نواز شریف کو سزا دباؤ پر سنائی، احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو جاری

جاسم محمد

محفلین
جج ویڈیو اسکینڈل: ’یہ مرحلہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات میں مداخلت کرے‘
203898_2689033_updates.jpg

فوٹو: فائل
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی بینچ میں موجود رہے۔

چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ تفصیلی فیصلہ ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے، میڈیا اور فریقین فیصلے کو ویب سائٹ پر دیکھیں۔

پانچ اہم سوال

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس کیس میں 5 اہم سوال تھے۔
  • پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ویڈیو مستند ہے؟
  • دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر ویڈیو مستند ہے تو اسے کس فورم پر کیسے ثابت کیا جائے؟
  • تیسرا سوال یہ تھا کہ ویڈیو کے نواز شریف کے کیس پر کیا اثرات ہوں گے؟
  • چوتھا سوال یہ تھا کہ ویڈیو کے جج کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
  • پانچواں سوال یہ تھا کہ جج ارشد ملک کے رویے کو کس فورم پر دیکھا جائے گا؟
سپریم کورٹ کے 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ مرحلہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات میں مداخلت کرے، بالخصوص متعلقہ ویڈیو کا تعلق اسلام آباد میں زیر التوا اپیل سے ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو لیکس کے معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش شروع کر دی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن کے قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں جو ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت احتساب عدالت نمبر 2 میں تعینات ہوئے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ ارشد ملک کو اب تک لاہور ہائی کورٹ نہیں بھجوایا گیا ہے اس لیے محکمانہ کارروائی کا ابھی آغاز نہیں ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ویڈیو مستند شہادت ثابت ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ یا نواز شریف سیمت فریقین اسے اضافی شہادت کے طور پر لا سکتے ہیں، 428 سی آر پی سی کے قانون کے تحت اس ویڈیو کو شہادت کے طور پر لایا جا سکتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج کے کنڈکٹ کے قابل اعتراض ہونے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ شہادتیں یا ٹرائل جج کے کنڈکٹ کے متاثر نہ ہونے کا فیصلہ کرے گی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا اختیار ہے کہ وہ شہادتوں کا دوبارہ خود جائزہ لے، اپیلوں کو میرٹ پر دستیاب شہادتوں سے فیصلہ کرے۔

چیف جسٹس کے تحریر کردہ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کنڈکٹ متاثر ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائیکورٹ فریقین کے دلائل سننے کے بعد دوبارہ ٹرائل کے لیے فاضل عدالت کو بھیج سکتی ہے لیکن ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کمیشن بنانے کی آئینی درخواستیں نمٹا دی گئی ہیں۔


سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ارشد ملک نے بیان حلفی اور پریس ریلیز میں خود تسلیم کیا کہ وہ بلیک میل ہوئے، ارشد ملک ملزم فریق کے ہاتهوں بلیک میل ہوئے، جج کا تسلیم کرنا ہمارے لیے چونکا دینے کے مترادف ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج کے کنڈکٹ سے ملک کے ہزاروں ایماندار اپ رائٹ اور شفاف ججوں کے سرشرم سے جهک گئے ہیں، امید ہے ارشد ملک کو ان کے اصل محکمے میں بھیج کر انضباطی کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ویڈیو اور ٹیپ اسوقت تک بطور شہادت پیش نہیں ہو سکتی جب تک یہ اصل ثابت نہ ہو جائے، ہائی کورٹ میں اگر کوئی فریق ویڈیو پیش کرے تو عدالت اس پر فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔

یہ بھی لکھا گیا ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے حلفیہ بیان میں ویڈیو کا اعتراف کیا، کسی بھی ویڈیو کو بطور شہادت قبول کرنا متعلقہ عدالت کا حق ہے، متعلقہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ یہ ویڈیو ایڈٹ شدہ ہے یا حقیقی، ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے، ویڈیو کو عدالت میں چلایا جانا بھی ضروری ہے۔

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ ویڈیو میں موجود اور بولنے والوں کی آواز کی شناخت ہونی چاہیے، ویڈیو کی بحفاظت کسٹڈی اور عدالت میں پیش و ثابت کرنا بہت ضروری ہے، کوئی فریق جو اس کو بطور شہادت پیش کرے اس کو ویڈیو کے تمام متعلقہ معاملات کو ثابت کرنا ہو گا۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کے کردار سے ملک بھر کی عدلیہ کی بدنامی ہوئی، ٹرائل کے دوران جج ملزمان سے ہمدردی رکھنے والوں سے ملتا رہا، جج ارشد ملک نے بلیک میل ہونے کے حوالے سے کسی اعلیٰ اتھارٹی کو نہیں بتایا، جج ارشد ملک نے نہ ہی خود کو ٹرائل سے الگ کیا، جج کے اعتراف سے ہمیں شدید دھچکہ پہنچا اور ججز کے سر شرم سے جھک گئے۔

سپریم کورٹ نے 20 اگست کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بھی لاہور ہائیکورٹ کو جج ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔

ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔

جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔

بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔

ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر 16 جولائی کو سماعت ہوگی۔ اس حوالے سے تین رکنی بنچ قائم کیا گیا جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطاء بندیال شامل ہیں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویڈیو اسکینڈل کیس؛ جج ارشد ملک کو معطل کردیا گیا
شیئر ٹویٹ
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1786528-arshadmalik-1566555872-348-640x480.jpg

ارشد ملک سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ویڈیو سے متعلق تحقیقات کی جائیں گی، رجسٹرار فوٹو:فائل

لاہور: ویڈیو اسکینڈل کیس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ نے معطل کردیا ہے۔

رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کے مطابق احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک نے لاہور ہائیکورٹ رپورٹ کر دیا جس کے بعد انہیں معطل کردیا گیا ہے، جج ارشد ملک کو معطل ہوکر انکوائری کا سامنا کرنا پڑے گا جب کہ ارشد ملک سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ویڈیو سے متعلق تحقیقات کی جائیں گی۔

رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے ایڈمنسٹریٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے باقاعدہ انکوائری کا آغاز کردیا جائے گا اور کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ نے ویڈیو اسکینڈل کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس مرحلے پر ہمارا مداخلت کرنا مناسب نہیں ہوگا، ایک اپیل ہائیکورٹ میں زیر التواء ہے تو ہماری مداخلت ٹھیک نہیں، وییڈیو درست ثابت ہونے پر ہائیکورٹ خود معاملے کا جائزہ لے سکتی ہے اور ویڈیو کا معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھی بھجوا سکتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نو منی ٹریل کے بعد اب نو وڈیو ٹریل!
203857_8181381_updates.jpg

فوٹو فائل—

آج موضوع 3، کالم ایک، ابتدا سپہ سالار سے: مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پچھلے سال سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ میری دو خواہشیں ہیں۔

ایک نومبر 2019 میں مقررہ وقت پر ریٹائر ہوکر گھر والوں کے ساتھ وقت گزاروں، ریٹائرڈ لائف کتابیں پڑھتے، کرکٹ دیکھتے، پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلتے گزاروں۔

دوسری خواہش پاکستان سیکورٹی فری ملک بن جائے، میں پاکستان میں سیکیورٹی کے بنا ویسے ہی پھروں جیسے بچپن، لڑکپن میں پھرا کرتا تھا لیکن گزرے ایک سال میں ملک کے اندرونی، بیرونی حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ نومبر 2019کو ریٹائر ہونے والے جنرل باجوہ کو بہ امر مجبوری ایکسٹینشن لینا پڑ گئی۔

یہ ایک علیحدہ کہانی کہ ایکسٹینشن آفر ہونے کے بعد ان کا ردِعمل کیا تھا، اندرون و بیرون ملک کس کس نے کیا کیا دباؤ ڈالا، انہوں نے فیصلہ کیسے بدلا، مگر اب وہ مزید 3سال کیلئے آرمی چیف، ان کی پہلی خواہش تو پوری نہ ہو سکی بلکہ یہ کہا جائے تو ٹھیک کہ پہلی خواہش ریٹائر ہوکر گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنا، کتابیں پڑھنا، پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلنا تو 3سال کیلئے مؤخر۔

ہاں! اب ان 3سالوں میں سپہ سالار اپنی دوسری خواہش پاکستان کو ’سیکورٹی فری‘ ملک بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں، اللہ کرے وہ کامیاب ہو جائیں، پاکستان پھر سے 60، 70، اسی کی دہائی والا ملک بن جائے۔

اب ذکر جسٹس فائز عیسیٰ ضمنی ریفرنس کا، گو کہ سپریم جوڈیشل کونسل یہ کہہ کر کہ ’’صدر مملکت کو خطوط لکھنا مِس کنڈکٹ نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ضمنی ریفرنس خارج کر چکی‘‘ لیکن 10 صفحاتی فیصلے میں بڑے سنجیدہ سوالات بھی اُٹھا دیئے‘‘۔

یاد رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اہلیہ، بچوں کی برطانیہ میں 3 جائیدادیں انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے اور منی لانڈرنگ الزام پر مبنی اصل ریفرنس موجود ضمنی ریفرنس خارج کرتے ہوئے فیصلے میں چیف جسٹس لکھیں ’’جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آیا، میں نے انہیں بلاکر بتایا آپ کے خلاف یہ ریفرنس، پھر انہیں ریفرنس پکڑا کر کہا، اسے اونچی آواز میں پڑھیں، جسٹس فائز عیسیٰ نے اسے اونچی آواز میں پڑھا، جسٹس فائز عیسیٰ نے مجھ سے ریفرنس کی کاپی مانگی، میں نے کہا قانوناً ریفرنس کی کاپی نہیں دے سکتا، یہ سن کر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا میں ریفرنس کے اہم پوائنٹس نوٹ کر لوں، میں نے اجازت دیدی‘‘۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے مجھ سے پوچھا ’’کیا مجھے صدرِ مملکت کو خط لکھنا چاہئے‘‘ میں نے جواب دیا ’’میں کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ آپ کی اپنی صوابدید مگر میرے پاس بیٹھ کر اپنے خلاف آیا ریفرنس پڑھنے، نوٹس لینے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ صدرِ مملکت کو خط لکھتے ہوئے کہیں کہ انہیں ریفرنس کا معلوم نہ ریفرنس کے مندرجات کا علم، جسٹس فائز عیسیٰ نے سچ نہیں بولا‘‘۔

10صفحاتی فیصلے میں یہ بھی، جسٹس فائز عیسیٰ کے صدر کو لکھے گئے خطوط میں وزیراعظم عمران خان، ان کی بیویوں، بچوں کا تذکرہ اچھا اقدام نہیں تھا، فیصلے میں یہ بھی، بدقسمتی سے جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس سے اجازت لئے بنا چیف جسٹس سے نجی ملاقات کا ذکر اپنے صدارتی ریفرنس کے جواب میں کر دیا۔

ملاقات کے وہ حصے بھی بتا دیئے جو انہیں نہیں بتانا چاہئے تھے اور پھر بات بھی مکمل نہ بتائی، سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے میں یہ بھی، جسٹس فائز عیسیٰ کا یہ الزام غلط کہ سپریم جوڈیشل باقی شکایات، ریفرنسز چھوڑ کر آؤٹ آف ٹرن یہ ریفرنس سن رہی، ایسا نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس 6 شکایات اور، سب پر قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی، جسٹس فائز عیسیٰ کا یہ الزام بھی ٹھیک نہیں کہ سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل ان کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھ رہے۔

جج صاحب اس الزام کے ثبوت نہ دے سکے اور جسٹس فائز عیسیٰ کا یہ کہنا، صدارتی ریفرنس مندرجات حکومت نے لیک کئے، یہ الزام بھی فرضی نکلا، لیکن چونکہ جب ان کے خلاف ریفرنس آیا، تب ان کے سسر، بیٹی بیمار، لہٰذا یہ ممکن انہوں نے جذبات یا ذہنی دباؤ میں آکر صدر کو خطوط لکھ دیئے ہوں، یہ مِس کنڈکٹ نہیں، ضمنی ریفرنس خارج، دوستو! اس حوالے سے بہت باتیں، پھر کبھی۔

