عمران خان کی حکومت کو مت گرائیں: ناقابلِ اشاعت کالم

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کی حکومت کو مت گرائیں: ناقابلِ اشاعت کالم
08/02/2020 عمار مسعود

یہ بات اب سب پر واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ملک کی معشیت کو سنبھالا دینا عمران خان کے بس کی بات نہیں رہی۔ حالات روز بہ روز دگرگوں ہو رہے ہیں۔ اشیائے صرف کی قیمتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈالر کی قیمت کسی طور کم نہیں ہو رہی، پٹرول کی قیمت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ شرح بے روزگاری پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں۔ آٹے اور چینی کی قیمت نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں پر ہونے والے تمام اخراجات روک دیے گئے ہیں۔ تعلیم اور صحت پر اخراجات منجمد کر دیے گئے ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈوب رہے ہیں۔ معشیت کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ ملک کی متوقع شرح ترقی دو فیصد رہ گئی ہے۔

حد تو یہ ہے کہ اس وقت افغانستان اور بنگلہ دیش ہم سے زیادہ بہتر شرح نمو رکھتے ہیں۔ کوئی دن آتا ہے کہ ہم خبر سنیں گے کہ فلاں فلاں سرکاری ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہ نہیں دے سکے۔ بس اب اسی کی کسر رہ گئی ہے۔

عمران خان کے وہ حامی جو انہیں اقتدار میں لانے کا سبب بنے، جو مثبت رپورٹنگ کی تلقین کرتے رہے، اب خان صاحب سے ناخوش ہو رہے ہیں۔ اب انہیں خان صاحب کا لا ابالی پن کھلنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی قیدیوں کی ضمانتیں اسی رفتار سے ہو رہی ہیں جس رفتار سے کبھی گرفتاریاں ہوا کرتی تھیں۔ میڈیا جو کبھی مثبت رپورٹوں پر مامور تھا اب کھل کر عمران خان کی حقیقت عوام کو بتا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن زرخرید لوگوں نے عمران خان کو بنایا تھا اب وہی اس عمارت کو منہدم کرنے کی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب لندن میں ملاقاتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ بات چیت سے ایسا حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہر دوسرا شخص آپ کو مارچ، اپریل میں ان ہاؤس تبدیلی اور سال کے اواخر میں الیکشن کی نوید سنا رہا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے حامی اور مرکز میں اتحادی خان صاحب کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی دن آئے گا اور تحریک انصاف کی حکومت کا یہ مصنوعی طور پر بنایا ہوا ریت کا محل بکھر جائے گا۔

خلائی مخلوق والے آج کل دو سوالوں کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔ ایک تو بات واضح ہے کہ عمران خان کو جتنی کم عددی برتری حاصل ہے اس کے نتیجے میں چند مہرے ادھر ادھر کرکے ان کی حکومت گرانا ایک نہایت آسان کام ہے۔ اپوزیشن اسی لمحے کی تاک میں ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو گرا کر کیا حاصل ہو گا؟

اگر مقصد صرف وزیر اعظم کے نام کی تبدیلی ہے تو یہ مقصد نہایت ناکافی ہے۔ اگر مقصد عمران خان کو وقتی شکست دینا ہے تو بھی یہ کوئی صائب بات نہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں حکومت تو چلی جائے گی مگر آنے والی حکومت بھی اسی خوف اور خدشے میں اپنا دور حکومت بسر کرے گی۔ عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی مگر عمران خان کے لئے اس سے زیادہ مبارک بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

معیشت کو جس بحران میں ڈال دیا گیا ہے اس کو درست کرنے کے بجائے اس سے جان چھڑا لی جائے تو بہتر ہے۔ اس طرح کے اقدام سے عمران خان سیاسی شہِید بن جائیں گے۔ وہ اپوزیشن میں آئیں گے اور اپوزیشن کی سیاست خان صاحب کو خوب آتی ہے۔ وہ موجودہ اپوزیشن کی طرح خاموش نہیں رہیں گے بلکہ سب کے کچے چٹھے عوام کے سامنے رکھ دیں گے۔ ”عمران خان میں اپنے محسنوں کو دغا دینے کی بے پناہ اہلیت ہے اسی اہلیت نے محکمہ زراعت کو تذبذب میں ڈال رکھا ہے“۔

اس بات کو یوں سمجھیے کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ انہوں نے دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک حکومت کی۔ اس دور کو گورننس کے حوالے سے بدترین کہا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد عوام نے پیپلز پارٹی کو ایک صوبے کی دیہی آبادی کی جماعت بنا دیا۔ اس کا سبب یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے۔

