جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن(شکیل احمد خان)

غزل
دل ہے متاعِ عیب خریدار ہی نہیں
ہے مصر تو ضرور وہ بازار ہی نہیں

یہ آنکھ صرف آنکھ تھی پر اب ہے چشمِ تر
تو جانتا ہے اور اِسے آزار ہی نہیں

الفاظ روحِ معنی سے یکسر ہوئے تہی
یہ دکھ ہے وہ کہ قابلِ اظہار ہی نہیں

’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت ،کہ رات دن‘‘
اِس کاروبارِ عشق میں اِتوار ہی نہیں

آدم کا اک مقام ذرا یہ بھی دیکھیے
کرلے جو عزم پھر کوئی دیوار ہی نہیں

اپنے شکیل وہ ہیں جو ہیں مشکلوں میں ساتھ
اور پھر عِوض سے اُن کو سروکار ہی نہیں
 
آخری تدوین:
جناب شکیل صاحب آداب!
ماشاءاللہ
ابھی آپ کے پاس تدوین کا اختیار دستیاب ہوگا، سو بہتر ہے کہ غزل کو یہاں ٹائپ بھی کردیں وگرنہ یہ پوسٹ منتظمین کی جانب سے تصویری شاعری کے خانے میں منتقل کردی جائے گی۔
مزید یہ کہ غزل کے کسی مصرعے کو پوسٹ کا عنوان بنانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
قوسین میں دیا گیا مصرعہ غالبؔ کا ہے، جس پر آپ نے گرہ لگائی ہے۔ شعر ویسے تو دلچسپ ہے، مگر غالبؔ کا اصل مصرعہ یوں ہے
’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن‘‘
غالبؔ کے شعر میں فرصت کے بعد سکتہ ہے، اور رات دن کا تعلق اگلے مصرعے کے ساتھ ہے :)
خیر، یہ تو برسبیل تذکرہ یاد آگیا، اس سے آپ کے شعر پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ویسے جن ممالک میں جمعہ کے روز چھٹی ہوتی ہے وہاں کے عشاق کیا کریں؟؟؟ :)

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:
جناب شکیل صاحب آداب!
ماشاءاللہ
ابھی آپ کے پاس تدوین کا اختیار دستیاب ہوگا، سو بہتر ہے کہ غزل کو یہاں ٹائپ بھی کردیں وگرنہ یہ پوسٹ منتظمین کی جانب سے تصویری شاعری کے خانے میں منتقل کردی جائے گی۔
مزید یہ کہ غزل کے کسی مصرعے کو پوسٹ کا عنوان بنانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
قوسین میں دیا گیا مصرعہ غالبؔ کا ہے، جس پر آپ نے گرہ لگائی ہے۔ شعر ویسے تو دلچسپ ہے، مگر غالبؔ کا اصل مصرعہ یوں ہے
’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن‘‘
غالبؔ کے شعر میں فرصت کے بعد سکتہ ہے، اور رات دن کا تعلق اگلے مصرعے کے ساتھ ہے :)
خیر، یہ تو برسبیل تذکرہ یاد آگیا، اس سے آپ کے شعر پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ویسے جن ممالک میں جمعہ کے روز چھٹی ہوتی ہے وہاں کے عشاق کیا کریں؟؟؟ :)

دعاگو،
راحلؔ
محترم راحل صاحب!
شکر کہ آپ نے بروقت مطلع فرمایا۔۔۔۔۔شکریہ راحل صاحب بہت بہت شکریہ!
 
آخری تدوین:
غزل
دل ہے متاعِ عیب خریدار ہی نہیں
ہے مصر تو ضرور وہ بازار ہی نہیں

یہ آنکھ صرف آنکھ تھی پر اب ہے چشمِ تر
تو جانتا ہے اور اِسے آزار ہی نہیں

الفاظ روحِ معنی سے یکسر ہوئے تہی
یہ دکھ ہے وہ کہ قابلِ اظہار ہی نہیں

’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت ،کہ رات دن‘‘
اِس کاروبارِ عشق میں اِتوار ہی نہیں

آدم کا اک مقام ذرا یہ بھی دیکھیے
کرلے جو عزم پھر کوئی دیوار ہی نہیں

اپنے شکیل وہ ہیں جو ہیں مشکلوں میں ساتھ
اور پھر عِوض سے اُن کو سروکار ہی نہیں
بہت خوب سبحان اللہ العظیم
 
Top