اب بات جج ارشد ملک وڈیو کی، آپ کو وہ دن تو یاد ہوگا جب مریم نواز نے چچا شہباز شریف اور پارٹی کی ’اسٹار کاسٹ‘ کے ساتھ پراسرار منہ بناکر یوں وڈیو بھری پریس کانفرنس کھڑکائی، لگا عالمی سازش بے نقاب ہو گئی، پھر مریم نواز کے سینکڑوں ٹویٹس، جلسے، جلوسوں میں ’نواز شریف کو رہا کرو‘ کے نعرے اور پھر قمیص پر نواز شریف کی تصویر لگا کر نیب پیشی پر آنا لیکن اب یہ ڈرامہ ڈراپ سین، دی اینڈ کی جانب رواں دواں ہے کہ وڈیو اصلی یا نقلی۔

اس پر تحقیق کرتے ایف آئی نے جب 36 سوالات پر مشتمل سوالنامہ شہباز شریف کو بھجوایا تو جواب ملا، مجھے کچھ پتا نہیں، جو کچھ معلوم وہ مریم کو، 41 سوالات پر مشتمل سوالنامہ مریم نواز کو بھجوایا گیا تو جواب ملا، مجھے کچھ پتا نہیں جو معلوم وہ ناصر بٹ کو، وڈیو منصوبہ ناصر بٹ کا، وڈیو بنائی ناصر بٹ نے، وڈیو ہمیں دکھائی ناصر بٹ نے، وڈیو پریس کانفرنس تک پہنچائی ناصر بٹ نے، وڈیو ریکارڈ کس نے کی، وڈیو اصلی یا نقلی، وڈیو کی آڈیو میں کوئی تبدیلی ہوئی یا نہیں، پریس کانفرنس کے بعد وڈیو کون لے گیا، اصل وڈیو کہاں، مجھے کچھ پتا نہیں، سب کچھ ناصر بٹ کو پتا، مطلب شہباز شریف نے سارا ملبہ ڈالا مریم پر، مریم نے سارا ملبہ ڈال دیا ناصر بٹ پر اور ناصر بٹ ملک چھوڑ چکا، وہی پانامہ والا چکر، جو کچھ پتا دادا جی اور حسن، حسین کو، دادا جی فوت ہو گئے، حسن، حسین غیر ملکی ہو کر مفرور، لہٰذا نو منی ٹریل، اب وڈیو کہانی میں جو کچھ پتا، وہ ناصر بٹ کو اور وہ مفرور، لہٰذا نو وڈیو ٹریل۔

بتایا یہ ایجنسیوں نے جج ارشد ملک کی غیر اخلاقی وڈیو بناکر انہیں بلیک میل کرتے ہوئے نواز شریف کو سزا دلوائی، نکلا یہ، جج کی غیر اخلاقی وڈیو بنائی میاں طارق نے، وہ خرید لی لیگیوں نے اور اس وڈیو کے زور پر من مرضی کی وڈیوز، پریس کانفرنسیں، ٹویٹ، جلسے، جلوس، مگر جھوٹ تو جھوٹ ہی اور مریم کا جھوٹ تو ہمیشہ ہی پکڑا جائے۔

لہٰذا صورتحال یہ، مریم وڈیو سے انکاری، جسٹس کھوسہ کہہ رہے نواز شریف کی رہائی کیلئے وڈیو فائدہ مند ہو سکتی، مگر کوئی درخواست تو دائر کرے اور جسٹس عمر عطا بندیال کہنے پر مجبور، کیا کریں جنہوں نے کہانی سنائی، وہی کہانی سے لاتعلق ہو گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس پر تحقیق کرتے ایف آئی نے جب 36 سوالات پر مشتمل سوالنامہ شہباز شریف کو بھجوایا تو جواب ملا، مجھے کچھ پتا نہیں، جو کچھ معلوم وہ مریم کو، 41 سوالات پر مشتمل سوالنامہ مریم نواز کو بھجوایا گیا تو جواب ملا، مجھے کچھ پتا نہیں جو معلوم وہ ناصر بٹ کو، وڈیو منصوبہ ناصر بٹ کا، وڈیو بنائی ناصر بٹ نے، وڈیو ہمیں دکھائی ناصر بٹ نے، وڈیو پریس کانفرنس تک پہنچائی ناصر بٹ نے، وڈیو ریکارڈ کس نے کی، وڈیو اصلی یا نقلی، وڈیو کی آڈیو میں کوئی تبدیلی ہوئی یا نہیں، پریس کانفرنس کے بعد وڈیو کون لے گیا، اصل وڈیو کہاں، مجھے کچھ پتا نہیں، سب کچھ ناصر بٹ کو پتا، مطلب شہباز شریف نے سارا ملبہ ڈالا مریم پر، مریم نے سارا ملبہ ڈال دیا ناصر بٹ پر اور ناصر بٹ ملک چھوڑ چکا، وہی پانامہ والا چکر، جو کچھ پتا دادا جی اور حسن، حسین کو، دادا جی فوت ہو گئے، حسن، حسین غیر ملکی ہو کر مفرور، لہٰذا نو منی ٹریل، اب وڈیو کہانی میں جو کچھ پتا، وہ ناصر بٹ کو اور وہ مفرور، لہٰذا نو وڈیو ٹریل۔
بتایا یہ ایجنسیوں نے جج ارشد ملک کی غیر اخلاقی وڈیو بناکر انہیں بلیک میل کرتے ہوئے نواز شریف کو سزا دلوائی، نکلا یہ، جج کی غیر اخلاقی وڈیو بنائی میاں طارق نے، وہ خرید لی لیگیوں نے اور اس وڈیو کے زور پر من مرضی کی وڈیوز، پریس کانفرنسیں، ٹویٹ، جلسے، جلوس، مگر جھوٹ تو جھوٹ ہی اور مریم کا جھوٹ تو ہمیشہ ہی پکڑا جائے۔
لہٰذا صورتحال یہ، مریم وڈیو سے انکاری، جسٹس کھوسہ کہہ رہے نواز شریف کی رہائی کیلئے وڈیو فائدہ مند ہو سکتی، مگر کوئی درخواست تو دائر کرے اور جسٹس عمر عطا بندیال کہنے پر مجبور، کیا کریں جنہوں نے کہانی سنائی، وہی کہانی سے لاتعلق ہو گئے۔
جھوٹ بولنے والی مشین (شریف خاندان) کےنت نئے جھوٹوں پر قوم جس طرح اکٹھی ہوتی ہے وہ ان کے جھوٹ پکڑے جانے پر تتر بتر کیوں ہوجاتی ہے؟
اس دھاگے کے ابتدا میں جو احباب بڑے خوش ہو رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا بھانڈا پھوٹ گیا وہ اب کدھر جا کر چھپ گئے ہیں؟
وہ شریف خاندان سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کے جج کی جس خفیہ ویڈیو پر نواز شریف کو رہا کروانا تھا وہ سپریم کورٹ کے اصرار کے باوجود پیش کیوں نہیں کی؟
 