خان صاحب کی حکومت جیسی بھی ہے اس کو بھی پانچ سال پورے کرنے چاہیں تاکہ اگلے انتخابات میں عوام ان کے کاموں کی داد ان کی غلطیوں کا احتساب ووٹ کے ذریعے کر سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا اور ماضی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے یہ حکومت ختم کی گئی تو سمجھ لیجیے کہ انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ستانوے والا دور واپس آ جائے گا۔ پارٹیوں کی باریاں لگیں گی اور آخر میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

دوسرا سوال جو مقتدر حلقوں کو پریشان کر رہا ہے کہ موجودہ دور میں مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام کسی بھی ملک کا پہلا دفاع ہوتا ہے۔ جس نہج پر حکومت معیشت کو لے آئی ہے اب اس سے استحکام پر بھی زد آ سکتی ہے۔ کمزور معیشتیں طاقتوروں کے لئے تر نوالہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دشمنوں کو بڑھاوا دے سکتی ہیں۔ مقتدر حلقے اس بات پر بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر عمران خان کے پانچ سال پورے ہو گئے تو یہ نہ ہو کہ ملک کو کوئی ایسا نقصان پہنچ جائے جس کی تلافی نہ ہو سکے۔ اس لئے اب اپنی غلطیوں پر پشیمان خلائی مخلوق کچھ جلدی میں ہے۔

ایک نئی حکومت سے ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی ہو سکتی ہے۔ لیکن اناؤں کا کھیل اب بھی جاری ہے۔ مسلم لیگ ن اب بالکل قابل قبول ہو چکی ہے۔ لیکن نواز شریف اور مریم نواز سے بغض اب بھی جاری ہے۔ اسحاق ڈار کا گھر لنگر خانہ بنا کر اب بھی دھمکایا جا رہا ہے۔ اس گھمسان کی صورت حال میں عوام بری طرح پس رہے ہیں۔

سیاسی مسائل کا حل سیاست میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ جس مشکل میں اب ملک دھنس چکا ہے اس مشکل سے نکلنے کی واحد صورت یہ رہ گئی ہے کہ نئے الیکشن کروائے جائیں۔ لیکن نئے الیکشن تک پہنچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ موجودہ اسمبلیاں توڑی جائیں۔ یہ اسمبلیاں کسی دباؤ کی خاطر نہ توڑی جائیں بلکہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا جائے۔ ”تادم تحریر خان صاحب اس کے لئے تیار نہیں“۔

نئے الیکشن ہی مسئلے کا حل ہیں مگر ان الیکشن کا تک پہنچنے کا رستہ اگر جمہوری نہیں ہو گا تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ اس نازک موقع پر کسی سیاسی جماعتوں یا مقتدر حلقوں کی جانب سے کسی بھی غیر جمہوری طرز عمل سے مسئلہ سلجھے گا نہیں بلکہ مزید الجھے گا اور پھر یہاں ہر روز ہیرو، ولن بنے گا اور ولن، ہیرو بنتا رہے گا۔ سمجھ لیجیے کہ یہ تماشا چہرے بدل، بدل کر چلتا رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مارچ کے بعد حکومت کی چھٹی ہو جائے گی: سہیل وڑائچ
09/02/2020 نیوز ڈیسک

سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارچ کے بعد عمران حکومت کی چھٹی ہو جائے گی۔ اس حوالے سے تمام منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں‘ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور موجودہ حکومت کے وزراء کی ناقص کارکردگی کے باعث مقتدر حلقوں نے وفاقی حکومت کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور مارچ کے بعد سب سے پہلے وفاقی حکومت جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ عمران حکومت کو اقتدار سنبھالے 15 سے 16 ماہ مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔ مارچ اور اپریل کے بعد کسی بھی وقت مہنگائی اور معاشی بدحالی کا جن بوتل سے باہر نکل کر بے قابو ہو سکتا ہے۔

سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ شریف خاندان نے میاں شہباز شریف کو اگلا وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاست کے اگلے معرکے میں عمران خان کا مقابلہ شہباز شریف اور مریم نواز کریں گی۔ اس لیے ان کے خلاف مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا حکومت کا ٹارگٹ اب صرف مریم نواز اور شہباز شریف ہیں۔

حکومت مخالف سیاسی جماعتوں میں رابطوں کا سلسلہ بھی شروع ہے۔ مارچ میں ایک بار پھر تمام اپوزیشن جماعتوں کے ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ سہیل وڑائچ باخبر صحافت کے لئے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے 2017 کے ابتدائی مہینوں میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی کی ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
چند ماہ بعد حکومت جمہوری راستے سے گھر چلی جائے گی: قمر زمان کائرہ
10/02/2020 نیوز ڈیسک

