ بھی ہماری ہے۔


اب سے کچھ ماہ پہلے کا ذکر ہے، ہم اپنے محلے میں دری کتابوں والے کے ٹھیلے پر کھڑے یونہی کتابیں کھنگال رہے تھے کہ قسمت کی دیوی ہم پر مہربان ہوگئی اور ماہنامہ روشنائی کراچی کا افسانہ صدی نمبر اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۷(حصہ سوم) ہمارے ہاتھ لگا ۔ اس میں دیگر افسانوں کے علاوہ ممتاز شیریں کا ایک افسانہ ’’گھر تک‘‘ بھی شامل ہے۔ ابھی ہم اپنی قسمت پر رشک کر ہی رہے تھے کہ ایک اور رسالے ’’ماہنامہ ادبِ لطیف‘‘ مئی ۲۰۱۳ میں جناب شبیر رانا کا مضمون’’ ممتاز شیریں: اردو کی پہلی خاتون نقاد‘‘ ہمارے ہاتھ لگا۔


دعا فرمائیے کہ اللہ ہمیں مذکورا بالا کتاب خریدنے کے قابل بنائے۔’’ مجموعہ ممتاز شیریں‘‘ نہ صرف ہمارے خزانے میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگی بلکہ اردو افسانے کے قاری کے لیے بھی خصوصاً ایک بیش بہا اضافہ بنے گی۔ اللہ اردو کی ساکھ کو قائم رکھے اور اس کی شان میں اضافہ کرنے والے ادیبوں اور شاعروں کو ان کے ماننے والوں کے دلوں اور ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رکھے۔ آمین
 
آخری تدوین:

نمرہ

محفلین
شکریہ شریک محفل کرنے کا۔ ممتاز شیریں کے فن کے بارے میں ایک کتاب ایک مرتبہ ہاتھ آئی تھی پرانی کتابوں کے بازار سے لیکن ابھی تک پڑھی نہیں یی سوچ کر کہ جب ان کی اپنی تحریریں گزریں نظر سے تو اس کے بعد ہی تنقید کی باری آنی چاہیے ۔
 
شکریہ شریک محفل کرنے کا۔ ممتاز شیریں کے فن کے بارے میں ایک کتاب ایک مرتبہ ہاتھ آئی تھی پرانی کتابوں کے بازار سے لیکن ابھی تک پڑھی نہیں یی سوچ کر کہ جب ان کی اپنی تحریریں گزریں نظر سے تو اس کے بعد ہی تنقید کی باری آنی چاہیے ۔
گویا یہ دھاگہ آپ کے لیے بھی مژدہ ہے کہ محترمہ کے تمام افسانے اب کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔ یہ اور بات کہ کتاب کی قیمت 1400 روپیے ہے۔ ہم تو عجب مخمصے میں ہیں:
خریدم مشکل وگرنہ خریدم مشکل:)
 
story.php
 
مجموعہ ممتاز شیریں


اتوار کی صبح جاگے تو فورا ڈان اخبار ہمارے ہاتھ میں تھمادیا گیا۔ خبروں کے صفحات کا طائرانہ جائزہ لینے کے بعدمیگزین کی جانب نگاہِ التفات فرمائی۔ کتابوں کے ایک اشتہار پر نظریں پڑیں اور وہیں جم کر رہ گئیں۔ سنگِ میل پبلیکیشنز نے اپنی نئی کتابوں کا اعلان کیا تھا۔ اشتہار کے درمیان میں ایک نام چمک رہا تھا۔


کبھی آپ کی کوئی دیرینہ خواہش یکدم پوری ہوجائے تو کس طرح خوشی سے چھلانگیں لگانے کو جی چاہتا ہے۔ بس یہی حالت ہماری تھی۔ پہلے تو آنکھوں پر یقین ہی نہ آتا تھا۔ کیا واقعی؟ ایک مرتبہ آنکھیں مل کر نیند کو دور کیا اور اس سطر پر نظریں گاڑ دیں۔
مجموعہ ممتاز شیریں : اپنی نگریا، میگھ ملہار، داستاں کہتے کہتے ( افسانے) ممتاز شیریں ترتیب آصف فرخی