ایک جملہ بہت دلچسپ تھا کہ آپ یہ سب کیوں کررہے ہیں۔یہ مطلب تو ہرگز نہیں تھا کہ جب فیصلے بڑے ایوانوں میں ہوئے ہیں تو قربان ہوجائیے؟ واللہ اعلم
 

جاسم محمد

محفلین
ایک جملہ بہت دلچسپ تھا کہ آپ یہ سب کیوں کررہے ہیں۔یہ مطلب تو ہرگز نہیں تھا کہ جب فیصلے بڑے ایوانوں میں ہوئے ہیں تو قربان ہوجائیے؟ واللہ اعلم
دیکھیں شریف ، زرداری خاندان پر کوئی سیاسی کیس نہیں ہے۔ سیدھا سیدھا ٹیکنیکل سا سوال ہے کہ لندن فلیٹس کیسے خریدے، باہر سے جو پیسا آیا وہ کس کا ہے، آمدن ہے نہیں تو اربوں کے اثاثے کیسے بن گئے؟
یہی سوال ہم سے یہاں مغرب میں ٹیکس والے ہر سال پوچھتے ہیں۔ ہمیں ہر سال ٹیکس بھرتے وقت اپنی آمدن کے ذرائع اور اثاثوں کی تفاصیل لازما جمع کروانی ہوتی ہے۔ ٹیکس گوشوارہ نہ بھرنے کی صورت میں ٹیکس والے اپنی مرضی سے ٹیکس بمع جرمانہ بھجوا دیتے ہیں۔ جس پر اپیل بھی نہیں ملتی۔ اس خوف سے یہاں ہر کوئی وقت مقررہ سے پہلے ہی ٹیکس جمع کروا دیتا۔ بلکہ اکثر لوگ تو زیادہ ٹیکس جمع کرواتے ہیں تاکہ اگلے سال ری فنڈ میں مل جائے۔
اب چونکہ پاکستان میں ایسا کوئی ٹیکس وصولی کا سخت اور منظم نظام موجود نہیں ہے۔ اسی لئے یہ کام نیب کو کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ یہ اصل میں ایف بی آر کا کام ہے کہ ملک کے شہریوں کی آمدن اور اثاثوں کی خبر رکھے۔ اور اس پر ٹیکس وصول کرے۔
اب جبکہ شریف، زرداری خاندان کی آمدن اور اثاثہ جات سے متعلق سوالات پوچھے گئے ہیں وہ ان کا تسلی بخش جواب نہیں دیتے۔ بلکہ اس کا سارا ملبہ مقتدر حلقوں پر ڈال کر سیاسی شہید بن جاتے ہیں۔ سیدھا سیدھا اپنے اثاثوں کی منی ٹریل جمع کروا دیں، اس پر ٹیکس دیں اور با عزت بری ہو جائیں۔ کون روک رہا ہے۔ مگر وہ ایسا کریں گے نہیں کیونکہ خاندانی چور ہیں۔ سیاست میں آئے ہی لوٹ مار کیلئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
سپریم کورٹ کا فیصلہ: ویڈیو والا جج گناہگار لیکن نواز شریف کے خلاف فیصلہ برقرار
23/08/2019 سید مجاہد علی



سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے والے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکنڈل کے بارے میں آئینی درخواستیں نمٹاتے ہوئے اس معاملہ میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے قلم سے لکھے گئے 25 صفحات پر مشتمل اس فیصلہ میں جسے فاضل چیف جسٹس نے ججوں یا عدالت کی ’آبزرویشنز‘ قرار دیا ہے، جج ارشد ملک کے کردار پر سخت تنقید کرتے ہوئے واضح کیا گیاہے کہ اس معاملہ میں ارشد ملک کی پریس ریلیز اور اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیا گیا بیان حلفی خود ان کے خلاف ہی فرد جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان کے کردار کو پوری عدلیہ کے لئے شرمندگی کا سبب قرار دیا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے فیصلہ میں کہا ہے کہ جج ارشد ملک نے ’جس کردار کا مظاہرہ کیا ہے اسے نرم ترین لفظوں میں بھی دھچکا کہا جا سکتا ہے۔ یہ گھناؤنا طرز عمل کسی بھی جج کے لئے ناگوار و ناپسندیدہ ہے۔ اس جج کے گھٹیا و مکروہ کردار کی وجہ سے ملک کے ہزاروں انصاف پسند، دیانت دار اور باکردار ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں‘ ۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے احتساب جج کے بارے میں لکھے گئے ان الفاظ کے بعد بھی سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں دی گئی سزا کے بارے میں چھوٹ سے گریز کیا ہے۔

متعلقہ جج کے کردار کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے بھی، ان کے فیصلہ کو برقرار رکھنے پر اصرار سے البتہ قانون کی بالادستی سے زیادہ، یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی تعصب سے بالا ہو کر اصول قانون کے بنیادی فلسفہ کو مروج کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ یہ بات کس طرح قابل فہم ہو سکتی ہے کہ ایک جج بدکردار اور پوری عدلیہ کے لئے شرمساری کا سبب ہو لیکن ایک خاص کیس میں اس کا فیصلہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک متعلقہ ہائی کورٹ اپیل پر غور کرتے ہوئے کوئی متبادل فیصلہ صادر نہیں کرتی۔