پاکستان پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ حکومت چند ماہ بعد جمہوری راستے سے گھر چلی جائے گی۔ عمران خان نے صرف جھوٹ کا ٹیکہ لگایا۔ عمران خان کو پوری سپورٹ ملی لیکن پھر بھی حکومت ناکام رہی۔ انہوں نے آج یہاں میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اتحادی ٹوٹ رہے ہیں، حکومت پریشان ہے۔

حکومت مکمل ناکام ہو چکی، ان کا جانا طے ہے۔ حکومت چند ماہ بعد جمہوری راستے سے گھر چلی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کسی بھی غیرسیاسی تبدیلی کے خلاف ہے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ حکومت نے پارلیمنٹ اور میڈیا کو غیرمعتبر کیا۔ عمران خان نے جھوٹ کا ٹیکہ لگا رکھا ہے۔عمران خان میں حکومت چلانے کی اہلیت نہیں۔ عمران خان کو ہر طرف سے سپورٹ ملی لیکن پھر بھی حکومت ناکام رہی۔
 

جاسم محمد

محفلین
لانے والوں نے عمران خان کے جانے کا فیصلہ کر لیا: نجم سیٹھی
09/02/2020 نیوز ڈیسک

معروف تجزیہ نگار نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم کی حیثیت سے لانے والوں نے ان کے جانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ انہوں اپنے ایک بیان میں کہا کہ عمران خان جن لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے، ان ہی قوتوں نے ان کی غیر مؤثر پالیسیوں، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروز گاری کو جواز بنا کر انہیں گھر بھیجنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ مارچ اور اپریل کے دو ماہ اہم ہیں۔ تاہم آخری فیصلہ انہی قوتوں کا ہوگا جوعمران خان کو اقتدار میں لائیں۔
 
جا سم ، آپ تو سوشل میڈیا پر بڑی کڑی نظر رکھتے ہیں. جیسا کہ میں نے آپ کے مراسلہ جات سے مشاہدہ کیا ہے یہ بتائے کہ یوٹیوب کے ایک مقبول چینل، حقیقت ٹی وی کا خالق کون ہے ؟ یہ صاحب کون ہیں ؟
 

جاسم محمد

محفلین
جا سم ، آپ تو سوشل میڈیا پر بڑی کڑی نظر رکھتے ہیں. جیسا کہ میں نے آپ کے مراسلہ جات سے مشاہدہ کیا ہے یہ بتائے کہ یوٹیوب کے ایک مقبول چینل، حقیقت ٹی وی کا خالق کون ہے ؟ یہ صاحب کون ہیں ؟
حقیقت ٹی وی کو زیادہ عرصہ نہیں سُنا۔ وہ صابر شاکر کی طرح بہت سنسنی پھیلاتا ہے۔ ہمارا قومی مزاج بھی کچھ ایسا ہے کہ حقیقت پسندانہ خبروں، تجزیوں کی بجائے سنسنی خیز افواہات سننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اور شاید اسی لئے یہ چینل بہت مقبول ہے :)
 
جا سم ! مجھے معلوم ہے کہ شاید یہ لڑی اس سوال کے لئے موزوں نہ ہو، پر آپ میری رہنمائی کرتیں کے کیسے میں اپنے دستخط میں لنک ڈال سکتا ہوں. وہ بھی اسے کہ دیکھنے میں وہ الفاظ ہوں پر ماؤس ہور کرنے سے یا کلک کرنے سے لنک کلک ہو جائے

اور ساتھ یہ بھی اگر دستخط میں تصویر شامل ایسے کی جائے کہ جو کلک کرے تو میرا ربط کھل جائے
 

جاسم محمد

محفلین
جا سم ! مجھے معلوم ہے کہ شاید یہ لڑی اس سوال کے لئے موزوں نہ ہو، پر آپ میری رہنمائی کرتیں کے کیسے میں اپنے دستخط میں لنک ڈال سکتا ہوں. وہ بھی اسے کہ دیکھنے میں وہ الفاظ ہوں پر ماؤس ہور کرنے سے یا کلک کرنے سے لنک کلک ہو جائے

اور ساتھ یہ بھی اگر دستخط میں تصویر شامل ایسے کی جائے کہ جو کلک کرے تو میرا ربط کھل جائے
اس ربط پر جا کر آپ اپنے دستخط میں رد و بدل کر سکتے ہیں۔
https://www.urduweb.org/mehfil/account/signature
لنک کیلئے ٹیکسٹ سلیکٹ کر کے یہ بٹن استعمال کریں:
Capture.jpg
 
حقیقت ٹی وی کو زیادہ عرصہ نہیں سُنا۔ وہ صابر شاکر کی طرح بہت سنسنی پھیلاتا ہے۔ ہمارا قومی مزاج بھی کچھ ایسا ہے کہ حقیقت پسندانہ خبروں، تجزیوں کی بجائے سنسنی خیز افواہات سننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اور شاید اسی لئے یہ چینل بہت مقبول ہے :)