ممتاز شیریں نہ صرف اردو کی ایک اعلیٰ درجے کی نقاد تھیں بلکہ افسانہ نگار بھی تھیں۔ ادھر وہ ہماری والدہ کی ممانی بھی تھیں۔ ہم نے اب سے پیشتر دو موقعوں پر ان کی تخلیقات سے محفلین کو روشناس کروایا ہے۔ یادش بخیر فروری ۲۰۱۲ میں ہم نے ’’کفارہ ایک جائزہ ‘‘ کے نام سے ایک مضمون میں محترمہ کے شہرہٗ آفاق افسانے ’’کفارہ‘‘ پر ایک تعارفی مضمون لکھا تھا۔

کفارہ ۔ایک جائزہ


کیمبرج سسٹم سے او ۔لیول اردو ادب کا پرچہ دینے والے طلبا اس افسانے سے واقف ہیں۔

فروری ۲۰۱۲ میں جامعہ کراچی کے کتب میلے سے ہم نے اسی تحریک اورترقی پسند ادب سے متعلق احمد پراچہ صاحب کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک (تحقیقی اور تنقیدی جائزہ) خریدی۔ اس کتاب میں ترقی پسند ادب اور تحریک کے بارے میں کئی ایک قیمتی مضامین کو یکجا کردیا گیا ہے، جن میں اردو کی ممتاز نقاد محترمہ ممتاز شیریں کا مضمون ’’ترقی پسند ادب‘‘، ’’دلی کی شام‘‘ ناول کے خالق اور ’’انگارے‘‘ کے مرتب جناب پروفیسر احمد علی کا مضمون ’’تحریکِ ترقی پسند مصنفین اور تخلیقی مصنف‘‘ ، ڈاکٹر عبادت بریلوی کا مضمون ’’ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک( ایک تنقیدی جائزہ)‘‘ اور فردوس انور قاضی کا ’’ انگارے کے افسانے‘‘ سمیت اور بہت سے قابلِ ذکر مضامین شامل ہیں۔ بہت عمدہ کتاب ہے، جس میں ماضی میں لکھے گئے کئی قیمتی مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو فکشن ھاؤس مزنگ روڈ لاہور نے چھاپا۔ممتاز شیریں کے متذکرہ بالا مضمون کوہم اختصار کے ساتھ محفلین کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کی پلاٹینم جوبلی، ظہیر اختر بیدری


ادھرلڑکپن میں ہی کتابوں سے بے پناہ عشق ہمیں کتابیں جمع کرنے اور اپنی ایک ذاتی لائبریری بنانے کی جانب کشاں کشاں لے چلا ۔ اپنی اماں کی ممانی جان جنھیں ہم بھی ممانی جان ہی کہتے تھےسے ملاقات صرف ایک مرتبہ ہوئی جب وہ ہمارے لڑکپن میں کراچی تشریف لائیں اور ہمارے ہی گھر پر قیام فرمایا۔ بعد میں ۱۹۷۲ میں انھوں نے اسلام آباد میں انتقال فرمایا ۔ اگلے سال ان کی پہلی برسی کے موقعے پر ہم نے ان کی یاد میں ایک مضمون لکھا جو جنگ کراچی میں چھپا۔ ہمیں قوی امید ہے کہ کسی دن ہم جنگ کے دفتر جاکر اس مضمون کی کاپی حاصل کرہی لیں گے۔ ادھر ہم نے ان کی دو ایک کتابیں بھی اپنے خزانے میں جمع کی ہوئی تھیں ، جن میں سے اپنی نگریا تو اچھی طرح یاد ہے۔


