امیدِ بہار

از محمد خلیل الرحمٰن



پہلا منظر:

پردہ اٹھتا ہے تو ایک اوسط درجے کے گھر کے دیوان خانے کا منظر ہے جہاں ایک جانب کھانے کی میز رکھی ہے جس کے گرد چار کرسیاں موجود ہیں۔ دوسری جانب ایک چھوٹے تخت پر جائے نماز بچھی ہے تخت کا رُخ مغرب کی سمت ہے۔

کرسیوں پر حاضرین کی جانب رخ کیے اختر کی ماں اور بہن شاہدہ بیٹھی ہیں۔ بہن اختر کے لیے ناشتے دان میں کھانا بند کررہی ہے۔ ماں ساتھ ہی بیٹھی ہے ۔ اسٹیج کی داہنی جانب دوسرے کمرے کا دروازہ ہے جبکہ بائیں جانب باہر کا دروازہ ہے۔ کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہے اندر سے کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی ہیں۔

اختر: (کمرے سے آواز آتی ہے) امی میری ٹائی کہاں ہے؟

شاہدہ: ( پکار کر) شرٹ کے اندر ہی رکھی ہے ہینگر میں۔( امی سے مخاطب ہوکر) امی! آج بھیا سے کہیں کہ ایک درجن دیسی انڈے لے آئیں۔

امی: ہاں بیٹا انڈے ختم ہوگئے ہیں۔

(اختر کمرے میں داخل ہوتا ہے، ٹائی ہاتھ میں ہے)

اختر: ( شاہدہ سے) اچھا بھئی اب جلد ٹفن بنادو، مجھے دفتر کو دیر ہورہی ہے!

شاہدہ: بنا تو دیا! اب کیا دفتر تک پہنچا آؤں؟ یہ لیجیے ( ناشتہ دان اختر کے حوالے کرتی ہے جو اس کے ہاتھ سے لے کر دوبارہ میز پر رکھ دیتا ہے)

امی! اچھا اختر! آج دفتر سے واپسی پر ایک درجن دیسی انڈے لے آنا۔

اختر: امی! آج فارمی انڈے نہ لے آؤں، وہ سستے ہوتے ہیں۔

امی: نہیں بیٹا کم کھالیں گے لیکن اچھی غذا کھائیں گے۔ آج کل فارمی انڈوں اور فارمی مرغیوں کا گوشت نہیں کھانا چاہیے۔ روز خبروں میں آتا ہے کہ انہیں بہت گندی فیڈ دی جارہی ہے۔

اختر: اچھا امی! اب میں چلتا ہوں، واپسی پر لیتا آؤں گا۔

امی: ٹھیک ہے بیٹا۔ خیریت سے جاؤ۔ اور دل لگاکر ، نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ بہتری کرنے والے ہیں ۔

اختر: کچھ نہیں امی۔ آپ میری باتوں سے پریشان نہ ہوا کریں۔ دفتر میں جو کچھ ہوتا ہے، اپنی پریشانی کم کرنے کی خاطر آپ کے سامنے بڑ بڑ کرلیتا ہوں۔ بس وہ جو میرے ڈیپارٹمنٹ کے افسر ہیں نا! وہ کچھ تنگ کرتے ہیں۔

امی: بیٹا تو دھیان سے کام کیا کرو نا!

اختر: امی میرے کام پر انہیں اعتراض نہیں۔ صرف چاہتے ہیں کہ میں ان کے اندازِ فکر کو اپنالوں۔

شاہدہ: تو اس میں کیا مشکل ہے۔ آپ وہی کریں جو وہ کہتے ہیں۔

امی: بیٹا تم درمیان میں نہ بولو! اختر نے پہلے بھی مجھے بتایا ہے کہ وہ کس قسم کے آدمی ہیں۔

اختر: (بہن سے مخاطب ہوکر) وہ چاہتے ہیں کہ میں رشوت جیسے غیر اخلاقی عمل سے اپنی سیل بڑھاؤں اور کمپنی کے بزنس میں اضافہ کروں۔