پر کیا یہ سخصیات ابھی تک صیغہ راز ہے ؟
 

جاسم محمد

محفلین
بہت خوب. اور اگر فلکر یا کسی اور پکچر ہوسٹنگ پر ہوسٹ چوٹی تصویر کو لنک کرنا مقصود ہو تو کیا کیا جائے
دستخط میں تصویر شامل کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ ہاں اب متن لکھ کر اسے ربط بنا سکتے ہیں۔
عام پیغامات میں تصویر شامل کرنے کیلئے اس سائٹ پر امیج اپلوڈ کر دیں:
Postimage.org — free image hosting / image upload
اور وہا ں سے ڈائرکٹ لنک کاپی کر کے امیج بٹن میں پیسٹ کر دیں:
Capture.jpg
 

فرقان احمد

محفلین
عمران خان کی حکومت کو مت گرائیں: ناقابلِ اشاعت کالم
08/02/2020 عمار مسعود

یہ بات اب سب پر واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ملک کی معشیت کو سنبھالا دینا عمران خان کے بس کی بات نہیں رہی۔ حالات روز بہ روز دگرگوں ہو رہے ہیں۔ اشیائے صرف کی قیمتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈالر کی قیمت کسی طور کم نہیں ہو رہی، پٹرول کی قیمت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ شرح بے روزگاری پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں۔ آٹے اور چینی کی قیمت نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں پر ہونے والے تمام اخراجات روک دیے گئے ہیں۔ تعلیم اور صحت پر اخراجات منجمد کر دیے گئے ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈوب رہے ہیں۔ معشیت کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ ملک کی متوقع شرح ترقی دو فیصد رہ گئی ہے۔

حد تو یہ ہے کہ اس وقت افغانستان اور بنگلہ دیش ہم سے زیادہ بہتر شرح نمو رکھتے ہیں۔ کوئی دن آتا ہے کہ ہم خبر سنیں گے کہ فلاں فلاں سرکاری ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہ نہیں دے سکے۔ بس اب اسی کی کسر رہ گئی ہے۔

عمران خان کے وہ حامی جو انہیں اقتدار میں لانے کا سبب بنے، جو مثبت رپورٹنگ کی تلقین کرتے رہے، اب خان صاحب سے ناخوش ہو رہے ہیں۔ اب انہیں خان صاحب کا لا ابالی پن کھلنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی قیدیوں کی ضمانتیں اسی رفتار سے ہو رہی ہیں جس رفتار سے کبھی گرفتاریاں ہوا کرتی تھیں۔ میڈیا جو کبھی مثبت رپورٹوں پر مامور تھا اب کھل کر عمران خان کی حقیقت عوام کو بتا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن زرخرید لوگوں نے عمران خان کو بنایا تھا اب وہی اس عمارت کو منہدم کرنے کی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب لندن میں ملاقاتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ بات چیت سے ایسا حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہر دوسرا شخص آپ کو مارچ، اپریل میں ان ہاؤس تبدیلی اور سال کے اواخر میں الیکشن کی نوید سنا رہا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے حامی اور مرکز میں اتحادی خان صاحب کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی دن آئے گا اور تحریک انصاف کی حکومت کا یہ مصنوعی طور پر بنایا ہوا ریت کا محل بکھر جائے گا۔

خلائی مخلوق والے آج کل دو سوالوں کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔ ایک تو بات واضح ہے کہ عمران خان کو جتنی کم عددی برتری حاصل ہے اس کے نتیجے میں چند مہرے ادھر ادھر کرکے ان کی حکومت گرانا ایک نہایت آسان کام ہے۔ اپوزیشن اسی لمحے کی تاک میں ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو گرا کر کیا حاصل ہو گا؟

اگر مقصد صرف وزیر اعظم کے نام کی تبدیلی ہے تو یہ مقصد نہایت ناکافی ہے۔ اگر مقصد عمران خان کو وقتی شکست دینا ہے تو بھی یہ کوئی صائب بات نہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں حکومت تو چلی جائے گی مگر آنے والی حکومت بھی اسی خوف اور خدشے میں اپنا دور حکومت بسر کرے گی۔ عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی مگر عمران خان کے لئے اس سے زیادہ مبارک بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