ہم ملازمت کے سلسلے میں اسلام آبادپہنچے تو گھر پر ہماری کتابوں اور کاغذوں کے تمامتر خزانے کو بڑے بھائی نے صفائی کے بہانے ٹھکانے لگادیا ۔ وہ دن اور آج کا دن ہم اپنے گھر پر نہ کسی کو اپنی کتابوں کو ہاتھ لگانے دیتے ہیں اور نہ ہی بیگم صاحبہ کو ہمارے کسی کاغذ کو پھینکنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کتابوں کا نئے سرے سے جمع کیا ہوا ذخیرہ دن دونی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ شیلف کم اور کتابوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے الماریوں اور شیلفوں کے اوپر کتابوں کے ڈھیر موجود ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بہت سی کتابیں گتوں کے ڈبوں میں بند گھر کی مسہریوں کے نیچے آرام فرمارہی ہیں۔


ارادہ ہے کہ اس کتاب کو پہلی فرصت میں خرید لیا جائے تاکہ ہماری لائبریری کا ’’ممتاز شیریں ‘‘ سیکشن مکمل ہوجائے جس میں بس اب انہی دو تین کتابوں کی کمی ہے جو اس مجموعے میں موجود ہیں۔ ’’داستاں کہتے کہتے‘‘ سے ہم واقف نہیں، شاید آصف فرخی نے محترمہ کے نامکمل مسودوں سے ڈھونڈ کر کچھ افسانے نکالے ہیں جنھیں انھوں نے یہ نام دیا ہے۔


اسلام آباد سے آنے کے بعد ہمارے خزانے میں جس کتاب کا اضافہ ہوا وہ ہمیں شاید سب سے زیادہ عزیزہے۔ یہ سن انیس سو اٹھاون کا مکتبہٗ شعور کا چھاپا ہوا جان اسٹین بیک کے مشہورِ زمانہ ناول ’’دی پرل ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ، جسے ’’ دُرِ شہوار‘‘ کے نام سے ممتاز شیریں نے اردو کے قالب میں ڈھالا۔ یہی ناول ہماری بڑی بٹیا رانی کا وجہِ تسمیہ بھی بنا۔


اس کتاب میں ناول کے خوبصورت ترجمے کے علاوہ محترمہ کا ایک نہایت عمدہ تنقیدی مضمون کتاب کے مقدمے کی شکل میں موجود ہے۔


اردو ادب اور اردو افسانے پر ممتاز شیریں کی بڑی گہری نظر تھی۔ آپ کی نظر میں سعادت حسن منٹو اردو کاشاید سب سے بڑا افسانہ نگار تھا۔ آپ کی بڑی خواہش تھی کہ منٹو پر ایک کتاب لکھی جائے ۔ یہ خواہش ان کی زندگی میں تو پوری نہ ہوئی البتہ ۱۹۸۵ میں ان کے مسودوں میں سے کھنگال کر آصف فرخی ہی نے اس کتاب کے لیے لکھے گئے مضامین کو اکٹھا کیا اور ’’ منٹو: نوری نہ ناری‘‘ کے نام سے شہرزاد پبلیکیشنز سے شائع کروایا جس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۴ میں چھپا اور ہم نے ۲۰۰۶ میں خرید کر اپنی لائبریری میں شامل کیا۔



ہمارے اس ذوق و شوق میں ہمارے ساتھ چھوٹے بھائی محمد حفیظ الرحمٰن بھی شامل ہیں جن کا ذخیرہ کتب ہمارے ذخیرے سے زیادہ اور علمی نوعیت کا ہے۔ انہوں نے ہمیں ایک کتاب ہدیہ کی جو ممتاز شیریں کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ گو یہ کتاب بھی اُن کی زندگی میں نامکمل رہی اور بعد میں ۱۹۹۰ میں آصف فرخی ہی نے نفیس اکیڈمی سے شائع کروایا۔ یہ کتاب فسادات پر لکھے گئے اردو کے بہترین افسانوں کا مجموعہ ہے جسے محترمہ نے ہی ظلمتِ نیم روز کا نام دیا تھا ۔



