پالیسیوں میں بہتری لائیں ورنہ ملک کی دکان بند ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہی

زیرک

محفلین
پالیسیوں میں بہتری لائیں ورنہ ملک کی دکان بند ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہی
ایف بی آر کی بھرپور کوششوں کے باوجود ریونیو شارٹ فال تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے منی بجٹ یا بعض پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ناگزیر ہو گئی ہیں۔ روپے کی قدر میں گراوٹ سے مسلط شدہ کوہ ہمالیہ سے بڑے بوجھ سے قومی خزانہ سنبھل نہیں پا رہا ہے۔ برآمدات کا حدف توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پورا نہیں ہو پا رہا، ٹیکسٹائل سیکٹر میں کچھ بہتری نظر آئی تھی لیکن بجلی کی قیمتیں پچھلی مدت سے بڑھانے کی پالیسی سے حالات پہلے سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ کل فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے وفد نے گورنر پنجاب چودھری سرور سے ملاقات میں کہہ دیا ہے کہ اب ہم سے انڈسٹری نہیں چل سکتی، آپ چابیاں لے لیں اور خود چلا لیں ہم سے تو مزدور کی تنخواہ بھی پوری نہیں ہو رہی۔ موجوہ مالی سال کے ابتدائی سات ماہ کے دوران ریونیو/محاصل میں 387ارب روپے جبکہ صرف پچھلے جنوری 2020 میں 104 ارب روپے کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ جبکہ قرضہ در قرضہ لینے سے قرض کی وپسی اور سود کی اقساط کی ادائیگی سے بھی بجٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، معاشی حالات انتہائی پریشان کن ہیں اور اس پر حکومت مزید 6 ارب ڈالر کا قرضہ لینے جا رہی ہے اور اگر اسکے لیے روپے کی قدر میں مزید کمی کی گئی تو اگلا پچھلا قرض اور کی سود کی اقساط بیٹھے بٹھائے بڑھیں گی۔ جب معاشی حالات زوال پذیر ہوں تو ریونیو بڑھانا ناممکن ہو جاتا ہے، حکومت کی جانب سے دھونس، دھمکی اور زبردستی پالیسیاں مسلط کرنے سے کاروباری فضا پہلے ہی انتہائی خراب ہو چکی ہے، قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں، بیروزگاری اور مہنگائیکی وجہ سے گاہک نظر نہیں آتا، کسی بھی شاپنگ سینٹر میں چلے جائیں تو وہاں الو بولتے نظر آتے ہیں۔ ایسے حالات میں دکانداروں نے ملازموں کو فارغ کرنا شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ ان کی تنخواہ تک ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے، جس کی وجہ سے بیروزگاری بڑھی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ اگر یہی صورت حال مزید کچھ عرصہ جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں جب سڑکوں پر احتجاج شروع ہو جائے گا، پھر کیا ہو سکتا ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ گو کہ انویسٹمنٹ پر شرح سود اچھی ہے لیکں پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سےسرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے جس کی وجہ سے وہ شارٹ ٹرم سرمایہ کاری کرتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ مارکیٹ عروج پر ہے تو بجائے اسے سہارہ دینے کے اصل زر و منافع سمیٹ کر چلتے بنتے ہیں۔ مشکل معاشی حالات اور ریونیو شارٹ فال کی وجہ سے منی بجٹ لانے کی خبریں گرم ہیں، اگر منی بجٹ لایا گیا تو حکومت کے پاس سوائے ٹیکس بڑھانے اور مہنگائی کرنے کے کوئی حل ہے ہی نہیں، اگر ایسا ہوا تو عوام کی کمر ٹوٹ جائے گی، ملک بھر میں ٹینشن لیول مزید بڑھے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ درآمدی پالیسی میں نرمی کی جائے اور شناختی کارڈ کی شرط کو واپس لے تاکہ امیر طبقہ خریداری کرے، وہ خریداری کرے گا تو ہی محصولات بڑھیں گی، ریونیو بڑھے گا تو ہی معیشت کو سنبھالا ملے گا۔ ایکسپورٹس/درآمدات کو فلڈ گیٹ لگا کر اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وہ کامیاب ہو گئی ہے تو وہ خود اپنے پیر کاٹ رہی ہے، عام آدمی تو اب سوائے گوبھی آلو کے کچھ کما کھا نہیں سکتا، حکومتی پالیسیوں اور حالیہ آٹے، چینی اور خوردنی اشیاء کی قیمتوں کے بحران نے ان کی رہی سہی قوتِ خرید ختم کر کے رکھ دی ہے، جس کی وجہ سے ملک کی چلتی دکان بند ہو کر رہ گئی ہے، حکومت نے ایکسپورٹس/درآمدات میں چند ارب ڈالر کی کمی کی خاطر ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے لیکن حکومت کی یہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، وقت آ گیا ہے کہ حکومت ٹیکس قوانین میں نرمی کر کے بڑھائی جانے والی درآمدی ریگولیٹری ڈیوٹیوں اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹیوں میں کمی لائے، شناختی کارڈ کی شرط کو واپس لے تاکہ امیر طبقہ ملک کی دکان چلانے کا بندوبست کرے، اگر حکومت ایسا نہیں کرے گی تو ان کا کیا جاتا ہے وہ بیٹھ کر کھاتے رہیں گے اور وہ وقت دور نہیں کہ جب آپ کی حکومتی دکان بند ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔
 
آخری تدوین:
Top