کیا جسٹس عیسیٰ پاکستانی عوام کے مجرم ہیں؟

جاسم محمد

محفلین
اصل بات یہ ہے جو کہ ریما عمر نے کی ہے:




باقی ایف بی آر کو بیچ میں لا کر حکومت فیس سیونگ کر رہی ہے۔
چلیں اس کیس کا فیصلہ ہو گیا تو اس جج کی فریاد بھی سن لی جائے جس نے بھری محفل میں آئی ایس آئی کے خلاف سنگین الزامات لگائے تھے
 

جاسم محمد

محفلین
جو کہتے تھے کہ سارے فیصلے فوج کے کہنے پر آتے ہیں, وہ آج کے فیصلے کے بعد خود اپنا منہ کالا کرینگے یا یہ بھی ہمیں کرنا پڑے گا ؟
منقول
 

جاسم محمد

محفلین
میری کل کی پوسٹ میں لکھا تھا کہ جسٹس فائز عیسی کی پوری کوشش ہے کہ ٹیکس معاملات ایف بی آر کے پاس نہ جانے پائیں۔ اس چیز کو روکنے کیلئے تین دن قبل فائز عیسی خود سماعت کے دوران عدالت پہنچ گیا اور استدعا کی کہ اس کی بیوی کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے سنا جائے۔ فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک کا پورا مقدمہ اس بنیاد پر تھا کہ عدالت ایف بی آر کو ریفر کرنے کی بجائے اس ریفرینس کو منسوخ کردے۔

سپریم کورٹ نے آج کے فیصلے میں دو کام کئے ہیں:

ایک یہ کہ فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرینس منسوخ کرکے جوڈیشل کمیشن کو کارروائی سے روک دیا۔ یہ اکثریتی فیصلہ تھا۔
دوسرا یہ کہ دس میں سے سات ججوں نے ایف بی آر کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر فائز عیسی اور اس کی بیگم کو نوٹس بھجوا کر ان سے تمام ریکارڈ حاصل کرے اور اپنی تحقیقات شروع کردے۔ یہ نوٹس سات دن کے اندر اندر پہنچ جانا چاہیئے۔
عدالت جانتی تھی کہ فائز عیسی کی بیگم اور بچے بیرون ملک جا کر یہ تفتیش التوا میں ڈال سکتے تھے، چنانچہ حکم نامے میں یہ بھی لکھ دیا گیا کہ چاہے کوئی فریق بیرون ملک بھی ہو، اسے متعلقہ مدت میں جواب دینا لازم ہوگا۔
ایک اور امکان یہ بھی تھا کہ برطانیہ میں جائیداد کی خرید کے حوالے سے تمام قانونی دستاویزات ایف بی آر کیلئے حاصل کرنا مشکل تھا، چنانچہ عدالت نے حکم نامے میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ بیرون ملک سے درکار کسی بھی قانونی دستاویز کیلئے فریق کو (یعنی فائز عیسی اور اس کے اہل خانہ) ایف بی آر سے مکمل تعاون کرنا ہوگا اور ان دستاویزات کی فراہمی کی ذمے دار ان پر عائد ہوگی۔

اپوزیشن، لبرل، لفافے جتنی مرضی مٹھائیاں کھائیں، عدالت کے اس فیصلے کے بعد فائز عیسی کو مشکل لاحق ہوچکی ہوگی، کیونکہ ایف بی آر کے پاس معاملہ جانے کا مطلب ہے کہ ٹیکس قوانین کے مطابق اس معاملے کو ڈیل کیا جائے گا۔ ٹیکس کے حوالے سے قائم عدالت اس کا جائزہ لے کر فیصلہ جاری کرے گی۔

ایک لمحے کیلئے تصور کریں کہ جب ٹیکس ریٹرن کھلیں گے اور ان میں فائز عیسی کی اہلیہ کے ٹیکس ریٹرن میں بیرون ملک پراپرٹیز نظر نہ آئیں، یا پھر لندن لینڈ ڈیپارٹمنٹ سے ٹرانزیکشن کی رقم جج کی اہلیہ کی انکم سے مطابقت نہ پائی تو وہ ٹیکس چوری اور ناجائز آمدن کے ذرائع کی مرتکب قرا پائے گی۔

یہ ناجائز آمدن کے ذرائع یا تو اس کے اپنے ہوں گے، یا پھر شوہر کے۔ جب بات بڑھے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔
عدالت نے اپنے آج کے حکم میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایف بی آر معاملےکی تحقیقات کرکے رپورٹ سپریم جوڈیشل کمیشن کو جمع کروائے۔ قواعد کے مطابق اس رپورٹ میں اگر بے ضابطگی ثابت ہوگئی تو سپریم جوڈیشل کمیشن کیلئے ایکشن کرنا لازمی ہوجائے گا۔