شاہدہ: ( اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتی ہے) ہائے اللہ! بھیا یہ تو بہت غلط کام ہے۔ آپ ایسے کسی کام میں ان کا ہاتھ نہ بٹائیں۔

امی: بیٹا ! اللہ سے دعا کرتے رہو کہ وہ تمہیں ایسی کسی بھی آزمائش میں نہ ڈالے۔

اختر: امی میں چلتا ہوں ۔ اللہ حافظ! شاہدہ! امی کے لیٹنے کے بعد اپنا وقت فیس بک پر برباد نہ کرنا اور ٹک کر فزکس اور کیمسٹری پڑھ لینا!

( اختر کمرے سے نکل جاتا ہے)

شاہدہ: امی! کیا دنیا میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں؟ آپ نے تو ہمیں ساری زندگی ایمانداری کے ساتھ گزارنے کی تلقین کی ہے۔ اب کیا بھیا مجبوری میں رشوت دینے کا کام بھی کرسکتا ہے۔

امی: اللہ کو مانو بیٹا! اول تو اس سے دعا کرو کہ وہ ہمیں ایسی سخت آزمائش میں نہ ڈالے۔ اگر بالفرض ایسی آزمائش کی گھڑی آتی بھی ہے تو وہ ہمیں ثابت قدم رہنے کی ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی، مجبوری میں کسی ناپسندیدہ کام کو کرنا ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ کہلاتا ہے، البتہ ایسے غیر اخلاقی کاموں کو جائز سمجھ کر کرنے سے تو ہم اپنا مسلمان کہلانے کا حق بھی کھو دیں گے۔ اللہ ہی ہمیں بچائے۔ آمین

شاہدہ: آمین

امی: مجھے یقین ہے کہ میری تربیت میرے بچوں کو سیدھے راستے پر ہی چلائے گی۔ زندگی میں کبھی ایسے کام کے قریب بھی نہ پھٹکو جسے کرنے پر تمہارا دل مطمئین نہ ہو۔ ایک مرتبہ ایسا کام کرگزرو گے تو تمہارا ضمیر بھی سو جائے گا اور اگلی مرتبہ تم ایسا کام بہت آسانی کے ساتھ کرو گے اور تمہارا دل بھی تمہیں ملامت کرنے کے بجائے چین کی نیند سوجائے گا۔ دل پر ایک کالا دھبا لگ جائے تو پھر وہ دھبا بڑا ہوتا چلا جاتا ہے۔

شاہدہ: امی ! ہم آپ کے بچے ہیں۔ ابو زندہ ہوتے تو وہ بھی یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے کہ آپ نے ہماری تربیت بہت اچھی کی ہے۔دیکھ لینا! بھیا کبھی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے آپ کو شرمندگی اٹھانی پڑے۔

امی: بس بیٹا ! اللہ سے دعا کرتی رہو۔ اب میں کچھ دیر آرام کرلیتی ہوں۔ تم یہیں بیٹھ کر اپنی امتحان کی تیاری کرلو! اور دیکھو! موبائل پر اپنا وقت برباد نہ کرنا!

( امی کمرے سے باہر نکل جاتی ہیں)

شاہدہ: کتابیں اٹھاکر اپنے سامنے ڈھیر کرتی ہے۔ ایک کتاب اٹھاکر پڑھنے کی کوشش کرتی ہے پھر اسے بند کرکے میز پر رکھ دیتی ہے) پڑھائی ، پڑھائی، پڑھائی! آخر کیا فائدہ ہے اس پڑھائی کا، جب انسان دوسرے طریقوں سے زیادہ دنیاوی فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ جھوٹ، بے ایمانی، رشوت، نقل، دھوکہ بازی۔۔۔۔

(پردہ گرتا ہے)



دوسرا منظر:

اختر کے آفس کا منظر ۔ کمرے میں دومیزیں لگی ہوئی ہیں ، ایک پر اختر بیٹھا ہے جس کے سامنے دو کرسیاں رکھی ہیں۔ اختر اپنے کمرے میں اپنی میز کے سامنے کرسی پر بیٹھا کچھ فائلیں دیکھ رہا ہے۔ دروازے سے ایک چپراسی اندر داخل ہوتا ہے