معیشت کو جس بحران میں ڈال دیا گیا ہے اس کو درست کرنے کے بجائے اس سے جان چھڑا لی جائے تو بہتر ہے۔ اس طرح کے اقدام سے عمران خان سیاسی شہِید بن جائیں گے۔ وہ اپوزیشن میں آئیں گے اور اپوزیشن کی سیاست خان صاحب کو خوب آتی ہے۔ وہ موجودہ اپوزیشن کی طرح خاموش نہیں رہیں گے بلکہ سب کے کچے چٹھے عوام کے سامنے رکھ دیں گے۔ ”عمران خان میں اپنے محسنوں کو دغا دینے کی بے پناہ اہلیت ہے اسی اہلیت نے محکمہ زراعت کو تذبذب میں ڈال رکھا ہے“۔

اس بات کو یوں سمجھیے کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ انہوں نے دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک حکومت کی۔ اس دور کو گورننس کے حوالے سے بدترین کہا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد عوام نے پیپلز پارٹی کو ایک صوبے کی دیہی آبادی کی جماعت بنا دیا۔ اس کا سبب یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے۔

خان صاحب کی حکومت جیسی بھی ہے اس کو بھی پانچ سال پورے کرنے چاہیں تاکہ اگلے انتخابات میں عوام ان کے کاموں کی داد ان کی غلطیوں کا احتساب ووٹ کے ذریعے کر سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا اور ماضی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے یہ حکومت ختم کی گئی تو سمجھ لیجیے کہ انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ستانوے والا دور واپس آ جائے گا۔ پارٹیوں کی باریاں لگیں گی اور آخر میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

دوسرا سوال جو مقتدر حلقوں کو پریشان کر رہا ہے کہ موجودہ دور میں مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام کسی بھی ملک کا پہلا دفاع ہوتا ہے۔ جس نہج پر حکومت معیشت کو لے آئی ہے اب اس سے استحکام پر بھی زد آ سکتی ہے۔ کمزور معیشتیں طاقتوروں کے لئے تر نوالہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دشمنوں کو بڑھاوا دے سکتی ہیں۔ مقتدر حلقے اس بات پر بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر عمران خان کے پانچ سال پورے ہو گئے تو یہ نہ ہو کہ ملک کو کوئی ایسا نقصان پہنچ جائے جس کی تلافی نہ ہو سکے۔ اس لئے اب اپنی غلطیوں پر پشیمان خلائی مخلوق کچھ جلدی میں ہے۔

ایک نئی حکومت سے ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی ہو سکتی ہے۔ لیکن اناؤں کا کھیل اب بھی جاری ہے۔ مسلم لیگ ن اب بالکل قابل قبول ہو چکی ہے۔ لیکن نواز شریف اور مریم نواز سے بغض اب بھی جاری ہے۔ اسحاق ڈار کا گھر لنگر خانہ بنا کر اب بھی دھمکایا جا رہا ہے۔ اس گھمسان کی صورت حال میں عوام بری طرح پس رہے ہیں۔

سیاسی مسائل کا حل سیاست میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ جس مشکل میں اب ملک دھنس چکا ہے اس مشکل سے نکلنے کی واحد صورت یہ رہ گئی ہے کہ نئے الیکشن کروائے جائیں۔ لیکن نئے الیکشن تک پہنچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ موجودہ اسمبلیاں توڑی جائیں۔ یہ اسمبلیاں کسی دباؤ کی خاطر نہ توڑی جائیں بلکہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا جائے۔ ”تادم تحریر خان صاحب اس کے لئے تیار نہیں“۔

نئے الیکشن ہی مسئلے کا حل ہیں مگر ان الیکشن کا تک پہنچنے کا رستہ اگر جمہوری نہیں ہو گا تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ اس نازک موقع پر کسی سیاسی جماعتوں یا مقتدر حلقوں کی جانب سے کسی بھی غیر جمہوری طرز عمل سے مسئلہ سلجھے گا نہیں بلکہ مزید الجھے گا اور پھر یہاں ہر روز ہیرو، ولن بنے گا اور ولن، ہیرو بنتا رہے گا۔ سمجھ لیجیے کہ یہ تماشا چہرے بدل، بدل کر چلتا رہے گا۔
حکومت کو گرانے میں عجلت واقعی درست نہیں ہے۔ دراصل، اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ ہر 'تبدیلی' سے خود کو ہم آہنگ رکھے۔ اصل مسئلہ تو بہرصورت معاشی ہی ہے۔ خان صاحب کو حکومت میں رہنا ہے تو معاشی بحران پر قابو پانا ہو گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت کو گرانے میں عجلت واقعی درست نہیں ہے۔ دراصل، اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ ہر 'تبدیلی' سے خود کو ہم آہنگ رکھے۔ اصل مسئلہ تو بہرصورت معاشی ہی ہے۔ خان صاحب کو حکومت میں رہنا ہے تو معاشی بحران پر قابو پانا ہو گا۔
معاشی بحران کیا ہے؟ عوام بے روزگار، مہنگائی یا ملک ریکارڈ خساروں اور قرضوں کے نتیجہ میں دیوالیہ؟
ملک پر چڑھے قرضے، خسارے اتاریں تو عوام بے روزگار، مہنگائی ہو جاتی ہے۔ بے روزگاری ، مہنگائی کم کریں تو ملک دیوالیہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

