سارے جہاں کا مالک رب کے سوا نہیں ہے--برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
--------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
---------------
سارے جہاں کا مالک رب کے سوا نہیں ہے
دنیا میں کون ہے جو اُس کا گدا نہیں ہے
----------------
مانگو فقط خدا سے دینے پہ وہ ہے قادر
غیروں کے در پہ جانا رب سے وفا نہیں ہے
-----------------
مانگو اگر بتوں سے جو خود نہ ہِل بھی پائیں
ہے بات سوچنے کی آتی حیا نہیں ہے
----------------
محبوب بے وفا تھا اس نے مجھے ہے چھوڑا
لیکن مرے وہ دل سے اب تک گیا نہیں ہے
----------------
دیتا تھا دکھ ہزاروں سہتا رہا ہوں پھر بھی
میں نے کسی سے شکوہ اُس کا کیا نہیں ہے
-----------------
پیتے ہیں سب خوشی سے یہ زہر زندگی کا
کوئی نہیں ہے ایسا جس نے پیا نہیں ہے
--------------
دنیا عجب جگہ ہے جس کو سمجھ نہ پایا
اس کو سزا ہے ملتی جس کی خطا نہیں ہے
--------------
مانا یہاں پہ دکھ ہیں ان کی مگر دوا ہے
وہ درد ہی نہیں ہے جس کی شفا نہیں ہے
-----------------
رب کے حضور جھکنا ہے زندگی کا مقصد
پائے گا اجر کیسے جب وہ جھکا نہیں ہے
----------------
ارشد کے دل کو بھائی دنیا نہیں کبھی بھی
اس کا تو دل کبھی بھی اس میں لگا نہیں ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
سارے جہاں کا مالک رب کے سوا نہیں ہے
دنیا میں کون ہے جو اُس کا گدا نہیں ہے
---------------- صرف اس جہاں تک محدود ہوتی لگ رہی ہے خدا کی حاکمیت، پہلے مصرع میں کچھ ایسے الفاظ ہوتے کہ جس سے پوری کائینات دائرے میں آ جاتی تو بہت بہتر ہوتا۔

مانگو فقط خدا سے دینے پہ وہ ہے قادر
غیروں کے در پہ جانا رب سے وفا نہیں ہے
----------------- دینے کی جگہ بخشنے وغیرہ کے الفاظ ہوں تو اچھا ہے، اور 'وہ ہے' کی جگہ 'وہی ہے' ٹھیک لگتا ہے

مانگو اگر بتوں سے جو خود نہ ہِل بھی پائیں
ہے بات سوچنے کی آتی حیا نہیں ہے
---------------- الفاظ کی ترتیب اچھی نہیں ہے۔

محبوب بے وفا تھا اس نے مجھے ہے چھوڑا
لیکن مرے وہ دل سے اب تک گیا نہیں ہے
---------------- محبوب میرا' ہوتا تو زیادہ واضح تھا۔
اس طرح بھی اگر رکھیں تو دوسرا ٹکڑا 'جس نے ہے مجھ کو چھوڑا' یا 'اس نے ہی مجھ کو چھوڑا' بہتر لگتا ہے
اور دوسرا مصرع
لیکن وہ میرے دل.... بہتر رہے گا

دیتا تھا دکھ ہزاروں سہتا رہا ہوں پھر بھی
میں نے کسی سے شکوہ اُس کا کیا نہیں ہے
----------------- پہلے مصرع میں کون دکھ دیتا تھا اس کا بھی ذکر ہونا چاہیے۔
دیتا تھا دکھ جو لاکھوں
یا
دیتا تھا دکھ وہ لاکھوں
'وہ' استعمال کریں تو دوسرے مصرعے میں 'اس' کی جگہ 'جس' لایا جائے گا