چپراسی: سر! گورنمنٹ کے پرچیز آفس سے ابدالی صاحب آپ سے ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ منظور صاحب سے اس وقت ان کی ملاقات چل رہی ہے۔ منظور صاحب نے انہیں آپ سے ملنے کا کہا ہے۔

اختر: ( اپنے کپڑے درست کرتے ہوئے) اچھا دیکھو ، جونہی وہ منظور صاحب کے پاس سے اٹھیں انہیں یہیں لے آنا۔ اور ہاں ! چائے کے ساتھ کچھ بسکٹ وغیرہ بھی لے آؤ دوڑ کر۔

چپراسی : صاحب ۔ وہ ۔۔۔بسکٹ تو نہیں ہیں۔کل ہی ختم ہوگئے تھے۔ منظور صاحب روزآنہ چائے کے ساتھ بسکٹ بھی آرڈر کردیتے ہیں۔

اختر: ارے بھئی! دفتر میں موجود بسکٹ تو مہمانوں کے لیے ہوتے ہیں۔ اچھا یہ لو ( جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکال کر چپراسی کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے) اچھے کریم والے لے آنا۔

چپراسی: ٹھیک ہے صاحب۔ یہ بسکٹ میں لا کر آپ کی دراز ہی میں رکھ دوں گا۔ آپ کے پیسوں کے جو ہوئے۔

اختر: ارے نہیں بھئی! اب ایسا بھی کیا۔ چلو جلد جاؤ اور جلد واپس آؤ۔ کہیں جی ایم صاحب نہ آجائیں۔ ان کا بھی آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

( چپراسی کمرے سے نکل جاتا ہے اور اختر پھر فائلیں دیکھنے لگتا ہے۔ اتنے میں منظور صاحب اپنے مہمان سمیت کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔

منظور صاحب: لو بھئی اختر۔ ابدالی صاحب بنفسِ نفیس چل کر ہمارے پاس دفترآگئے ہیں ۔ اب تمہارا کام ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ساری تفصیلات طے کرلو۔

(ابدالی صاحب بڑی گرمجوشی سے اختر سے مصافحہ کرتے ہیں اور سامنے کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔

اختر: ( منظور صاحب سے) سر! فکر نہ کیجیے۔ میں تمام تکنیکی معاملات طے کرلوں گا۔

منظور : بھئی اب تکنیکی ہوں یا غیر تکنیکی ۔ اب تو سارے معاملات تمہی کو طے کرنے ہیں ۔ کمپنی کے بزنس کا خیال رکھتے ہوئے سارے معاملات پر بات کرلو۔ ( معنی خیز انداز میں ہنستے ہوئے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں)

اختر: ( ابدالی صاحب سے مخاطب ہوئے اپنی فائلیں اٹھاکر ایک جانب رکھ دیتا ہے گویا اب ان سے بات کرنے کے لیے ہمہ تن گوش ہے) اور سنائیے ابدالی صاحب۔ منسٹری میں کیا چل رہا ہے۔

ابدالی: ارے اختر بھائی کیا بتائیں۔ کام کروانے کے لیے حکومت سے بجٹ ہی نہیں ملتا۔ اب یہی دیکھیے کہ اس پراجیکٹ کے لیے ہم محکمہ والے گزشتہ تین سال سے کام کررہے ہیں تب کہیں جاکر یہ فنڈ منظور ہوا ہے۔

اختر: موجودہ حکومت اس معاملے میں بہت سنجیدہ دکھائی دیتی ہے، جبھی تو اتنا بڑا فنڈ جاری کردیا ہے۔

ابدالی: جی ہاں! اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس پراجیکٹ کو اس انداز میں آگے بڑھائیں کہ اپنے سب دلدّر دور ہوجائیں۔ روکھی سوکھی تنخواہ پر کب تک گزارا کریں۔ سال میں ایک آدھ پراجیکٹ اس قسم کا نکل آئے تو سارے مسئلے حل ہوتے رہیں۔