حکومت کے سخت فیصلوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا، حماد اظہر کا اعتراف
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1984058-hammadazhar-1581425821-889-640x480.jpg

گندم اور چینی بحران کی انکوائری کو سامنے لے کر آئیں گے، حماد اظہر۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: وفاقی وزیر حماد اظہر نے اعتراف کیا ہے کہ سخت فیصلےکرنا پڑےجس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا۔

قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیرریونیو حماد اظہرکا کہنا تھا کہ اپوزیشن ماضی میں اس لیے نہیں جانا چاہتی کہ انہیں پتہ ہے کہ انہوں نے معیشت کا کیا حال کیا ہے، (ن) لیگ کے اپنے وزیر خزانہ آخری مہینوں میں آئی ایم ایف بیل آوٴٹ کی بات کررہے تھے، اگر ان کے دور میں معیشت ٹھیک تھی تو یہ لوگ توپھرآئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے؟ کیوں بل آؤٹ پیکج پربات کی؟۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی توملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، زرمبادلہ کے ذخائر آدھے سے بھی کم تھے، پچھلی حکومت میں پانچ سوملین ڈالر کا ہرماہ خسارہ ہو رہا تھا، سابقہ حکومت کے خسارے آج ہم پورے کر رہے ہیں، آج آئی ایم ایف ہمیں خسارے ختم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، دسمبر 2020 تک ہم نے گردشی قرضوں کو صفر پر لانا ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ آج بجلی اور گیس کی قیمتوں کی بات ہورہی ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا کسی بھی حکومت کے لیے مقبول فیصلہ نہیں ہوتا، مجبوری ہوتی ہے، سخت فیصلےکرنا پڑے جس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا، لیکن آٹا بحران کی وجہ سندھ حکومت کا وقت پر گندم نہ خریدنا ہے اسی وجہ سے سندھ میں قلت پیدا ہوئی، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہوئیں ان پر قابو پانے کے لئے کابینہ آج اہم فیصلے کرے گی، آٹے اور گندم کی قیمت نیچے آگئی ہے، سندھ اور کراچی میں بھی جلد قیمتیں نیچے آجائیں گی، گندم اور چینی بحران کی تحقیقات کو سامنے لے کر آئیں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے ملک کواستحکام کی جانب گامزن کیا، عالمی ادارے پاکستان کے ریٹنگ کو مثبت قرار دے رہے ہیں، گزشتہ سال جولائی سےزرمبادلہ کےذخائرمیں50فیصداضافہ ہوا، ایف اےٹی ایف معاملے پرپیشرفت حوصلہ افزاہے۔ معاہدے ہم نے نہیں کیے تھے لیکن آج خسارے ہمیں ادا کرنے پڑ رہے ہیں، ہمیں دھرنے پر طعنے دیتے ہیں لیکن ماضی میں یہ خود بھی کنٹینر پر سیلفیاں لیتے رہے، کنٹینر بھی اپنا نہیں بلکہ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔
 

فرقان احمد

محفلین
معاشی بحران کیا ہے؟ عوام بے روزگار، مہنگائی یا ملک ریکارڈ خساروں اور قرضوں کے نتیجہ میں دیوالیہ؟
ملک پر چڑھے قرضے، خسارے اتاریں تو عوام بے روزگار، مہنگائی ہو جاتی ہے۔ بے روزگاری ، مہنگائی کم کریں تو ملک دیوالیہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

حکومت کے سخت فیصلوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا، حماد اظہر کا اعتراف
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1984058-hammadazhar-1581425821-889-640x480.jpg

گندم اور چینی بحران کی انکوائری کو سامنے لے کر آئیں گے، حماد اظہر۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: وفاقی وزیر حماد اظہر نے اعتراف کیا ہے کہ سخت فیصلےکرنا پڑےجس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا۔

قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیرریونیو حماد اظہرکا کہنا تھا کہ اپوزیشن ماضی میں اس لیے نہیں جانا چاہتی کہ انہیں پتہ ہے کہ انہوں نے معیشت کا کیا حال کیا ہے، (ن) لیگ کے اپنے وزیر خزانہ آخری مہینوں میں آئی ایم ایف بیل آوٴٹ کی بات کررہے تھے، اگر ان کے دور میں معیشت ٹھیک تھی تو یہ لوگ توپھرآئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے؟ کیوں بل آؤٹ پیکج پربات کی؟۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی توملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، زرمبادلہ کے ذخائر آدھے سے بھی کم تھے، پچھلی حکومت میں پانچ سوملین ڈالر کا ہرماہ خسارہ ہو رہا تھا، سابقہ حکومت کے خسارے آج ہم پورے کر رہے ہیں، آج آئی ایم ایف ہمیں خسارے ختم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، دسمبر 2020 تک ہم نے گردشی قرضوں کو صفر پر لانا ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ آج بجلی اور گیس کی قیمتوں کی بات ہورہی ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا کسی بھی حکومت کے لیے مقبول فیصلہ نہیں ہوتا، مجبوری ہوتی ہے، سخت فیصلےکرنا پڑے جس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا، لیکن آٹا بحران کی وجہ سندھ حکومت کا وقت پر گندم نہ خریدنا ہے اسی وجہ سے سندھ میں قلت پیدا ہوئی، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہوئیں ان پر قابو پانے کے لئے کابینہ آج اہم فیصلے کرے گی، آٹے اور گندم کی قیمت نیچے آگئی ہے، سندھ اور کراچی میں بھی جلد قیمتیں نیچے آجائیں گی، گندم اور چینی بحران کی تحقیقات کو سامنے لے کر آئیں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے ملک کواستحکام کی جانب گامزن کیا، عالمی ادارے پاکستان کے ریٹنگ کو مثبت قرار دے رہے ہیں، گزشتہ سال جولائی سےزرمبادلہ کےذخائرمیں50فیصداضافہ ہوا، ایف اےٹی ایف معاملے پرپیشرفت حوصلہ افزاہے۔ معاہدے ہم نے نہیں کیے تھے لیکن آج خسارے ہمیں ادا کرنے پڑ رہے ہیں، ہمیں دھرنے پر طعنے دیتے ہیں لیکن ماضی میں یہ خود بھی کنٹینر پر سیلفیاں لیتے رہے، کنٹینر بھی اپنا نہیں بلکہ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔
خان صاحب اپوزیشن میں ہوتے تو اس صورت حال میں ان کا بیانیہ کیا ہوتا۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ منطق کوئی نہ مانے گا۔ ہر حکومت یوں ہی آتی ہے، اور اسے یوں ہی جانا پڑتا ہے۔ خان صاحب کا قصور فقط یہ ہے کہ انہوں نے ان اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی اور اپنے احباب کو احتساب کے شکنجے سے بچائے رکھا۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی ریلیف لیتے چلے جا رہے ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات، آپ کا ہوم ورک نامکمل تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
سو باتوں کی ایک بات، آپ کا ہوم ورک نامکمل تھا۔
اگر ہوم ورک مکمل بھی ہوتا تو کیا تیر مار لیتے؟
خطے میں بجلی، گیس، تیل کے مہنگے ترین معاہدے اس حکومت نے نہیں کیے۔ نہ ہی مہنگے ترین قرضے اور ریکارڈ خسارے پیچھے چھوڑے ہیں۔
کوئی ایک سرکاری ادارہ یا محکمہ ایسا بتا دیں جسے پچھلی حکومت نے منافع میں چھوڑا ہو؟
جب عوام کو ریلیف دینے کیلئے قومی خزانہ میں پیچھے کچھ چھوڑا ہی نہیں گیا تھا تو یہ حکومت ایسی کونسی گیڈر سنگی لا کر معیشت بہتر کر سکتی تھی؟ ملک کا آدھا بجٹ تو پچھلی حکومت کے چھوڑے ہوئے قرضوں اور خساروں کی مد میں جا رہا ہے۔ اس کے باوجود عوام چاہتی ہے کہ ان کو ریلیف ملے۔ اور جب نہیں ملتا کیونکہ مل نہیں سکتا (خزانہ خالی ہے) تو فورا فیصلہ آجاتا ہے کہ حکومت فیل ہو گئی۔