پیتے ہیں سب خوشی سے یہ زہر زندگی کا
کوئی نہیں ہے ایسا جس نے پیا نہیں ہے
-------------- پہلا مصرع تھوڑا حقیقت کے خلاف لگتا ہے کہ سب خوشی سے تو نہیں پیتے ہوں گے
شاید یوں بات بن جائے
پڑتا ہے پینا سب کو یہ زہر زندگی کا
لیکن دوسرے مصرع میں 'ہے' کی جگہ 'ہو' کا محل لگتا ہے۔ الفاظ بدل کر شاید درست ہو جائے

دنیا عجب جگہ ہے جس کو سمجھ نہ پایا
اس کو سزا ہے ملتی جس کی خطا نہیں ہے
-------------- دو لخت لگتا ہے، 'یہاں' وغیرہ ہوتا تو پہلے سے ربط بن جانا تھا

مانا یہاں پہ دکھ ہیں ان کی مگر دوا ہے
وہ درد ہی نہیں ہے جس کی شفا نہیں ہے
----------------- پہلے مصرعے کا دوسرا ٹکڑا
لیکن دوا ہے ان کی
کیا جا سکتا ہے کہ 'ہے' دونوں مصرعوں کے اختتام پر آتا ہے
درد کی شفا کچھ عجیب لگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ پہلے سے ربط بھی کمزور ہے یا ہے ہی نہیں

رب کے حضور جھکنا ہے زندگی کا مقصد
پائے گا اجر کیسے جب وہ جھکا نہیں ہے
---------------- دوسرا مصرع
پائے گا اجر کیا جب کوئی.... بہتر ہو سکتا ہے

ارشد کے دل کو بھائی دنیا نہیں کبھی بھی
اس کا تو دل کبھی بھی اس میں لگا نہیں ہے
۔۔۔ درست
 
الف عین
عظیم
( تصحیح کے بعد دوبارا)
اس کائنات کا رب اس کے سوا نہیں ہے
دنیا میں کون ہے جو اُس کا گدا نہیں ہے
-----------یا
ہاتھوں میں میرے یا رب کچھ بھی بچا نہیں ہے
تیرے سوا کسی کا اب آسرا نہیں ہے
---------------
ہے بخشنے پہ قادر جتنا بھی جس کو چاہے
غیروں کے در پہ جانا رب سے وفا نہیں ہے
-----------------
ایسے بھی ہیں جہاں میں اصنام سے جو مانگیں
اب تک بتوں سے ان کو کچھ بھی ملا نہیں ہے
------------------
محبوب بے وفا تھا جس نے ہے مجھ کو چھوڑا
لیکن وہ میرے دل سے اب تک گیا نہیں ہے ( رہتا ہے دل میں میرے اب تک گیا نہیں ہے )
----------------
دیتا تھا دکھ وہ لاکھوں سہتا رہا ہوں پھر بھی
جس کا کسی سے شکوہ میں نے کیا نہیں ہے
-------------
پینا پڑے گا سب کو یہ زہر زندگی کا
جس نے پیا نہ ہو وہ مجھ کو ملا نہیں ہے
--------------
دنیا عجب جگہ ہے جس کو سمجھ نہ پایا
اس کے لئے سزا ہے جس کی خطا نہیں ہے
-------------
ایسی جگہ ہے دنیا جس میں ہزار غم ہیں
ایسا تو دکھ نہ ہو گا جس کی دوا نہیں ہے
-----------------
رب کے حضور جھکنا ہے زندگی کا مقصد
پائے گا اجر کیا جب کوئی جھکا نہیں ہے
----------------
ارشد کے دل کو بھائی دنیا نہیں کبھی بھی
اس کا تو دل کبھی بھی اس میں لگا نہیں ہے
۔۔۔------------
 
آخری تدوین:
خلیل الرحمن
خلیل بھائی اگر یہ مطلع آپ کی نظر می ٹھیک ہے تو میں تدوین کر دیتا ہوں
-----------
ہاتھوں میں میرے رب کے کس کی غذا نہیں ہے
دنیا میں کون ہے جو اس کا گدا نہیں ہے
------------------
 
