اخلاق

عامر جٹ

محفلین
اخلاق کیا ہے؟
خلق کی جمع اخلاق ہے، اس کے معنی پختہ عادت کے ہیں۔ اصطلاح میں خلق سے مراد انسان کی ایسی کيفیت اور پختہ عادت کا نام ہے جس کی وجہ سے بغیر کسی فکر و توجہ کے نفس سے اعمال سرزد ہوں۔
حسن خلق سے مراد نیک خو اور اچھی خصلت ہے۔ مسلمان کے لئے عمدہ اور حسین اخلاق کا مالک ہونا بہت ضروری ہے۔ اخلاق حسنہ میں عفو و درگزر، صبر و تحمل، قناعت و توکل، خوش خلقی و مہمان نوازی، توضع و انکساری، خلوص و محبت، جیسے اوصاف قابل ذکر ہیں۔ حُسن خلق کی بڑی علامت یہ ہے کہ جب کسی پر غصہ آئے اور اسے سزا دینا چاہے تو نفس کو ہدایت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
’’اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔‘‘
آل عمران، 3 : 134

انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں ایک لمحے رک کر یہ سوچنا چاہیے کہ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی چیز کیا ہے؟
ہم دیکھتے ہیں کہ جانور صرف اور صرف اپنی جبلت کا تابع ہوتا ہے۔ مثلاً جب کسی جانور کو بھو ک لگتی ہے تو اس کے لیے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ اس کے برعکس ایک انسان زندگی کے ہر معاملے میں کچھ مسلمہ اخلاقی حدود کا لحاظ رکھتا ہے۔ وہ جب اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کی اخلاقی حس اسے خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے کوئی غلط راستہ اختیار نہیں کرسکتا۔ تاہم جب انسان کی اخلاقی حس کمزور ہوجاتی ہے تو وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھونے لگتا ہے۔ وہ ایک جانور کی طرح ہر کسی کے کھیت کھلیان میں گھس جاتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کے سفلی جذبے آہستہ آہستہ ان پر غلبہ پالیتے ہیں۔ جس کے بعد انسانوں کے معاشرے میں جنگل کا قانون رائج ہوجاتا ہے اور آخر کار پوری قوم تباہی کا شکار ہو جاتی ہے۔
ہماری اخلاقی حالت کیا ہے؟
ہم کیسے اپنی اخلاقی حالت بہتر کر سکتے ہیں؟
 

عامر جٹ

محفلین
اخلاق کیا ہے؟
خلق کی جمع اخلاق ہے، اس کے معنی پختہ عادت کے ہیں۔ اصطلاح میں خلق سے مراد انسان کی ایسی کيفیت اور پختہ عادت کا نام ہے جس کی وجہ سے بغیر کسی فکر و توجہ کے نفس سے اعمال سرزد ہوں۔
حسن خلق سے مراد نیک خو اور اچھی خصلت ہے۔ مسلمان کے لئے عمدہ اور حسین اخلاق کا مالک ہونا بہت ضروری ہے۔ اخلاق حسنہ میں عفو و درگزر، صبر و تحمل، قناعت و توکل، خوش خلقی و مہمان نوازی، توضع و انکساری، خلوص و محبت، جیسے اوصاف قابل ذکر ہیں۔ حُسن خلق کی بڑی علامت یہ ہے کہ جب کسی پر غصہ آئے اور اسے سزا دینا چاہے تو نفس کو ہدایت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
’’اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔‘‘
آل عمران، 3 : 134

انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں ایک لمحے رک کر یہ سوچنا چاہیے کہ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی چیز کیا ہے؟
ہم دیکھتے ہیں کہ جانور صرف اور صرف اپنی جبلت کا تابع ہوتا ہے۔ مثلاً جب کسی جانور کو بھو ک لگتی ہے تو اس کے لیے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ اس کے برعکس ایک انسان زندگی کے ہر معاملے میں کچھ مسلمہ اخلاقی حدود کا لحاظ رکھتا ہے۔ وہ جب اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کی اخلاقی حس اسے خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے کوئی غلط راستہ اختیار نہیں کرسکتا۔ تاہم جب انسان کی اخلاقی حس کمزور ہوجاتی ہے تو وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھونے لگتا ہے۔ وہ ایک جانور کی طرح ہر کسی کے کھیت کھلیان میں گھس جاتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کے سفلی جذبے آہستہ آہستہ ان پر غلبہ پالیتے ہیں۔ جس کے بعد انسانوں کے معاشرے میں جنگل کا قانون رائج ہوجاتا ہے اور آخر کار پوری قوم تباہی کا شکار ہو جاتی ہے۔
ہماری اخلاقی حالت کیا ہے؟
ہم کیسے اپنی اخلاقی حالت بہتر کر سکتے ہیں؟
 
Top