اصول انصاف اور معاشرہ میں قانون کے احترام کا تصور اس بنیاد پر استوار ہوتا ہے کہ کوئی قصور وار خواہ سزا سے بچ جائے لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہیں ملنی چاہیے۔ سپریم کورٹ جب ایک خاص فیصلہ دینے والے جج کو بدکردار اور بدنیت قرار دیتی ہے لیکن اس کے فیصلہ کو مسترد کرنے سے انکار کرتی ہے تو یہ رویہ دراصل انصاف کے اصول اور قانون کی روح کے منافی ہی سمجھا جائے گا۔

سپریم کورٹ اس معاملہ کو اگر ہائی کورٹ میں زیر غور ہونے کی وجہ سے سماعت کے قابل نہیں سمجھتی تھی۔ اور فاضل جج واقعی اس معاملہ پر رائے دینے کو عدالتی طریقہ کار میں مداخلت اور اصول قانون کے خلاف سمجھتے تھے تو عدالت عظمی ٰ کو اس معاملہ کی سماعت کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ شروع میں ہی یہ درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھیج کر اپنی دست برداری کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ اگر اس معاملہ پر غور کرنے، اٹارنی جنرل سے مختلف تحقیقات کی رپورٹیں طلب کرنے اور ویڈیو کے اصل یا نقل ہونے پر دلائل سننے کے بعد متعلقہ جج کی کردار کشی کو ضروری سمجھا گیا ہے تو اس کے دیے گئے ایک ایسے متنازعہ فیصلہ پر رائے دینے سے کیوں کر اجتناب کیا جاسکتا ہے جس کے سبب تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے والا شخص اس وقت جیل میں بند ہے۔ اس فیصلہ کے ملک کی سیاست کے علاوہ اس کی عالمی سفارتی ساکھ پر دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ویڈیو اسکنڈل کیس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی قیادت میں تین رکنی بنچ نے کی تھی۔ چیف جسٹس خود اور اس بنچ میں شامل جسٹس عظمت سعید اس پانچ رکنی بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے 2017 میں میاں نواز شریف کو وزیر اعظم کے طور پر نا اہل قرار دیا تھا۔ اپریل 2017 میں اس بنچ نے تین دو کی اکثریت سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا کر معاملہ کی چھان بین کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس وقت بھی اکثریتی فیصلہ پر اختلافی نوٹ لکھا تھا اور نواز شریف کو مافیا باس قرار دیتے ہوئے نا اہل کرنے کی سفارش کی تھی۔

یہ سفارش بالآخر اسی سال جولائی میں مان لی گئی جب پانچ رکنی بنچ نے نواز شریف کو متحدہ عرب امارات کے اقامہ کے عذر پر معزول کرنے کا حکم دیا۔ یہ کارنامہ بھی اسی بنچ نے سرانجام دیا تھا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے شاملکیے گئے اور مختلف اداروں سے ’پسندیدہ‘ افسروں کو اس تحقیقاتی ٹیم کا رکن بنوانے کے لئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار واٹس ایپ کے ذریعے پیغام رسانی کرتے رہے۔ سپریم کورٹ نے اس بے قاعدگی کا نوٹس لینے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔

اس پس منظر میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو یہ احتیاط کرنی چاہیے تھی کہ نواز شریف کیس سے متعلق ہی ویڈیو اسکنڈل سامنے آنے کے بعد وہ خود یا پاناما کیس بنچ میں شامل کسی دوسرے جج کو سپریم کورٹ کے موجودہ بنچ کا حصہ بنانے سے گریز کرتے۔ اس طرح سپریم کورٹ انصاف اور غیر جانبداری کی اعلیٰ مثال قائم کرسکتی تھی۔ تاہم چیف جسٹس نے نہ صرف اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ زیر بحث ویڈیو اسکنڈل کیس کا فیصلہ بھی خود ہی لکھا ہے۔ نواز شریف کو مافیا کے مماثل قرار دینے والے جج سے ان کی حمایت میں کسی فیصلہ یا حکم کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ آج کا ویڈیو کیس فیصلہ ا س کا دستاویزی ثبوت فراہم کرتا ہے۔

اصولی طور پر سپریم کورٹ نے ویڈیو اسکنڈل کیس میں یہ کہہ کر مداخلت سے گریز کیا ہے کہ یہ معاملہ اپیل کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے زیر سماعت ہے۔ اس لئے عدالت عظمیٰ اس پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتی۔ لیکن عملی طور پر جج کو بدعنوان قرار دے کر اس کے فیصلہ کو مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فیصلہ میں تفصیل سے یہ ہدایت نامہ بھی جاری کیا گیا ہے کہ کوئی ویڈیو شہادت کیسے کسی فیصلہ میں ثبوت کے طور پر پیش ہو سکتی ہے اور اس سلسلہ میں ہائی کورٹ کو کن پہلوؤں اور امور کا خیال رکھنا پڑے گا۔

گویا سپریم کورٹ بین السطور العزیزیہ کیس میں نواز شریف کو ملنے والی سزا پر غور کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو رہنما اصول فراہم کررہی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس ہدایت نامہ کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے لئے جج ارشد ملک کی اس ویڈیو، پریس ریلیز اور بیان حلفی کو نواز شریف کے حق میں استعمال کرنا آسان نہیں ہو گا جو اس وقت ریکارڈ کا حصہ ہیں لیکن ان پر فیصلہ دینے سے گریز کیا جارہا ہے۔

جولائی کے شروع میں منظر عام پر آنے والے اس ویڈیو اسکنڈل پر دائر کی جانے والی ایک پٹیشن میں عدالتی امور میں اداروں کی مداخلت کی شکایت کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس کا سد باب کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ فیصلہ میں معاملہ کے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ عدالتی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل نے جج ارشد ملک کو بلیک میل کرنے والی مبینہ ویڈیو کی ذمہ داری ایک عام شہری پر عائد کی اور اسے گرفتار کرنے کا مژدہ بھی سنایا۔ گویا اداروں کی مداخلت کو مسترد کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس پہلو سے اجتناب کرکے انصاف پسندی سے زیادہ مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ وہی طرز عمل ہے جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں نظریہ ضرورت ایجاد کرنے کا سبب بھی بنا تھا۔