اختر: ابدالی صاحب فکر نہ کریں۔ ہماری کمپنی بہترین مشینیں درآمد کرتی ہے۔ ایک مرتبہ خریدیں اور دس سال تک بے فکر ہوکر چلائیں۔

ابدالی: (ہنستے ہوئے) او بھائی۔ اب ایسی مشینیں بھی نہ ہوں جو دس دس سال تک چلتی رہیں ۔ ہمیں تو ایسی مشینوں کی ضرورت ہے جو تین سال گزارا کرلیں پھر ہم نئی مشین کی ڈیمانڈ ڈال دیں۔ یوں نئے فنڈ ملتے رہیں گے اور نہ صرف آپ کی مشینیں بکتی رہیں گی بلکہ ہمارا بھی چائے پانی کا خرچہ نکلتا رہے گا۔

اختر: خدا کو مانیے ابدالی صاحب! ہماری کمپنی اعلی کوالٹی میں یقین رکھتی ہے۔ ہر مشین ان شاء اللہ سالوں چلتی رہتی ہے اور کوئی مشکل نہیں ہوتی۔

ابدالی صاحب: بھئی بہت بھولے ہوتم اختر بھائی۔ ابھی ابھی میں منظور صاحب کے پاس سے آرہا ہوں اور انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ اس پراجیکٹ کے لیے ہماری اور آپ کی کمپنی کی ڈیل ہوجائے گی۔ البتہ اس کام کے لیے انہوں نے آپ کو منتخب کیا ہے۔ مجھے آپ ہی سے تمام معاملات طے کرنے ہیں۔

اختر: یعنی؟

منظور: یعنی یہ کہ جو بھی مشین آپ ہمیں دینے کے منتخب کریں ، اس کی قیمت بیس فیصد بڑھاکر اپنی آفر بنائیں۔ یہ بیس فیصد رقم مشین کا آرڈر ملتے ہی آپ ہمیں اداکردیں گے۔ حکومت آپ کو مکمل رقم ایل سی کھلتے ہی اداکردے گی اور یوں آپ کی مشین کی قیمت منافع کے ساتھ آپ کو مل جائے گی۔آپ کی کمپنی بھی خوش اور ہم بھی خوش۔

(چپراسی ایک ٹرے میں چائے اور بسکٹ لاکر میز پر سجادیتا ہے۔ اس دوران دونوں خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ چپراسی کے کمرے سے باہر جاتے ہی اختر پھٹ پڑتا ہے)

اختر: معاف کیجیے ابدالی صاحب! ہماری کمپنی رشوت کھلانے میں یقین نہیں رکھتی۔ ہماری مشینیں اپنی پائیداری کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہیں اور اسی وجہ سے ان کی ڈیمانڈ دوسرے برانڈز کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے۔

ابدالی: اختر بھائی ! ہم تو اسی کمپنی کو آرڈر دیں گے جو ہمیں بیس فیصد رقم دینے پر راضی ہو۔ آخر ہم نے بھی اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔

اختر: توبہ کیجیے ابدالی صاحب ! کیا اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے رشوت کی رقم ہی رہ گئی ہے۔

ابدالی: اب ہمیں نیکی کا سبق نہ پڑھاؤ ۔ تم سے بات نہیں ہوسکتی تو منظور صاحب ہی کو بلاؤ۔ وہ تو پہلے ہی راضی ہیں۔ صرف تفصیلات طے کرنے کے لیے انہوں نے تمہیں شامل کیا ہے ورنہ منصوبہ تو ہمارے ساتھ انہوں نے ہی بنایا ہے۔



اختر: معاف کیجیے ابدالی صاحب ۔ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ آپ منظور صاحب سے ہی بات کرلیجیے۔

( دروازہ کھلتا ہے اور منظور صاحب اندر داخل ہوتے ہیں)

منظور: ( غصے میں) یہ کیا بدتمیزی ہے اختر؟ ابدالی صاحب ہماری کمپنی کے گاہک ہیں اور ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ کیا تمہیں یہی نہیں سکھایا گیا؟