خلیل الرحمن
بھائی یہ کیسا ہے
-------------------
ہاتھوں میں میرے یا رب کچھ بھی بچا نہیں ہے
تیرے سوا کسی کا اب آسرا نہیں ہے
---------------یا
دنیا میں میرا کوئی تیرے سوا نہیں ہے
سہہ لوں دکھ یہ سارے گر تُو خفا نہیں ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اس کائنات کا رب اس کے سوا نہیں ہے
دنیا میں کون ہے جو اُس کا گدا نہیں ہے
-----------یا
ہاتھوں میں میرے یا رب کچھ بھی بچا نہیں ہے
تیرے سوا کسی کا اب آسرا نہیں ہے
--------------- پہلا مطلع بہتر لگتا ہے، صرف 'اس' کا دوہرایا جانا ختم ہو جائے تو خوب ہے۔
کون و مکاں کا مالک رب کے سوا نہیں ہے
بہت بہتر ہو سکتا ہے

ہے بخشنے پہ قادر جتنا بھی جس کو چاہے
غیروں کے در پہ جانا رب سے وفا نہیں ہے
----------------- درست ہو گیا

ایسے بھی ہیں جہاں میں اصنام سے جو مانگیں
اب تک بتوں سے ان کو کچھ بھی ملا نہیں ہے
------------------ اصنام کچھ الگ ہی لگ رہا ہے
ایسے بھی ہیں جہاں میں جو بت سے مانگتے ہیں
وغیرہ کیا جا سکتا ہے اور اسی لحاظ سے دوسرے میں بھی الفاظ بدلے جا سکتے ہیں

محبوب بے وفا تھا جس نے ہے مجھ کو چھوڑا
لیکن وہ میرے دل سے اب تک گیا نہیں ہے ( رہتا ہے دل میں میرے اب تک گیا نہیں ہے )
---------------- لیکن کے ساتھ درست لگتا ہے

دیتا تھا دکھ وہ لاکھوں سہتا رہا ہوں پھر بھی
جس کا کسی سے شکوہ میں نے کیا نہیں ہے
------------- شکوہ کسی سے جس کا.... بہتر لگ رہا ہے

پینا پڑے گا سب کو یہ زہر زندگی کا
جس نے پیا نہ ہو وہ مجھ کو ملا نہیں ہے
-------------- ملا نہیں، دوسرے معنی بھی رکھتا ہے یعنی ملاقات کے، مگر آپ کی مراد ہے کہ آپ نے کہیں نہیں دیکھا۔
کوئی نہ ایسا گزرا، جس نے پیا نہیں ہے
بھی چل سکتا ہے مگر آپ خود بھی کچھ سوچیں

دنیا عجب جگہ ہے جس کو سمجھ نہ پایا
اس کے لئے سزا ہے جس کی خطا نہیں ہے
------------- دنیا کی مناسبت سے دوسرے مصرع میں 'یہاں' ہونا چاہیے تھا
یعنی اس کو بھی یہاں سزا ملتی ہے جس کی خطا نہیں ہے

ایسی جگہ ہے دنیا جس میں ہزار غم ہیں
ایسا تو دکھ نہ ہو گا جس کی دوا نہیں ہے
----------------- لیکن وہ دکھ نہ ہو گا.... بہتر ہو گا
اس کے علاوہ اس شعر کی جگہ بھی بدل دیں کہ اس کے پچھلے شعر میں بھی دنیا کی بات کی گئی ہے۔ دونوں میں وقفہ لے آئیں

رب کے حضور جھکنا ہے زندگی کا مقصد
پائے گا اجر کیا جب کوئی جھکا نہیں ہے
---------------- ٹھیک

ارشد کے دل کو بھائی دنیا نہیں کبھی بھی
اس کا تو دل کبھی بھی اس میں لگا نہیں ہے
۔۔۔---------- درست تو کہا تھا میں نے لیکن 'ابھی بھی' کسی ایک جگہ سے ہٹایا جا سکے تو بہتر بہتر ہو
 
Top