سپریم کورٹ نظام عدل کو غیر جانبدار اور ججوں کو انصاف پسند دیکھنا چاہتی ہے۔ تاہم اس کے لئے سب سے پہلے اعلیٰ عدالتوں کو خود اس حصار کو توڑنا پڑے گا جو کسی نہ کسی وجہ سے عدالتی فیصلوں اور ججوں کے رویہ کے گرد حاوی رہتا ہے۔ جب تک سپریم کورٹ اپنی خود مختاری ثابت کرنے کے لئے ٹھوس فیصلے کرنے اور ان پر اصرار کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کرتی، اس کے فیصلے نظریہ ضرورت یا مصلحت پسندی کا عکس سمجھے جاتے رہیں گے۔

ویڈیو اسکنڈل کیس میں سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے رویہ کو ججوں کے لئے باعث شرمندگی قرار دیا ہے۔ تاہم آج کا فیصلہ شرمساری کی بجائے گھمنڈ، اور غلطی کی تصحیح کرنے کی بجائے اس پر اصرار کا غماز ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
پٹواری جج جسٹس ارشد ملک کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج واپس پٹوار خانہ لوہار ہائی کورٹ منتقل کر دیا ہے۔ اس سے جو کام لینا تھا وہ سسیلین نے لے لیا۔ کل سپریم کورٹ اس پٹواری جج کیس پر فیصلہ سنائے گی
Has been pleased.....:D
 

جاسم محمد

محفلین
عدالتی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل نے جج ارشد ملک کو بلیک میل کرنے والی مبینہ ویڈیو کی ذمہ داری ایک عام شہری پر عائد کی اور اسے گرفتار کرنے کا مژدہ بھی سنایا۔ گویا اداروں کی مداخلت کو مسترد کرنے کا اہتمام کیا گیا۔
میاں طارق نامی بلیک میلر نے 2005 میں جج ارشد ملک کی غیر اخلاقی ویڈیو بنائی تھی۔ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں فیصلہ کے بعد اس نے یہ ویڈیو ن لیگی مافیا کو 5 کروڑ روپے چیک اور ایک لینڈ کروزر کے عوض بیچ دی۔ ایف آئی نے اسی کے گھر چھاپہ مار کر اصل ویڈیو برآمد کی تھی۔ اور فارنزک ٹیسٹ کروایا تھا۔
جبکہ جج ارشد ملک کی وہ خفیہ ویڈیو جو مریم نواز نے اپنی دھواں دار پریس کانفرنس میں پیش کی تھی۔ وہ تاحال عدالت میں بطور ثبوت جمع نہیں کروائی گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اصول انصاف اور معاشرہ میں قانون کے احترام کا تصور اس بنیاد پر استوار ہوتا ہے کہ کوئی قصور وار خواہ سزا سے بچ جائے لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہیں ملنی چاہیے۔ سپریم کورٹ جب ایک خاص فیصلہ دینے والے جج کو بدکردار اور بدنیت قرار دیتی ہے لیکن اس کے فیصلہ کو مسترد کرنے سے انکار کرتی ہے تو یہ رویہ دراصل انصاف کے اصول اور قانون کی روح کے منافی ہی سمجھا جائے گا۔
جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف دو ریفرنسز سنے تھے۔ جن میں سے ایک میں سزا جبکہ دوسرے میں باعزت بری کیا تھا۔
اگر اس خفیہ ویڈیو کی بنیاد پر جج کا سزا والا فیصلہ معطل کر دیا جاتا تو جس کیس میں باعزت بری کیا وہ بھی دوبارہ سماعت کیلئے کھل جاتا ہے۔
ن لیگیوں کے پاس اتنی عقل نہیں ہے کہ اپنے دماغ میں بیک وقت دو خیالات اکٹھے جمع کر سکیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جج ارشد ملک کی ویڈیو کو ایڈٹ نہیں کیا گیا، اصل ریکارڈنگ ناصر بٹ کے پاس ہے: مریم نواز کا ایف آئی اے کو تحریری جواب
27/08/2019 نیوز ڈیسک



مریم نواز نے ایف آئی اے کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ناصر بٹ نے جج ارشد ملک کی ویڈیو اپنی مرضی سے ریکارڈ کی، ناصر بٹ کے مطابق ویڈیو کا مختصر سا حصہ گھر سے باہر ریکارڈ کیا گیا اور بقیہ حصہ جج کے گھر میں ریکارڈ کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ایف آئی اے کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو اصلی ہے، اصل آڈیو ریکارڈنگ ناصر بٹ کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے جج ارشد ملک کی ملاقاتوں کو ریکارڈ کرنے کی ہدایت کبھی نہیں کی۔ ججوں پر فیصلے دینے کے لیے دباؤ ڈالنے والوں کا اشارہ ریکارڈنگ سے ملتا ہے، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جج ارشد ملک کی کوئی قابل اعتراض ویڈیو نہیں دیکھی۔ ناصر بٹ نے جج کی ویڈیو اپنی مرضی سے ریکارڈ کی۔ مریم نواز نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کو بتایا ہے کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو کو ایڈٹ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی ٹیمپرنگ (تحریف) کی گئی ۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھیجے گئے اپنے تحریری جواب میں مریم نواز نے جج ارشد ملک کی ویڈیو کے حوالے سے بتایا کہ ویڈیو کو ایڈٹ نہیں کیا بلکہ اسکرین پر ایک جانب ویڈیو چلائی گئی جب کہ باقی آدھی اسکرین پر اردو ٹرانسکرپٹ چلائی گئی۔ ناصر بٹ نے انہیں بتایا کہ ایک آڈیو کم ویڈیو (audio-cum-video) ہے اور ایک آڈیو ہے اور انہیں دو مختلف ڈیوائسز میں ریکارڈ کیا گیا ۔