ممتاز شیریں نے لکھنا شروع کیا تو رسالہ ساقی ( دہلی) میں ان کا پہلا افسانہ ’’ انگڑائی ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اور شائع ہوتے ہی بقول آصف فرخی ’’ ان کی دھوم مچ گئی‘‘ ۔محمد حسن عسکری نے لکھا کہ: ’’ ممتاز شیریں اردو کے ان چند لکھنے والیوں میں سے ہیں جن کی تاریخ ہی ان کی شہرت سے شروع ہوتی ہے۔ انہیں مشہور ہونے کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ پہلے ہی افسانے کے بعد انہوں نے ادب کے شائقین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی‘‘۔



ڈاکٹر فرمان فتحپوری نے جنوری ۱۹۸۲ میں اردو اکیڈمی سندھ سے ’’ اردو افسانہ اور افسانہ نگار ‘‘ کے نام سے بہترین افسانوں کا ایک مجموعہ شائع کیا جس میں ممتاز شیریں کا یہ پہلا افسانہ ’’انگڑائی‘‘ بھی شامل ہے۔ یہ کتاب ہمیں ایکسپو سنٹر میں کتابوں کی نمائش کے دوران کتابیں کھنگالتے ہوئے ہاتھ آئی۔


ممتاز شیریں پر (جنگ میں ہمارے مضمون کے علاوہ بھی) بہت کچھ لکھا گیا جس میں سے کچھ ہمارے ہاتھ لگا۔ سنا ہے کہ تاج سعید نے ماہنامہ قند کا ’’ممتاز شیریں نمبر‘‘ نکالا تھا، جو ہمارے ہاتھ نہ آسکا۔ خاصے کی تحریریں ہوں گی ۔


اکادمی ادبیات پاکستان نے ’’ پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس میں مختلف ادیبوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے ’’ ممتاز شیریں‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جسے ۲۰۰۷ میں اکادمی ادبیات نے چھاپا اور ہم نے شاید ۲۰۱۴ میں کتابوں کی نمائش سے خرید کر اپنی لائبریری میں شامل کیا۔


اسی طرح اردو اکیڈمی سندھ کے اسٹال پر کتابوں کی تلاش میں ہماری نظر نظیر صدیقی کے شخصی خاکوں ’’ جان پہچان‘‘پر پڑی جو ۱۹۷۹ میں چھپی تھی۔ اس میں دیگر شخصیات کے علاوہ ممتاز شیریں پر بھی ایک خوبصورت خاکہ شامل ہے۔


ادھر ادھر پرانی کتابوں میں تلاشتے ہوئے ہمیں میمونہ انصاری کی میری لائبریری لاہور سے ۱۹۸۹ میں چھپی ہوئی کتاب ’’ تنقیدی زاوئیے‘‘ نظر آئی جس میں ’’ ممتاز شیریں کے افسانے ‘‘ کے نام سے ایک مضمون بھی شامل ہے، جو اس سے پہلے رسالہ سیپ میں چھپ چکا تھا۔ کیا ہم اس کتاب کو خریدنے میں کامیاب ہوسکے؟ یقیناً اب یہ بھی ہماری ہے۔


اب سے کچھ ماہ پہلے کا ذکر ہے، ہم اپنے محلے میں دری کتابوں والے کے ٹھیلے پر کھڑے یونہی کتابیں کھنگال رہے تھے کہ قسمت کی دیوی ہم پر مہربان ہوگئی اور ماہنامہ روشنائی کراچی کا افسانہ صدی نمبر اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۷(حصہ سوم) ہمارے ہاتھ لگا ۔ اس میں دیگر افسانوں کے علاوہ ممتاز شیریں کا ایک افسانہ ’’گھر تک‘‘ بھی شامل ہے۔ ابھی ہم اپنی قسمت پر رشک کر ہی رہے تھے کہ ایک اور رسالے ’’ماہنامہ ادبِ لطیف‘‘ مئی ۲۰۱۳ میں جناب شبیر رانا کا مضمون’’ ممتاز شیریں: اردو کی پہلی خاتون نقاد‘‘ ہمارے ہاتھ لگا۔