اختر: جی سر! خیال تو ہر طرح رکھیں گے لیکن رشوت نہیں دیں گے۔

منظور: تب تو تم اس کمپنی کے لیے بے کار کیونکہ تم مشین نہیں بیچ سکتے۔ کیا تمہیں اب بھی بچوں کی طرح سکھایا جائے کہ بزنس کیسے کیا جاتا ہے؟ صرف تکنیکی معاملات ہی نہیں ، دیگر معاملات بھی دیکھنے پڑتے ہیں۔

اختر: لیکن سر! سنیے تو!

منظور صاحب: لیکن ویکن کچھ نہیں، اب یہ پراجیکٹ میں ہی دیکھ لوں گا۔ ( ابدالی صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے) آئیے جناب۔ آپ اور ہم کام کی بات کرلیتے ہیں۔ میرے کمرے میں تشریف لے چلئے۔

دونوں کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں اور اختر پھر ایک فائل اٹھاکر مطالعے میں مشغول ہوجاتا ہے۔

(پردہ)



تیسرا منظر:



وہی پہلے منظر کی سیٹنگ۔ جائے نمازپر اختر کی امی نماز پڑھ چکی ہیں اب نہایت خشوع و خصوع کے ساتھ دعا مانگنے میں مصروف ہیں۔ گھنٹی بجتی ہے تو اندر سے شاہدہ آکر باہر کا دروازہ کھولتی ہے اور دوبارہ السلام علیکم کہتی ہوئی اندر بھاگ جاتی ہے۔ اختر تھکا ہارا اندر داخل ہوکر ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔

اختر: السلام علیکم امی

امی: وعلیکم السلام بیٹا ( اختر قریب جاکر جھکتا ہے۔ امی اس کا سر پکڑ کر پھونک مارتی ہیں جیتے رہو بیٹا!

امی: (اختر سے مخاطب ہوکر) اور کیسا رہا آج کا دن؟

اختر: (بے دلی سے ) ٹھیک ہی رہا۔۔

امی: ( شاہدہ کو آواز لگاتی ہیں) شاہدہ!

شاہدہ: ( اندر سے آواز آتی ہے)جی آئی امی ۔ چائے بن چکی ہے لیکر آرہی ہوں۔

امی: پہلے کچھ شربت لے آؤ شاہدہ! گرمی سے آرہا ہے میرا بیٹا۔

شاہدہ: جی امی! شربت بھی بنالیا ہے لاٹ صاحب کے لیے۔

( شاہدہ ٹرے میں شربت اور چائے کے لوازمات لیے اندر داخل ہوتی ہے اور ٹرے میز پر رکھ دیتی ہے۔ پھر امی کو جائے نماز پر دیکھ کر لپکتی ہوئی ان کی طرف آکر سامنے جھک جاتی ہے۔ امی اس کا سر پکڑ کر پھونک مارتی ہیں)

شاہدہ: ( اختر کے ہاتھ میں اخبار کا بنڈل دیکھ کر) یہ اخبار کیسے ہیں۔ ضرور آپ کراس ورڈ کھیلنے کے لیے لائے ہوں گے ورنہ اخبار سے جناب کو مطلب؟

اختر: ( شاہدہ کی طرف دیکھ کر) تم چُپ رہو پڑھاکو!۔کیا آج کالج گئی تھیں؟

شاہدہ: نہیں بھیا! آج کوئی کلاس ہی نہیں تھی۔جب کلاس ہوتی ہے تو ٹیچر نہیں آتے۔ کالج جانے کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں۔

اختر: یہ ان گورنمنٹ کالجز کا حال ہی خراب ہے۔ امی! ہمارے حالات کب بدلیں گے؟

امی! ( ہنس کر) کیا خود بدلیں گے؟ تم نئی پود ان حالات کو بدلنے کی سعی کرو گے تب ہی بدلیں گے ورنہ نہیں۔

