سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا

فرقان احمد

محفلین
بھائی، یہ فیصلہ اگست کو ہی کر لیا گیا تھا کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا۔ بس نوٹیفکیشن جاری کرتے وقت ٹیکنیکل غلطیاں ہوئیں جو چیف جسٹس نےپکڑ لی اور یوں حکومت کو ذلیل ہونے کا موقع دیا۔ :)
جناب باجوہ کو کافی حد تک متنازع بنا دیا گیا ہے اور ان کی طلبی کا پروانہ ہی دراصل ایک بہت بڑی خبر ہے، بالخصوص جس طرح سے ان کے خیر خواہوں کو وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں اور پڑیں گی، یہ بھی اہم معاملہ ہے۔ اپنے حصے سے بڑھ کر طلب، اقتدار کی بے جا تمنا، اور مستقبل میں کسی امکانی کوتاہی کے حوالے سے ممکنہ شرمندگی کے تناظر میں بھی معاملات دیکھے جائیں گے یعنی اگر عسکری حوالے سے کچھ بھی غلط ہو گیا تو باجوہ صاحب بے پناہ دباؤ میں آ جائیں گے۔ ایک فرد جو بظاہر بے وجہ ہی توسیع کا طلب گار ہو، اس سے یہ سوال جواب کر لینا ہی اس کے لیے سبکی کا باعث ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایکسٹیشن مل بھی گئی تو باجوہ ڈاکٹرائن پر سوال جواب کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا جائے گا۔ یعنی وہ پہلے کی طرح بہت زیادہ بااختیار نہیں رہیں گے، بالخصوص، اگر معاشی حالات اسی طرح دگرگوں رہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواں کٹا کھل گیا جے :)

وفاقی کابینہ نے ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کردی، شفقت محمود
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 26 نومبر 2019

اسلام آباد: وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے پاکستان ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کردی ہے اور آرٹیکل میں الفاظ 'مدت میں توسیع' کا اضافہ کیا گیا ہے۔

کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر شفقت محمود نے شیخ رشید اور معاون خصوصی شہزاد اکبر کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 'اجلاس میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا، آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت وزیر اعظم کا یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کو ایڈوائس کریں، اس طریقے پر عمل کیا گیا اور صدر نے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری دی۔'

انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم کے پاس یہ صوابدیدی اختیار بھی ہے کہ وہ حالات کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کر سکتے ہیں، انہوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں، اس معاملے میں خاص طور پر جس چیز کو مدنظر رکھا گیا وہ یہ کہ خطے میں غیر معمولی حالات ہیں اور بھارت کی طرف سے کئی محاذوں پر خطرات ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت بار بار پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور کوئی جھوٹا آپریشن کر سکتا ہے، ایل او سی پر فائرنگ کا تبادلہ غیر معمولی صورتحال ہے، مقبوضہ کشمیر میں 113 دن سے جاری کرفیو بھی غیر معمولی حالات ہیں جبکہ بھارت دریاؤں کا پانی روکنے کی بھی دھمکیاں دے رہا ہے۔'

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ 'وفاقی کابینہ نے پاکستان ڈیفنس سروسز کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کردی ہے اور ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 255 میں لفظ 'مدت میں توسیع' کا اضافہ کیا گیا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی ریگولیشن 255 کے تحت توسیع دی گئی تھی۔'

واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت آج ہونے والے کابینہ اجلاس میں 16 نکاتی ایجنڈا زیر غور آنا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن کی معطلی کے بعد اجلاس میں طے شدہ ایجنڈے کو ملتوی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے حکم نامے پر تفصیلی غور کیا گیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن کل (بدھ) تک کے لیے معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کیے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کل تو آپ ن لیگیوں نے جسٹس کھوسہ کو ابو بنا کر مٹھائیاں کھا لیں تھی۔ آج اگر کھوسہ صاحب نے حتمی فیصلہ میں جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن برقرار رکھی تو پھر کیا کھائیں گے؟ :)
ایک دفعہ موقع دے کر تو دیکھو !!
وغیرہ وغیرہ
جی آ۔ جی آ۔
لیکن 'بی آر ٹی کیوں نہیں بن پائی' پر آج ڈھیروں ڈھیر روشنی ضرور پڑ گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
EKU0qA9X0AAJbct.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
آرمی چیف توسیع کیس؛ ماضی میں جرنیل دس دس سال توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، چیف جسٹس
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے

1896674-generalqamerjawedbajwa-1574831914-199-640x480.jpg

درخواست گزار ریاض حنیف راہی اور اٹارنی جنرل انورمنصور عدالت میں پیش فوٹو:فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست زندہ رکھی

چیف جسٹس نے کہا کہ ریاض حنیف راہی صاحب آپ کہاں رہ گئے تھے، کل آپ تشریف نہیں لائے ،ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی۔ ریاض حنیف راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں،آپ تشریف رکھیں۔

کابینہ ارکان کا جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے

اٹارنی جنرل انورمنصور بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم نے کل چند سوالات اٹھائے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کچھ وضاحت پیش کرنا چاہتا ہوں، کل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی، کابینہ سے متعلق نقطہ اہم ہےاس لیے اس پربات کروں گا، رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے، حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا

وقت مقرر کرنے پر ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جا چکی ہے، رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے، اگرکابینہ سرکولیشن میں وقت مقررنہیں تھا تواس نقطے کوچھوڑدیں، اگر حالات پہلے جیسے ہیں تو قانون کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں۔

صدر مملکت مسلح افواج کا سربراہ تعینات کرتے ہیں

اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدرمملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں جو وزیراعظم کی سفارش پرافواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ازسرنواورتوسیع کے حوالے سے قانون دکھائیں جس پرعمل کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے،کیا تعیناتی کی مدت کابھی ذکر ہے اور کیا ریٹائرڈ جنرل کوآرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ شاید ریٹائر جنرل بھی بن سکتا ہو لیکن آج تک ایسی کوئی مثال نہیں، جبکہ مدت تعیناتی نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے اور آرمی ریگولیشن آرمی ایکٹ کے تحت بنائے گئے ہیں۔

5،7 جنرل دس دس سال توسیع لیتے رہے، کسی نے نہیں پوچھا

چیف جسٹس نے کہا کہ انتہائی اہم معاملہ ہے اور اس میں آئین خاموش ہے، 5،7 جنرل دس دس سال تک توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، آج یہ سوال سامنے آیا ہے،اس معاملے کو دیکھیں گےتاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے، تاثر دیا گیا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے۔

آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا گیا

جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو صفحات آپ نے دیئے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں۔

آرمی چیف کی مدت کا ذکر نہیں

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے، کیا آرمی چیف 3 سال بعد گھر چلا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا دستاویزات کے ساتھ آرمی چیف کا اپائنٹمنٹ لیٹر ہے، جنرل قمر باجوہ کی بطورآرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے، کیا پہلی بارجنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کے لئے تھی، آرمی چیف کی مدت تعیناتی طے کرنے کا اختیار کس کو ہے۔

تعیناتی کی مدت پرقانون خاموش

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت پرقانون خاموش ہے اور آرٹیکل 243 کے تحت کابینہ سفارش نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو 2 بار معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ تعیناتی میں توسیع بھی شامل ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریٹائرمنٹ 2 اقسام کی ہوتی ہے، ایک مدت ملازمت پوری ہونے پراوردوسری وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ، ہمیں بتائیں آرمی چیف ریٹائرکیسے ہوگا، نارمل ریٹائرمنٹ توعمر پوری ہونے پرہوجاتی ہے، آرمی ریگولیشن کی شق 255 کوریٹائرمنٹ کے معاملے کےساتھ پڑھیں تو صورتحال واضح ہوسکتی ہے۔