دعا فرمائیے کہ اللہ ہمیں مذکورا بالا کتاب خریدنے کے قابل بنائے۔’’ مجموعہ ممتاز شیریں‘‘ نہ صرف ہمارے خزانے میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگی بلکہ اردو افسانے کے قاری کے لیے بھی خصوصاً ایک بیش بہا اضافہ بنے گی۔ اللہ اردو کی ساکھ کو قائم رکھے اور اس کی شان میں اضافہ کرنے والے ادیبوں اور شاعروں کو ان کے ماننے والوں کے دلوں اور ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رکھے۔ آمین

محفلین! آج وہ تاریخی دن ہے جب کسی نیک محفلین کی دُعا ہمارے حق میں قبول ہوئی اور ہم ۲۵ فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ فرید پبلشرز کے رمضان اسٹال سے یہ کتاب خریدنے کے قابل ہوئے۔
تمام تعریفیں اس خدائے بزرگ و برتر کے لیے جو دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
مجموعہ ممتاز شیریں


اتوار کی صبح جاگے تو فورا ڈان اخبار ہمارے ہاتھ میں تھمادیا گیا۔ خبروں کے صفحات کا طائرانہ جائزہ لینے کے بعدمیگزین کی جانب نگاہِ التفات فرمائی۔ کتابوں کے ایک اشتہار پر نظریں پڑیں اور وہیں جم کر رہ گئیں۔ سنگِ میل پبلیکیشنز نے اپنی نئی کتابوں کا اعلان کیا تھا۔ اشتہار کے درمیان میں ایک نام چمک رہا تھا۔


کبھی آپ کی کوئی دیرینہ خواہش یکدم پوری ہوجائے تو کس طرح خوشی سے چھلانگیں لگانے کو جی چاہتا ہے۔ بس یہی حالت ہماری تھی۔ پہلے تو آنکھوں پر یقین ہی نہ آتا تھا۔ کیا واقعی؟ ایک مرتبہ آنکھیں مل کر نیند کو دور کیا اور اس سطر پر نظریں گاڑ دیں۔
مجموعہ ممتاز شیریں : اپنی نگریا، میگھ ملہار، داستاں کہتے کہتے ( افسانے) ممتاز شیریں ترتیب آصف فرخی

ممتاز شیریں نہ صرف اردو کی ایک اعلیٰ درجے کی نقاد تھیں بلکہ افسانہ نگار بھی تھیں۔ ادھر وہ ہماری والدہ کی ممانی بھی تھیں۔ ہم نے اب سے پیشتر دو موقعوں پر ان کی تخلیقات سے محفلین کو روشناس کروایا ہے۔ یادش بخیر فروری ۲۰۱۲ میں ہم نے ’’کفارہ ایک جائزہ ‘‘ کے نام سے ایک مضمون میں محترمہ کے شہرہٗ آفاق افسانے ’’کفارہ‘‘ پر ایک تعارفی مضمون لکھا تھا۔