ناصر بٹ نے یہ بھی بتایا کہ آڈیو کم ویڈیو جس ڈیوائس میں ریکارڈ ہوئی وہ ناصر بٹ کے ساتھ والے شخص کی جیب میں تھی تاہم اس دوسرے شخص کا نام اور کوائف معلوم نہیں ہیں۔ مریم نواز نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کے 41 سخت سوالات کے جوابات دیے جو جج ارشد ملک کی درخواست پر مریم نواز اور (ن) لیگ کے دیگر رہنماؤں کے خلاف شکایت کی تحقیقات کر رہی ہے۔

مریم نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ ناصر بٹ نے ان سے رائے ونڈ میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور وہ ویڈیو دکھائی جسے پریس کانفرنس کے دوران چلایا گیا تھا۔ 10 مئی کو انہوں نے ایک بغیر سم کا موبائل بھیجا جس میں مذکورہ ویڈیو کی نقل تھی۔ مریم نواز نے بتایا کہ ناصر بٹ کے مطابق ویڈیو ریکارڈ کرنے کا مقصد ان حقائق اور حالات کو ریکارڈ کرنا تھا جو نواز شریف کو مجرم ٹھہرانے اور سزا دلوانے کی بنیاد بنے، جن کا انکشاف جج ارشد ملک نے کیا۔

6 جولائی کو اپنی پریس کانفرنس کا مقصد بتاتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ میری پریس کانفرنس کا مقصد اس نا انصافی کو عوام کے نوٹس میں لانا تھا جس کا ارتکاب العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیتے وقت کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا پختہ یقین ہے کہ انصاف تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ کسی شہری کو انصاف دینے سے انکار اس کی زندگی، آزادی، عظمت، مساوات وغیرہ کے حق سے انکار کے مترادف ہے۔

ان تمام بنیادی حقوق کی ضمانت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 1973ء کا آئین دیتا ہے۔ مریم نواز نے تسلیم کیا کہ ناصر بٹ مسلم لیگ ن کے وفادار کارکن ہیں جنہوں نے جج ارشد ملک کے ساتھ ملاقاتیں ریکارڈ کی تھیں۔ انہوں نے ایف آئی اے ٹیم کو بتایا کہ میں نے کبھی بھی ناصر بٹ کو جج ارشد ملک سے ملاقاتوں کو ریکارڈ کرنے کی ہدایت نہیں کی۔

مریم کا کہنا تھا کہ ناصر بٹ کے مطابق ویڈیو کا مختصر سا حصہ گھر سے باہر ریکارڈ کیا گیا اور بقیہ حصہ جج کے گھر میں ریکارڈ کیا گیا۔ ناصر بٹ نے اپنی مرضی سے وہ ویڈیو ریکارڈ کی اور اس کا منصوبہ بھی انہوں نے خود ہی بنایا تھا۔ اصل آڈیو ریکارڈنگ ناصر بٹ کے پاس ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اصل ڈیوائس جس میں ویڈیو ہے وہ میرے پاس نہیں ہے۔ مجھے اس حوالے سے کچھ علم نہیں ہے کہ ملاقات کی آڈیو ریکارڈنگ کے لیے کونسی ڈیوائس کا استعمال کیا گیا۔

کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ جس پر ویڈیو دکھائی گئی تھی اسے ناصر بٹ کی جانب سے بھیجا گیا شخص پریزنٹیشن کے روز ہی لایا تھا۔ تاہم مذکورہ شخص پریس کانفرنس کے بعد وہ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ واپس لے گیا تھا، لہٰذا میرے پاس وہ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ نہیں۔ ایف آئی اے ٹیم کی جانب سے مریم نواز سے ان کے اُس دعوے سے متعلق سوال کیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ادارے فیصلے دینے کے لئے ججوں کو بلیک میل نہ کریں، جس پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ان اداروں کا اشارہ خود اس ریکارڈنگ کے مندرجات سے ملتا ہے، مجھے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

مریم نواز نے جج ارشد ملک کی قابل اعتراض ویڈیو حاصل کرنے کی تردید کی اور کہا کہ مجھے کسی نے بھی جج ارشد ملک کی قابل اعتراض ویڈیو فراہم نہیں کی اور نہ ہی میں نے ارشد ملک کی کوئی قابل اعتراض ویڈیو دیکھی۔ ناصر بٹ کی جانب سے فراہم کی گئی آڈیو کم ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ میں جج ارشد ملک نے خود ہی اپنی قابل اعتراض ویڈیو کا تذکرہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دکھائی گئی ارشد ملک کی ویڈیو نہ تو میں نے ریکارڈ کی اور نہ ہی میرے کہنے پر ریکارڈ کی گئی بلکہ اسے ناصر بٹ نے اپنی مرضی سے ریکارڈ کیا۔ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے دباؤ دالنے والوں کے نام بتانے والوں کی ویڈیوز کے حوالے سے مریم نواز کا کہنا تھا کہ وہ ویڈیوز میرے پاس نہیں ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جج وڈیو اسکینڈل کیس میں ناصر جنجوعہ سمیت 3 ملزمان گرفتار
ویب ڈیسک پير 2 ستمبر 2019
1796574-arshadmalik-1567405516-808-640x480.jpg

سائبر کرائم کورٹ نے ناصرجنجوعہ، خرم یوسف اورغلام جیلانی کی عبوری ضمانتیں خارج کردیں۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: ایف آئی اے نے جج ارشد ملک وڈیو اسکینڈل کیس میں ناصر جنجوعہ سمیت 3 ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

اسلام آباد کی سائبر عدالت میں جج ارشد ملک وڈیو اسکینڈل کیس کے ملزمان کی درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی۔ وکیل صفائی نے کہا کہ ملزمان کا جج کی بلیک میلنگ میں براہ راست کوئی ہاتھ نہیں اور نہ ہی ان لوگوں نے ویڈیوبنائی ہے۔

ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل کلیم اللہ تارڑ نے موقف اختیار کیا کہ ملزمان کو گرفتار کرکے ان سے مزید تفتیش کی ضرورت ہے، ان ملزمان کیخلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں اور ان سب کا معاملے میں خاص کردارہے۔

سائبر کرائم کورٹ کے جج طاہر خان نے دلائل سننے کے بعد تینوں ملزمان ناصرجنجوعہ، خرم یوسف اورغلام جیلانی کی عبوری ضمانتیں خارج کردیں۔ ایف آئی نے ناصر جنجوعہ، خرم یوسف اور غلام جیلانی کو کمرہ عدالت سے نکلنے کے بعد گرفتار کرلیا۔