سابق فروغ نسیم بھی عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جنگی صورتحال میں کوئی ریٹائرہورہا ہو تو اسے کہتے ہیں آپ ٹہرجائیں۔

سارے آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 اے کہتا ہے اگر جنگ لگی ہو تو چیف آف آرمی اسٹاف کسی کی ریٹائرمنٹ کوروک سکتا ہے، یہاں تو آپ چیف کو ہی سروس میں برقراررکھ رہے ہیں، قانون کے مطابق آرمی چیف دوران جنگ افسران کی ریٹائرمنٹ روک سکتے ہیں، لیکن حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو روکنا چاہتی ہے، آپ کا سارا کیس 255 اے کے گرد گھوم رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1948 سے آج تک تمام آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے اور ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی نہیں ہوتی۔

عدالت میں قہقے

ایک موقع پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا جس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے۔ اس پرعدالت میں قہقے گونج اٹھے۔

رات تک دلائل دینے کے لیے تیار

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا 3 سالہ مدت کے بعد آرمی چیف فوج میں رہتا ہے یا گھر چلاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی افسران سروس کی مدت اور مقررہ عمر کو پہنچنے پرریٹائر ہوتے ہیں، قانون سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تو رات تک دلائل دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔

توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آئینی عہدے پرتوسیع آئین کے تحت نہیں،عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی، بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔

سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت میں دن ایک بجے تک وقفہ ہوگیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکم نامہ معطل کرتے ہوئے اسے عوامی اہمیت کا معاملہ قراردیتے ہوئے ازخود نوٹس لیا تھا۔
 
یہاں ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے میں صرف ایک بات کہوں گا
قصور کسی کا بھی ہے ایک ادارے کو جس سے قومی سلامتی وابستہ ہے اس کو متنارزع بنا دیا گیا ہے
سیاسی وابستگی کی بدولت نون لیگ والے شادیانے بجا رہے ہیں اس طرح کے اقدامات سے ملک کمزور ہو گا
کیا جسٹس کھوسہ میں اتنی اخلاقی جراءت ہے کہ نواز کے مقدمے کے بارے میں رائے دیں
وکلاء کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی بدمعاشی بھی شروع ہے
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
سیاسی وابستگی کی بدولت نون لیگ والے شادیانے بجا رہے ہیں اس طرح کے اقدامات سے ملک کمزور ہو گا
کیا جسٹس کھوسہ میں اتنی اخلاقی جراءت ہے کہ نواز کے مقدمے کو کے بارے میں رائے دیں
جسٹس کھوسہ ماضی میں سپریم کورٹ حملہ کیس میں نواز شریف کا وکیل رہ چکا ہے۔ جب عدلیہ نے حال ہی میں نواز شریف کو ملک سے فرار کر وایا تو وزیر اعظم نے عدلیہ کو کھری کھری سنائی۔ جس کا بدلہ اب بدمعاشی کرکے لیا جا رہا ہے
 
جب عدلیہ نے حال ہی میں نواز شریف کو ملک سے فرار کر وایا تو وزیر اعظم نے عدلیہ کو کھری کھری سنائی۔
واقعاتی طور پر یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ نواز شریف کو خود وزیر اعظم نے جانے کی اجازت دی۔ بعد میں یوتھیوں کا ردعمل آیا تو 7 ارب کی غیر قانونی شرط عاید کی۔ چیف جسٹس پر غلط الزام لگایا اور ان کا جواب سن کر کھسیانے سے ہوگئے۔ پھر میڈیکل رپورٹس کو غلط قرار دے دیا اور اپنے ڈاکٹروں، بشمول یاسمین راشد اور شوکت خانم کے ڈاکٹروں پر بداعتمادی کا اظہار کردیا۔

چیف کی مدت میں توسیع کا اختیار صدر کے پاس ہے، نمائشی ہی سہی۔ لیکن اس نمائشی اختیار کو بھی اپنے غرور کے زعم میں اٹھاکر پھینک دیا اور خود نوٹیفیکیشن جاری کیا۔
 
Top