المختصر یہ کہ اپوزیشن، لبرل، لفافے ایک مرتبہ پھر مٹھائی کھا کر بدہضمی کا شکار ہوسکتے ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا
 
Ea4nP9OWsAAb6Ji

پنجاب کے گاؤں دیہاتوں میں جب شدید پالے پڑ رہے ہوتے ہیں تو رات کے پچھلے پہر سردی بہت بڑھ جاتی، ایسے میں گاؤں کے نزدیک کھیتوں میں ٹھٹھرتے گیدڑ کھیتوں سے نکل کر گاؤں کے نزدیک آتے جاتے ہیں۔ پھر چاروں اور سے گیدڑوں کے کوکنے کی ایک جیسی آوازیں آنے لگ جاتی ہیں۔
معذرت کے ساتھ وٹس ایپ کے ففتھیے کمانڈ سینٹر سے ہدایات لیتے اکاؤنٹس کی ایک جیسی ٹویٹس بھی ان گیدڑوں کے کوکنے جیسے ہی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پنجاب کے گاؤں دیہاتوں میں جب شدید پالے پڑ رہے ہوتے ہیں تو رات کے پچھلے پہر سردی بہت بڑھ جاتی، ایسے میں گاؤں کے نزدیک کھیتوں میں ٹھٹھرتے گیدڑ کھیتوں سے نکل کر گاؤں کے نزدیک آتے جاتے ہیں۔ پھر چاروں اور سے گیدڑوں کے کوکنے کی ایک جیسی آوازیں آنے لگ جاتی ہیں۔
معذرت کے ساتھ وٹس ایپ کے ففتھیے کمانڈ سینٹر سے ہدایات لیتے اکاؤنٹس کی ایک جیسی ٹویٹس بھی ان گیدڑوں کے کوکنے جیسے ہی ہیں۔
بھائی صاحب کامران خان اور وینا ملک کے اکاؤنٹس کے علاوہ باقی دونوں اکاؤنٹس فیک ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
وکیل فائز عیسی بابر ستار نے تسلیم کر لیا ہے کہ فیصلے کے مطابق اگر ایف بی آر ۱۰۰ دنوں میں کوئی کیس فائل نہ بھی کرے تب بھی فائز عیسی کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔

اس لیے اگلے ۱۰۰ روز بہت اہم ہیں۔ اگر اس دوران مقتدرہ سے ڈیل ہو جاتی ہے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ نہیں تو جسٹس فائز عیسی کی چھٹی!
 