کفارہ ۔ایک جائزہ


کیمبرج سسٹم سے او ۔لیول اردو ادب کا پرچہ دینے والے طلبا اس افسانے سے واقف ہیں۔

فروری ۲۰۱۲ میں جامعہ کراچی کے کتب میلے سے ہم نے اسی تحریک اورترقی پسند ادب سے متعلق احمد پراچہ صاحب کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک (تحقیقی اور تنقیدی جائزہ) خریدی۔ اس کتاب میں ترقی پسند ادب اور تحریک کے بارے میں کئی ایک قیمتی مضامین کو یکجا کردیا گیا ہے، جن میں اردو کی ممتاز نقاد محترمہ ممتاز شیریں کا مضمون ’’ترقی پسند ادب‘‘، ’’دلی کی شام‘‘ ناول کے خالق اور ’’انگارے‘‘ کے مرتب جناب پروفیسر احمد علی کا مضمون ’’تحریکِ ترقی پسند مصنفین اور تخلیقی مصنف‘‘ ، ڈاکٹر عبادت بریلوی کا مضمون ’’ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک( ایک تنقیدی جائزہ)‘‘ اور فردوس انور قاضی کا ’’ انگارے کے افسانے‘‘ سمیت اور بہت سے قابلِ ذکر مضامین شامل ہیں۔ بہت عمدہ کتاب ہے، جس میں ماضی میں لکھے گئے کئی قیمتی مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو فکشن ھاؤس مزنگ روڈ لاہور نے چھاپا۔ممتاز شیریں کے متذکرہ بالا مضمون کوہم اختصار کے ساتھ محفلین کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کی پلاٹینم جوبلی، ظہیر اختر بیدری


ادھرلڑکپن میں ہی کتابوں سے بے پناہ عشق ہمیں کتابیں جمع کرنے اور اپنی ایک ذاتی لائبریری بنانے کی جانب کشاں کشاں لے چلا ۔ اپنی اماں کی ممانی جان جنھیں ہم بھی ممانی جان ہی کہتے تھےسے ملاقات صرف ایک مرتبہ ہوئی جب وہ ہمارے لڑکپن میں کراچی تشریف لائیں اور ہمارے ہی گھر پر قیام فرمایا۔ بعد میں ۱۹۷۲ میں انھوں نے اسلام آباد میں انتقال فرمایا ۔ اگلے سال ان کی پہلی برسی کے موقعے پر ہم نے ان کی یاد میں ایک مضمون لکھا جو جنگ کراچی میں چھپا۔ ہمیں قوی امید ہے کہ کسی دن ہم جنگ کے دفتر جاکر اس مضمون کی کاپی حاصل کرہی لیں گے۔ ادھر ہم نے ان کی دو ایک کتابیں بھی اپنے خزانے میں جمع کی ہوئی تھیں ، جن میں سے اپنی نگریا تو اچھی طرح یاد ہے۔


ہم ملازمت کے سلسلے میں اسلام آبادپہنچے تو گھر پر ہماری کتابوں اور کاغذوں کے تمامتر خزانے کو بڑے بھائی نے صفائی کے بہانے ٹھکانے لگادیا ۔ وہ دن اور آج کا دن ہم اپنے گھر پر نہ کسی کو اپنی کتابوں کو ہاتھ لگانے دیتے ہیں اور نہ ہی بیگم صاحبہ کو ہمارے کسی کاغذ کو پھینکنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کتابوں کا نئے سرے سے جمع کیا ہوا ذخیرہ دن دونی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ شیلف کم اور کتابوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے الماریوں اور شیلفوں کے اوپر کتابوں کے ڈھیر موجود ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بہت سی کتابیں گتوں کے ڈبوں میں بند گھر کی مسہریوں کے نیچے آرام فرمارہی ہیں۔


ارادہ ہے کہ اس کتاب کو پہلی فرصت میں خرید لیا جائے تاکہ ہماری لائبریری کا ’’ممتاز شیریں ‘‘ سیکشن مکمل ہوجائے جس میں بس اب انہی دو تین کتابوں کی کمی ہے جو اس مجموعے میں موجود ہیں۔ ’’داستاں کہتے کہتے‘‘ سے ہم واقف نہیں، شاید آصف فرخی نے محترمہ کے نامکمل مسودوں سے ڈھونڈ کر کچھ افسانے نکالے ہیں جنھیں انھوں نے یہ نام دیا ہے۔