اوپر سے ستم بکاؤ لفافی میڈیا نے ایسا تاثر دے رکھا ہے جیسے حکومت یہ سب جان بوجھ کر کرہی ہے۔ کونسی حکومت جان بوجھ کر عوام پر مہنگائی کا بم گرائے گی؟ حکومت کو نہیں معلوم اس کے نتیجہ میں اسکی مقبولیت کا کیا حشر ہوگا؟ اگر اس کے باوجود حکومت یہ سب کر رہی ہے تو اس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ ملک کی معیشت دیر پا مستحکم کرنے کیلئے اپنے ووٹ بینک یعنی مقبولیت کی قربانی دی جا رہی ہے۔ لیکن ڈھیٹ، بےحس اور ناشکری عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ فوری ریلیف سے غرض ہے۔ بے شک اس کے نتیجہ میں ملک دیوالیہ ہو جائے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر ہوم ورک مکمل بھی ہوتا تو کیا تیر مار لیتے؟
خطے میں بجلی، گیس، تیل کے مہنگے ترین معاہدے اس حکومت نے نہیں کیے۔ نہ ہی مہنگے ترین قرضے اور ریکارڈ خسارے پیچھے چھوڑے ہیں۔
کوئی ایک سرکاری ادارہ یا محکمہ ایسا بتا دیں جسے پچھلی حکومت نے منافع میں چھوڑا ہو؟
جب عوام کو ریلیف دینے کیلئے قومی خزانہ میں پیچھے کچھ چھوڑا ہی نہیں گیا تھا تو یہ حکومت ایسی کونسی گیڈر سنگی لا کر معیشت بہتر کر سکتی تھی؟ ملک کا آدھا بجٹ تو پچھلی حکومت کے چھوڑے ہوئے قرضوں اور خساروں کی مد میں جا رہا ہے۔ اس کے باوجود عوام چاہتی ہے کہ ان کو ریلیف ملے۔ اور جب نہیں ملتا کیونکہ مل نہیں سکتا (خزانہ خالی ہے) تو فورا فیصلہ آجاتا ہے کہ حکومت فیل ہو گئی۔



اوپر سے ستم بکاؤ لفافی میڈیا نے ایسا تاثر دے رکھا ہے جیسے حکومت یہ سب جان بوجھ کر کرہی ہے۔ کونسی حکومت جان بوجھ کر عوام پر مہنگائی کا بم گرائے گی؟ حکومت کو نہیں معلوم اس کے نتیجہ میں اسکی مقبولیت کا کیا حشر ہوگا؟ اگر اس کے باوجود حکومت یہ سب کر رہی ہے تو اس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ ملک کی معیشت دیر پا مستحکم کرنے کیلئے اپنے ووٹ بینک یعنی مقبولیت کی قربانی دی جا رہی ہے۔ لیکن ڈھیٹ، بےحس اور ناشکری عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ فوری ریلیف سے غرض ہے۔ بے شک اس کے نتیجہ میں ملک دیوالیہ ہو جائے۔

دو سو ارب ڈالرز کدھر گئے، کچھ تو شاید کسی کے منہ پر بھی مارے جانے تھے! اقتدار کے 'مزے' لُوٹیں گے تو باتیں بھی سننا پڑیں گی۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
دو سو ارب ڈالرز کدھر گئے، کچھ تو شاید کسی کے منہ پر بھی مارے جانے تھے! اقتدار کے 'مزے' لُوٹیں گے تو باتیں بھی سننا پڑیں گی۔ :)
عمران خان ہمیشہ پہلے آرام سے سمجھاتا ہے، اور جب سمجھ نہیں آتی تو ڈنڈا اٹھا لیتا ہے۔ ثابت ہوگیا کہ یہ ڈنڈے والی قوم ہے۔

حکومتی کارروائی کا خوف؛ ذخیرہ اندوزوں نے مارکیٹ میں چینی کی سپلائی شروع کردی
احتشام مفتی بدھ 12 فروری 2020
1985198-sugarandwheat-1581507260-784-640x480.jpg

تھوک مارکیٹ میں 100 کلو چینی کی بوری کی قیمت میں 200 روپے کی کمی

کراچی: حکومت کی جانب سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کے اعلان اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی سے متعلق اقدامات کے باعث ذخیرہ اندوز پریشان ہوگئے ہیں۔

ذخیرہ اندوزوں ممکنہ کاروائی کے خطرے کے پیش نظر ذخیرہ شدہ چینی کے ذخائر کو مارکیٹ میں سپلائی کرنا شروع کردیا ہے، جو تھوک مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں پربھی اثرانداز ہوئی ہیں، آج ملک کی سب سے بڑی اجناس کی تھوک مارکیٹ جوڑیا بازار میں فی 100 کلوگرام چینی کی بوری کی قیمت 200 روپے کی کمی سے 7ہزار300روپے پر آگئی ہے جو اس سے قبل 7ہزار 500روپے میں فروخت کی جارہی تھی تاہم خوردہ سطح پر اب بھی 79 تا80 روپے فی کلو گرام کے حساب چینی فروخت کی جارہی ہے۔

تھوک مارکیٹ میں بدھ کو چینی کی فی کلو گرام قیمت میں 2روپے کی کمی واقع ہونے سے توقع ہے کہ ریٹیلرز کی جانب سے بھی جمعرات کو فی کلوگرام چینی کی قیمت میں 2 تا 3روپے کی کمی واقع ہو اور فی کلوگرام چینی کی قیمت گھٹ کر 77 تا78 روپے کی سطح پرآجائے گی۔
 
Top