جاسم محمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ تو ۱۹۴۷ سے جیتی ہوئی ہے۔ معلوم نہیں یہ جمہوریت پسند لبرلز کسے بیوقوف بناتے رہتے ہیں
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اوپر کچھ پوسٹس سے اگر یہ تاثر گیا ہے کہ میں لبرل نظریات کے خلاف ہوں تو یہ درست نہیں ہے۔ جمہوریت پسند لبرلز نظریاتی طور پر بالکل صحیح کہتے ہیں کہ ملک کے ہر محکمہ اور ادارہ کو اپنی آئینی حد میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ اور جو کوئی بھی اس سے تجاوز کرے اسے عبرتناک سزا ملنی چاہئے۔یہ چاہتے ہیں کہ ملک کو فوج کے تسلط سے آزادی ملے ۔ یہاں صحیح معنوں میں جمہوری اقدار نافذ ہوں۔ ٹھیک ہے اس میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ سب حاصل کرنے کیلئے وہ خود کر کیا رہے ہیں؟
نواز شریف کو عدالت عظمیٰ کے پانچ ججز ایک کیس میں نااہل کرتے ہیں تو یہ لبرلز ان ججوں کو بوٹ پالشی، بغض سے بھرے ہوئے، قوم کی امنگوں کے خلاف فیصلہ دینے والے ٹاؤٹ اور پتا نہیں کن کن القابات سے نواز دیتے ہیں۔ ساتھ ہی نواز شریف کی شروع کردہ کیوں نکالا سیاسی مہم میں اسے بھرپور نظریاتی سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ کہ شاید اس طرح سیاسی دباؤ کے ذریعہ عدلیہ اور فوج ڈر جائے گی اور یہ تمام فیصلے کالعدم قرار دے دئے جائیں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جمہوری انقلابی نواز شریف ایک سال جیل میں سزا کاٹ کر اپنی بیماری کا بہانہ بنا کر فوج سے ڈیل کرملک سے رفو چکر ہو گئے۔
ان انتہائی مایوس کن حالات میں جمہوریت پسند لبرلز نے مولانا فضل الرحمان جیسے اینٹی لبرل کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر بنا کر اس کے دھرنے کی حمایت شروع کر دی۔ اس وقت وہ روزانہ اس سویلین فوجی حکومت کو گھر بھیج کر سویا کرتے تھے۔ مگر پھر کیا نتیجہ بر آمد ہوا؟ چند ہی ہفتوں بعد مولانا صاحب اپنی جلسی اٹھا کر گھر لوٹ گئے اور لبرلز ان کا منہ تکتے رہ گئے۔
پھر آرمی چیف کی ایکسٹینشن معطل کا معاملہ آیا تو وہاں ان لبرلز نے سپریم کورٹ کے ججز کی بھرپور حمایت کی بس اب انقلاب آنے کو۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ دو تین دن ججز نے حکومت کی کلاس لی اور آرمی چیف کو واپس عہدہ پر بحال کر دیا۔ اس کے بعد عدالتی فیصلہ کے مطابق ملک کی تمام بڑی جمہوری اور فوج مخالف سیاسی جماعتوں نے اچھے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر ایوان اور ایوان بالا میں جاکر دو تہائی اکثریت کے ساتھ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اور یوں اس غیر قانونی اقدام کو قانونی بنا دیا۔ اس وقت یہ جمہوریت پسند لبرلز اور انقلابی کہاں بھاگ گئے تھے؟
یہ معاملہ ختم ہوا تو جسٹس فائز عیسی کا معاملہ سامنے آگیا۔ وہاں پھر وہی لبرل تاریخ دہرائی گئی۔ سب نے بڑھ چڑھ کر فائز عیسی کے حق میں قصیدہ گوئی شروع کر دی۔ سوشل میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر پر بھرپور تحریک چلائی۔ وکلا تنظیموں کو ساتھ ملا لیا۔ مگر پھر ان سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ عدالت عظمیٰ نے حکومتی ریفرنس معطل کرکے ان کا کیس ایف بی آر کو بھیج دیا۔ جہاں سے اب یہ یقینی طور پر کچھ ماہ بعد واپس سپریم جوڈیشل کونسل میں پہنچ جائے گا۔
الغرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر جمہوریت پسند لبرلز کا مقصد نیک ہے۔ لیکن ان کا طرز عمل اس کے منافی ہے۔ وہ اپنی خود کی پارٹی بنا کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے کبھی پی پی پی تو کبھی پی ٹی ایم تو کبھی ن لیگ کی آغوش میں جا کر چھپ جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب موجودہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران ملک سے مفرور تھے۔ اور عمران خان اکیلئے ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف جہاد کیا کرتے تھے۔ اس وقت تمام لبرلز کی ان کو حمایت حاصل کی۔ جبکہ آج وہ فوج کے ساتھ ایک پیج والی حکومت میں ہیں تو ان سے وہی عمران خان برداشت نہیں ہو رہے۔
ایسا کب تک چلے گا؟ جمہوریت پسند لبرلز کب بڑے ہوں گے اور تاریخ سے سبق سیکھیں گے؟ کیا مشرقی پاکستان کو فوجی تسلط سے رہائی اسی طرح اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر نظریاتی جہاد کرنے سے حاصل ہو گئی تھی؟ یا وہاں ایک جمہوری لیڈر شیخ مجیب کی قیادت میں بنگالیوں نے فوج کے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اور اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر اپنے وطن کو فوج کے تسلط سے آزاد کروایا تھا؟
جب تک یہ لبرلز اپنے مقصد میں اخلاص کا مظاہرہ نہیں کریں گے ان کو کوئی کامیابی نہیں مل سکتی۔ دوسری جماعتوں کے لیڈروں میں پناہ ڈھونڈنے کی بجائے اپنی الگ سے سیاسی جماعت بنائیں جس کا ایک نکاتی ہو کہ ہم فوج کے تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس جماعت کے لیڈران بنگالی قوم کی طرح پاکستانی قوم کو ٹینکوں کے آگے لیٹنے اور اپنے سینوں پر گولیاں کھانے کیلئے تیار کریں۔ تب ہی کوئی بہتری کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر جو حالات ہیں یہ جیسے پہلے تھے ویسے ہی رہیں گے۔ جتنا مرضی میڈیا پر نظریاتی جہاد کر لیں۔ اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
 
Top