اسلام آباد سے آنے کے بعد ہمارے خزانے میں جس کتاب کا اضافہ ہوا وہ ہمیں شاید سب سے زیادہ عزیزہے۔ یہ سن انیس سو اٹھاون کا مکتبہٗ شعور کا چھاپا ہوا جان اسٹین بیک کے مشہورِ زمانہ ناول ’’دی پرل ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ، جسے ’’ دُرِ شہوار‘‘ کے نام سے ممتاز شیریں نے اردو کے قالب میں ڈھالا۔ یہی ناول ہماری بڑی بٹیا رانی کا وجہِ تسمیہ بھی بنا۔


اس کتاب میں ناول کے خوبصورت ترجمے کے علاوہ محترمہ کا ایک نہایت عمدہ تنقیدی مضمون کتاب کے مقدمے کی شکل میں موجود ہے۔


اردو ادب اور اردو افسانے پر ممتاز شیریں کی بڑی گہری نظر تھی۔ آپ کی نظر میں سعادت حسن منٹو اردو کاشاید سب سے بڑا افسانہ نگار تھا۔ آپ کی بڑی خواہش تھی کہ منٹو پر ایک کتاب لکھی جائے ۔ یہ خواہش ان کی زندگی میں تو پوری نہ ہوئی البتہ ۱۹۸۵ میں ان کے مسودوں میں سے کھنگال کر آصف فرخی ہی نے اس کتاب کے لیے لکھے گئے مضامین کو اکٹھا کیا اور ’’ منٹو: نوری نہ ناری‘‘ کے نام سے شہرزاد پبلیکیشنز سے شائع کروایا جس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۴ میں چھپا اور ہم نے ۲۰۰۶ میں خرید کر اپنی لائبریری میں شامل کیا۔



ہمارے اس ذوق و شوق میں ہمارے ساتھ چھوٹے بھائی محمد حفیظ الرحمٰن بھی شامل ہیں جن کا ذخیرہ کتب ہمارے ذخیرے سے زیادہ اور علمی نوعیت کا ہے۔ انہوں نے ہمیں ایک کتاب ہدیہ کی جو ممتاز شیریں کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ گو یہ کتاب بھی اُن کی زندگی میں نامکمل رہی اور بعد میں ۱۹۹۰ میں آصف فرخی ہی نے نفیس اکیڈمی سے شائع کروایا۔ یہ کتاب فسادات پر لکھے گئے اردو کے بہترین افسانوں کا مجموعہ ہے جسے محترمہ نے ہی ظلمتِ نیم روز کا نام دیا تھا ۔



ممتاز شیریں نے لکھنا شروع کیا تو رسالہ ساقی ( دہلی) میں ان کا پہلا افسانہ ’’ انگڑائی ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اور شائع ہوتے ہی بقول آصف فرخی ’’ ان کی دھوم مچ گئی‘‘ ۔محمد حسن عسکری نے لکھا کہ: ’’ ممتاز شیریں اردو کے ان چند لکھنے والیوں میں سے ہیں جن کی تاریخ ہی ان کی شہرت سے شروع ہوتی ہے۔ انہیں مشہور ہونے کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ پہلے ہی افسانے کے بعد انہوں نے ادب کے شائقین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی‘‘۔



ڈاکٹر فرمان فتحپوری نے جنوری ۱۹۸۲ میں اردو اکیڈمی سندھ سے ’’ اردو افسانہ اور افسانہ نگار ‘‘ کے نام سے بہترین افسانوں کا ایک مجموعہ شائع کیا جس میں ممتاز شیریں کا یہ پہلا افسانہ ’’انگڑائی‘‘ بھی شامل ہے۔ یہ کتاب ہمیں ایکسپو سنٹر میں کتابوں کی نمائش کے دوران کتابیں کھنگالتے ہوئے ہاتھ آئی۔


ممتاز شیریں پر (جنگ میں ہمارے مضمون کے علاوہ بھی) بہت کچھ لکھا گیا جس میں سے کچھ ہمارے ہاتھ لگا۔ سنا ہے کہ تاج سعید نے ماہنامہ قند کا ’’ممتاز شیریں نمبر‘‘ نکالا تھا، جو ہمارے ہاتھ نہ آسکا۔ خاصے کی تحریریں ہوں گی ۔


