علم ، معرفت اور خود کلامی

جسم مادی دنیا میں روح کی سواری ہے۔۔۔۔ جبکہ روح امر ربی سے ہے ۔۔۔ جسم اور روح کا ملاپ شعور کو جنم دیتا ہے ۔۔۔ اس شعور کو نفس کہتے ہیں۔۔۔ بغیر روح و بدن کے ملاپ کے نفس وجود نہیں رکھتا۔۔۔

نفس کی موجود گی روح کے عالم مادہ میں سفر کی سہولت کاری کرتی ہے۔۔۔ نفس روح و بدن کی مجموعے کو اسکا ادارک اور اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔۔۔ نفس کو ڈائیور کہہ سکتے ہیں۔۔۔ اب اگر روح کی حکومت ہو تو بندہ مومن ، اور اگر نفس کی حکومت ہو تو بندہ بھٹکا ہوا اور مانند جانور۔۔۔ نفس نے چونکہ عالم مادہ میں کام کرنا ہوتا ہے اس لئے کئی بار اُس کی توجہ کا محور عالم مادیت بن کر رہ جاتا ہے لیکن اگر روح طاقتور ہو جو صرف اللہ کی عطا سے ہی ممکن ہے اور نفس کو کنٹرول رکھے تو وقت تخلیق سے شروع ہوا سفر ،اس مادی مرحلے میں بھی تیزی سے جاری رہتا ہے۔۔۔۔۔
نفس کی تین بڑی قسمیں ہیں۔ اول نفس امارہ ، یہ بے لگام ہے۔۔۔ من مانی کرتا ہے۔۔۔ اس ڈرائیور نے سوار کو بے اہمیت کررکھا ہے من مانیان کرتا ہے اور مادی عیاشیوں کی حرس میں راہ غلط پر چلتا ہے۔۔۔

دوسری قسم نفس لوامہ ہے۔۔۔ یہ روح کی بات بھی مانتا ہے اور جسم کی خواہشات کا بھی کہنا مانتا ہے۔۔۔ یہ کنفیوز نفس ہے ۔۔۔۔جو نیکی اور بدی کے درمیان ڈولتا ہے۔۔

تیسری قسم نفس مطمئینہ ہے۔۔۔ یہ نفس وہ نفس ہے جس سے متعلق قرآن پاک میں آیا کہ
اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔

یہ نفس مطمئنہ اولیاء اللہ کا نفس ہے یہی ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔ اس کے بعد نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ یہ سب ہی نفس مطمئنہ کی اعلیٰ حالتیں اور صفتیں
ہیں اس مقام پر بندہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہتا ہے

معرفت کا مطلب اپنے رب کو پہچاننا ہے۔۔۔ جوں جوں نفس معرفت پاتا جاتا ہے۔۔ وہ اپنی ترقی کے مراحل طہ کرتا جاتا ہے۔۔۔۔ علم سے حاصل کردہ ادراک معرفت کی بدولت عین القین کی منازل پا کر آئین فطرت کا پابند ہو جاتا ہے۔۔۔
جو چیزیں حواس کی زد میں ہوں اُن کی پہچان علم کرواتا ہے ۔۔۔ اللہ رب العزت بے مثل ہے۔۔۔ اپنی ذات ، اپنی صفات میں بے مثل۔۔۔ اللہ رب العزت زمان و مکان و مادہ و روح کا خالق ہے۔۔۔ اس کی ذات تک علم کی بدولت پہنچا تو جا سکتا ہے لیکن اُس کے وجود و صفات کا ادراک اُس ذات باری تعالٰی کی عطا سے ہی ممکن ہے۔۔ اور اس عطا کو ہی معرفت کہا جاتا ہے ۔۔۔

کچھ خیالات کئی دن سے ذہن کا گھیرائو کئے ہوئے تھے آج انہیں تحریر میں لایا ہوں ۔۔۔ امید ہے آپ میری رائے پر اپنی فیڈ بیک ضرور دین گے۔۔۔

1۔ سائیکل چلانے والے کے لئے تیز رفتاری کی کیفیت ، 1000 سی سی موٹر سائیکل چلانے کے لئے تیز رفتاری اور ریسنگ کار چلانے والے کے لئے تیز رفتاری کی کیفیات اور معنی الگ ہیں۔۔۔

2۔ ایک چیونٹی کے لئے زمان و مکان کا نظریہ وہ نہیں جو ایک 6 فٹ کے انسان کے لئے ہے۔۔۔ انسان کے چند میٹر چیونٹی کے لئے کلومیٹر بن جاتے ہیں۔۔

3۔ ایک بلی انسان کے مقابلے میں میچورٹی اور گروتھ کی منازل کئی گنا تیزی سے پار کر جاتی ہے۔۔۔۔ ایک انسان کا بچہ جب ایک سال کا ہوتا ہے تو اُس وقت بلی اُس کے مقابلے میں8 سال کی عمر کا ہو چکا ہوتا ہے۔۔۔

4۔ زمین کا ایک سال 365 دن اور مرکری کا ایک سال 88 دن کا ہوتا ہے۔۔۔ یعنی مرکری پر رہنے والا زمین والے اپنے ہم عمر سے زیادہ جلدی عمر رسیدہ ہو جائے گا۔۔۔

5۔ کلومیٹر کا راستہ ایک پیدل چلنے والے، ایک سائیکل سوار، ایک موٹر سائیکل اور ایک گاڑی پر طے کرنے والے کے لئے مختلف محسوسات اور کیفیات اور زمان و مکان کے مختلف تجربات اور حقیقتون کا ادراک لائے گا۔۔۔

پہلا خیال معرفت با ذریعہ منازل لگائو یا عشق ہے۔ یعنی جتنی محبت منزل سے ہو گی۔۔۔ روح بھی اُتنی فوکس اور طاقتور ہو گی۔۔۔ نیت کی صداقت اور پھر عمل کی مخلصی مجاہدات کو آسان اور منزل کو قریب کر دیتی ہے۔۔۔ ۔۔

دوسرا خیال معرفت با ذریعہ علم و تجربات ہے۔۔۔۔

تیسرا خیال معرفت با ذریعہ جدوجہد اخلاق و کردار ہے۔۔۔

چوتھا خیال ,خیال کی پرواز اور ظرف کا مقام ظاہر کرتا ہے ۔۔۔ جتنی مضبوط نیت پھر جتنا مضبوط تعلق ، اُتنی ہی قربت ۔۔۔ اور جتنی قربت اُتنی ہی نذدیک منازل

پانچوان خیال بھی مُرشد یا استاد کی اہمیت ظاہر کرتا ہے۔۔۔ مرشد جتنا کامل اُتنی جلدی منزل ۔۔

BTV: علم ، معرفت اور خود کلامی
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ماشاءاللہ۔ علم و معرفت میں ڈوبی ہوئی ایک عمدہ تحریر۔ بہت خوب محمد بلال بھائی۔
بے شک اس جہانِ رنگ و بوُ میں اگر کوئی چیز صحیح معنوں میں اپنا حقیقی اور کامل وجود رکھتی ہے تو وہ اللہ رب العزت کی ذات پاک ہے۔ باقی ہر چیز نسبتی ہے۔ فریم آف ریفرنس بدلنے سے محسوسات، کیفیات اور زمان و مکاں کی تعریف بھی بدل جاتی ہے۔ اللہ رب العزت آپ کو سدا یونہی علم و دانش کی قندیلیں روشن کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔
 
Top