علاوہ ازیں جج ویڈیو اسکینڈل میں گرفتار میاں طارق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جج ارشد ملک کے بقول ان کی مجھ سے دوملاقاتیں ہیں، ایک ملاقات 2003 میں جب وہ ٹی وی ٹھیک کرانے میری دکان آئے، حالانکہ 2003 میں تو میری ٹی وی کی دکان تھی ہی نہیں بلکہ 2005 میں بنائی تھی۔ میاں طارق نے مزید کہا کہ میرا بیٹا فیصل طارق دس جولائی سے لاپتہ ہے، چیف جسٹس سے التجا ہے کہ اس کا پتہ لگانے کا حکم دیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جج ویڈیو سکینڈل کا ڈراپ سین۔ جج کا بیان حلفی جھوٹا نکلا

جج ویڈیواسکینڈل؛ عدالت نے تینوں ملزمان کوبری کردیا
ویب ڈیسک ہفتہ 7 ستمبر 2019
1802128-arshadmalik-1567844499-736-640x480.jpg

مریم نوازنے ایک پریس کانفرنس کے دوران احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیوجاری کی تھی : فوٹو: فائل

لاہور: جج وڈیواسکینڈل میں عدالت نے تینوں ملزمان کوبری کردیا۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق جج ویڈیو اسکینڈل میں جوڈیشل مجسٹریٹ ثاقب جواد نے سماعت کے بعد محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ ایف آئی اے کے تفتیشی افسرمحبوب نے عدالت میں بیان دیا کہ ملزمان کے خلاف ثبوت نہیں ملے۔ جس کے بعد عدالت نے تینوں ملزمان کوبری کردیا۔ ملزمان میں ناصرجنجوعہ، خرم یوسف اورغلام جیلانی شامل تھے۔ تینوں ملزمان پرجج ارشد ملک نے الزامات لگائے تھے۔

پس منظر

مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نوازنے ایک پریس کانفرنس کے دوران احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیوجاری کی تھی جس میں وہ کہتے ہوئے نظرآرہے ہیں کہ انہیں بلیک میل کرکے اوردباؤ ڈال کرنوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا دینے پر مجبور کیا گیا تھا، وگرنہ نوازشریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ تاہم ارشد ملک نے ایک روزبعد پریس ریلیزجاری کرکے مریم نوازکے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ویڈیوکوجعلی قراردیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
سپریم کورٹ: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی رک گئی
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
_108750105_8999d8d6-a671-412b-a4b7-7516e6c0b3a0.jpg

تصویر کے کاپی رائٹSUPREME COURT OF PAKISTAN
Image captionصدارتی ریفرنس پر کارروائی رک جانے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ دوبارہ مقدمات کی سماعت کریں گے

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج کریم خان آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس پر جاری کارروائی روک دی گئی ہے۔

اس بات کا اعلان پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بدھ کو نئے عدالتی سال کے آغاز کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ان صدارتی ریفرنسز کے خلاف بہت سی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں لہذا پہلے ان درخواستوں پر فیصلہ ہوگا اور پھر اس فیصلے کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل ان ججز کے بارے میں صدارتی ریفرنس پر کارروائی کرے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر کارروائی رک جانے کے بعد وہ دوبارہ مقدمات کی سماعت کریں گے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہونے والی کاز لسٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تین رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں جو مختلف مقدمات کی سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف 6 سے زیادہ درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں جس میں اس صدارتی ریفرنس اور اس ریفرنس کی سماعت کرنے والی سپریم جوڈیشل کونسل کے طریقہ کار پر اعتراضات اُٹھائے گئے تھے۔

یہ درخواستیں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر کرنے کے علاوہ ان میں خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست بھی شامل ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی تھی کہ ان کی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کے ’ایماندار‘ جج کریں جو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ نہیں ہیں۔

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی اس کونسل میں موجودگی پر بھی اعتراضات اُٹھائے تھے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک صدارتی ریفرنس خارج کردیا ہے جو کہ صدر مملکت کو خط لکھنے کے بارے میں تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف بیرون ممالک میں جائیداد کو ظاہر نہ کرنے کے بارے میں صدارتی ریفرنس کی کاپی حاصل کرنے اور اس ریفرنس کی میڈیا پر تشہیر کے بارے میں صدر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں سپریم کورٹ کے وہ جج صاحبان شامل ہوں گے جو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ نہیں ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا ایک بینچ ان درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کے کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس بھیج سکتے ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے مطابق اس ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر کی طرف سے بھیجا گیا ریفرنس یا ان کی رائے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔

اُنھوں نے کہا کہ اب سپریم جوڈیشل کونسل میں 9 ریفرنسز زیر سماعت ہیں جبکہ باقی ریفرنسز نمٹا دیے گئے ہیں تاہم چیف جسٹس نے ان ججز کے نام نہیں بتائے جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی چل رہی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کرنا اس کونسل کے چیئرمین اور اس کے ارکان کے لیے ناخوشگوار عمل ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ ججز اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگ سپریم جوڈیشل کونسل سے انصاف کے علاوہ اور کسی چیز کی امید نہ رکھیں۔

_108750107_f2d579a4-67fe-4143-a666-2947f294a5a8.jpg

تصویر کے کاپی رائٹSUPREME COURT OF PAKISTAN
Image captionملک میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ احتساب کا عمل سیاسی انجینرنگ ہے: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ

اُنھوں نے کہا کہ کچھ لوگ جوڈیشل ایکٹو ازم نہ ہونے کی وجہ سے آواز اُٹھا رہے ہیں جبکہ اس سے قبل یہی لوگ جوڈیشل ایکٹو ازم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ صرف قومی اہمیت کے معاملے پر از خود نوٹس لیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ احتساب کا عمل سیاسی انجینئرنگ ہے اور اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہییں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں اس وقت تک بہتری نہیں آسکتی جب تک پولیس میں اصلاحات نہیں لائی جاتیں۔
 
Top