اکادمی ادبیات پاکستان نے ’’ پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس میں مختلف ادیبوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے ’’ ممتاز شیریں‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جسے ۲۰۰۷ میں اکادمی ادبیات نے چھاپا اور ہم نے شاید ۲۰۱۴ میں کتابوں کی نمائش سے خرید کر اپنی لائبریری میں شامل کیا۔


اسی طرح اردو اکیڈمی سندھ کے اسٹال پر کتابوں کی تلاش میں ہماری نظر نظیر صدیقی کے شخصی خاکوں ’’ جان پہچان‘‘پر پڑی جو ۱۹۷۹ میں چھپی تھی۔ اس میں دیگر شخصیات کے علاوہ ممتاز شیریں پر بھی ایک خوبصورت خاکہ شامل ہے۔


ادھر ادھر پرانی کتابوں میں تلاشتے ہوئے ہمیں میمونہ انصاری کی میری لائبریری لاہور سے ۱۹۸۹ میں چھپی ہوئی کتاب ’’ تنقیدی زاوئیے‘‘ نظر آئی جس میں ’’ ممتاز شیریں کے افسانے ‘‘ کے نام سے ایک مضمون بھی شامل ہے، جو اس سے پہلے رسالہ سیپ میں چھپ چکا تھا۔ کیا ہم اس کتاب کو خریدنے میں کامیاب ہوسکے؟ یقیناً اب یہ بھی ہماری ہے۔


اب سے کچھ ماہ پہلے کا ذکر ہے، ہم اپنے محلے میں دری کتابوں والے کے ٹھیلے پر کھڑے یونہی کتابیں کھنگال رہے تھے کہ قسمت کی دیوی ہم پر مہربان ہوگئی اور ماہنامہ روشنائی کراچی کا افسانہ صدی نمبر اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۷(حصہ سوم) ہمارے ہاتھ لگا ۔ اس میں دیگر افسانوں کے علاوہ ممتاز شیریں کا ایک افسانہ ’’گھر تک‘‘ بھی شامل ہے۔ ابھی ہم اپنی قسمت پر رشک کر ہی رہے تھے کہ ایک اور رسالے ’’ماہنامہ ادبِ لطیف‘‘ مئی ۲۰۱۳ میں جناب شبیر رانا کا مضمون’’ ممتاز شیریں: اردو کی پہلی خاتون نقاد‘‘ ہمارے ہاتھ لگا۔


دعا فرمائیے کہ اللہ ہمیں مذکورا بالا کتاب خریدنے کے قابل بنائے۔’’ مجموعہ ممتاز شیریں‘‘ نہ صرف ہمارے خزانے میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگی بلکہ اردو افسانے کے قاری کے لیے بھی خصوصاً ایک بیش بہا اضافہ بنے گی۔ اللہ اردو کی ساکھ کو قائم رکھے اور اس کی شان میں اضافہ کرنے والے ادیبوں اور شاعروں کو ان کے ماننے والوں کے دلوں اور ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رکھے۔ آمین
بہت خوب خلیل بھائی !
بہت اعلیٰ ،بے شک اللہ اردو کی ساکھ کو قائم رکھے ۔ آمین اور شان میں اضافہ کر نے والے ادیبوں و شاعروں کو انکے پڑھنے والوں کہ دلوں و ذہنوں میں زندہ رکھے، آمین
 
بہت خوب خلیل بھائی !
بہت اعلیٰ ،بے شک اللہ اردو کی ساکھ کو قائم رکھے ۔ آمین اور شان میں اضافہ کر نے والے ادیبوں و شاعروں کو انکے پڑھنے والوں کہ دلوں و ذہنوں میں زندہ رکھے، آمین
جزاک اللہ۔ پسندیدگی پر شکریہ قبول فرمائیے۔
 
Top