اختر: امی! مجھے تو کوئی امید نہیں کہ یہ قوم کبھی سُدھر سکے گی۔ ہر طرف ظلم، نا انصافی، جھوٹ ، چور بازاری، رشوت وغیرہ کا بازار گرم ہے۔

امی: نہیں بیٹا ! اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے۔ ہمارا کام راہِ راست پر رہتے ہوئے اللہ سے رحمت کی امید لگائے رکھنا ہے۔

اختر: امی ابھی دوست سے پچھلے اتوار کے اخبارات لے کر آرہا ہوں۔

امی: وہ کیوں؟

اختر: امی! اتوار کے اخبار میں نوکریوں کے اشتہار آیا کرتے ہیں۔

امی: نوکریوں کے اشتہار؟

اختر: جی امی۔ مجھے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔

امی: ہائے اللہ! ( امی اور شاہدہ دونوں انپے منہ پر ہاتھ رکھ لیتی ہیں اور اختر کی جانب غور سے دیکھتی ہیں)

شاہدہ: بھیا ! آپ دل لگاکر کام کرتے اور غلطیاں نہ کرتے تو کون آپ کو نکالتا۔

اختر: نہیں یہ بات نہیں ہے امی۔ شاہدہ کی بچی تم شرارت نہ کرو۔

امی: بھلا کیوں نکال دیا بیٹے؟ تم تو بہت اچھے کام کرنے والے تھے۔

اختر: امی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں نئی مشین بیچنے کے لیے رشوت دوں۔ میں نے انکار کردیا جس پر مجھے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔

امی: ( ہاتھ اٹھاکر دعائیہ انداز میں) اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں درست فیصلہ کرنے اور رشوت سے بچنے کا حوصلہ دیا۔ جس اللہ نے مشکل وقت دکھایا ہے وہی اچھا وقت بھی دکھائے گا۔

اختر: امی؟ کیا میں رشوت دینے کے لیے حامی بھر لیتا؟ ساری دنیاء یہی کررہی ہے۔

امی: نہیں بیٹا! ساری دنیا اگر برائی کے راستے پر چل رہی ہو تب بھی ہمیں برائی سے بچنا چاہیے۔

شاہدہ: امی اس طرح تو سارے برے لوگ بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور سب اچھے لوگ مشکل میں جی رہے ہیں۔

امی: بیٹا ! آزمائشیں تو انبیاء علیھم السلام پر بھی آئی ہیں۔ نبیوں کو تو آرے سے کاٹ ڈالا گیا، آگ میں پھینک دیا گیا لیکن وہ ثابت قدم رہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں پر جو آزمائشیں آئیں ان پر تو کلیجا لرزتا ہے۔ ہمیں صبر کرنا چاہیے۔

اختر: امی میری تو نوکری ختم ہوگئی لیکن میرے وہ افسر جو رشوت دینے کے تیار ہیں وہ کامیاب رہے کہ مشین بھی بک گئی اور کمپنی انہیں اتنا اچھا بزنس کرنے پر بونس تنخواہ بھی دے گی۔

امی: صبر کرو میرے بچے، صبر۔ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں رشوت دینے والا نہیں بنایا۔

اختر: امی ہم آپ کے بچے ہیں۔ آپ ہی نے ہمیں اچھے اور برے کی تمیز سکھائی ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی ہم آپ کو شرمندہ کریں۔

شاہدہ: آمین۔ بالکل امی! آپ ہمیں ہر قسم کے حالات میں ثابت قدم پائیں گی۔

امی: اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے مسلمان اور فرمانبردار اولاد عطا فرمائی۔ مشکل حالات تیری ہی آزمائش ہیں اور تو ہی ہمیں ثابت قدم رکھ۔

شاہدہ اور اختر: آمین

پردہ





چوتھا منظر



وہی پہلے اور تیسرے منظر کی سیٹنگ۔شاہدہ اور اختر میز پر بیٹھے کچھ کام کررہے ہیں۔ اختر کے ہاتھ میں اخبار ہے جسے اس نے تہہ کرکے چھوٹا سا مربع بنایا ہوا ہے۔ شاہدہ کے ہاتھ میں کتاب ہے اور وہ میز پر رکھی ہوئی کاپی پر کچھ لکھ رہی ہے۔ امی جائے نماز پر بیٹھی ، بچوں کی جانب منہ کیے تسبیح پڑھ رہی ہیں۔

اختر: امی! آٹھ حروف کا کوئی لفظ بتائیے جس کا اشارہ ہے Makes ready

امی: Prepares

اختر:اب ٹھ ہی حروف کا ایک ایسا لفظ بتائیے جس کے معنی ہیں Shines brightly with Flashes of light

امی:Sparkles

اختر: واہ امی! آپ نے تو میری مشکل آسان کردی۔ خوش رہیے۔ اللہ آپ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔

شاہدہ: امی ! کیا آپ کے زمانے میں کراس ورڈ پزلز ہوتے تھے۔

امی: (ہنس کر) لو بھلا بتاؤ! اب کیا مجھے زمانہ ٗ قبل از تاریخ کی کوئی مخلوق سمجھتے ہو؟

اختر: ( اپنی قمیص کی کالر درست کرتے ہوئے) جی نہیں امی! آپ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں جبھی تو آپ نے اپنے بچوں کی اتنی اچھی تربیت کی ہے۔

شاہدہ: واہ! امی کی تعریف کرنے کے بجائے اپنی ہی تعریف کرنے لگے۔ بہت چالاک ہیں بھیا آپ!

اختر: اچھے لوگوں کی تعریف ہونی ہی چاہیے۔اس میں ایسی کون سی بات ہے؟

( گھنٹی بجتی ہے۔ اختر اٹھ کر دروازہ کھولتا ہے اور چونک کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ایک باوقار شخصیت کے مالک صاحب اندر داخل ہوتے ہیں اور کمرے پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر سیدھے امی کے پاس آتے ہیں جو ابھی تک جائے نماز پر بیٹھی ہیں۔ جھک کر انہیں سلام کرتے ہیں)

صاحب: السلام علیکم امی جان!

امی: ( زمین سے اٹھتے ہوئے ) وعلیکم السلام بیٹا! اختربیٹا انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ۔ شاہدہ پہلے مہمان کو شربت لاکر دو پھر سب کے لیے کھانا لگاؤ۔( شاہدہ فوراً کمرے سے باہر چلی جاتی ہے) کھانا آپ ہمارے ہی ساتھ کھائیے!

( امی جائے نماز سے اٹھ کر کرسی پر بیٹھ جاتی ہیں)

اختر: ( گنگ کھڑا تھا) امی ۔ یہ۔ یہ میرے باس ہیں۔ میری کمپنی کے جی ایم۔

صاحب: امی میں ڈرائینگ روم میں نہیں بیٹھوں گا، نہ ہی کھانا کھاؤں گا۔ ہاں شربت ضرور پیوں گا ۔

اختر : سر تو پھر ادھر ہی بیٹھ جائیے۔( کرسی پیش کرتا ہے)

صاحب: (امی کے سامنے کرسی سرکاکر ا س پر بیٹھتے اور ہاتھ میں پکڑا ہوا تھیلا اختر کو پکڑاتے ہوئے) لو بھئی اختر ! امی کا منہ میٹھا کراؤ۔

اختر: ( حیرانی سے انہیں تک رہا ہے) سر؟ کس بات پر منہ میٹھا کرواؤں؟

صاحب: تمہیں کمپنی کی جانب سے تمہاری ایمانداری پر ایک بونس دیا جارہا ہے۔

اختر: لیکن سر! مجھے تو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔

صاحب: تمہیں کسی نے نہیں نکالا ہے بلکہ کمپنی نے منظور صاحب کو غیر اخلاقی کام کرنے پر نوکری سے برخواست کر دیا ہے۔تم کیا سمجھتے ہو؟ ہم اپنے اسٹاف سے بےخبر رہتے ہیں؟ یہ اور بات کہ کارپوریٹ فیصلہ سازی میں کچھ دیر سویر ہوجاتی ہے۔

اختر: سر! (گرمجوشی سے صاحب کا ہاتھ تھام لیتا ہے) سر! تھینک یو سر!

صاحب ( اختر کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے) اور ہاں ۔ یہ خبر بھی سن لو کہ حکومت نے ابدالی صاحب کو بھی زبردستی چھٹیوں پر بھیج دیا ہے اور ان کے خلاف انکوائری شروع ہوگئی ہے۔

امی: یا اللہ تیرا شکر ہے۔

اختر: سر! سر!

صاحب: امی کمپنی کو آپ کے اس بیٹے پر فخر ہے کہ اس نے ایک غیر اخلاقی کام کا حصہ بننے کے بجائے اس سے علیحدہ ہونے کو ترجیح دی۔ انہیں اس قسم کی صورت حال میں نہ صرف انکار کرنا چاہیے بلکہ اپنے اعلیٰ افسر کے پاس شکایت بھی جمع کروانی چاہیے۔ اگر صحیح وقت پر ہمیں یہ بات پتہ چل جاتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ منظور صاحب کی سوچ کمپنی کی پالیسی نہیں ہے۔ ہماری کمپنی اصولوں پر چلتی ہے۔ یوں بھی بے ایمانی سے کمایا ہوا پیسہ کتنے دن چل جائے گا؟

( شاہدہ ٹرے میں شربت کا گلاس لیے آتی ہے اور صاحب کو شربت پیش کرتی ہے۔ ادھر اختر امی کو مٹھائی پیش کررہا ہے)

شاہدہ: ( مٹھائی کھاتے ہوئے) کیا ہوا؟

اختر: بتاتا ہوں!

صاحب: ( صاحب شربت پی کر گلاس ٹرے میں واپس رکھتے ہوئے) اچھا امی! اب مجھے اجازت دیجیے۔ دفتر پہنچ کر ابھی بہت کام کرنا ہے۔

امی: جیتے رہو بیٹا۔ اللہ تمہیں ہمیشہ اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ مجھ دکھیا پر بڑا کرم کیا ہے تم نے۔

صاحب: السلام علیکم

( صاحب سلام کرتے ہوئے جواب کا انتظار کیے بغیردروازے سے باہر نکل جاتے ہیں)

امی: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہِ و برکاتہُ۔

شاہدہ : ( حیرت سے دونوں کو دیکھ رہی ہے) کچھ بتائیے تو سہی! کیا ہوا!

اختر: میری نوکری بحال۔ ڈاڈا ڈاڈا

شاہدہ: اللہ ترا شکر ہے کہ تو نے مجھے سیدھا رستہ دکھایا اور بھیا کی مشکل بھی آسان فرمادی۔

(امی سجدے میں جاچکی ہیں)

پردہ
 
آخری تدوین:

شمشاد خان

محفلین
جناب محمد خلیل الرحمٰن بہت اچھا لکھا ہے۔ بہت داد قبول فرمائیں۔

ایک مکالمہ "اختر: ابدالی صاحب فکر نہ کریں۔ ہماری کمپنی بہترین مشینیں برآمد کرتی ہے۔ ایک مرتبہ خریدیں اور دس سال تک بے فکر ہوکر چلائیں۔"

یہاں پر "برآمد" کی جگہ "درآمد" ہونا چاہیے۔ کیا خیال ہے؟
 
جناب محمد خلیل الرحمٰن بہت اچھا لکھا ہے۔ بہت داد قبول فرمائیں۔

ایک مکالمہ "اختر: ابدالی صاحب فکر نہ کریں۔ ہماری کمپنی بہترین مشینیں برآمد کرتی ہے۔ ایک مرتبہ خریدیں اور دس سال تک بے فکر ہوکر چلائیں۔"

یہاں پر "برآمد" کی جگہ "درآمد" ہونا چاہیے۔ کیا خیال ہے؟

جزاک اللہ۔ خوب پکڑا ہے۔ یقیناً درآمد ہونا چاہیے۔
خوش رہیے۔
ابھی تدوین کیے دیتے ہیں۔
 
Top